خدا دوست ایک اہم کتاب
تبلیغ دین اور اپنے کشف کرامات کی بدولت بے شمار لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔
پروفیسر خیال آفاقی فکشن کے اعتبار سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں، انھوں نے افسانے لکھے، ناول لکھے اور ناول نگاری میں انھوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ گزرے برس ان کی ایک اہم ترین کتاب ''رسول اعظم'' کے عنوان سے شایع ہوئی، جیساکہ نام سے ظاہر ہے یہ ضخیم ترین کتاب حضور پاکؐ کی حیات طیبہ اور سیرت پاک پر روشنی ڈالتی ہے، عاشقان رسولؐ نے مصنف کی تحریر اور سادگی بیان کو بے حد سراہا اور اب جو حال ہی میں کتاب مجھے موصول ہوئی ہے اس کا نام ہے ''خدا دوست''۔
یہ سوانح ہے صوفی بزرگ اور اللہ کے ولی حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین نقشبندی مجددی کی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ہم اس وقت کاروان محبت کے ایک راہ رو گروہ پاک نفساں کے ایک رکن شیخ صوفی علاؤ الدین نقشبندی مجددی کے حالات زندگی پیش کرنے جا رہے ہیں۔ انھوں نے ولایت اور تصوف کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ولایت کی صحیح تعریف اور تصوف کے صحیح تصور سے آگاہی کے بغیر کسی ولی اور صوفی کے صحیح خدوخال سے آشنائی ممکن نہیں۔
عظیم مذہبی اسکالر اور مفکر و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد ان بندگان خدا کا تعارف کچھ اس طرح کراتے ہیں کہ ''قرآن حکیم نے بتیس (32) سے زیادہ مقامات پر ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے دلوں کو حق کے قبول کے لیے مستعد کرلیا، جو اپنی تمام قوتوں اور تمام جذبوں سے اللہ اور اس کی صداقت کو چاہنے والی اور پیار کرنے والی ہے اور اسی لیے اللہ نے بھی اسے اپنا دوست اور ساتھی بنالیا ہے۔ اس جماعت کو اولیا اللہ کے لقب سے پکارا گیا، یعنی وہ خدا کے دوست ہیں اور اس کے چاہنے والوں کے گروہ میں شامل ہیں۔
پروفیسر خیال آفاقی نے ولایت اور تصوف کے حوالے سے مفصل بحث کی ہے اور پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کے بارے میں بتایا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے کس طرح تسکین روح کا سامان پیدا کرتے ہیں، تصوف کے بارے میں کہتے ہیں کہ تصوف روحانی علم کا نام ہے، اس علم کے ذریعے بندہ اپنے خالق کا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے، اس امر میں کسی تحقیق کی گنجائش نہیں کہ اسلامی تصوف قرآن و حدیث، سنت نبویؐ سے ماخوذ ہے۔ اس کے بعد قرار دل اور عبادت کے لیے مختلف طریقوں سے بھی غیر مسلموں نے رائج کیے ہیں اپنے علم اور اپنے مذہبی افکار و کتب کی بدولت، مثال کے طور پر ہندی یوگا، تبتی یوگا، عیسوی رہبانیت اور ان کے اصول و ضوابط بتائے گئے ہیں کہ غصے اور نفرت سے دوری اور اپنے اقوال میں پاکیزگی کا ہونا ضروری ہے۔
اللہ کے ولیوں نے ہر اس جگہ پر، جہاں کفر و تاریکی کی دبیز چادر تنی تھی، وہاں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ برصغیر میں چاروں طرف مزارات اور خانقاہیں موجود ہیں، لاہور کے گنج بخش، پاک پتن کے فرید الدین گنج شکرؒ، اجمیر کے غریب نواز، دکن کے گیسو دراز اور سلہٹ کے خواجہ جلالؒ، سیہون شریف کے لعل شہباز قلندر۔ ان سب بزرگان دین نے ظلم و بربریت کے اندھیروں سے مخلوق خدا کو بچایا۔
تبلیغ دین اور اپنے کشف کرامات کی بدولت بے شمار لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ اسی کتاب میں شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کا تاریخی واقعہ بھی درج ہے، جب اس نے اپنے وقت کے قلندر شیخ سلیم چشتی کی خانقاہ میں حاضری دی اور بیٹے کی خواہش کی کہ وہ صوفی اس کے لیے دعا کریں کہ اللہ اسے وارث عطا کرے۔ جلال الدین جو ننگے پیر چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے سنگ ریزوں پر چلتا ہوا آیا تھا، اس کی منت سماجت کے بعد فقیر کی دعا اس شکل میں قبول ہوئی کہ بادشاہ کو خوشخبری سننے کو ملی اور اللہ کے ولی شیخ سلیم چشتی کا اکلوتا بیٹا اللہ کو پیارا ہوگیا۔
صوفی بزرگ نے یہی دعا اس وقت کی تھی جب بزرگ کو اس بات کا پتا چل گیا تھا کہ بادشاہ کی قسمت میں اولاد نہیں ہے، تب انھوں نے اپنے بیٹے کے بدلے بادشاہ کو صاحب اولاد بنانے کے لیے اللہ کے حضور میں درخواست کی تھی اور قربانی پیش کی تھی۔
حضرت شیخ علاؤ الدین نقشبندی کی ولادت ایسے خاندان میں ہوئی کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی اولاد بیٹے کی شکل میں عنایت کی تھی، پورا خاندان، گاؤں کے لوگ اور خصوصاً دادا کی خوشی دیدنی تھی، یہ خوبصورت بچہ سب کی توجہ کا مرکز تھا، بہت جلد اس مقام پر آگیا جب رسم بسم اللہ ہوئی اور اپنے استاد حافظ جی کو تعریف کرنے پر مجبور کردیا، جلد ہی قرآن پاک ختم کرلیا، بے حد ذہین اور فطین، تعلیمی مراحل بخیر و خوبی انجام دیے، نماز روزے کی پابندی بچپن ہی سے کرتے آئے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ عبادات الٰہی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اسلامی کتب کے علاوہ ہندومت کی کتابیں بھی پڑھ ڈالیں۔ مدلل گفتگو فرماتے اور بڑے بڑے علما کو لاجواب کردیتے، ہر وقت دل اللہ کی یاد میں غرق رہتا۔ وقت گزرتا گیا اور شادی کے دن قریب آگئے۔
شادی کے لیے جس لڑکی کا انتخاب کیا گیا وہ شیخ عبدالحفیظ کی صاحبزادی اصغری بانو تھیں، جو شاہ گنج کی حویلی سے بیاہ کر آئی تھیں۔ دونوں میاں بیوی کی محبت مثالی تھی۔ صوفی علاؤ الدین کی منکوحہ نیک سیرت اور خدا ترس خاتون اور اللہ والی اور عبادت گزار تھیں، صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتی تھیں اور ضرورت مندوں کا کام آنا اپنا فرض اور تسکین روح کا باعث سمجھتی تھیں۔
صوفی علاؤ الدین نقشبندی کو اللہ والوں سے قلبی لگاؤ تھا، وہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر کسب فیض حاصل کرنا چاہتے تھے، اسی طلب میں وہ مزارات اور روحانی شخصیات قلندر اور فقیروں کی چوکھٹ پر حاضری دیتے، انھی میں ایک ہینگ والے بابا بھی تھے۔ ایک بار وہ اس کے ساتھ ہولیے، حضرت شیخ علاؤ الدین نے بہت سے کمالات دیکھے، حیرت انگیز کرشمات نظر آئے، وہ مجذوب چلتے چلتے پلٹا اور پوچھا کیوں میرے پیچھے آرہا ہے تو؟ کیا چاہتا ہے، بول کیا چاہیے؟
یہ کہہ کر میلے کچیلے پھٹے، پرانے کوٹ کی بڑی بڑی جیبوں سے مختلف ممالک کے سکے نکال نکال کر مسجد کے فرش پر پھینکنے شروع کردیے، یہ لے، یہ لے، اٹھا، اٹھا ان سب کو، انھوں نے دیکھا ان سکوں میں جہاں اس وقت کے بہت سے ممالک کے سکے تھے، وہیں ایک سکہ ایسا بھی تھا جس پر چاند ستارا بنا ہوا تھا اور پاکستان لکھا تھا۔ یہ بات اس وقت کی ہے جب یہ ملک اور یہ لفظ وجود میں نہیں آیا تھا۔
حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین دل کی دنیا روشن کرنے اور سالکین کا قرب حاصل کرنے کے لیے بزرگوں کے آستانوں اور مساجد و مکاتب کا رخ کرتے، جہاں کسی اللہ والے کو پاتے یا نام سنتے تو فوراً حاضر خدمت ہوتے۔ ان کے روحانی اتالیق نے ان کی بے قراری، بے چینی اور اللہ والوں سے ملنے کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ بہت جلد تم وہاں پہنچ جاؤ گے جس کو تمہارا انتظار ہے اور کچھ دن بعد انھیں ایک رہبر مل گیا، جس نے منزل کا پتا بتایا۔
مصنف لکھتے ہیں کہ سہارنپور کے مشہور بزرگ حضرت صوفی عبدالرحمن نقشبندی کھندولی تشریف لائے، ان کا قیام اپنے ایک مرید مولانا عبدالشکور کے گھر تھا، صوفی علاؤ الدین اچانک ہی وہاں پہنچ گئے، دروازے پر دستک دی، اس وقت حضرت صوفی عبدالرحمن نقشبندی وضو فرما رہے تھے، بے ساختہ فرمایا لو بھئی! وہ آگیا جس کا انتظار تھا۔ وہ کون، مولانا عبدالشکور نے دریافت کیا۔ وہی جس کی خاطر آج ہم یہاں آئے ہیں۔ مفتی صاحب نے مرشد کو جواب دیا۔
حضرت صوفی نے آنے والے کے سلام کا جواب نہ کہ محبت اور گرم جوشی سے دیا بلکہ اپنے گلے سے بھی لگایا اور اپنا گیلا اور ٹھنڈا ہاتھ آپ کی پیشانی پر رکھ دیا۔ بے قرار کو قرار آگیا، گویا مسافر کو منزل مل گئی اور اسی وقت بیعت کا مرحلہ طے ہوا اور روحانیت کا باب کھل گیا۔
شیخ صوفی علاؤ الدین نقشبندی اپنے حصے کا کام کرکے 87 سال کی عمر میں 14 ہجری کی یکم ذیقعد کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور خدا دوست کے مصنف پروفیسر خیال آفاقی کے والد صاحب کی یہ سوانح حیات ہے، یعنی حضرت شیخ صوفی علاؤ الدین نقشبندی مجددیؒ کے حالات زندگی ان کے بیٹے نے اپنا فرض جان کر لکھے۔