انتخابات منصفانہ ہو سکیں گے
آنکھیں بند کرکے صرف انتخاب کی رسم ادا کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ انتخابات کا آزادانہ اور شفاف ہونا بھی لازمی ہے
پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دو جمہوری حکومتوں کا تواتر کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرنا رفتہ رفتہ جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے اور جمہوری اداروں کو پائیدار بنانے کی طرف اہم ترین قدم ہے۔ جمہوری ممالک اس صورت حال کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
نگراں حکومت کے قیام، 6 رکنی نگراں وفاقی کابینہ کے حلف اٹھانے اور انتخابی شیڈول کے اجراء کے بعد تمام معاملات آئین و قانون کے تحت تکمیل کی سمت بڑھ رہے ہیں، اس کے باوجود یہ سوال بہت شدت کے ساتھ سننے میں آرہا ہے کہ آیندہ عام انتخابات 25جولائی کو ہو سکیں گے یا نہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ غیریقینی کی صورتحال رہی ہے۔ یہ سوال وہ لوگ بھی کر رہے ہیں، جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئین کے تحت انتخابات کے انعقاد میں کسی قسم کی تاخیر کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔
ان قیاس آرائیوں اور خدشات کے ماحول میں جب لاہور ہائی کورٹ نے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی کو کالعدم قرار دیا تو شور مچ گیا کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوجائینگے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے بروقت فیصلہ کرنے سے نہ صرف انتخابات کے التوا پر لٹکنے والی تلوار ٹل گئی بلکہ عوام کو ان کے حق سے محروم رکھنے کی سیاستدانوں کی ترکیب بھی ناکام ہوگئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں سب ایک عجیب پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ اب بروقت انتخابات کو کیسے یقینی بنایا جائے، حالانکہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا کہ نئے کاغذات نامزدگی بنانے سے الیکشن تاخیر کا شکار ہوجائینگے۔
الیکشن کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف پٹیشن دائر کی، جس پر چیف جسٹس نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا تو عوام سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خاصے مایوس ہوئے کیونکہ سیاستدانوں نے کاغذات نامزدگی سے ضروری حصے حذف کرا کے عوام کو منتخب نمایندوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے محروم کردیا تھا اس لیے عوام کی نظر میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے اب تک دیے جانے والے تمام فیصلوں میں یہ پہلا فیصلہ تھا جو کہ عوامی امنگوں کے برخلاف و برعکس سمجھا جارہا تھا،بعد ازاں اگر کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی جمع کرانا لازمی قرار دینے کا فیصلہ نہ کیا جاتا تو مبصرین کی نظر میں تاریخ میں اس فیصلے کے متعلق یہی لکھا جاتا کہ چیف جسٹس کا یہ سب سے غیر مقبول فیصلہ ہوتا، جسے عوام میں پسندیدگی کی سند حاصل نہ ہوتی۔
چیف جسٹس نے بھی شاید اس بات کا جلد ادراک کر لیا اور ایسا فیصلہ دیا کہ الیکشن کی تاخیر کے حوالے سے تمام تر ابہام بھی دور ہوگئے اور منتخب نمایندوں کے متعلق معلومات تک عوام کو رسائی بھی حاصل ہوگئی، ایسی صورتحال پر یہ ضرب المثل محاورہ کہا جاتا ہے کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون سازوں کی چالاکیوں نے قوم کو مصیبت میں ڈالا۔ ووٹرز کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کی اجازت نہیں دینگے، حقائق چھپائے تو جعلسازی اور توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، الیکشن کمیشن فارم سے ختم کی گئی معلومات اخبارات میں چھپوادے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے کا غذات نامزدگی فارم کے ساتھ امیدواروں کی جانب سے جمع کرایا جانے والا بیان حلفی کامسودہ جاری کر دیا ہے۔ اب ہر امیدوار کو یہ بیان حلفی اوتھ کمشنر سے تصدیق کرا کر کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کرانا ہوگا۔
2013 کے انتخابات کے بعد انتخابی اصلاحات سب سے اہم ایشو بن کر سامنے آیا تھا، تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے 2سال لگاکر انتخابی اصلاحاتی بل لایا گیا، حالیہ سالوں میں بہت کم ایسی قانون سازی ہوئی ہے جس پر الیکشن ایکٹ 2017 جتنی بحث ہوئی ہو۔ ختم نبوت کے معاملے پر حلفیہ اقرار کرتا ہوں کے الفاظ کی تبدیلی پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا ہوا تو حکومت نے پرانا حلف نامہ بحال کردیا جب کہ سپریم کورٹ نے نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کے حوالے سے کی گئی تبدیلی کالعدم قرار دیدی تھی لیکن دیگر تبدیلیاں جوں کی توں برقرار رہیں، ان پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ جب کاغذات نامزدگی سامنے آئے تو عوام حیران رہ گئے کہ سیاستدانوں نے پارلیمنٹ میں کمال ہوشیاری سے 19 شقیں نکال کر نامزدگی فارم کا حلیہ ہی بدل دیا ہے، ایسے تمام سوالات جن سے امیدواروں کے بارے میں آگاہی عوام اور ووٹر سے شیئر ہوتی تھی وہ ختم کردیے گئے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاناما پیپرز کے معاملے کے بعد کاغذات نامزدگی میں سیاستدان اپنے اثاثوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات دیتے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قانونی کارروائی سے بچ سکیں لیکن سب اس کے برعکس ہوگیا۔
عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ منتخب ہونیوالے نمایندے کیا کچھ چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ موجودہ کاغذات نامزدگی کے تحت امیدواروں کو اپنے موجودہ اثاثے، دہری شہریت، غیر ملکی پاسپورٹ، تعلیمی قابلیت، انکم و زرعی ٹیکس، بیوی و بچوں کے اثاثے، قرضے معافی، غیر ملکی دوروں کا حساب نہیں دینا، فارمز سے امیدوار کے بیرون ملک دوروں کی تفصیل بھی نکال دی گئی جسکے نتیجے میں امیدوار اقامہ ظاہر نہیں کرینگے۔ حالانکہ 2002، 2008 اور 2013 کے تینوں انتخابات میں امیدواروں کے لیے یہ بیان دینا لازم تھا کہ وہ خود، ان کی بیگمات/شوہر اور ان کی اولاد میں سے کوئی بھی قرض یا ٹیکس نادہندہ نہیں ہے اور انھوں نے اپنے یوٹیلٹی بلز ادا کیے ہوئے ہیں۔
2013کے انتخابات میں امیدوار کو ایک ضروری حلف نامے پر دستخط کرنا ہوتے تھے۔ جس میں وہ بینک، مالیاتی ادارے، کا قرضہ دہندہ نہ ہونے، یوٹیلیٹی بلز واجب الادا نہ ہونے، کوئی فوجداری مقدمہ زیر التواء نہ ہونے کا اقرار کرتا تھا، جب کہ تعلیم کی ڈگریاں جمع کرانا ہوتی تھی، اس شق کے تحت غلط بیانی کے باعث کئی ارکان اسمبلی بھی نااہل ہوئے، ماضی کی ضروریات کے برعکس اس مرتبہ ان سب چیزوں سے استثنیٰ دیا گیا۔ اس تبدیلی کے لیے ن لیگ، پی پی پی، تحریک انصاف سب نے ایکا کیا ہوا تھا کیونکہ ان معاملات کی وجہ سے کئی ممبران اسمبلی کو نا اہلی کاسامنا کرنا پڑا تھا۔
الیکشن ایکٹ 2017 میں کاغذات نامزدگی میں کی گئی تبدیلیاں متفقہ تھیں اور کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی پرانے کاغذات نامزدگی کے حذف کیے گئے حصوں پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ ان ترامیم میں تمام پارلیمنٹیرین کا فائدہ ہے اگر نقصان ہے تو عوام کا ہے جنھیں ان کے اس حق سے محروم کر دیا گیا جب کہ اہم ترین دفعات کو کاغذات نامزدگی سے نکال کر قرض اور ٹیکس نادہندگان کے لیے آزادی سے انتخابات لڑنے کا راستہ کھول دیا گیا تھا۔ ان ترامیم کو گزشتہ برس ایک صحافی نے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ، 7ماہ بعد عدالت نے کاغذات نامزدگی میں ترامیم کی ہدایت کی اور ایسے کاغذات نامزدگی جاری کرنے کا حکم دیا جو آرٹیکل 62 اور 63 کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔
یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس سے عام انتخابات 2018کو صاف اور شفاف بنانے کی بنیاد رکھی جاسکتی تھی، اس فیصلے سے امیدواروں کو مکمل چھان بین کے بعد ہی الیکشن میں حصہ لینے کا گرین سگنل ملتا، ٹیکس چور، جرائم پیشہ افراد، دھوکا باز اور دہری شہریت کے حامل افراد کے الیکشن لڑنے کا راستہ رک گیا تھا۔ لیکن پھر معاملہ سپریم کورٹ میں گیا، سپریم کورٹ نے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کیا اور پھر انتخابات کو التواء سے بچانے کی خاطر مذکورہ تمام معلومات بیان حلفی کے ساتھ جمع کرانے کا فیصلہ دیدیا جس کا عوامی حلقوں میں پرزور خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
ساری دنیا میں انتخابی قوانین کو سخت کیا جارہا ہے مگر پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پارلیمنٹیرین قوانین کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ جمہوری نظام میں انتخابات کی اہمیت گویا ایسی بنیاد کی سی ہے جس پر کوئی عمارت تعمیر کی جاتی ہے جب کہ عمارت کی مضبوطی و بلندی بنیاد کے استحکام سے مشروط ہوتی ہے۔
تمام معاملات سے آنکھیں بند کرکے صرف انتخاب کی رسم ادا کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ انتخابات کا آزادانہ اور شفاف ہونا بھی لازمی ہے،ایک آدھ کو چھوڑ کر پاکستان میں ہونیوالے ہر الیکشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھی ہیں، آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمیں یقین ہے کہ موجودہ حالات میں جب کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف انتخابات سے قبل دھاندلی کا الزام لگا چکے ہیں 2018 کا الیکشن دھاندلی سے پاک ہو گا' تمام پارٹیاں مطمئن ہونگی اورنتائج کو من و عن قبول کر لیں گی۔