مہنگائی روکنے میں ناکامی کیوں
مارکیٹوں میں ریڑھی والے ہر پھل کا ڈبل نرخ بتاتے ہیں اور جہاں گاہک پھنسے وہ پھنسالیتے ہیں۔
رمضان المبارک میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ عوام کا ایک اہم مسئلہ چلا آرہا ہے اور پاکستان بدقسمتی سے واحد ملک ہے جہاں رمضان کو مالی کمائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے جب کہ دیگر ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرورت کے نرخ کم کردیے جاتے ہیں اور عوام کو مراعات بھی دی جاتی ہیں جب کہ پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں خصوصاً بلکہ اب تو کئی برسوں سے رمضان کی آمد سے قبل ہی رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں اور بعض اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کردی جاتی ہے۔
حکومت کی ہدایت پر ہر ضلع میں مہنگائی روکنے کے لیے اجلاس طلب کیے جاتے ہیں۔ تاجروں اور شہریوں کے اجلاس میں رمضان میں اشیائے ضرورت کے سرکاری نرخ مقرر کیے جاتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں کے نرخ ناموں کی فہرستیں بازاروں اور مارکیٹوںمیں قیمتاً فراہم کی جاتی ہیں اور سرکاری افسران ہر بار بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ رمضان میں گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور سرکاری نرخوں کے مطابق اشیاء فروخت نہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ضلعی نظام سے قبل ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں اور مختار کاروں کو مجسٹریسی اختیارات حاصل ہوتے تھے اور وہ گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کیا کرتے تھے۔
ضلعی حکومتوں کے خاتمے کے بعد کمشنری نظام تو بحال ہوگیا مگر ڈپٹی کمشنر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، اسسٹنٹ کمشنروں کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کاروں کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات اب تک تفویض نہیں ہوسکے ہیں البتہ رمضان میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنروں کو مجسٹریسی اختیارات دیے جاتے ہیں جو محدود افسروں کو حاصل ہوتے ہیں اور سرکاری مجسٹریٹوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہوچکا ہے اور ہر سب ڈویژن میں مارکیٹیں اور بازار اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے لیے ناممکن ہے کہ وہ روزانہ ہر علاقے میں جا کر گراں فروشوں پر چھاپے مار سکے۔
دوپہر کے بعد مغرب تک چند گھنٹوں میں ایک اسسٹنٹ کمشنر ایک بازار یا بڑی مارکیٹ ہی کور نہیں کرسکتا۔ جب کہ جگہ جگہ پھل فروشوں نے دس بیس کی تعداد میں ریڑھیاں کھڑی کرکے اپنی منی مارکیٹیں بنالی ہیں۔ شہر میں سڑکوں اور راستوں پر بائیں طرف ریڑھیاں کھڑی کرکے کاروبار کرنے کا رجحان کراچی میں خاص طور پر بہت بڑھ رہا ہے جہاں منہ مانگے داموں پھل فروخت کیے جاتے ہیں، جنھیں لینڈ ڈپارٹمنٹ اور علاقہ پولیس کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ان خود ساختہ مارکیٹوں میں ریڑھی والے ہر پھل کا ڈبل نرخ بتاتے ہیں اور جہاں گاہک پھنسے وہ پھنسالیتے ہیں۔ ان ریڑھی والوں نے باہمی ملی بھگت سے ایک جیسے نرخ مقرر کیے ہوتے ہیں جن کے نرخ کوئی چیک نہیں کرتا۔ اوّل تو ایسی جگہوں پر رمضان میں بھی کوئی ان کے نرخ چیک نہیں کرتا اور اگر کوئی چیک کرنے آجائے تو ریڑھیاں غائب ہوجاتی ہیں۔
رمضان میں جن افسروں کی نرخ چیک اور قیمتیں کنٹرول کرنے کی ذمے داری ہوتی ہے وہ چونکہ مہنگائی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے کیونکہ ان کا ماتحت عملہ گراں فروشوں کو صاحب کے نام پر ویسے ہی ڈرا دھمکا کر مفت میں یا برائے نام قیمت پر اشیاء خریدنے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس لیے صاحب موصوف کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ آٹے، دال، سبزی، گوشت اور پھلوں کا بھائو کیا ہے، البتہ انھیں سرکاری ڈیوٹی نبھانی ہوتی ہے۔ اس لیے عموماً عصر کے بعد نرخوں کے چیک کے لیے نکلتے ہیں اور جرمانے کرکے سرکاری ریکارڈ بنالیتے ہیں۔
اس دکھاوے کی کارروائی کا مقصد تشہیر حاصل کرنا زیادہ ہوتا ہے۔ سندھ میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی رمضان میں کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کے 20 اضلاع میں ایک روز میں صرف 625 گراں فروشوں کے خلاف سرکاری کارروائی کی گئی جن میں 58 کو جیل بھیجا گیا اور صرف 515410/- روپے گراں فروشوں سے جرمانہ وصول کیا گیا۔ اگر چھاپے مارنے والے سنجیدہ اور عوام سے مخلص ہوتے تو کراچی کے صرف ایک ضلع سے ہی اس سے کئی زاید گنا جرمانہ وصول کیا جاسکتا تھا اور سیکڑوں گراں فروش گرفت میں آسکتے تھے۔
گراں فروشوں کے خلاف حکومتی کارروائی مجسٹریٹوں کی طرف سے جرمانوں اور بعض کی گرفتاری تک محدود ہوتی ہے۔ جب کہیں چھاپہ لگتا ہے تو سرکاری نرخ نامے بھی آویزاں ہوجاتے ہیں اور نرخ بھی مقررہ وصول ہونے لگتے ہیں اور عوام کو سرکاری نرخوں پر عارضی طور پر اشیاء دستیاب ہونے لگتی ہیں تو مجسٹریٹ لوگوں سے نرخ معلوم کرکے گراں فروشوں پر جرمانے کرکے چلے جاتے ہیں، جس کے بعد نرخ نامہ پھر چھپا کر من مانے نرخوں پر گراں فروشی مزید بڑھادی جاتی ہے کیونکہ جرمانے کی ادا کی گئی رقم عوام سے ہی وصول کرنا ہوتی ہے۔
جرمانے کی رقم سرکاری خزانے میں جا کر حکومتی آمدنی بڑھ جاتی ہے مگر عوام کو کچھ نہیں ملتا اور عوام کو چھاپوں کے بعد مزید مہنگی اشیاء خریدنا پڑتی ہیں۔ گراں فروشی کا سبب ریٹیلرز ہول سیل مارکیٹوں کو قرار دیتے ہیں اور عوام کو اپنی مجبوری بتاتے ہیں کہ انھیں آڑھتیوں اور ہول سیلرز سے مہنگا مال ملتا ہے تو وہ سستا مال کیسے فروخت کریں جس پر عوام بھی چھاپوں کے وقت ان گراں فروشوں کی حمایت کرتے ہیں اور حکومت سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ ہول سیل مارکیٹوں پر قیمتوں پر کنٹرول کیوں نہیں کرتی۔
اس جواز میں کچھ حقیقت بھی ہے مگر یہ بھی عام دیکھا جاتا ہے کہ رمضان کے علاوہ ان گراں فروشوں کے صبح اور شام کے نرخوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے اور گراں فروش خود آوازیں لگاتے ہیں کہ ہوگئی شام گر گئے دام۔ شہروں میں ریڑھی پر مال فروخت کرنے والوں اورمارکیٹوں کے نرخوں میں بھی کافی فرق ہوتا ہے، مگر ان لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور اعلیٰ سطح کے بعد اب نچلی سطح پر بھی قانون کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ ہر شخص دوسرے کو لوٹنے میں لگا ہوا ہے اور انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے جو کام حکومت کا ہے وہ حکومت نہیں کررہی۔ گراں فروشی روکنے والا عملہ اس سلسلے میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں سنجیدہ اور عوام سے مخلص نہیں، اس لیے ہر سال گراں فروشی روکنے کے لیے دِکھاوے کی تشہیری کارروائی ہوتی اور ہوتا کچھ نہیں اور رمضان گرانی سے کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔