جمہوریت کا دشمن کون

جمہوریت کو ملک سے دور کرنے میں ہمارے اپنے ہی سیاست دانوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔


عثمان دموہی June 10, 2018
[email protected]

ملک میں دوسری جمہوری حکومت کی مدت مکمل ہونے پر آج کل تمام پارلیمانی ارکان کو مبارکبادیں پیش کی جارہی ہیں اورکیوں نہ مبارکباد دی جائیں کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ اس دوران جمہوریت پٹری سے اترنے سے بچی رہی، لیکن ذرا سوچیے کہ ہماری جمہوریت بھی کیا چیز ہے کہ ہر وقت خطرے کی زد میں رہتی ہے۔

حالات کی بے ثباتی کا یہ عالم ہے کہ کچھ پتا نہیں کہ کس وقت جمہوریت آمریت میں ڈھل جائے لیکن ایسی کیفیت دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی تاہم ہمارے ہاں تو ہے۔ گزشتہ ستر برسوں سے دنیا یہی کھیل ہوتا دیکھ رہی ہے اس عرصے میں چار مرتبہ جمہوریت کی جگہ آمریت لے چکی ہے اور وہ بھی کافی طویل عرصے تک ملک پر جلوہ افروز رہی ہے یعنی کہ ان ستر برسوں میں تقریباً آدھی سے زیادہ مدت ملک میں آمریت کا دور دورہ رہا، یہ ملک کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں رہا، اس سے ملک کی غیرت و وقارکو بین الاقوامی سطح پر سخت دھچکا پہنچتا رہا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کو ملک سے دور کرنے میں ہمارے اپنے ہی سیاست دانوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک تمام ہی مارشل لا کے لگانے میں سیاست دان ہی مددگار رہے ہیں۔ ابھی دورکیا جایئے دو سال قبل ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے طویل ترین دھرنا دیے جانے نے ملک میں مارشل کے لیے ساز گار حالات پیدا کردیے تھے مگر بس وہ تو خیر ہی ہوگئی ورنہ پھر حسب سابق دس سالہ مارشل نافذ ہو جاتا۔

تاہم اس کی ساری ذمے داری حسب سابق سیاست دانوں پر ہی عاید ہوتی اس وقت ملک مارشل سے تو ضرور بچ گیا مگر اس وقت ملک پر جوڈیشل مارشل لا جیسی کیفیت طاری ہے اب جب ہمارے اپنے سیاست دان خود عسکری اور جوڈیشل مارشل لا کی کھلے عام فرمائش کریں تو پھر ان کی فرمائش کو ضرور پورا ہونا چاہیے جس کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ در اصل جب اپنی سیاسی گہما گہمی سے تھک جاتے ہیں یا پھر جب اپنے مفادات کو جمہوریت میں پورا ہوتا ہوا نہیں دیکھتے تو پھر جمہوریت کے دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔

حال ہی کی بات ہے ہمار ایک بزرگ زیرک اور جمہوریت سے بے حد پیار کرنے کے دعویدار سیاست دان نے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار سے ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگانے کی پرزور درخواست کی تھی مگر جمہوریت پسند چیف جسٹس صاحب نے فوراً ہی ان کی فرمائش کو رد کردیا تھا۔ اس پر شیخ رشید کو ضرور شرمندہ ہونا چاہیے تھا اوربلکہ اپنے اس غیر جمہوری عمل پر قوم سے معافی بھی مانگنا چاہیے تھی مگر انھوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا۔ تاہم آج کل ان کے چہرے سے ایسے تاثرات جھلتے نظر آتے ہیں کہ وہ موجودہ جمہوریت سے قطعی مطمئن نہیں ہیں اور اپنی خواہش کے پورا نہ ہونے پر سخت اضطراب کی حالت میں ہیں۔

شیخ رشید کی بات تو بس برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی تھی ایک شیخ صاحب ہی کیا ہمارے ہاں توکئی ایک ایسے سیاست دان ہیں جو آمریت کو جمہوریت سے لاکھ درجے بہتر سمجھتے ہیں، یہ اس لیے نہیں کہ جمہوریت خراب چیز ہے بلکہ اس لیے کہ انھیں آمریت میں وہ فوائد حاصل ہوجاتے ہیں جن کا جمہوریت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ملک میں پرویز مشرف کا مارشل لا کافی طویل رہا وہ تقریباً ساڑھے دس سال تک ملک پر ایک بادشاہ کی طرح حکومت کرتے رہے اور ملک کے کتنے ہی سیاست دان ان کی حکومت کو دوام بخشنے میں پیش پیش رہے، اب ان تمام کا کیا ذکر کریں ان میں سے کچھ تو آج کل انتہائی معتبرجمہوریت نواز گردانے جارہے ہیں وہ اپنے گریبانوں میں جھانکے بغیر خود کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دے رہ ہیں اور ہمارے عوام بھی اتنے بھولے ہیں کہ پرانی باتوں کو جلد بھول جاتے ہیں کیا لوگ مشرف کے ایک مددگار سیاست دان کا یہ زریں قول بھی بھول گئے کہ اگر مشرف سو مرتبہ بھی وردی کے ساتھ الیکشن لڑیںگے تو بھی وہ انھیں کامیاب کروائیں گے۔

اس وقت ایسے ہی سیاست دان ان حالیہ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا پروگرام بناچکے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے چنانچہ ان کے لیے الیکشن میں کچھ سیٹیں جتینا کوئی مشکل بات نہیں ہے پھر جمہوریت میں انتخابات جیتنے کے لیے پیسے کا استعمال کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ یہ طریقہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں تقریباً تمام ہی جمہوری ممالک میں رائج ہے اور اسے شاید جاری بھی رہنا چاہیے اس لیے کہ اس سے کم سے کم غریبوں کا تو ضرور کچھ بھلا ہوجاتا ہے ورنہ ان بے چاروں کو کون پوچھتا ہے ان کے تو حقیقی مسائل کی جانب بھی کوئی توجہ نہیں دیتا۔

در اصل ہوتا یہ ہے کہ الیکشن کے بعد پھر بھی کوئی فاتح سیاست دان اپنے حلقے کے ووٹرزکی حالت معلوم کرنے کے لیے وہاں کا رخ نہیں کرتا۔ اس وقت ملک میں خیر سے نگراں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں مگر پنجاب اور کے پی کے میں نگراں وزرائے اعلیٰ کے ناموں کے انتخاب کے سلسلے میں عجیب کیفیت طاری رہی ہے، پی ٹی آئی نے اس چھوٹے سے مسئلے میں کئی یوٹرن لے کر فیصلہ سازی میں اپنی نا اہلی ظاہر کردی ہے کچھ لوگوں کا کہناہے کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد کے ذریعے الیکشن کو ایک ماہ کے لیے آگے بڑھانے، پی ٹی آئی کے نگراں وزرائے اعلیٰ کے ناموں کے سلسلے میں دیر لگانے اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں نامزدگی کے فارم میں ترامیم کرنے کی ہدایات در اصل ایک ہی سلسلے کی کڑیاں تھیں جن کا در پردہ مقصد انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کہا جاسکتا ہے ۔

اس سے لگتا ہے کہ بعض قوتیں ملک میں اب بھی جمہوریت کا چراغ گل کرنے کے درپے ہیں مگر چیف جسٹس آف پاکستان اور نگراں وزیراعظم کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیںگے اب ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً ڈیڑھ مہینہ باقی رہ گیا ہے، پورے ملک میں انتخابی ہلچل مچی ہوئی ہے ملک کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی میں بھی سیاسی افطار پارٹیاں زور و شور سے جاری ہیں۔

کراچی میں سب سے بڑی افطار پارٹی کا اہتمام پاک سرزمین پارٹی نے کیا تھا اس میں شہر کے ہر مکتبہ فکر اور تمام طبقات کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی اس افطار پارٹی نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ پی ایس پی اپنی صرف دو سالہ جد وجہد کے ذریعے کراچی کے عوام کے دلوں کو جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے ،ادھر ایم کیو ایم پاکستان کی بھی افطار پارٹیاں جاری ہیں مگر اس کے دو دھڑوں میں منقسم ہونے کی وجہ سے سارا مزا پھیکا ہوگیا ہے اس وقت پی آئی بی اور بہادر آباد والے اپنی اپنی الگ افطار پارٹیاں منعقد کرکے مہاجروں کو اپن جانب متوجہ کررہے ہیں۔

اس صورتحال نے حقیقتاً مہاجروں کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، فاروق ستار اب اس نازک وقت میں بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں، اب جب کہ الیکشن سر پر آچکے ہیں انھیں اپنی انا کو ختم کرکے بہادر آباد والوں کی شرائط کو قبول کرلینا چاہیے، وہ الیکشن کے بائیکاٹ کی باتیں کررہے ہیں اس سے وہ لندن والوں کے بائیکاٹ کی مہم کو تقویت پہنچانے کا موجب بن رہے ہیں، تاہم بہادر آباد والوں کا لندن کے بائیکاٹ کے ذریعے انتخابی عمل کو نقصان پہنچانے کی مہم کا ساتھ نہ دینا خوش آئند ہے۔ بہر حال ایم کیو ایم پاکستان کے انتشار کا مہاجر گہرا اثر لے رہے ہیں اور اس کا بہرحال پی ایس پی کو فائدہ پہنچتا نظر آرہا ہے۔

اس دفعہ کراچی میں پی ایس پی اور تحریک انصاف کے ٹکٹوں کے حصول کے لیے لوگوں کی کافی بھیڑ دیکھی گئی ہے۔ بد قسمتی سے پی ٹی آئی میں من پسند لوگوں کو ٹکٹ دیے جانے کی وجہ سے پرانے ممبران میں کافی اشتعال پایاجاتا ہے انھوں نے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے انصاف ہاؤس میں کافی توڑ پھوڑ بھی کی ہے ۔ ادھر پی ٹی آئی میں داخل ہونے والے ایک نامور اینکر ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے تحریک انصاف کی کراچی کی قیادت سے سخت ناراض ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں