صدقۃ الفطر کچھ قابل توجہ پہلو
اس کا ایک مقصد غرباء کی مدد اور دُوسرا روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو، اِس صدقے کے ذریعے اس کی تلافی کرنا ہے
شریعت اِسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی خوشی اور مسرت کا موقع آئے تو صرف امیروں کے دولت کدہ ہی میں خوشی کا چراغ نہ جلے، بل کہ غریبوں اور ناداروں کے غربت کدہ میں بھی اس کی روشنی پہنچے۔ اِسی لیے خوشی کے موقع پر سماج کے غریب افراد کو یاد رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
بقرعید کی قربانی میں ایک تہائی غریبوں کا حق قرار دیا گیا۔ ولیمے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے، جس میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ اسی طرح عیدالفطر کی خوشی میں غرباء کو شریک کرنے کے لیے صدقۃ الفطر کا نظام مقرر کیا گیا۔ اس کا ایک مقصد غرباء کی مدد کرنا ہے اور دُوسرا مقصد یہ ہے کہ روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو، اِس صدقے کے ذریعے اس کی تلافی ہوجائے۔
رمضان المبارک شروع ہونے کے بعد کبھی بھی صدقۃ الفطر نکالا جاسکتا ہے، البتہ عید سے پہلے نکال دینا بہتر ہے، تاکہ غریب مسلمانوں کو عید کا سامان فراہم کرنے میں سہولت ہو۔ اگرچہ بعض اہلِ علم نے رمضان سے پہلے بھی صدقۃ الفطر نکالنے کی اِجازت دِی ہے، لیکن جس بات کو ترجیح ہے، وہ یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے بعد صدقۃ الفطر مستحق کے حوالے کیا جائے۔ کیوں کہ عیدالفطر اور صدقۃ الفطر کا رمضان سے گہرا تعلق ہے لیکن اگر رمضان میں ادا نہیں کیا تو عید کے دن نماز عید سے پہلے تو ادا کر ہی دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس کو سنّت قرار دیا ہے کہ جب عید کی نماز کے لیے نکلے تو کچھ کھاکر نکلے اور نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردے۔ (سنن دار قطنی)
صدقۃ الفطر مال داروں پر واجب ہے اور غرباء اس کا مصرف ہیں۔ صدقۃ الفطر اپنی طرف سے اور اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے۔ بالغ لڑکے، لڑکیاں، بیوی، اس کے زیر پرورش چھوٹے بھائی بہن اور والدین کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ جس غلام کو اپنی خدمت کے لیے رکھا جائے نہ کہ بیچنے کے اِرادہ سے اس کا صدقۃ الفطر نکالنا بھی مالک پر واجب قرار دیا گیا ہے، موجودہ دور میں بعض دفعہ کسی لڑکے یا لڑکی کو گھر کی خدمت کے لیے رکھا جاتا ہے، یہ اگرچہ غلام نہیں ہوتے، خادم ہوتے ہیں، لیکن یہ اِنسان کو قریب قریب وہی سہولتیں بہم پہنچاتے ہیں، جو غلام پہنچایا کرتے تھے، اِس لیے ان کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کردینا بہتر معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ چاہے یہ واجب نہ ہو لیکن باعث اجر و ثواب تو ہوگا ہی۔
صدقۃ الفطر ہر اس شخص کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، جو عیدالفطر کی صبح میں موجود ہو، اگر اسی شب کو بچہ پیدا ہوتو اس کا بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔ صدقۃ الفطر کے مصارف تقریباً وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں، جن لوگوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان کو صدقۃ الفطر بھی نہیں دیا جاسکتا ہے البتہ زکوٰۃ تو غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی، صدقۃ الفطر ان کو بھی دیا جاسکتا ہے، (بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ) موجودہ حالات میں جب مذہبی منافرت شعلہ سے آتش فشاں بنتی جارہی ہے، مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے اور یہ تصور دیا جارہا ہے کہ مسلمان صرف اپنے لیے سوچتا ہے، دُوسروں کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اگر مسلمان غیر مسلم غریب پڑوسیوں کو بھی صدقۃ الفطر دینے کا اہتمام کریں تو یہ ایک بہتر قدم ہوگا ، اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ مسلمان نہ صرف سماجی جذبہ سے بل کہ اپنے مذہبی حکم کے تحت برادرانِ وطن کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور بلا اِمتیازِ مذہب تمام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ اِختیار کرتا ہے۔
اصل میں صدقۃ الفطر سے متعلق اس وقت جو بات عرض کرنی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کے لیے چند چیزوں کو معیار بنایا ہے: کھجور، جَو، کشمش، پنیر، (نیل الاوطار، عن ابی سعید خدری ) ان میں سے کھجور، جو، کشمش اور کھانے کی دُوسری چیزوں کے بارے میں اِتفاق ہے کہ قدیم پیمانے کے لحاظ سے ایک صاع نکالنا واجب ہے، گیہوں کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اِختلاف ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک نصف صاع گیہوں کا نکالنا کافی ہے، کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں ایک صاع کھجور یا جَو اور نصف صاع گیہوں کا تذکرہ آیا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ، عن ابن عباس) ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے، دِیگر فقہاء امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک گیہوں میں بھی صدقۃ الفطر ایک صاع ہی واجب ہوتا ہے، کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ نے عید الفطر سے ایک دو دنوں پہلے ہی صدقۃ الفطر ادا کرنے کی تلقین فرمائی اور اس میں ایک صاع گیہوں کا تذکرہ کیا، (نصب الرایہ ) اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے کہ کوئی بھی کھانے کی چیز ہو، ہم لوگ اس میں ایک صاع صدقۃ الفطر کے طور پر نکالا کرتے تھے۔ ( بخاری)
پھر احناف کے بہ شمول بہت سے فقہاء نے صدقۃ الفطر میں غلہ کے بہ جائے اس کی قیمت نکالنے کی اِجازت دی ہے کیوں کہ صدقۃ الفطر کا مقصد غرباء کی ضرورت پورا کرنا ہے، اور یہ ضرورت بہ مقابلہ سامان کے پیسوں سے زیادہ بہتر طور پر پوری ہوسکتی ہے۔ اس میں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں: اَوّل یہ کہ پونے دو کلو گیہوں احناف کے نزدِیک کافی ہے، دُوسرے فقہاء کے نزدِیک کافی نہیں، ان کے یہاں ساڑھے تین کلو گیہوں سے صدقۃ الفطر ادا ہوگا، جن مسائل میں اِختلاف ہو، ان میں ایک اہم اُصول یہ ہے کہ احتیاط کے پہلو کو اِختیار کیا جائے اور ایسا عمل کیا جائے جو تمام دلیلوں اور فقہی رایوں کے مطابق دُرست ہوجائے، تو اگر ساڑھے تین کلو گیہوں کے لحاظ سے فطرہ ادا کیا جائے تو یہ زیادہ محتاط عمل ہوگا، اور تمام فقہاء کے اقوال پر صدقۃ الفطر ادا ہوجائے گا۔ دُوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے گیہوں کو صدقۃ الفطر کا معیار مقرر کیا ہے، اسی طرح جَو، کھجور، کشمش اور پنیر کو بھی صدقۃ الفطر کے لیے معیار بنایا ہے۔ (بخاری)
عہد نبویؐ میں ان تمام چیزوں میں سب سے قیمتی شے گیہوں تھی، کیوں کہ حجاز میں گیہوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، گیہوں شام یا یمن سے امپورٹ کیا جاتا تھا اِس لیے جن غذائی اشیا کو صدقۃ الفطر کا معیار بنایا گیا تھا، ان میں گیہوں ہی سب سے قیمتی چیز تھی، اِس لیے دُوسری چیزیں ایک صاع کی مقدار میں واجب قرار دِی گئیں اور گیہوں نصف صاع، اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کشمش کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے تو اس وقت اوسط درجہ کی کشمش دو سو روپے ہے اور اوسط درجہ کی کھجور بھی اسی قیمت میں ہے، اِس لحاظ سے ایک شخص کا صدقۃ الفطر سات سو ہوتا ہے اور اگر ان حدیثوں اور زیادہ تر فقہاء کے اقوال کی بنیاد پر ایک صاع گیہوں صدقۃ الفطر کے طور پر نکالا جائے تو فی کس ساڑھے تین کلو گیہوں ہوجاتا ہے؛ اِس لیے اگرچہ پونے دو کلو گیہوں سے فطرہ ادا ہوجاتا ہے لیکن تمام لوگوں کا اسی پر قانع ہوجانا شریعت کی رُوح کے خلاف ہے۔
اِس لیے اس حقیر کا مشورہ ہے کہ جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہے، ان میں جو بڑے تاجر اور اصحابِ ثروت ہیں، ان کو کھجور اور کشمش کی قیمت سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے، جو لوگ معاشی لحاظ سے ان سے کم درجے کے ہوں، ان کو پونے دو کلو کے بہ جائے ساڑھے تین کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے تاکہ تمام حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور جو معاشی اعتبار سے ان سے بھی کم درجہ کے ہوں، وہ پونے دو کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کریں، اس میں غرباء کا فائدہ ہے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل ہوجائے گا اور اگر گیہوں ہی کے ذریعہ صدقہ ادا کرنا ہو تو گیہوں کی قیمت کے بہ جائے بہتر ہے کہ خود گیہوں مستحقین کو دے دیں، کیوں کہ اگر پونے دو کلو گیہوں کی قیمت بہ طورِ فطرہ ادا کی جائے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کیے ہوئے دُوسرے معیارات کشمش اور کھجور کے اعتبار سے نامکمل ہوگا۔
بقرعید کی قربانی میں ایک تہائی غریبوں کا حق قرار دیا گیا۔ ولیمے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین ولیمہ وہ ہے، جس میں سماج کے امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ اسی طرح عیدالفطر کی خوشی میں غرباء کو شریک کرنے کے لیے صدقۃ الفطر کا نظام مقرر کیا گیا۔ اس کا ایک مقصد غرباء کی مدد کرنا ہے اور دُوسرا مقصد یہ ہے کہ روزوں میں جو کمی اور کوتاہی رہ گئی ہو، اِس صدقے کے ذریعے اس کی تلافی ہوجائے۔
رمضان المبارک شروع ہونے کے بعد کبھی بھی صدقۃ الفطر نکالا جاسکتا ہے، البتہ عید سے پہلے نکال دینا بہتر ہے، تاکہ غریب مسلمانوں کو عید کا سامان فراہم کرنے میں سہولت ہو۔ اگرچہ بعض اہلِ علم نے رمضان سے پہلے بھی صدقۃ الفطر نکالنے کی اِجازت دِی ہے، لیکن جس بات کو ترجیح ہے، وہ یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے بعد صدقۃ الفطر مستحق کے حوالے کیا جائے۔ کیوں کہ عیدالفطر اور صدقۃ الفطر کا رمضان سے گہرا تعلق ہے لیکن اگر رمضان میں ادا نہیں کیا تو عید کے دن نماز عید سے پہلے تو ادا کر ہی دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس کو سنّت قرار دیا ہے کہ جب عید کی نماز کے لیے نکلے تو کچھ کھاکر نکلے اور نماز سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردے۔ (سنن دار قطنی)
صدقۃ الفطر مال داروں پر واجب ہے اور غرباء اس کا مصرف ہیں۔ صدقۃ الفطر اپنی طرف سے اور اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے۔ بالغ لڑکے، لڑکیاں، بیوی، اس کے زیر پرورش چھوٹے بھائی بہن اور والدین کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔ جس غلام کو اپنی خدمت کے لیے رکھا جائے نہ کہ بیچنے کے اِرادہ سے اس کا صدقۃ الفطر نکالنا بھی مالک پر واجب قرار دیا گیا ہے، موجودہ دور میں بعض دفعہ کسی لڑکے یا لڑکی کو گھر کی خدمت کے لیے رکھا جاتا ہے، یہ اگرچہ غلام نہیں ہوتے، خادم ہوتے ہیں، لیکن یہ اِنسان کو قریب قریب وہی سہولتیں بہم پہنچاتے ہیں، جو غلام پہنچایا کرتے تھے، اِس لیے ان کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کردینا بہتر معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ چاہے یہ واجب نہ ہو لیکن باعث اجر و ثواب تو ہوگا ہی۔
صدقۃ الفطر ہر اس شخص کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، جو عیدالفطر کی صبح میں موجود ہو، اگر اسی شب کو بچہ پیدا ہوتو اس کا بھی صدقۃ الفطر واجب ہے۔ صدقۃ الفطر کے مصارف تقریباً وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں، جن لوگوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی، ان کو صدقۃ الفطر بھی نہیں دیا جاسکتا ہے البتہ زکوٰۃ تو غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی، صدقۃ الفطر ان کو بھی دیا جاسکتا ہے، (بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ) موجودہ حالات میں جب مذہبی منافرت شعلہ سے آتش فشاں بنتی جارہی ہے، مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے اور یہ تصور دیا جارہا ہے کہ مسلمان صرف اپنے لیے سوچتا ہے، دُوسروں کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تو اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اگر مسلمان غیر مسلم غریب پڑوسیوں کو بھی صدقۃ الفطر دینے کا اہتمام کریں تو یہ ایک بہتر قدم ہوگا ، اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ مسلمان نہ صرف سماجی جذبہ سے بل کہ اپنے مذہبی حکم کے تحت برادرانِ وطن کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور بلا اِمتیازِ مذہب تمام لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا رویہ اِختیار کرتا ہے۔
اصل میں صدقۃ الفطر سے متعلق اس وقت جو بات عرض کرنی مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر کے لیے چند چیزوں کو معیار بنایا ہے: کھجور، جَو، کشمش، پنیر، (نیل الاوطار، عن ابی سعید خدری ) ان میں سے کھجور، جو، کشمش اور کھانے کی دُوسری چیزوں کے بارے میں اِتفاق ہے کہ قدیم پیمانے کے لحاظ سے ایک صاع نکالنا واجب ہے، گیہوں کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اِختلاف ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک نصف صاع گیہوں کا نکالنا کافی ہے، کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں ایک صاع کھجور یا جَو اور نصف صاع گیہوں کا تذکرہ آیا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ، عن ابن عباس) ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کی حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے، دِیگر فقہاء امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک گیہوں میں بھی صدقۃ الفطر ایک صاع ہی واجب ہوتا ہے، کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ نے عید الفطر سے ایک دو دنوں پہلے ہی صدقۃ الفطر ادا کرنے کی تلقین فرمائی اور اس میں ایک صاع گیہوں کا تذکرہ کیا، (نصب الرایہ ) اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے کہ کوئی بھی کھانے کی چیز ہو، ہم لوگ اس میں ایک صاع صدقۃ الفطر کے طور پر نکالا کرتے تھے۔ ( بخاری)
پھر احناف کے بہ شمول بہت سے فقہاء نے صدقۃ الفطر میں غلہ کے بہ جائے اس کی قیمت نکالنے کی اِجازت دی ہے کیوں کہ صدقۃ الفطر کا مقصد غرباء کی ضرورت پورا کرنا ہے، اور یہ ضرورت بہ مقابلہ سامان کے پیسوں سے زیادہ بہتر طور پر پوری ہوسکتی ہے۔ اس میں دو باتیں قابلِ توجہ ہیں: اَوّل یہ کہ پونے دو کلو گیہوں احناف کے نزدِیک کافی ہے، دُوسرے فقہاء کے نزدِیک کافی نہیں، ان کے یہاں ساڑھے تین کلو گیہوں سے صدقۃ الفطر ادا ہوگا، جن مسائل میں اِختلاف ہو، ان میں ایک اہم اُصول یہ ہے کہ احتیاط کے پہلو کو اِختیار کیا جائے اور ایسا عمل کیا جائے جو تمام دلیلوں اور فقہی رایوں کے مطابق دُرست ہوجائے، تو اگر ساڑھے تین کلو گیہوں کے لحاظ سے فطرہ ادا کیا جائے تو یہ زیادہ محتاط عمل ہوگا، اور تمام فقہاء کے اقوال پر صدقۃ الفطر ادا ہوجائے گا۔ دُوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے گیہوں کو صدقۃ الفطر کا معیار مقرر کیا ہے، اسی طرح جَو، کھجور، کشمش اور پنیر کو بھی صدقۃ الفطر کے لیے معیار بنایا ہے۔ (بخاری)
عہد نبویؐ میں ان تمام چیزوں میں سب سے قیمتی شے گیہوں تھی، کیوں کہ حجاز میں گیہوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، گیہوں شام یا یمن سے امپورٹ کیا جاتا تھا اِس لیے جن غذائی اشیا کو صدقۃ الفطر کا معیار بنایا گیا تھا، ان میں گیہوں ہی سب سے قیمتی چیز تھی، اِس لیے دُوسری چیزیں ایک صاع کی مقدار میں واجب قرار دِی گئیں اور گیہوں نصف صاع، اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کشمش کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کیا جائے تو اس وقت اوسط درجہ کی کشمش دو سو روپے ہے اور اوسط درجہ کی کھجور بھی اسی قیمت میں ہے، اِس لحاظ سے ایک شخص کا صدقۃ الفطر سات سو ہوتا ہے اور اگر ان حدیثوں اور زیادہ تر فقہاء کے اقوال کی بنیاد پر ایک صاع گیہوں صدقۃ الفطر کے طور پر نکالا جائے تو فی کس ساڑھے تین کلو گیہوں ہوجاتا ہے؛ اِس لیے اگرچہ پونے دو کلو گیہوں سے فطرہ ادا ہوجاتا ہے لیکن تمام لوگوں کا اسی پر قانع ہوجانا شریعت کی رُوح کے خلاف ہے۔
اِس لیے اس حقیر کا مشورہ ہے کہ جن لوگوں پر صدقۃ الفطر واجب ہے، ان میں جو بڑے تاجر اور اصحابِ ثروت ہیں، ان کو کھجور اور کشمش کی قیمت سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے، جو لوگ معاشی لحاظ سے ان سے کم درجے کے ہوں، ان کو پونے دو کلو کے بہ جائے ساڑھے تین کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کرنا چاہیے تاکہ تمام حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور جو معاشی اعتبار سے ان سے بھی کم درجہ کے ہوں، وہ پونے دو کلو گیہوں کے لحاظ سے صدقۃ الفطر ادا کریں، اس میں غرباء کا فائدہ ہے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں پر عمل ہوجائے گا اور اگر گیہوں ہی کے ذریعہ صدقہ ادا کرنا ہو تو گیہوں کی قیمت کے بہ جائے بہتر ہے کہ خود گیہوں مستحقین کو دے دیں، کیوں کہ اگر پونے دو کلو گیہوں کی قیمت بہ طورِ فطرہ ادا کی جائے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کیے ہوئے دُوسرے معیارات کشمش اور کھجور کے اعتبار سے نامکمل ہوگا۔