الوداع اے ماہ رمضان
اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (نمازِ تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا ہے۔
رمضان المبارک اب رخصت ہونے کو ہے، جس کے استقبال کے لیے آپ اور ہم سب نے تیاری کی تھی۔ ہم دلی اضطرابی کیفیت کے ساتھ اُمنگوں اور خواہشات کے درمیان رب العالمین کی رحمت کے منتظر بھی ہیں۔ روزہ پورا ایک نصاب ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس ماہ مبارک کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (نمازِ تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اُس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل) ادا کرے گا، تو اس کو دوسرے مہینے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت سے) روزہ افطار کرایا، تو یہ عمل اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا (تو غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے) آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلائے، اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اُس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے۔ جو شخص اس ماہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں تخفیف اور کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرما کر اُسے دوزخ سے رہائی عطا فرمائے گا۔'' (مشکوٰۃ المصابیح )
اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا، جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر فرشتوں نے اعتراض کیا اور اپنی عرض بارگاہِ رب العالمین میں پیش فرمائی۔ روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں موجود مادی و سفلی تقاضوں اور بہیمی و حیوانی قوت کو قابو رکھنے کا نسخہ بتایا۔ جو انسان کو توازن و اعتدال میں رکھ کر اللہ کا مُقرب بناتا ہے۔ اِس خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی عظمت و رَفعت کو بیان فرمانے کے بعد اَعمالِ صالحہ کی ترغیب فرمائی، اُن اَعمال پر اَجر کی ترتیب مُقرر فرما کر اُسے دَوَام بخشا۔ معمولی اور نفلی نیکیوں کا اجرعام مہینوں کے فرضوں کے برابر رکھا اور فرضوں کے اجر کو ستر گُنا بڑھا دیا۔''
حدیث پاک میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (روزے کی فضیلت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا: ''مومن کے ہر عمل کا ثواب (اس کی کیفیت ، حقیقت اور معیار کے مطابق ) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کر کے دیا جاتا ہے، (یعنی باقی سب عبادات کے لیے سنتِ الٰہی یہی ہے ) مگر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزہ عطاء اجر کے اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ روزہ صرف اور صرف میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا، کیوں کہ وہ اپنی خواہشِ نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں، مسرت کا ایک لمحہ تو اسے افطار کے وقت نصیب ہوتا ہے اور روحانی مسرت کا نقطۂ عروج اس وقت ہوگا جب آخرت میں اسے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی نصیب ہوگا، اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہے۔'' (صحیح مسلم )
اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مَشقَّت تک محدود رکھا، ان کی روح کو نہ سمجھا، روحِ صوم پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، حقیقت صوم کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لیے فرمانِ رسول ﷺ ہے : ''بہت سے روزے دار ایسے ہیں ، جنہیں ان کے روزے سے بھوک (پیاس ) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللّیل ایسے ہیں، جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔'' (سنن ابن ماجہ)
صحابۂ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ شعبان المعظم میں اپنے تمام دنیوی اُمور نمٹا لیا کرتے اور رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی خود کو رضائے الٰہی کے لیے نیکیوں میں مصروف کرلیتے۔ اگرچہ آج بھی لوگ کثرت سے نیک اَعمال انجام دیتے ہیں، لیکن اُن اَعمال میں اصلاح کی ضرورت اور گنجائش ابھی باقی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کو دیتے وقت یہ احتیاط رکھنا ضروری ہے، کہ وہ صحیح ہاتھوں تک پہنچ رہا ہے۔ حدیثِ پاک میں روزہ دار کو افطار کرانے کے اجر و ثواب کو بیان فرمایا گیا ہے، آج کل فیشن بن گیا ہے کہ سڑکوں، چوراہوں پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جہاں اکثر بے روزہ دار مستفید ہوتے ہیں، مساجد میں بھی جہاں افطار کا اہتمام ہوتا ہے، وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ اکثر اوباش قسم کے لوگ، بے روزہ دار، بے نمازی افطار کرتے ہیں اور جب نماز کا وقت ہوتا ہے، تو منہ صاف کرتے ہوئے یہ مسجدوں سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ اکثر فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ رَوِش یوں بھی اَخلاقی طور پر درست نہیں کہ آپ لوگوں کے اندر سے خودداری ختم کرکے اُنہیں بھکاری بنا رہے ہیں۔ یہی رقم آپ اُن ضرورت مندوں تک، جو سفید پوش بھی ہیں اور اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے۔
مختلف شعبوں سے وابستہ مالکان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں مراعات دیں، اُن کے لیے افطار و سحری کا اہتمام کریں، راشن وغیرہ کی تقسیم سڑکوں، فٹ پاتھوں پر کرنے کے بہ جائے اپنے مستحق ملازمین کو دیں، تاکہ اُن کی ضروریات پوری ہوں اور وہ مالک کے ساتھ اَخلاص اور وفاداری نبھائیں۔ یہی حال زکوٰۃ کی تقسیم کا ہے، اسلام نے تو پہلا حق اُن رشتے داروں کا بیان کیا، جو محتاج اور مسکین ہیں، اُنہیں دینے کا دہرا ثواب ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود بھی اَخلاقی اَقدار کی پاکیزگی اور بلندی کے حامل نہیں ہوتے بل کہ صفاتِ رذیلہ، حرص و طمع اور دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ گھر، بازار، دفاتر، سڑکوں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر صبر، برداشت، حوصلہ و ہمت سے عاری، بات بات پر جھگڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے روزے اور ایسے روزے دار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے جھوٹی بات کو نہیں چھوڑا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑا اور جہل (کے تقاضے پر عمل کرنے ) کو نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔'' (صحیح بخاری)
ہماری معاشرتی پستی کا یہ عالم ہے کہ اِس مہینے میں ہم اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں، ہر طرف لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا سماں نظر آتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کی یہی سوچ نظر آتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روپے کمانا ہے، نیکیاں کمانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی، یہ سوچ اتنی عام ہوچکی ہے کہ دینی مزاج کے حامل افراد بھی اِسی رَوِش پر چلتے نظر آتے ہیں۔
اِس مہینے کو غم خواری کا مہینہ بناکر معاشرے کے پس ماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کو ڈھارس و ہمت بندھائی کہ غم نہ کرو۔ روزے کی فرضیت کا دوسرا بنیادی مقصد معاشرے کے متمول اور کثیرالمال طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ تمہارے اطراف تمہارے وہ بھائی بھی ہیں جو تمہاری توجہ کے منتظر ہیں، اُن کی آزمائش کے ساتھ تمہاری آزمائش کا مرحلہ بھی ہے کہ تم ہمارے ہی دیے ہوئے مال سے کس قدر ہماری راہ میں خرچ کرتے ہو۔
نماز، زکوٰۃ، روزے، حج اور دیگر تمام عبادات اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہیں، لیکن اِن کی صحت و درستی کی بنیاد پر اُخروی معاملات کا مَدَار ہے، ہمیں اپنے ہر عمل کا محاسبہ کرنا ہوگا، یوں نہ ہوکہ ہم اپنی غفلت و کوتاہی کے سبب اُخروی مُفلسین کی صف میں شامل ہوچکے ہوں، جس کا ہمیں احساس بھی نہیں اور بعد کو اِس کے تدارک کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس ماہ مبارک کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے افضل ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (نمازِ تراویح) کو نفل عبادت قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اُس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل) ادا کرے گا، تو اس کو دوسرے مہینے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب کی نیت سے) روزہ افطار کرایا، تو یہ عمل اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے ہر شخص افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا (تو غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے) آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اُس شخص کو بھی دے گا، جو دودھ کی تھوڑی سی لسی یا ایک کھجور یا صرف پانی کے ایک گھونٹ سے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کھانا کھلائے، اللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اُس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے۔ جو شخص اس ماہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں تخفیف اور کمی کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرما کر اُسے دوزخ سے رہائی عطا فرمائے گا۔'' (مشکوٰۃ المصابیح )
اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبیعت میں ایک طرف مادی و سفلی تقاضے پیدا فرمائے، جو کائنات میں پائے جانے والے دوسرے حیوانات میں بھی ہیں، دوسری طرف انسان کی فطرت کو روحانیت اور ملکوتیت کا اعلیٰ جوہر بھی عطا فرمایا، جو ملاء اعلیٰ کی بہترین مخلوق فرشتوں کی صفت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے پر فرشتوں نے اعتراض کیا اور اپنی عرض بارگاہِ رب العالمین میں پیش فرمائی۔ روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں موجود مادی و سفلی تقاضوں اور بہیمی و حیوانی قوت کو قابو رکھنے کا نسخہ بتایا۔ جو انسان کو توازن و اعتدال میں رکھ کر اللہ کا مُقرب بناتا ہے۔ اِس خطبہ میں رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی عظمت و رَفعت کو بیان فرمانے کے بعد اَعمالِ صالحہ کی ترغیب فرمائی، اُن اَعمال پر اَجر کی ترتیب مُقرر فرما کر اُسے دَوَام بخشا۔ معمولی اور نفلی نیکیوں کا اجرعام مہینوں کے فرضوں کے برابر رکھا اور فرضوں کے اجر کو ستر گُنا بڑھا دیا۔''
حدیث پاک میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (روزے کی فضیلت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے ) ارشاد فرمایا: ''مومن کے ہر عمل کا ثواب (اس کی کیفیت ، حقیقت اور معیار کے مطابق ) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اضافہ کر کے دیا جاتا ہے، (یعنی باقی سب عبادات کے لیے سنتِ الٰہی یہی ہے ) مگر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ روزہ عطاء اجر کے اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، کیوں کہ روزہ صرف اور صرف میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا، کیوں کہ وہ اپنی خواہشِ نفس اور طعام کو صرف میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے، روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں، مسرت کا ایک لمحہ تو اسے افطار کے وقت نصیب ہوتا ہے اور روحانی مسرت کا نقطۂ عروج اس وقت ہوگا جب آخرت میں اسے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کے حضور شرفِ باریابی نصیب ہوگا، اور روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہے۔'' (صحیح مسلم )
اگر ہم نے اپنے روزوں کو محض بھوک اور پیاس کی مَشقَّت تک محدود رکھا، ان کی روح کو نہ سمجھا، روحِ صوم پر عمل نہ کیا اور نہ اسے اپنے اوپر طاری کیا، حقیقت صوم کو بھول کر محض صورت کو اپنا لیا تو ایسے روزے داروں کے لیے فرمانِ رسول ﷺ ہے : ''بہت سے روزے دار ایسے ہیں ، جنہیں ان کے روزے سے بھوک (پیاس ) کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قائم اللّیل ایسے ہیں، جنہیں رات کے قیام سے شب سے بیداری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔'' (سنن ابن ماجہ)
صحابۂ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ شعبان المعظم میں اپنے تمام دنیوی اُمور نمٹا لیا کرتے اور رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی خود کو رضائے الٰہی کے لیے نیکیوں میں مصروف کرلیتے۔ اگرچہ آج بھی لوگ کثرت سے نیک اَعمال انجام دیتے ہیں، لیکن اُن اَعمال میں اصلاح کی ضرورت اور گنجائش ابھی باقی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کو دیتے وقت یہ احتیاط رکھنا ضروری ہے، کہ وہ صحیح ہاتھوں تک پہنچ رہا ہے۔ حدیثِ پاک میں روزہ دار کو افطار کرانے کے اجر و ثواب کو بیان فرمایا گیا ہے، آج کل فیشن بن گیا ہے کہ سڑکوں، چوراہوں پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
جہاں اکثر بے روزہ دار مستفید ہوتے ہیں، مساجد میں بھی جہاں افطار کا اہتمام ہوتا ہے، وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ اکثر اوباش قسم کے لوگ، بے روزہ دار، بے نمازی افطار کرتے ہیں اور جب نماز کا وقت ہوتا ہے، تو منہ صاف کرتے ہوئے یہ مسجدوں سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ اکثر فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ رَوِش یوں بھی اَخلاقی طور پر درست نہیں کہ آپ لوگوں کے اندر سے خودداری ختم کرکے اُنہیں بھکاری بنا رہے ہیں۔ یہی رقم آپ اُن ضرورت مندوں تک، جو سفید پوش بھی ہیں اور اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ لوگوں سے گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے۔
مختلف شعبوں سے وابستہ مالکان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں مراعات دیں، اُن کے لیے افطار و سحری کا اہتمام کریں، راشن وغیرہ کی تقسیم سڑکوں، فٹ پاتھوں پر کرنے کے بہ جائے اپنے مستحق ملازمین کو دیں، تاکہ اُن کی ضروریات پوری ہوں اور وہ مالک کے ساتھ اَخلاص اور وفاداری نبھائیں۔ یہی حال زکوٰۃ کی تقسیم کا ہے، اسلام نے تو پہلا حق اُن رشتے داروں کا بیان کیا، جو محتاج اور مسکین ہیں، اُنہیں دینے کا دہرا ثواب ہے۔
کیا وجہ ہے کہ ہم پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود بھی اَخلاقی اَقدار کی پاکیزگی اور بلندی کے حامل نہیں ہوتے بل کہ صفاتِ رذیلہ، حرص و طمع اور دولت کی ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ گھر، بازار، دفاتر، سڑکوں اور عوامی اجتماعات کے مقامات پر صبر، برداشت، حوصلہ و ہمت سے عاری، بات بات پر جھگڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے روزے اور ایسے روزے دار اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے جھوٹی بات کو نہیں چھوڑا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنے کو نہیں چھوڑا اور جہل (کے تقاضے پر عمل کرنے ) کو نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔'' (صحیح بخاری)
ہماری معاشرتی پستی کا یہ عالم ہے کہ اِس مہینے میں ہم اشیاء خورونوش کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں، ہر طرف لوٹ مار، ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا سماں نظر آتا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کی یہی سوچ نظر آتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روپے کمانا ہے، نیکیاں کمانے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی، یہ سوچ اتنی عام ہوچکی ہے کہ دینی مزاج کے حامل افراد بھی اِسی رَوِش پر چلتے نظر آتے ہیں۔
اِس مہینے کو غم خواری کا مہینہ بناکر معاشرے کے پس ماندہ طبقات سے وابستہ لوگوں کو ڈھارس و ہمت بندھائی کہ غم نہ کرو۔ روزے کی فرضیت کا دوسرا بنیادی مقصد معاشرے کے متمول اور کثیرالمال طبقے کو یہ احساس دلانا ہے کہ تمہارے اطراف تمہارے وہ بھائی بھی ہیں جو تمہاری توجہ کے منتظر ہیں، اُن کی آزمائش کے ساتھ تمہاری آزمائش کا مرحلہ بھی ہے کہ تم ہمارے ہی دیے ہوئے مال سے کس قدر ہماری راہ میں خرچ کرتے ہو۔
نماز، زکوٰۃ، روزے، حج اور دیگر تمام عبادات اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے ہیں، لیکن اِن کی صحت و درستی کی بنیاد پر اُخروی معاملات کا مَدَار ہے، ہمیں اپنے ہر عمل کا محاسبہ کرنا ہوگا، یوں نہ ہوکہ ہم اپنی غفلت و کوتاہی کے سبب اُخروی مُفلسین کی صف میں شامل ہوچکے ہوں، جس کا ہمیں احساس بھی نہیں اور بعد کو اِس کے تدارک کی کوئی سبیل بھی باقی نہ رہے۔