ہماری وزارت اعلیٰ
نگران حکومتوں کے معاملے پر سابقہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کھٹ پٹ چلتی رہی۔
نگران وزراء اعلیٰ کا معاملہ بھی بالآخر طے پا ہی گیا اور اب تما م صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں اور آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کی نگرانی کا اپنا اصل کام انجام دے رہی ہیں۔
نگران حکومتوں کے معاملے پر سابقہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کھٹ پٹ چلتی رہی، وفاق اور دو صوبوں میں تو باہمی اتفاق رائے سے معاملات طے پا گئے لیکن صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے وزراء اعلیٰ کا انتخاب الیکشن کمیشن تک پہنچ گیا جنھوں نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دونوں وزراء اعلیٰ کا تقرر کر دیا۔
صوبہ پنجاب کے لیے قرعہ ہمارے دوست حسن عسکری رضوی کے نام نکلا جب کہ علاؤالدین مری نے بلوچستان کا عہدہ سنبھال لیا۔ پنجاب جہاں پر نواز لیگ گزشتہ دس برسوں سے اقتدار میں رہی ان کی لیڈر شپ نے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ جناب حسن عسکری نواز لیگ کے خلاف تنقیدی رویہ رکھتے ہیں اس لیے وہ غیر جانبدار انتخابات نہیں کرا پائیں گے، اس کے علاوہ وہ اپنے تجزیوں میں الیکشن ملتوی ہونے کے حق میں بھی دلائل دیتے رہے ہیں۔ جب کہ اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو سابقہ الیکشن میں نواز لیگ نے ہمارے صحافی دوست نجم سیٹھی کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا جن پر الیکشن کے بعد مبینہ طور پر تحریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات بھی لگائے۔
جناب سیٹھی میاں صاحبان کے قریبی آدمی رہے ہیں ان کا اور جناب حسن عسکری کا موازنہ کسی طور بھی درست نہیں۔ پروفیسر حسن عسکری فلاسفی کے بادشاہ، اسکالر، نرم خو و نرم دل اور مرنج مرنجان علمی شخصیت کے مالک ہیں، دنیا بھر میں ایک استاد کے طور پر ان کا ایک منفرد مقام ہے ان کے لیے نواز لیگ کی جانب سے جانبداری کا الزام سن کر دلی دکھ ہوا۔ گو کہ پروفیسر صاحب کو تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تھا لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ حسن عسکری صاحب مکمل طور شفاف انتخابات کرائیں گے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم صاف ستھری سیاست اور سیاستدانوں کے عادی نہیں رہے اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو ہر ایک اپنے جیسا ہی لگتا ہے اور ہم اس شعر کی تفسیر بن گئے ہیں کہ
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
نگران حکمران کا کام صرف اور صرف الیکشن کا انعقاد کرا کے حکومت آنے والے منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے چلے جانا ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسا حکمران ہوتا ہے جسے ابھی اقتدار کی ہوا بھی لگنی شروع نہیں ہوتی کہ وہ چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی میں نگران حکمرانوں کی اس قدر قلت رہی کہ دو ایک دفعہ تو ہمیں غیر ملک سے وزیر اعظم امپورٹ بھی کرنے پڑ گئے اور ان درآمد کردہ نگران حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ اپنے مختصر عرصہ حکمرانی میں جو کھلواڑ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ دراصل وہ عالمی ساہوکاروں کے نمائندے تھے جو کہ ہمارے ملک کے نگران وزیر اعظم بنا کر ہم پر ایک مخصوص مدت کے لیے مسلط کیے گئے اور وہ اس مختصر ترین عرصے میں اپنا کام نکال کر چلتے بنے۔
انھوں نے پاکستان کی جمع پونچی پاکستان کے قرضوں کی مد میں اپنے اصل مالکوں کے حوالے کر دی جس کے نتیجے میں نئی حکومت کو خزانے خالی ملے۔ جناب معین قریشی اور شوکت عزیز دونوں عالمی مالیاتی اداروں کے تنخواہ خوار تھے جو کہ وزیر اعظم کی شکل میں راتوں رات پاکستان کی تقدیر کے مالک بنا دیے گئے، بلکہ ان میں سے شوکت عزیز تو مزید خوش قسمت نکلے کہ وہ بعد میں اپنی نگرانی الیکشن کرانے کے بعد منتخب حکومت ہونے والی حکومت کے وزیر خزانہ اور بعد ازاں جب باس پرویز مشرف میر ظفر اللہ خان جمالی سے ناراض ہو گئے تو وزیر اعظم کی سیٹ کا قرعہ بھی شوکت عزیز کے نام نکلا۔
چوہدری شجاعت بھی مختصر درمیانی مدت کے لیے وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور بطور صدر پارٹی اور سینئر پارلیمنٹرین ان کا مستقل وزیر اعظم بننے کا حق بنتا تھا لیکن پرویز مشرف کی نگاہ انتخاب شوکت عزیز پر ٹھہر چکی تھی جن کو قومی اسمبلی کی اٹک سے ایک نشست خالی کر ا کر چوہدری شجاعت نے خود ہی ممبر منتخب کرایا اور یوں شوکت عزیز ہمارے مستقل وزیر اعظم بن گئے اور جب مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو وہ اپنی گدڑی میں بہت کچھ سمیٹ کر اپنے اصل وطن واپس روانہ ہوگئے اور اس کے بعد کبھی پاکستان پلٹنے کا نام بھی نہیں لیا۔ یعنی اس طرح کے بھی ہمارے حکمران رہے اور اب ہمارے پاکستانی حکمران اگر اپنے اصلی پاکستانیوں کو نگران حکمران منتخب کرنے پر اعتراض کریں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کہ امپورٹڈ حکمرانوں کو تو فوراً قبول کر لیتے ہیں اور ان کے آگے پیچھے خوشامدیں کرتے پھرتے ہیں لیکن اپنے ہی جینوئین پاکستانیوں پر معترض ہوتے ہیں۔ اگر حقیقت میں بات کی جائے تو جناب حسن عسکری رضوی کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔
نگران حکومتوں کے معاملے پر سابقہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کھٹ پٹ چلتی رہی، وفاق اور دو صوبوں میں تو باہمی اتفاق رائے سے معاملات طے پا گئے لیکن صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے وزراء اعلیٰ کا انتخاب الیکشن کمیشن تک پہنچ گیا جنھوں نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دونوں وزراء اعلیٰ کا تقرر کر دیا۔
صوبہ پنجاب کے لیے قرعہ ہمارے دوست حسن عسکری رضوی کے نام نکلا جب کہ علاؤالدین مری نے بلوچستان کا عہدہ سنبھال لیا۔ پنجاب جہاں پر نواز لیگ گزشتہ دس برسوں سے اقتدار میں رہی ان کی لیڈر شپ نے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ جناب حسن عسکری نواز لیگ کے خلاف تنقیدی رویہ رکھتے ہیں اس لیے وہ غیر جانبدار انتخابات نہیں کرا پائیں گے، اس کے علاوہ وہ اپنے تجزیوں میں الیکشن ملتوی ہونے کے حق میں بھی دلائل دیتے رہے ہیں۔ جب کہ اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو سابقہ الیکشن میں نواز لیگ نے ہمارے صحافی دوست نجم سیٹھی کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا جن پر الیکشن کے بعد مبینہ طور پر تحریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات بھی لگائے۔
جناب سیٹھی میاں صاحبان کے قریبی آدمی رہے ہیں ان کا اور جناب حسن عسکری کا موازنہ کسی طور بھی درست نہیں۔ پروفیسر حسن عسکری فلاسفی کے بادشاہ، اسکالر، نرم خو و نرم دل اور مرنج مرنجان علمی شخصیت کے مالک ہیں، دنیا بھر میں ایک استاد کے طور پر ان کا ایک منفرد مقام ہے ان کے لیے نواز لیگ کی جانب سے جانبداری کا الزام سن کر دلی دکھ ہوا۔ گو کہ پروفیسر صاحب کو تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تھا لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ حسن عسکری صاحب مکمل طور شفاف انتخابات کرائیں گے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم صاف ستھری سیاست اور سیاستدانوں کے عادی نہیں رہے اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو ہر ایک اپنے جیسا ہی لگتا ہے اور ہم اس شعر کی تفسیر بن گئے ہیں کہ
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
نگران حکمران کا کام صرف اور صرف الیکشن کا انعقاد کرا کے حکومت آنے والے منتخب نمائندوں کے حوالے کر کے چلے جانا ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسا حکمران ہوتا ہے جسے ابھی اقتدار کی ہوا بھی لگنی شروع نہیں ہوتی کہ وہ چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی میں نگران حکمرانوں کی اس قدر قلت رہی کہ دو ایک دفعہ تو ہمیں غیر ملک سے وزیر اعظم امپورٹ بھی کرنے پڑ گئے اور ان درآمد کردہ نگران حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ اپنے مختصر عرصہ حکمرانی میں جو کھلواڑ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ دراصل وہ عالمی ساہوکاروں کے نمائندے تھے جو کہ ہمارے ملک کے نگران وزیر اعظم بنا کر ہم پر ایک مخصوص مدت کے لیے مسلط کیے گئے اور وہ اس مختصر ترین عرصے میں اپنا کام نکال کر چلتے بنے۔
انھوں نے پاکستان کی جمع پونچی پاکستان کے قرضوں کی مد میں اپنے اصل مالکوں کے حوالے کر دی جس کے نتیجے میں نئی حکومت کو خزانے خالی ملے۔ جناب معین قریشی اور شوکت عزیز دونوں عالمی مالیاتی اداروں کے تنخواہ خوار تھے جو کہ وزیر اعظم کی شکل میں راتوں رات پاکستان کی تقدیر کے مالک بنا دیے گئے، بلکہ ان میں سے شوکت عزیز تو مزید خوش قسمت نکلے کہ وہ بعد میں اپنی نگرانی الیکشن کرانے کے بعد منتخب حکومت ہونے والی حکومت کے وزیر خزانہ اور بعد ازاں جب باس پرویز مشرف میر ظفر اللہ خان جمالی سے ناراض ہو گئے تو وزیر اعظم کی سیٹ کا قرعہ بھی شوکت عزیز کے نام نکلا۔
چوہدری شجاعت بھی مختصر درمیانی مدت کے لیے وزیر اعظم بنائے گئے تھے اور بطور صدر پارٹی اور سینئر پارلیمنٹرین ان کا مستقل وزیر اعظم بننے کا حق بنتا تھا لیکن پرویز مشرف کی نگاہ انتخاب شوکت عزیز پر ٹھہر چکی تھی جن کو قومی اسمبلی کی اٹک سے ایک نشست خالی کر ا کر چوہدری شجاعت نے خود ہی ممبر منتخب کرایا اور یوں شوکت عزیز ہمارے مستقل وزیر اعظم بن گئے اور جب مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو وہ اپنی گدڑی میں بہت کچھ سمیٹ کر اپنے اصل وطن واپس روانہ ہوگئے اور اس کے بعد کبھی پاکستان پلٹنے کا نام بھی نہیں لیا۔ یعنی اس طرح کے بھی ہمارے حکمران رہے اور اب ہمارے پاکستانی حکمران اگر اپنے اصلی پاکستانیوں کو نگران حکمران منتخب کرنے پر اعتراض کریں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کہ امپورٹڈ حکمرانوں کو تو فوراً قبول کر لیتے ہیں اور ان کے آگے پیچھے خوشامدیں کرتے پھرتے ہیں لیکن اپنے ہی جینوئین پاکستانیوں پر معترض ہوتے ہیں۔ اگر حقیقت میں بات کی جائے تو جناب حسن عسکری رضوی کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔