انتخابات اور نوجوان

سیاسی جماعتیں روایتی میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں۔

tauceeph@gmail.com

ملک میں 25 جولائی کے عام انتخابات میں 46 ملین نوجوانوں کے ووٹ اہم کردار ادا کریں گے۔ الیکشن کمیشن کے تیار کردہ ووٹر لسٹوں کے مطابق 46 ملین نوجوانوں کی عمریں 18 سے 35 برسوں کے درمیان ہیں۔ اعداد وشمار کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ووٹروں میں 17.44 ملین ووٹروں کی عمریں18 سے 25 برسوں کے درمیان ہے۔

ایک انگریزی اخبار میں شایع ہونے والے شماری جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں کل ووٹروں کی تعداد 86.18 ملین تھی جن میں سے 17.5 ملین ووٹروں کی عمریں 25 سال تک تھیں جب کہ 24.3 ملین ووٹروں کی عمریں 26 سے 35 برسوں کے درمیان تھیں۔ 25 جولائی کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے جو انتخابی فہرستیں تیار کی ہیں ان کے مطابق 105,955,407 ووٹر انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل ہیں۔

ان میں سے 17,443,094 ووٹروں کی عمریں 18 سے 25 برسوں کے درمیان ہیں۔ اسی طرح 28,995,230 ووٹروں کی عمریں 26 سے 35 برسوں کے درمیان ہیں، یوں 18سے 36 برس کی عمروں کی لڑکیاں اور لڑکے اہم کردار ادا کریں گے۔ نوجوانوں کی اکثریت خواہ ان کا تعلق نچلے طبقے سے ہی کیوں نہ ہو اسمارٹ فون کے مالک ہیں، اگرچہ ملک میں خواندگی کی سرکاری شرح 58 فیصد کے قریب ہے مگر نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد حقیقی معنوں میں ناخواندہ ہے۔

نوجوانوں میں لڑکیوں میں ناخواندگی کی شرح خاصی زیادہ ہے مگر ناخواندہ ہونے کے باوجود یہ نوجوان سوشل میڈیا کے اہم ٹول فیس بک اور واٹس اپ سے مکمل طور پر استفادہ کرتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ای میل اور ٹویٹر استعمال کرنے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہے مگر سوشل میڈیا کے دیگر ٹول انھیں جدید دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے منسلک رکھتے ہیں۔

2013ء کے انتخابات میں عمران خان نوجوانوں کے قائد کے نعرے کے طور پر ابھرے تھے۔ عمران خان کا نوجوانوں سے رابطہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا تھا۔ عمران خان نے دائیں بازو کے بیانیے کے سائے میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو جلسے جلوسوں میں شرکت کرنے اور موسیقی کے استعمال کے نئے طریقوں کے ذریعے جلسوں میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد کو بڑھانے کا موقع ملا تھا مگر 2013ء کے انتخابات کے نتائج کے تجزیے سے ظاہر ہوا کہ عمران خان کا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے شہری علاقوں کے ووٹروں کو تو متحرک کرنے میں کامیاب رہا مگر عمران خان دیہی علاقوں کے ووٹروں کو اپنے بیانیہ کی حمایت میں متحرک نہیں کرپائے تھے۔

مسلم لیگ ن نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں روایتی میڈیا کے ذریعے اپنی برتری قائم رکھی تھی۔ تحریک انصاف نے 2014ء کے دھرنوں کو کامیاب کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ کچھ دنوں تک تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ عمران خان دھرنوں کے ذریعے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اس دوران میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے مسلم لیگ ن سوشل میڈیا سیکشن کو منظم کیا، یوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بیانیہ دور دور تک پھیل گیا۔ پاناما لیکس اسکینڈل کے مقدمے کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کو نت نئے طریقوں سے استعمال کیا، یوں معروضیت پر مبنی بیانیہ کے علاوہ جعلی خبروں کی بھر مار ہوگئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ چترال سے لے کر کوئٹہ، کراچی سے پشاور تک گئے۔


پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا نے بھی اپنا بیانیہ وائرل کرنا شروع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں سلامتی کونسل میں تقاریر ان کے تاریخ جلسوں اور بے نظیر بھٹو کی تاریخی تقاریر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگی۔ کراچی میں ایک نوجوان نقیب اﷲ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد قبائلی علاقوں میں نوجوانوں کی ایک تحریک منظم ہوئی اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ ہزاروں پشتون نوجوان اس تحریک کا حصہ بن گئے۔

تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے بیانیہ کا اسیر بنانا ہے۔ نوجوان ووٹروں کو اپنا حامی بنانے کے لیے جلسے جلوسوں، روایتی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کا استعمال ضروری ہورہا ہے مگر اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کن باتوں کو اپنے بیانیہ میں اہمیت دیتی ہیں۔ ووٹروں کی اکثریت 18 سے 35 برسوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان 80,90ء کی دھائیوں کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو نئی صدی کا آغاز ہوچکا تھا۔ 18 سال کی عمر کا نوجوان نئی صدی کے آغاز پر پیدا ہوا۔ 2015ء میں بلوغیت کی سرحدوں میں داخل ہوا۔ اس نے نائن الیون کے بعد کی دنیا میں ہوش سنبھالا۔ پرانی تاریخ اس کو کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ ملک کے مختلف حصوں کے نوجوانوں کو مختلف نوعیت کی صورتحال کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں چند بلوچ نوجوان مقتدرہ سے زور آزما ہے۔ وہاں کے نوجوان کے مسائل میں لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی اور ریاست کے استحصال سے چھٹکارا شامل ہیں، مگر بہت سے بلوچ نوجوان اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے طالب ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تشدد نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پختون خواہ، پنجاب اور سندھ کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار، بیرون ممالک میں تعلیم اور روزگار کی نئی راہوں کی تلاش ہے۔ پھر چاروں صوبوں کے نوجوان شفاف جمہوری ریاستی اداروں کے قیام اور مکمل سماجی و ثقافتی آزادی کے خواہاں ہیں۔ ایک معروف محقق کا کہنا ہے کہ نوجوان اور ریاستی اداروں میں فاصلے طویل ہیں۔

نوجوان مختلف وجوہات کی بناء پر کسی ادارے اور کسی معروف شخصیت پر اعتماد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ دراصل پورے نظام سے مایوس ہیں۔ پاکستان نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے انتخابات میں 55 فیصد نوجوان ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں مگر ان میں سے صرف 24 فیصد کو سیاست دانوں پر اعتماد ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ 56 فیصد کسی بھی جماعت کے بیانیہ کو قبول کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں بیلٹ پیپر میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دے کر احتجاج کا حق حاصل ہے۔ بعض سیاسی مبصرین یہ آپشن بیلٹ پیپر میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ اور انتخابات پر نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین سمجھتے ہیں کہ بہت سی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا مطلب اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حق حکمرانی سے محروم کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا مجموعی طور پر اولین فریضہ ہے کہ نوجوان نسل میںریاست کے اداروں اور سیاست دانوں پر اعتماد پیدا کریں ۔ نوجوانوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے سیاسی رہنماؤں کو اپنے علم اور عمل میں تضاد کو ختم کرنا ہوگا۔ پھر نوجوانوں میں جمہوری عمل پر اعتماد مستحکم ہوگا۔

سیاسی جماعتیں روایتی میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرکے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اسی طرح اچھی طرز حکومت کی اہمیت کو نوجوانوں کے سامنے رکھا تھا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بالادستی اور ایک ترقی پسند بیانیہ کے ذریعے نوجوانوں کو قائل کرتی ہیں تو انتخابات بامعنی ہونگے۔

نوٹ:30 مئی کو شایع ہونے والے آرٹیکل ''پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کی ناکامی'' میں غلطی سے ایک جملہ شایع ہوا۔ درست جملہ یہ ہے ''جی ایچ کیو نے کیری لوگر بل کی مخالفت کی۔''
Load Next Story