بدقسمت کراچی متحدہ کا سوگ ختم اے این پی کا شروع
جمعہ کے دھماکے میں اے این پی کے رہنما بشیر جان کو مارنے کی کوشش کی گئی مگر وہ محفوظ رہے
کراچی میں جمعے کی رات اے این پی کی کارنر میٹنگ کے قریب دھماکے کے بعد انتخابی مہم چلانا انتہائی دشوار ہو گیا ہے، مدت سے دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کیوجہ سے شہر قائد لہو لہو ہے۔
اے این پی کے انتخابی دفتر کے باہر ہونیوالے اس دھماکے میں 11افراد جاں بحق ہوئے اور بچوں سمیت 40افراد زخموں سے چور چور۔ اس دھماکے سے پہلے ایم کیوایم کے دو دفاتر کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، ان دھماکوں میں بھی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ جمعرات کو نارتھ ناظم آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی دفتر کے باہر دھماکے میں 6افراد جاں بحق اور 12زخمی ہوئے تھے، اس دھماکے میں جانی نقصان پر ایم کیوایم نے یوم سوگ منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔کراچی کی بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ جمعہ کی شام متحدہ کا سوگ ختم ہوا تو اے این پی کا سوگ شروع ہو گیا۔
جمعہ کے دھماکے میں اے این پی کے رہنما بشیر جان کو مارنے کی کوشش کی گئی مگر وہ محفوظ رہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی انتخابی مہم چلانا دشوار ہو چکا ہے، پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں آزادانہ انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے، نگران حکومتیں تو پورے ملک میں ہیں پھر یہ صورتحال کیوں؟، یہ حالات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کی حامی اور مخالف قوتوں کا فیصلہ کن رائونڈ شروع ہو چکا ہے۔
اے این پی کے انتخابی دفتر کے باہر ہونیوالے اس دھماکے میں 11افراد جاں بحق ہوئے اور بچوں سمیت 40افراد زخموں سے چور چور۔ اس دھماکے سے پہلے ایم کیوایم کے دو دفاتر کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، ان دھماکوں میں بھی قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ جمعرات کو نارتھ ناظم آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی دفتر کے باہر دھماکے میں 6افراد جاں بحق اور 12زخمی ہوئے تھے، اس دھماکے میں جانی نقصان پر ایم کیوایم نے یوم سوگ منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔کراچی کی بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ جمعہ کی شام متحدہ کا سوگ ختم ہوا تو اے این پی کا سوگ شروع ہو گیا۔
جمعہ کے دھماکے میں اے این پی کے رہنما بشیر جان کو مارنے کی کوشش کی گئی مگر وہ محفوظ رہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی انتخابی مہم چلانا دشوار ہو چکا ہے، پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں آزادانہ انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے، نگران حکومتیں تو پورے ملک میں ہیں پھر یہ صورتحال کیوں؟، یہ حالات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کی حامی اور مخالف قوتوں کا فیصلہ کن رائونڈ شروع ہو چکا ہے۔