یومِ القدس حمایتِ مظلومین کے تقاضے
عالم اسلام کے عظیم ورثے کی کوئی قدر نہیں، یہی عہد حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
مسجد اقصٰی القدس شریف کو مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید، احادیث نبویؐ، اقوال اہل بیت اطہارؓ و صحابہ کبارؓ کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے، مفہوم: '' وہ (ذات) پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔''
اس آیت مجیدہ میں نبی کریمؐ کے واقعۂ معراج کا ذکر کرتے ہوئے بیت المقدس کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے گرد اﷲ نے برکتیں رکھی ہیں۔ وہ زمین کس قدر عظمت و رفعت کی مالک ہے جس کی برکتوں کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ ارض فلسطین کو مادی اور روحانی دونوں ہی طرح کی نعمتوں سے بہ طور خاص نوازا گیا ہے، چناں چہ اس کی مادی اور ظاہری خیرات و برکات کی عظمت شان کا حال یہ ہے کہ قدیم صحیفوں میں اس کو شہد اور دودھ کی سر زمین کہا گیا ہے۔
جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے اور اس کی روحانی خیرات و برکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیائے کرامؑ کا مولد و مدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سرزمین کو حاصل ہوا ہے، وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعہ ارضی کو حاصل نہیں ہوا۔
احادیث نبویؐ میں بھی مسجد اقصٰی کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے۔ زوجۂ رسول اکرمؐ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: '' جس نے حج یا عمرہ کی نیت سے مسجد اقصٰی سے مسجد حرم تک کا احرام باندھا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ یا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔''
(سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1737 )
ہارون بن سعید، ابن وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما خبر دیتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف۔ کعبہ کی مسجد اور میری مسجد مسجد نبوی اور مسجد ایلیا (مسجد اقصٰی)۔''
(صحیح مسلم: جلد دوم: حدیث نمبر 893 )
پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے بیت المقدس کو ایلیا کا نام دیا تھا۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (مکہ کی) مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا پھر کون سی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیت المقدس کی) مسجد اقصٰی۔''
(صحیح بخاری: جلد دوم: حدیث نمبر 601 )
امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں: '' دنیا میں چار جنّتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔'' (سفینۃ البحار)آج یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے کہ ان کا قبلۂ اول اور وہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔ برطانوی سام راج کے زیر سرپرستی جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کر دینے سے شروع ہونے والی سازش دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت پایۂ تکمیل تک پہنچی جب 1948میں مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح اسرائیل کو پیوست کردیا گیااور مسلمان منصوبہ بندی کے بغیر اور ہتھیاروں سے لیس ہوئے بغیر کی جانے والی جھڑپیں اور ہلکے پھلکے احتجاج سے صیہونیت کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔
مسلمانوں کے جرم ضعیفی اور عربوں کی نالائقی اور انا پرستی کی وجہ سے اسرائیل نے ان کو 1967کی چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ میں عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ تو ایک طرف، لینے کے دینے پڑگئے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔ یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا گیا اور مشرقی یروشلم بیت المقدس کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔
25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آگیا۔ لیکن یہ ادارہ جو القدس کی آزادی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خاطر وجود میں آیا تھا آج ایک دفتر میں سمٹ گیا ہے۔ القدس کی بازیابی کے لیے ایک القدس کمیٹی تو قائم ہے مگر عملا مردہ ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا نتیجہ اس حد تک برآمد ہوگیا کہ مغربی کنارے و غزہ کا محدود علاقہ آزاد تو ہوا لیکن یہ ایک محصور ریاست کی شکل اختیار کرگئے، جنہیں جب چاہے اسرائیل روند ڈالتا ہے۔
غزہ ایک قید خانے کی حیثیت رکھتا ہے۔آج بھی مسلمانوں کا قبلہ اول پکار پکار کر مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ قبضۂ مشرک سے آکر کوئی دلوائے نجات ۔۔۔۔۔۔۔۔قبلۂ اول کا اک مدت سے یہ ارمان ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم حکم رانوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ اقتدار کا دوام اور بادشاہتوں کی حفاظت ان کا پہلی و آخری ترجیح ہے۔ القدس کی آزادی کے لیے جو رسمی آواز پہلے اٹھا کرتی تھی آج وہ رسم بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس وقت صیہونی و استعماری سازشوں کے طفیل اور عرب حکم رانوں کی مفاد پرستی و تنگ نظری کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس سے فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ ہر مسلم ملک دوسرے میں مداخلت کر رہا ہے۔ جب تک مسلمان خود اپنے اعمال درست نہیں کریں گے یہود و ہنود امریکا، اسرائیل، برطانیہ کے خلاف ان کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا، نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلم حکم رانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے، تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے، اور دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے ایمانی و دینی فریضے کو پورا کیا جاسکے۔ کیوںکہ
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
اسرائیل اب کھلم کھلا بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے رہا ہے اور استعماریت کا سرغنہ امریکا بھی اپنا سفارت خانہ مشرقی یروشلم میں منتقل کرچکا ہے جو عالمی قوانین اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی پامالی ہے، اور صیہونیت کے ایجینڈے کی تکمیل کی جانب بہت بڑا قدم ہے۔ لیکن افسوس مسلم حکم ران اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ انہیں اپنی حکومتوں اور اقتدار کے بچاؤ کی فکر تو ہے لیکن عالم اسلام کے عظیم ورثے کی کوئی قدر نہیں، یہی عہد حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ مسلم حکم ران یہ مت بھولین کہ بیت المقدس کو فراموش کرنا اپنی تاریخ عزت غیرت و حمیت کو فراموش کرنا ہے، اگر انہوں نے اپنی روش نہ چھوڑی تو تاریخ انہیں بھی فراموش کردے گی۔
اس آیت مجیدہ میں نبی کریمؐ کے واقعۂ معراج کا ذکر کرتے ہوئے بیت المقدس کی فضیلت کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے گرد اﷲ نے برکتیں رکھی ہیں۔ وہ زمین کس قدر عظمت و رفعت کی مالک ہے جس کی برکتوں کی گواہی قرآن دے رہا ہو۔ ارض فلسطین کو مادی اور روحانی دونوں ہی طرح کی نعمتوں سے بہ طور خاص نوازا گیا ہے، چناں چہ اس کی مادی اور ظاہری خیرات و برکات کی عظمت شان کا حال یہ ہے کہ قدیم صحیفوں میں اس کو شہد اور دودھ کی سر زمین کہا گیا ہے۔
جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے اور اس کی روحانی خیرات و برکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیائے کرامؑ کا مولد و مدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سرزمین کو حاصل ہوا ہے، وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعہ ارضی کو حاصل نہیں ہوا۔
احادیث نبویؐ میں بھی مسجد اقصٰی کا ذکر اور فضیلت تواتر سے ملتی ہے۔ زوجۂ رسول اکرمؐ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: '' جس نے حج یا عمرہ کی نیت سے مسجد اقصٰی سے مسجد حرم تک کا احرام باندھا تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ یا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔''
(سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1737 )
ہارون بن سعید، ابن وہب، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما خبر دیتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' سفر کیا جائے تین مسجدوں کی طرف۔ کعبہ کی مسجد اور میری مسجد مسجد نبوی اور مسجد ایلیا (مسجد اقصٰی)۔''
(صحیح مسلم: جلد دوم: حدیث نمبر 893 )
پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے بیت المقدس کو ایلیا کا نام دیا تھا۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (مکہ کی) مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا پھر کون سی؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیت المقدس کی) مسجد اقصٰی۔''
(صحیح بخاری: جلد دوم: حدیث نمبر 601 )
امیر المومنین علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں: '' دنیا میں چار جنّتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔'' (سفینۃ البحار)آج یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے کہ ان کا قبلۂ اول اور وہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔ برطانوی سام راج کے زیر سرپرستی جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کر دینے سے شروع ہونے والی سازش دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت پایۂ تکمیل تک پہنچی جب 1948میں مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح اسرائیل کو پیوست کردیا گیااور مسلمان منصوبہ بندی کے بغیر اور ہتھیاروں سے لیس ہوئے بغیر کی جانے والی جھڑپیں اور ہلکے پھلکے احتجاج سے صیہونیت کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔
مسلمانوں کے جرم ضعیفی اور عربوں کی نالائقی اور انا پرستی کی وجہ سے اسرائیل نے ان کو 1967کی چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ میں عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ تو ایک طرف، لینے کے دینے پڑگئے۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔ یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا گیا اور مشرقی یروشلم بیت المقدس کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔
25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آگیا۔ لیکن یہ ادارہ جو القدس کی آزادی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خاطر وجود میں آیا تھا آج ایک دفتر میں سمٹ گیا ہے۔ القدس کی بازیابی کے لیے ایک القدس کمیٹی تو قائم ہے مگر عملا مردہ ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا نتیجہ اس حد تک برآمد ہوگیا کہ مغربی کنارے و غزہ کا محدود علاقہ آزاد تو ہوا لیکن یہ ایک محصور ریاست کی شکل اختیار کرگئے، جنہیں جب چاہے اسرائیل روند ڈالتا ہے۔
غزہ ایک قید خانے کی حیثیت رکھتا ہے۔آج بھی مسلمانوں کا قبلہ اول پکار پکار کر مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ قبضۂ مشرک سے آکر کوئی دلوائے نجات ۔۔۔۔۔۔۔۔قبلۂ اول کا اک مدت سے یہ ارمان ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم حکم رانوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔ اقتدار کا دوام اور بادشاہتوں کی حفاظت ان کا پہلی و آخری ترجیح ہے۔ القدس کی آزادی کے لیے جو رسمی آواز پہلے اٹھا کرتی تھی آج وہ رسم بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس وقت صیہونی و استعماری سازشوں کے طفیل اور عرب حکم رانوں کی مفاد پرستی و تنگ نظری کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس سے فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ ہر مسلم ملک دوسرے میں مداخلت کر رہا ہے۔ جب تک مسلمان خود اپنے اعمال درست نہیں کریں گے یہود و ہنود امریکا، اسرائیل، برطانیہ کے خلاف ان کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا، نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا اور مسلم حکم رانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے، تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے، اور دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے ایمانی و دینی فریضے کو پورا کیا جاسکے۔ کیوںکہ
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
اسرائیل اب کھلم کھلا بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے رہا ہے اور استعماریت کا سرغنہ امریکا بھی اپنا سفارت خانہ مشرقی یروشلم میں منتقل کرچکا ہے جو عالمی قوانین اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی پامالی ہے، اور صیہونیت کے ایجینڈے کی تکمیل کی جانب بہت بڑا قدم ہے۔ لیکن افسوس مسلم حکم ران اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ انہیں اپنی حکومتوں اور اقتدار کے بچاؤ کی فکر تو ہے لیکن عالم اسلام کے عظیم ورثے کی کوئی قدر نہیں، یہی عہد حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ مسلم حکم ران یہ مت بھولین کہ بیت المقدس کو فراموش کرنا اپنی تاریخ عزت غیرت و حمیت کو فراموش کرنا ہے، اگر انہوں نے اپنی روش نہ چھوڑی تو تاریخ انہیں بھی فراموش کردے گی۔