جارج سوروس مہاجرین اور ہنگری

جارج سوروس ہنگری نژاد امریکی ہیں۔ ان کا شمار دنیا کے چند امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔


فرحین شیخ June 09, 2018

ولن صرف فلموں میں نہیں ہوتے، حقیقی دنیا میں ازل سے ہی بہت سارے چہرے ولن کا کردار بہ خوبی نبھاتے چلے آئے ہیں۔ چنگیز خان، ہلاکو خان، نیرو، ہٹلر، اسٹالن اور بے شمار نام تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں، جنھوں نے سفاکیت میں اپنا لوہا منوایا۔ نئے دور کے ولن بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

دنیا کے ہر خطے سے اٹھنے والی مظلومانہ آہ وبکا کے پیچھے، کسی نہ کسی ولن کا شیطانی دماغ ہی تو کارفرما ہے۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان بھی نئی صدی کی ایک الم ناک کہانی کے ولن بنے ہوئے ہیں، جن کے ''اقوال زریں'' سن کر مشہور ماہر نفسیات انتھونی اسٹیونز کا مشہور جملہ یاد آجاتا ہے کہ ''جنگیں پارلیمنٹ یا فوجی بیرکوں میں نہیں بلکہ انسانی دماغوں میں شروع ہوتی ہیں۔''

ہنگری میں وکٹر اوربان کی ایک بار پھر فتح کے بعد منائے جانے والے جشن میں، جن اندیشوں کی آہٹ متواتر سنائی دے رہی تھی، وہ اب مجسم شکل میں سامنے آتے جارہے ہیں۔ وہ شروع سے ہی مہاجرین کے یورپ میں داخلے کے سخت مخالف ہیں۔ لٹے پٹے مہاجرین کے خلاف پہلے انھوں نے لفظوں کی جنگ چھیڑی، جب الفاظ اپنا اثر دکھانے لگے اور عوام ان کے ہم خیال بن گئے، تو انھوں نے مہاجرین کو روکنے کے لیے سربیا اور ہنگری کی سرحد پر باڑ تعمیر کروا دی اور یورپی یونین کی مہاجرین پالیسی کو قبول کرنے سے یکسر انکار کردیا۔

اب مہاجرین سے اپنی نفرت میں وہ اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ انھوں نے اس بار وزارت کا منصب سنبھالتے ہی ''اسٹاپ سوروس بل'' پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا۔ وہ بل جس کا وعدہ انتخابی مہم میں انھوں نے ہنگری کے عوام سے کیا تھا۔ اسٹاپ سوروس بل ہے کیا؟ اس سوال کے پیچھے بچی کھچی کچھ انسانی اقدار کے تحفظ کا ایک پورا فلسفہ ہے، جدوجہد کی ایک کہانی ہے۔ اس کہانی کے ولن مسٹر اوربان اور ہیرو ستاسی سالہ بوڑھے یہودی جان سوروس ہیں۔ بوڑھے ہیرو جان سوروس کا مشن اور ان کا انسانی خدمت کا جنون، اوربان کی مہاجرین مخالف پالیسیوں کی تکمیل کی راہ میں کانٹا بن کر اٹکا ہوا تھا۔ وکٹر نے کمال سفاکی سے یہ کانٹا نکال پھینکا۔

جارج سوروس ہنگری نژاد امریکی ہیں۔ ان کا شمار دنیا کے چند امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بے تحاشا دولت کو نہ تو سر کا تاج بنایا اور نہ تجوریوں کی زینت، بلکہ اس کو انسانی خدمت کے لیے پانی کی طرح بہایا۔ نفسانفسی کی اس دنیا میں، جب عالمی مفادات کے حصول کی جنگ میں لوگوں کو بے گھر کرنے کا عمل جاری ہے، وہیں جارج سوروس مشرقی یورپ کو مہاجرین کے لیے جنت بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ یورپ کی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے وہ باغی کا خطاب پا چکے ہیں۔ ہنگری میں ان کی کردارکشی کی باقاعدہ مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ جگہ جگہ مہاجرین کے داخلے کے خلاف ہنگری میں جو بینر آویزاں کیے گئے ہیں ان پر جارج سوروس کی بھی بڑی سی تصویر موجود ہے۔ ہنگری کی حکومت نے انھیں ریاست کا سب سے بڑا دشمن قرار دے کر ملک میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔

جارج سوروس کا ہنگری کی سیاست میں شروع سے ہی بہت اہم کردار رہا ہے۔ 80ء کی دہائی میں کمیونزم کے خلاف جدوجہد میں سوروس نے ہنگری کا بہت ساتھ دیا۔ 1984ء میں انھوں نے ہنگری میں ''اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن'' کی بنیاد رکھی، جو قلیل عرصے میں ہی دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل گئی۔ ہنگری پر نازیوں کے تسلط کے نتیجے میں ہجرت سوروس کا بھی مقدر بنائی گئی، اسی لیے انھوں نے مہاجرین کے درد کو ہمیشہ ہی محسوس کیا، ان کے حق میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ اربوں روپے مہاجرین کی بحالی کے لیے عطیہ بھی کیے۔ ان کا یہ دردمندانہ رویہ ہنگری میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

وکٹر اوربان نے انتخابی مہم میں ہنگری کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اب وہ اقتدار میں آئیں گے تو مہاجرین کے متعلق، جارج سوروس کے کسی نیک ارادے کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچنے دیں گے، اس مقصدکے لیے انھوں نے اینٹی سوروس مہم شروع کی، اس مہم میں ہر ذریعہ ابلاغ کا سہارا لے کر مہاجرین اور جارج سوروس کو یورپ کا دشمن قرار دیا گیا، اور اب بین الاقوامی دباؤ کے باوجود انتہائی اقدام اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ سے ''اسٹاپ سوروس'' بل پاس کر وا ہی لیا۔

ہنگری میں مہاجرین کی مدد اور بحالی کے لیے کام کرنے والی تقریباً تمام این جی اوز کو جان سوروس کی مالی و اخلاقی اعانت حاصل ہے۔ اس بِل کے تحت حکومتِ ہنگری جب چاہے کسی بھی وجہ کے بغیر ان این جی اوز پر پابندی لگانے کا حق رکھتی ہے نیز ان تنظیموں کو مہاجرین کی بحالی کا کوئی بھی کام کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ سے نہ صرف اجازت لینا ہوگی بلکہ اپنی تمام سرگرمیوں کی مکمل آگاہی بھی دینی ہوگی، بِل کے تحت یہ این جی اوز مہاجرین کے لیے ملنے والے فنڈ کا پچیس فی صد حصہ حکومتی بیت المال میں جمع کروانے کی پابند ہیں۔ ہنگری کی حکومت اس رقم کو اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے خرچ کرے گی۔

بل کی رو سے ان احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہوگی اور انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ قانونی طور پر ہنگری میں روزانہ کی بنیاد پر صرف دو مہاجرین کے داخلے کی اجازت ہے۔ جو لوگ داخل نہیں ہو سکتے یہ این جی اوز ان کی مدد کرتی ہیں اور ہنگری میں ان کے داخلے کے لیے معاونت کرتی ہیں۔ جارج سوروس سرحدی باڑوں اور دیواروں کی تعمیر کے سخت مخالف ہیں۔ اسی لیے ہنگری کے عوام انھیں یورپ میں مہاجرین کے سیلاب کی واحد وجہ قرار دیتے ہیں۔ حکومتِ ہنگری نہ صرف مہاجرین کی بحالی کے لیے سوروس کے مشن کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے بلکہ بدھاپسٹ میں ان کی قائم کردہ یونی ورسٹی کو بھی بند کرنے کا راداہ ظاہر کر رہی ہے۔

جارج سوروس کی مخالفت میں ہنگری میں منعقد ایک سروے میں پوچھا گیا،''کیا آپ جارج سوروس کے لبرل سیاسی نظریات سے متفق ہیں؟'' اس کا جواب عین حکومتی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق ہی آیا، جس سے وکٹر اوربان کی ہٹ دھرمی کو مزید اعتماد ملا۔ اوربان نے جارج سوروس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،''ہم میں اور آپ میں بس ایک ہی فرق ہے، آپ مہاجرین کو قبول کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے۔'' اس سے قبل بھی مسٹر اوربان نے مہاجرین کے خلاف اپنی نفرت کا جابجا اظہار کیا۔

ایک موقع پر موصوف نے کہا،''ہم اپنی معیشت کا پہیا چلانے، آبادی میں توازن لانے اور اچھے مستقبل کے لیے، مہاجرین کے محتاج نہیں۔ مہاجرین ہمارا حل نہیں بلکہ مسئلہ ہیں یہ علاج نہیں، زہر ہیں۔'' انھوں نے ایک اور موقع پر کہا،''تمام دہشت گرد اصل میں مہاجر ہی تھے۔'' مزید فرماتے ہیں،''مہاجرین کی صورت میں ہم محض دہشت گردی اور جرائم درآمد کریں گے۔'' کٹر نظریات کے حامل اوربان کئی بار مہاجرین کو ''مسلم حملہ آور'' بھی قرار دے چکے ہیں۔ مہاجرین اور جارج سوروس کے خلاف گزشتہ دنوں حکومتِ ہنگری کی جانب سے فیس بک پر مہم چلائی گئی، جس میں شامل ویڈیوز کو نفرت انگیزمواد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے فیس بک انتظامیہ نے ہٹا دیا۔

یو این ایچ سی آر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہنگری میں جن مہاجرین کا داخلہ روکا گیا، ان میں70 فی صد افغان، 74 فی صد عراقی اور 60 فی صد شامی مہاجرین تھے۔ اب اینٹی سوروس بل کی منظوری کے بعد مہاجرین پر مزید کون سے ستم ڈھائے جائیں گے!! یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔افسوس کہ ہنگری میں انسانی اخلاقیات اس قدر معدوم ہوچکی ہیں کہ کیا بعید اب کی بار یہیں سے چنگیز اٹھیں اور نازی جنم لیں۔ لیکن دعا ہے کہ جارج سوروس کا فلسفہ ہی امر ہو جس میں وہ کہتے ہیںکہ'' وکٹراوربان کا منصوبہ سرحدوں کا تحفظ ہے جس کی راہ میں مہاجرین رکاوٹ ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ مہاجرین کا تحفظ کریں جس کے لیے یہ سرحدی باڑیں بڑی رکاوٹ ہیں''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں