غربت وبیروزگاری سے پاکستان میں گداگری منظم کاروبا ربن گیا
گینگ ومافیا ’پوٹینشل‘ علاقے ’’لیز‘ پر دیتے، ایک بھکاری 400 کماتا، پولیس حصہ دار ہے، رپورٹ
ملک بھر میں بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری کے باعث گداگری میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
پسماندگی اور غربت کے باعث دن اور رات لمحات میں ہر سمت بھیک مانگتے نظر آتے بچوں کی تعداد انتہائی دردناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے، غربت اور بیروزگاری کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے، اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے بھوک کے مارے نچلے طبقے کے لوگ یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں بلکہ اپنے گینگ کے سربراہوں اور پولیس کو حصے کے طور پر بھتہ بھی ادا کرتے ہیں۔
تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ گداگری ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جسے مافیا کنٹرول کرتی ہے اور مختلف جگہوں اور علاقوں میں یہ مافیا اپنے خاص گداگر کارندوں کو روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ کی بنیاد پر تعینات کرتی ہے، بعض گداگر سخت گرمی میں کھدائی کرنے یا سیمنٹ کی بوریاں اٹھانے والے مزدوروں جن کی اجرت 600 روپے یومیہ ہے سے بھی زیادہ کمالیتے ہیں۔راولپنڈی میں بھیک مانگنے والے12سالہ مختار نامی لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیاوہ کسی گروہ کے زیرکنٹرول کام کرتا ہے تو پہلے تو اس نے انکار کیا پھر تسلیم کیا کہ اسے اپنی کمائی میں سے ٹھیکے دار کو حصہ دینا ہوتا ہے یا پھر گینگ کے سربراہ کو اور بعض اوقات پولیس اور دوسرے اداروں کے لوگوں کو بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔
اس نے بتایا کہ جب وہ چوراہوں، ٹریفک سگنلز اور مارکیٹ میں بھیک جمع کرتا ہے تو اس میں سے 20 تا50 روپے ٹھیکے دار کو ادا کرنا پڑے ہیں، بعض اوقات 100 روپے بھی دینے پڑ جاتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو وہ انہیں مارتے پیٹتے اور علاقے سے نکال دیتے ہیں۔ گداگری گزشتہ 3سال سے قابل سزا جرم ہے مگر پولیس اور قانون دان کہتے ہیں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کسی گداگر کو سزا ملی ہو۔ 2011 میں لاہور ہائی کورٹ نے سختی سے پیشہ وارانہ گداگری کی حوصلہ شکنی کیلیے حکم جاری کیا تھا تاکہ مفلس اور نادار افراد کی مالی معاونت کی جاسکے۔
ایک قانون دان کے مطابق اگر گداگروں کے خلاف کوئی کارروائی کے نتیجے میں انہیں گرفتار کربھی لیا جائے تو وہ عدالتوں سے ضمانت کرالیتے ہیں اور جج حضرات بھی سماجی و فلاحی سہولتیں نہ ہونے کے باعث نرم رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں گداگر دوبارہ سڑکوں پر آکر بھیک مانگنے کا عمل شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فائونڈیشن کے فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ گداگر اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ہم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
32 سالہ گداگر سکینہ بی بی جو5 بچوں کے ساتھ راولپنڈی میں بھیک مانگتی ہے کا کہنا ہے کہ گداگری اب ایک پیشہ بن چکی ہے، اس کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں، شوہر نشے کا عادی ہے، وہ روزانہ 300 سے 400 روپے کماتی ہے، کبھی صرف 60، 70روپے مل پاتے ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم کی کارکن نے بتایاکہ ایسے افراد کے لیے 3 سے 5 سال قید کی سزا اور 500 سے 5000 روپے تک جرمانہ ہے، یہاں منظم گروہ کام کرتے ہیں جو بچوں کو بس اسٹاپس، ٹریفک سگنلز اور بازاروں میں تعینات کرتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گداگروں کی تعداد، عمر اور اوسط آمدن سے متعلق اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔ قیصر بنگالی نے بتایا کہ گداگروں کے گینگ مختلف شہروں میں کام کرتے ہیں جو اپنے کارندوں کو رش کے مقام پر منتقل کرتے رہتے ہیں، بعض حقیقی ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 18کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے۔
پسماندگی اور غربت کے باعث دن اور رات لمحات میں ہر سمت بھیک مانگتے نظر آتے بچوں کی تعداد انتہائی دردناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے، غربت اور بیروزگاری کے مارے افراد نے گداگری کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے، اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے بھوک کے مارے نچلے طبقے کے لوگ یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں بلکہ اپنے گینگ کے سربراہوں اور پولیس کو حصے کے طور پر بھتہ بھی ادا کرتے ہیں۔
تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ گداگری ایک منظم کاروبار بن چکا ہے جسے مافیا کنٹرول کرتی ہے اور مختلف جگہوں اور علاقوں میں یہ مافیا اپنے خاص گداگر کارندوں کو روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ کی بنیاد پر تعینات کرتی ہے، بعض گداگر سخت گرمی میں کھدائی کرنے یا سیمنٹ کی بوریاں اٹھانے والے مزدوروں جن کی اجرت 600 روپے یومیہ ہے سے بھی زیادہ کمالیتے ہیں۔راولپنڈی میں بھیک مانگنے والے12سالہ مختار نامی لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیاوہ کسی گروہ کے زیرکنٹرول کام کرتا ہے تو پہلے تو اس نے انکار کیا پھر تسلیم کیا کہ اسے اپنی کمائی میں سے ٹھیکے دار کو حصہ دینا ہوتا ہے یا پھر گینگ کے سربراہ کو اور بعض اوقات پولیس اور دوسرے اداروں کے لوگوں کو بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔
اس نے بتایا کہ جب وہ چوراہوں، ٹریفک سگنلز اور مارکیٹ میں بھیک جمع کرتا ہے تو اس میں سے 20 تا50 روپے ٹھیکے دار کو ادا کرنا پڑے ہیں، بعض اوقات 100 روپے بھی دینے پڑ جاتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو وہ انہیں مارتے پیٹتے اور علاقے سے نکال دیتے ہیں۔ گداگری گزشتہ 3سال سے قابل سزا جرم ہے مگر پولیس اور قانون دان کہتے ہیں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کسی گداگر کو سزا ملی ہو۔ 2011 میں لاہور ہائی کورٹ نے سختی سے پیشہ وارانہ گداگری کی حوصلہ شکنی کیلیے حکم جاری کیا تھا تاکہ مفلس اور نادار افراد کی مالی معاونت کی جاسکے۔
ایک قانون دان کے مطابق اگر گداگروں کے خلاف کوئی کارروائی کے نتیجے میں انہیں گرفتار کربھی لیا جائے تو وہ عدالتوں سے ضمانت کرالیتے ہیں اور جج حضرات بھی سماجی و فلاحی سہولتیں نہ ہونے کے باعث نرم رویہ اختیار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں گداگر دوبارہ سڑکوں پر آکر بھیک مانگنے کا عمل شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فائونڈیشن کے فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ گداگر اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ہم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
32 سالہ گداگر سکینہ بی بی جو5 بچوں کے ساتھ راولپنڈی میں بھیک مانگتی ہے کا کہنا ہے کہ گداگری اب ایک پیشہ بن چکی ہے، اس کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں، شوہر نشے کا عادی ہے، وہ روزانہ 300 سے 400 روپے کماتی ہے، کبھی صرف 60، 70روپے مل پاتے ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم کی کارکن نے بتایاکہ ایسے افراد کے لیے 3 سے 5 سال قید کی سزا اور 500 سے 5000 روپے تک جرمانہ ہے، یہاں منظم گروہ کام کرتے ہیں جو بچوں کو بس اسٹاپس، ٹریفک سگنلز اور بازاروں میں تعینات کرتے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس گداگروں کی تعداد، عمر اور اوسط آمدن سے متعلق اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔ قیصر بنگالی نے بتایا کہ گداگروں کے گینگ مختلف شہروں میں کام کرتے ہیں جو اپنے کارندوں کو رش کے مقام پر منتقل کرتے رہتے ہیں، بعض حقیقی ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 18کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے۔