معاشی صورتحال توجہ کی متقاضی
ملک میں امن ہوگا تو معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں۔
ملک میں انتخابی تیاریوں کے بدلتے تناظر میں اقتصادی اور معاشی صورتحال کو درپیش منظر نامہ بھی زیر غور لایا جارہا ہے جب کہ معاشی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ معیشت کے حوالہ سے قیاس آرائیوں اور غیر مصدقہ اطلاعات اور افواہیں گردش میں ہیں جنھیں نگراں حکومت بلاتاخیر اپنی ترجیحات کا حصہ بنائے ۔ قوم کے سامنے معیشت کی حقیقی تصویر رکھی جانی چاہیے اور معاشی زمینی حقائق کا جو بھی لمحہ حاضر ہے وہ نگراں سیٹ اپ کے لیے قابل ادراک اور ٹھوس اقدامات کے حوالہ سے فوری ازالہ کا متقاضی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں پیشگوئی یہ کی ہے کہ آئندہ مالی سال ملکی معاشی شرح نمو پانچ فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے، معیشت کی سست روی کے باعث پاکستان کوآئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہوگا، پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا بھی سامنا ہے، ادھر یہ خبر بھی ہے کہ نگراں حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام پر مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، تاہم عالمی مالیاتی فنڈ سے معمول کے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے اور رواں ماہ جون کے آخر میں مالیاتی فنڈ کے آرٹیکلIV کے تحت روٹین کے صلاح مشورے ہوںگے جو فنڈ کے قواعد وضوابط کے تحت اس کی عالمی اقتصادی مانیٹرنگ کی ذمے داریوں کا لازمی حصہ ہیں جن کی روشنی میں دنیا کے 189 رکن ممالک کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
اقتصادی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے پالیسی مذاکرات کی بات کا اندیشہ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے اس انتباہ کا نتیجہ سمجھا جا رہا تھا جس میں انھوں نے نگراں حکومت سے کہا تھا کہ وہ معیشت کے حوالہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے پالیسی معاہدہ اور مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں رکھتی، اس کا کام شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنا ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ نگراں حکومت نے بھی بروقت وضاحت کر دی ہے کہ وہ مالیاتی فنڈ سے کسی قسم کا بیل آؤٹ لینے کا ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ایسی کوئی بات چیت اس ضمن میں ہو گی۔
ادھر عالمی بینک نے گلوبل اکنامک آؤٹ لک جاری کی ہے، اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ چودہ ارب ڈالر ہو گیا جب کہ تجارتی خسارے کا حجم پچیس ارب ڈالر تک ہے، بینک نے یہ بھی پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان کو معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہو گا، گزشتہ دو برس میں لیگی حکومت کی پالیسیوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے اثرات کو زائل کر دیا۔
غیر ملکی ماہرین معاشی صورتحال کے باعث پاکستان کے آئی ایم ایف کے در پر جانے کی مسلسل پیشگوئی کر رہے ہیں۔ دریں اثنا جمعہ کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اوردیگربین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کے مل کرکام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا 25 واں اجلاس نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی زیر صدارت جمعے کو وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں وزیر دفاع و خارجہ عبداﷲ حسین ہارون، وزیر خزانہ شمشاد اختر، وزیر داخلہ محمد اعظم خان، وزیر قانون، اطلاعات و نشریات سید علی ظفر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و فوجی حکام نے شرکت کی، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس فریم ورک کے تحت ملک کی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے حوالے سے کیے گئے مختلف اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اجلاس میں اب تک کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
واضح رہے ایکشن کمیٹی پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا انتباہ دے چکی تھی، فنانشل ٹاسک ایکشن کمیٹی ملکی اقتصادیات کے لیے ایک لٹکتی تلوار ہے جس سے بچنے کے لیے سلامتی کمیٹی نے صائب پیشرفت کی ہے، معیشت کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے، معاشی بہتری بھی ہوئی ہے، مثلاً سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی کپاس کی فصل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر علاقوں میں قلت آب سے فصل کم بھی ہوئی۔
اسی طرح لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضے، ماحولیات کی ابتری، خشک سالی کا خطرہ اور مہنگائی سمیت بیروزگاری اور جرائم مین اضافہ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ امن وامان کی بہتری ناگزیر اہداف ہیں، ملک میں امن ہوگا تو معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کے آپریشن کے نتیجہ میں بدامنی اور دہشتگردی کا گراف نیچے گرا ہے مگر معاشی صورتحال پر نگراں انتظامیہ کو کثیر جہتی مستعدی اور نتیجہ خیز حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ملکی معیشت کے خلاف ہونے والی قیاس آرائیوں کا مکمل سدباب ہو سکے۔
صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے بارے میں پیشگوئی یہ کی ہے کہ آئندہ مالی سال ملکی معاشی شرح نمو پانچ فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے، معیشت کی سست روی کے باعث پاکستان کوآئی ایم ایف سے مزید قرض لینا ہوگا، پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا بھی سامنا ہے، ادھر یہ خبر بھی ہے کہ نگراں حکومت آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام پر مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، تاہم عالمی مالیاتی فنڈ سے معمول کے مذاکرات جاری رکھے جائیں گے اور رواں ماہ جون کے آخر میں مالیاتی فنڈ کے آرٹیکلIV کے تحت روٹین کے صلاح مشورے ہوںگے جو فنڈ کے قواعد وضوابط کے تحت اس کی عالمی اقتصادی مانیٹرنگ کی ذمے داریوں کا لازمی حصہ ہیں جن کی روشنی میں دنیا کے 189 رکن ممالک کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
اقتصادی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے پالیسی مذاکرات کی بات کا اندیشہ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے اس انتباہ کا نتیجہ سمجھا جا رہا تھا جس میں انھوں نے نگراں حکومت سے کہا تھا کہ وہ معیشت کے حوالہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے پالیسی معاہدہ اور مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں رکھتی، اس کا کام شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی معاونت کرنا ہے، یہ خوش آئند بات ہے کہ نگراں حکومت نے بھی بروقت وضاحت کر دی ہے کہ وہ مالیاتی فنڈ سے کسی قسم کا بیل آؤٹ لینے کا ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ایسی کوئی بات چیت اس ضمن میں ہو گی۔
ادھر عالمی بینک نے گلوبل اکنامک آؤٹ لک جاری کی ہے، اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ چودہ ارب ڈالر ہو گیا جب کہ تجارتی خسارے کا حجم پچیس ارب ڈالر تک ہے، بینک نے یہ بھی پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان کو معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہو گا، گزشتہ دو برس میں لیگی حکومت کی پالیسیوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے اثرات کو زائل کر دیا۔
غیر ملکی ماہرین معاشی صورتحال کے باعث پاکستان کے آئی ایم ایف کے در پر جانے کی مسلسل پیشگوئی کر رہے ہیں۔ دریں اثنا جمعہ کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مشترکہ اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اوردیگربین الاقوامی اداروں کے ساتھ پاکستان کے مل کرکام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا 25 واں اجلاس نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کی زیر صدارت جمعے کو وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں وزیر دفاع و خارجہ عبداﷲ حسین ہارون، وزیر خزانہ شمشاد اختر، وزیر داخلہ محمد اعظم خان، وزیر قانون، اطلاعات و نشریات سید علی ظفر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور سینئر سول و فوجی حکام نے شرکت کی، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس فریم ورک کے تحت ملک کی بین الاقوامی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے حوالے سے کیے گئے مختلف اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اجلاس میں اب تک کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
واضح رہے ایکشن کمیٹی پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا انتباہ دے چکی تھی، فنانشل ٹاسک ایکشن کمیٹی ملکی اقتصادیات کے لیے ایک لٹکتی تلوار ہے جس سے بچنے کے لیے سلامتی کمیٹی نے صائب پیشرفت کی ہے، معیشت کو کئی داخلی اور خارجی چیلنجز کا سامنا ہے، معاشی بہتری بھی ہوئی ہے، مثلاً سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی کپاس کی فصل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ دیگر علاقوں میں قلت آب سے فصل کم بھی ہوئی۔
اسی طرح لوڈ شیڈنگ، گردشی قرضے، ماحولیات کی ابتری، خشک سالی کا خطرہ اور مہنگائی سمیت بیروزگاری اور جرائم مین اضافہ کی روک تھام کے ساتھ ساتھ امن وامان کی بہتری ناگزیر اہداف ہیں، ملک میں امن ہوگا تو معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کے آپریشن کے نتیجہ میں بدامنی اور دہشتگردی کا گراف نیچے گرا ہے مگر معاشی صورتحال پر نگراں انتظامیہ کو کثیر جہتی مستعدی اور نتیجہ خیز حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ملکی معیشت کے خلاف ہونے والی قیاس آرائیوں کا مکمل سدباب ہو سکے۔