جمعۃ الوداع
قبلۂ اوّل مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے تجدید عہد کا دن۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جہاں بہت سی نعمتیں پیدا فرمائیں وہاں اس اپنے نائب و خلیفہ کے لیے اعداد و شمار اور کام کاج کے لیے دن رات تخلیق فرمائے۔ بعض دنوں کو دنوں پر اور بعض راتوں کو راتوں پر فضیلت بخشی۔ راتوں میں سے نزول قرآن و آمد صاحب قرآن کی راتوں کو فضیلت و بزرگی عطا فرمائی اور دنوں میں سے جمعہ کو سرداری و شرف عنایت فرمایا۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور درجہ ہے۔ یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔
جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور فضیلت رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ جمعہ کے لیے عمل اور با مقصد منصوبہ بندی پر کاربند رہے تاکہ وہ اس کے ظاہری، باطنی، انفرادی اور اجتماعی برکات و آداب سے بھر پور مستفید و مستفیض ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کے دو آداب اور فضائل مقرر فرمائے ہیں ان کے مجموعے سے سلامتی صحت کے اصول اور اجتماعی زندگی کی بہترین اقدار ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ایک ادب یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کو غسل کی ترغیب دی گئی ہے۔ نظافت اور خوش بُو کے استعمال کی طرف مائل کیا گیا ہے اور یہ کہ لوگوں کو صاف ستھرے اُجلے لباس میں نمودار ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب جمعہ کا دن ہو تو آدمی کو چاہیے کہ غسل کرے اور پھر اس کے پاس جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ کپڑے زیب تن کرے۔ پھر نماز کے لیے جائے اور یہ آداب ملحوظ رکھے کہ وہ آدمیوں کو ہٹا کر ان کے درمیان نہ بیٹھے، پھر امام کو غور سے سنے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک بل کہ تین دن ان پر مزید ہوگی۔''
یہ تو عام جمعۃ المبارک کی فضیلتیں ہیں تو رمضان المبارک کے جمعۃ المبارک کی کیا شان ہوگی اور پھر رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع تو سب پر فضیلت و برتری ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لیے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لیے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔
آج دنیا کی ہر قوم اپنی پوری قوت اس مقصد کے لیے صرف کر رہی ہے کہ ان کے افراد میں اتحاد عمل پیدا ہو۔ ان کی سوچ میں یگانگت اور ان کی حرکات میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ وہ بہ یک وقت ایک آواز پر بیٹھ جائیں اور ایک آواز پر سب کے سب کھڑے ہوجائیں۔ اندازہ کریں کہ جس قوم میں یہ سب باتیں ان کے دین کی برکت سے خود بہ خود موجود ہوں اور وہ ان سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کر ے۔ وقت آنے پر ان سے ملی فوائد حاصل نہ کرسکے تو اس قوم کو بے روح نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے! مسلمانوں کے اندر ان کی حرکات و سکنات میں یہ ہم آہنگی اور اطاعت امیر کی خُو اسی لیے پیدا کی گئی ہے کہ ان کے قلوب و اذہان پاک ہوں، ان کی روح میں بالیدگی پیدا ہو، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے سامنے رکھیں۔ ان کا جھکنا اسی کے لیے ہو۔ ان کا اٹھنا اسی کے لیے ہو۔
ان کی قوتیں کم زوروں کی حفاظت کے لیے ہوں اور ان کی توانائیاں ضعیفوں کے حقوق کی نگہہ داشت میں کام آئیں۔ رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خُوگر بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں، تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔ پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں۔ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے، خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی کام یاب و کام ران ہوگی۔
جمعۃ الوداع کی نماز میں عامۃ المسلمین بڑی کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سال بھر باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے رہے۔ لیکن آ ج مسجد میں آئے ہوئے ندامت کی بھاری گٹھڑی اٹھائے ہوئے آئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے کہ اے اللہ! ہم سے جو غلطیاں، کوتاہیاں اور تقصیریں سرزد ہوئی ہیں، بالخصوص نمازوں کے سلسلے میں جو سستی ہوئی ہے، وہ اپنی رحمت خاص سے معاف فرما دے۔ ان توبہ کرنے والوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جو اس عفو طلبی اور اظہار پشیمانی کے بعد آئندہ سچے اور پکے نمازی بن جاتے ہیں۔ عید اور جمعہ کے ان عظیم اجتماعات میں جہاں کثیر تعداد میں اہل اسلام جمع ہوتے ہیں وہاں اجتماعی دعا سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حاضرین میں شامل کسی مقبول بارگاہ الہٰی شخصیت کی برکت سے سب حاضرین کی دعائیں قبول ہوجاتی ہیں۔
آج جمعۃ الوداع ہے جو انتہائی عظمت و رحمت کا دن ہے۔ اسی طرح جمعۃ الوداع کے دن پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم و بابرکت سال کے سب سے افضل ترین دن قبلہ اول کی آزادی کے لیے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلۂ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان اسی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ جب حضور رحمت للعالمین ﷺ نے خواہش کا اظہار کیا کہ خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کی جائے تو رب کائنات نے خانہ کعبہ کو قبلہ کا عظیم درجہ عطا فرما دیا اور مسلمان خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنے لگے۔
مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن پاک میں پندرہویں پارے کے شروع میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو معراج جیسے عظیم معجزے سے سرفراز فرمایا تو پہلے آپ ﷺ مسجد حرام (بیت اللہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس ) تک کا سفر طے کرکے بیت المقدس میں تشریف لائے۔ مسجد اقصیٰ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور ﷺ نے یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیائے کرامؑ اور رسولوں کی امامت فرمائی اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسولوں نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ اسی اعزاز پر آپؐ کو امام الانبیاء کا شرف حاصل ہوا۔ مسجد اقصیٰ ہی سے آپؐ معراج کے اگلے سفر کے لیے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور لامکاں تک چا پہنچے۔ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اسی سر زمین پر ہوئی۔ قبل ازیں بنی اسرائیل کے بہت سے انبیائے کرامؑ یہاں تشریف لائے۔ اسی وجہ سے اس کو انبیاء کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری نشانیوں کی زیارت کرو۔ اللہ کی نشانیوں کی زیارت اور وہاں کی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں جیسے صفا اور مروہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ مسجد اقصیٰ قبلہ اول مسلمانوں کے لیے انتہائی متبرک، محترم اور دینی و روحانی مقام ہے اور ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرے اور یہاں نماز ادا کرے ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: '' کوئی سفر اختیار نہ کرو سوائے تین مساجد کے۔ مسجد الحرام، مسجد نبوی ﷺ، مسجد اقصیٰ۔''
جب تک امریکا اسرائیل کی ناجائز حمایت کرتا رہے گا اس وقت تک مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام بیدار ہو اور مسلمان حکم ران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں اور مظلوم مسلمانوں کے سلگتے مسائل حل کرنے کے لیے اپنا بھر پور اور موثر کردار ادا کریں ۔ اس نازک مرحلے پر او آئی سی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، اب وقت آگیا ہے کہ القدس کی آزادی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کی مسلمان تنظیمیں، جماعتیں اور افراد بیت المقدس کی آزادی کے لیے احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہرے اور القدس ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ یوم القدس عالم اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ آئیے! بیت المقدس کی آزادی کے لیے پوری دنیا کے مسلمان اپنے تمام تر اختلافات یک سر بھلا کر پوری طرح متحد ہوجائیں اور بیت المقدس کی آزادی ہر مسلمان کے دل کی آواز اور نعرہ بن جانا چاہیے۔
جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور فضیلت رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ جمعہ کے لیے عمل اور با مقصد منصوبہ بندی پر کاربند رہے تاکہ وہ اس کے ظاہری، باطنی، انفرادی اور اجتماعی برکات و آداب سے بھر پور مستفید و مستفیض ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کے دو آداب اور فضائل مقرر فرمائے ہیں ان کے مجموعے سے سلامتی صحت کے اصول اور اجتماعی زندگی کی بہترین اقدار ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ایک ادب یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کو غسل کی ترغیب دی گئی ہے۔ نظافت اور خوش بُو کے استعمال کی طرف مائل کیا گیا ہے اور یہ کہ لوگوں کو صاف ستھرے اُجلے لباس میں نمودار ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب جمعہ کا دن ہو تو آدمی کو چاہیے کہ غسل کرے اور پھر اس کے پاس جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ کپڑے زیب تن کرے۔ پھر نماز کے لیے جائے اور یہ آداب ملحوظ رکھے کہ وہ آدمیوں کو ہٹا کر ان کے درمیان نہ بیٹھے، پھر امام کو غور سے سنے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک بل کہ تین دن ان پر مزید ہوگی۔''
یہ تو عام جمعۃ المبارک کی فضیلتیں ہیں تو رمضان المبارک کے جمعۃ المبارک کی کیا شان ہوگی اور پھر رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع تو سب پر فضیلت و برتری ہے۔ رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لیے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لیے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔
آج دنیا کی ہر قوم اپنی پوری قوت اس مقصد کے لیے صرف کر رہی ہے کہ ان کے افراد میں اتحاد عمل پیدا ہو۔ ان کی سوچ میں یگانگت اور ان کی حرکات میں ہم آہنگی پیدا ہو۔ وہ بہ یک وقت ایک آواز پر بیٹھ جائیں اور ایک آواز پر سب کے سب کھڑے ہوجائیں۔ اندازہ کریں کہ جس قوم میں یہ سب باتیں ان کے دین کی برکت سے خود بہ خود موجود ہوں اور وہ ان سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کر ے۔ وقت آنے پر ان سے ملی فوائد حاصل نہ کرسکے تو اس قوم کو بے روح نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے! مسلمانوں کے اندر ان کی حرکات و سکنات میں یہ ہم آہنگی اور اطاعت امیر کی خُو اسی لیے پیدا کی گئی ہے کہ ان کے قلوب و اذہان پاک ہوں، ان کی روح میں بالیدگی پیدا ہو، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے سامنے رکھیں۔ ان کا جھکنا اسی کے لیے ہو۔ ان کا اٹھنا اسی کے لیے ہو۔
ان کی قوتیں کم زوروں کی حفاظت کے لیے ہوں اور ان کی توانائیاں ضعیفوں کے حقوق کی نگہہ داشت میں کام آئیں۔ رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خُوگر بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں، تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔ پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا محاسبہ کریں۔ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے، خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی کام یاب و کام ران ہوگی۔
جمعۃ الوداع کی نماز میں عامۃ المسلمین بڑی کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سال بھر باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے رہے۔ لیکن آ ج مسجد میں آئے ہوئے ندامت کی بھاری گٹھڑی اٹھائے ہوئے آئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے کہ اے اللہ! ہم سے جو غلطیاں، کوتاہیاں اور تقصیریں سرزد ہوئی ہیں، بالخصوص نمازوں کے سلسلے میں جو سستی ہوئی ہے، وہ اپنی رحمت خاص سے معاف فرما دے۔ ان توبہ کرنے والوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جو اس عفو طلبی اور اظہار پشیمانی کے بعد آئندہ سچے اور پکے نمازی بن جاتے ہیں۔ عید اور جمعہ کے ان عظیم اجتماعات میں جہاں کثیر تعداد میں اہل اسلام جمع ہوتے ہیں وہاں اجتماعی دعا سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حاضرین میں شامل کسی مقبول بارگاہ الہٰی شخصیت کی برکت سے سب حاضرین کی دعائیں قبول ہوجاتی ہیں۔
آج جمعۃ الوداع ہے جو انتہائی عظمت و رحمت کا دن ہے۔ اسی طرح جمعۃ الوداع کے دن پوری دنیا کے مسلمان اس عظیم و بابرکت سال کے سب سے افضل ترین دن قبلہ اول کی آزادی کے لیے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں اور تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ قبلۂ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان اسی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ جب حضور رحمت للعالمین ﷺ نے خواہش کا اظہار کیا کہ خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کی جائے تو رب کائنات نے خانہ کعبہ کو قبلہ کا عظیم درجہ عطا فرما دیا اور مسلمان خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنے لگے۔
مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن پاک میں پندرہویں پارے کے شروع میں آیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو معراج جیسے عظیم معجزے سے سرفراز فرمایا تو پہلے آپ ﷺ مسجد حرام (بیت اللہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس ) تک کا سفر طے کرکے بیت المقدس میں تشریف لائے۔ مسجد اقصیٰ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور ﷺ نے یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیائے کرامؑ اور رسولوں کی امامت فرمائی اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسولوں نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ اسی اعزاز پر آپؐ کو امام الانبیاء کا شرف حاصل ہوا۔ مسجد اقصیٰ ہی سے آپؐ معراج کے اگلے سفر کے لیے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور لامکاں تک چا پہنچے۔ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اسی سر زمین پر ہوئی۔ قبل ازیں بنی اسرائیل کے بہت سے انبیائے کرامؑ یہاں تشریف لائے۔ اسی وجہ سے اس کو انبیاء کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری نشانیوں کی زیارت کرو۔ اللہ کی نشانیوں کی زیارت اور وہاں کی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں جیسے صفا اور مروہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ مسجد اقصیٰ قبلہ اول مسلمانوں کے لیے انتہائی متبرک، محترم اور دینی و روحانی مقام ہے اور ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی زیارت کرے اور یہاں نماز ادا کرے ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: '' کوئی سفر اختیار نہ کرو سوائے تین مساجد کے۔ مسجد الحرام، مسجد نبوی ﷺ، مسجد اقصیٰ۔''
جب تک امریکا اسرائیل کی ناجائز حمایت کرتا رہے گا اس وقت تک مظلوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام بیدار ہو اور مسلمان حکم ران غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں اور مظلوم مسلمانوں کے سلگتے مسائل حل کرنے کے لیے اپنا بھر پور اور موثر کردار ادا کریں ۔ اس نازک مرحلے پر او آئی سی کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، اب وقت آگیا ہے کہ القدس کی آزادی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا کی مسلمان تنظیمیں، جماعتیں اور افراد بیت المقدس کی آزادی کے لیے احتجاجی جلسے، جلوس، مظاہرے اور القدس ریلیاں نکالتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ یوم القدس عالم اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ آئیے! بیت المقدس کی آزادی کے لیے پوری دنیا کے مسلمان اپنے تمام تر اختلافات یک سر بھلا کر پوری طرح متحد ہوجائیں اور بیت المقدس کی آزادی ہر مسلمان کے دل کی آواز اور نعرہ بن جانا چاہیے۔