تزکیہ نفس رمضان المبارک اور ہم
ہمارے معاشرے میں منافقت، کھردرا پن، تلخی، جھوٹ اوربہتان سب سے آسان کام بن چکا جسے کچھ نہیں آتا وہ اس پر ہاتھ ڈالتا ہے.
کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کسی بستی کا امتحان لینا مقصود ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھنا چاہیے۔ اگر اس مہینے میں کچھ تقویٰ، خوف خدا، نیکی کے ابھار کے جذبات نظر آئیں تو سمجھیں ابھی ان میں اسلام کی رمق زندہ ہے، اگرچہ ہماری کچھ بداعمالیوں اور معمولات زندگی میں در آنے والی متعدد بدعات کے سبب ماہ صیام کا استقبال و اہتمام اس کے شایان شان نہیں ہوتا اور ایک مسلمان پر ماہ رمضان کا جس قدر احترام، انتظام و خیال لازم ہے اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا جاتا۔
کون نہیں جانتا کہ رمضان یا روزہ تزکیہ نفس، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و برداشت کا مطلب بھی ہے، لیکن یہ سارے مطالب، معنی و مفہوم ہمارے ہاں کے اکثر لوگوں پر لاگو نہیں ہوتے، بالخصوص منافع خوروں اور پھل فروشوں کی من مانیاں رمضان المبارک میں اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور روز مرہ کے استعمال میں آنیوالے پھل تین گنا زیادہ قیمتوں پر فروخت ہوتے ہیں لیکن ارباب اختیار کی بے اختیاری اور عوام الناس کی بے چارگی آخری حدوں کو چھورہی ہوتی ہے، غیر ممالک میں تہواروں اور عوام کے خاص دنوں کے موقع پر اشیائے خور و نوش کے ریٹ نصف، وگرنہ بے حد کم کردیے جاتے ہیں تاکہ ہر خاص و عام ان چیزوں سے لطف اندوز ہوسکے لیکن ہمارے ہاں برسہا برس سے اس کے برعکس ہورہا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے رمضان المبارک میں پھل وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں اور اس کا سبب منافع خوری ہی ہے، گزشتہ رمضان المبارک میں منافع خوروں پر کم و بیش 3 کروڑ روپے کا جرمانہ عاید کیا، 500 منافع خوروں کو حوالات بھیجا اور 3000 چالان کیے لیکن اس کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔
امسال بدترین گرمیوں میں روزے گزررہے ہیں، طرفہ تماشا پانی، بجلی اور گیس کی قلت نے روزہ داروں سے صبر و قرار چھین لیا ہے۔ شاید اس لیے بھی ایک آدمی کا پارہ آسمان سے باتیں کررہا ہے، انتہائی معمولی باتوں پر دوسروں سے لڑنا جھگڑنا ہمارا معاشرتی چلن بن گیا، ہر دوسرا انسان چڑچڑاہٹ کا عنصر اپنے وجود میں لیے پھرتا ہے اور اپنا غصہ دوسرے پر اتارنے کو اس مقدس مہینے میں بے چین رہتا ہے حالانکہ روزہ تو صبر و برداشت کا نام بھی ہے۔ روزہ صبح سے شام تک کھانا پینا ترک کردینے کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس میں لغویات، جھوٹ اور لڑائی جھگڑوں سے بھی اجتناب برتنا چاہیے۔
افسوس اب ہمارا معاشرہ ہمدرد، رحم دل اور نرم خو لوگوں سے عاری ہوتا جارہا ہے، ہم بس خوش رہنا چاہتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ہماری مسکراہٹوں، ہماری خوشیوں یا ہمارے سکون کو غارت کرنے پر کمر بستہ دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں منافقت، کھردرا پن، تلخی، جھوٹ اور بہتان سب سے آسان کام بن چکا جسے کچھ نہیں آتا وہ اس پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ایسا کرنے والے وہی ہیں جو دوسروں کو بھلا نہیں چاہتے۔ یہ وہی ہیں جن کی تیوریاں ہر وقت چڑھی رہتی ہیں ان کے اندر احساس محرومی اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب یہ کسی اور کو ہنستا دیکھیں تو یقین کرلیتے ہیں کہ ان ہی پر ہنسا جارہا ہے، ان کے اندر برداشت کا مادہ بھی دیگر مادوں کی طرح رہ گیا ہے ان کے ملنے جلنے والے، بیوی بچے، دوست احباب محلے دار سبھی ان سے شاکی اور کتراتے ہیں اس لیے کہ ان کی آنکھیں صرف بد صورتی تلاش کرتی ہیں یہ وہ مقناطیس بن چکے ہیں جو صرف گندگی کھینچتا ہے، یہ بجا کہ معاشروں کی سمت اور اقدار یکم تبدیل نہیں ہوا کرتیں ان تبدیلیوں کے پیچھے مختلف عوامل کی ایک طویل تاریخ ہوا کرتی ہے۔
ہمارے سماج سے بھی برداشت، صبر اور تحمل آن واحد میں عنقا نہیں ہوئے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ کی ہوس اور اس کی خاطر بہرصورت طاقتور اور بارسوخ ہونے کے طمع نے ان سماجی اوصاف کا گلا دبانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور آج حالات بد سے بدتر کی صورت میں سب پر آشکارا ہیں اور معاشرے کی سدھار کے ذمے دار ہمارے ارباب اختیار ہمیشہ اس حوالے سے خاموش تماشائی بنے دکھائی دیتے ہیں۔
رمضان المبارک ایک مقدس، محترم اور مقدم مہینہ ہے، روزہ زندگی کو بھاگ دوڑ میں ٹھہر جانے اور سوچنے کا نام ہے، روزہ ایک اجتماعی منصوبہ بندی کا نام ہے، صوفی روح کی منشا کے مطابق جسم کی امنگوں کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے اور روزے دار روح کی آواز سننے کے لیے دنیا سے کٹ کر چلہ کشی کرتا ہے، روزے کی حالت میں وہ ہر وقت حاضری کی کیفیت میں ہوتا ہے، ایسی کیفیت وہ عام دنوں میں محسوس نہیں کرسکتا۔
حاضری کی یہ حالت اسے ہر لمحہ ذات کے آگے جوابدہی پر اُکساتی ہے، رب سے قربت برائیوں سے دور لے جانے میں معاون ہوتی ہے، 24 گھنٹے ایک خاص محور میں وجود کو سرشار رکھتے ہیں، یہ مہینہ روح اور جسم کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کم کرنے کا موجب بھی بنتا ہے، فکر کرنے، محبت کرنے اور دوسروں کا دکھ محسوس کرنے کی رغبت بھی رمضان المبارک کا مہینہ دیتا ہے، اس کے روحانی فضائل کے ساتھ ساتھ سائنسی ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سال میں تقریباً ایک مہینے تک دس بارہ گھنٹے بھوکا رہنے سے کینسر جیسے موذی مرض سے بچا جاسکتا ہے۔
لندن کے ایک ادارے ''ورلڈ گیونگ انڈیکس'' کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی قوم ہر سال خیراتی کاموں میں 10 ارب روپے سے زاید صرف کرتی ہے اور صرف رمضان المبارک میں 75 ارب کے لگ بھگ زکوٰۃ تقسیم کی جاتی ہے جب کہ جگہ جگہ مفت افطار دسترخوان اور لوگوں کو عید کے جوڑے دینے کے اخراجات علیحدہ ہیں، جب کہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو رمضان المبارک میں غریبوں کی مدد کرتے ہوئے حد درجہ راز داری سے کام لیتے ہیں، بعض لوگ رمضان المبارک میں عمرے کی زیارت پر بھجوانے کا اہتمام بھی لوگوں کے لیے کراتے ہیں جب کہ بیشتر لوگ غریبوں، ناداروں میں مہینہ بھر کا راشن دینے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
رمضان کو عبادت کا مہینہ بھی کہاجاتا ہے لیکن بیشتر لوگ روزہ رکھ کر گھروں اور مساجد میں سوئے نظر آتے ہیں، بعض فلمیں اور ویڈیو دیکھتے ہوئے اپنا روزہ پاس کرتے ہیں۔ مساجد میں لوگ ایئر کنڈیشن کی رفتار بڑھانے اور اس کی جالیاں اپنی جانب کرنے پر مسجد انتظامیہ سے تلخ کلامی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
روزہ نہ رکھنے والے اپنی خودساختہ بیماری کا بہانہ کرکے پورے ماہ پرتکلف افطاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں، کسی کے کام نہ آنے والے یا کسی کا کام نہ کرنیوالے ادارے کے افراد لوگوں کو ٹالنے کے لیے ہمیشہ یہ کہتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں کہ آپ کا کام رمضان میں ہرگز نہیں ہوگا، عید کے بعد ہی دیکھیںگے کہ کیا کرنا ہے یا بے فکر رہیں آپ کا کام عید کے بعد ہوجائے گا۔