فروزاں چہرے

لاہور میں سخت گرم دن تھا جب خوش بخت شجاعت بانو قدسیہ سے باتیں کرنے ’’داستان سرائے‘‘ پہنچیں۔


Rafiuzzaman Zuberi June 11, 2018

خوش بخت شجاعت اپنی کتاب ''فروزاں چہرے'' کے پیش لفظ میں اعتراف کرتی ہیں کہ وہ تقریر کے فن میں طاق ہیں، تحریر کے میدان میں اچانک کود پڑی ہیں، اسی لیے کہہ نہیں سکتیں کہ وہ شخصیات کا خاکہ کھینچ رہی ہیں یا ان کا خاکہ اڑا رہی ہیں۔ بہرحال ان کی نیت نیک ہے۔

خوش بخت نے شخصیات کی یہ چہرہ کشی ٹی وی پروگرام ''چہرے'' کے نشر ہونے کے فوراً ہی بعد 1988 میں مکمل کرلی تھی، اس کے چھپنے کی نوبت بہت بعد میں آئی۔ اس وقت تک کئی روشن چراغ گل ہوگئے۔ مجنوں گورکھپوری، اختر رائے پوری، سعید ناگی، گل جی، علی محمد راشدی، مولانا غلام مصطفیٰ شاہ قاسمی، ٹی وی پروگرام ان شخصیات کے ساتھ خوش بخت کی مخصوص نشست پر مبنی ایک سلسلہ تھا۔

مجنوں صاحب شاعر، افسانہ نگار، نقاد، فلسفی سب ہی کچھ تھے۔ خوش بخت شجاعت نے ان سے پوچھا، آپ نے شاعری کیوں ترک کردی؟ انھوں نے جواب دیا، دو مصرعوں میں اپنے پیچیدہ اور پھیلے ہوئے خیالات کی سمائی میرے لیے ممکن نہ تھی۔

بہ ہمہ جشنِ عالم آرائی

زندگی انتظار و تنہائی

خوش بخت نے ان سے سوال کیا، آپ افسانہ نگار زیادہ اچھے ہیں یا نقاد؟ اس سوال کا جواب سحر انصاری نے دیا۔ انھوں نے کہا، مجنوں صاحب کے افسانے اور تنقید دونوں میں اسکالرشپ کا غالب عنصر نظر آتا ہے۔ مجنوں صاحب نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ ان کے افسانے رومانوی مدرسے کی چیزیں ہیں اور ان کا تعلق نفسیاتی انفرادیت سے ہے۔ ان کے افسانوں کا تعلق بظاہر محبت سے ہے لیکن فکر و تامل کا میلان غالب ہے ۔

خوش بخت نے پوچھا، مجنوں صاحب! آپ حسن شناس تھے یا حسن پرست؟ مجنوں صاحب نے جواب دیا۔ ''میں سمجھتا ہوں انسان حسن پرست ہوتا ہے۔''

احمد سعید ناگی سے مکالمے کے لیے خوش بخت شجاعت ان کے گھر پہنچیں تو شام ڈھلنے کو تھی۔ نشست گاہ میں داخل ہوئیں تو ٹھٹھک کر رہ گئیں۔ لکھتی ہیں ''ایک برہنہ عورت قد آدم آبنوسی فریم میں مقید، نگاہیں نیچی کیے مسکرا رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں گجرا، دوسرے ہاتھ میں پھولوں کی مالا، ماتھا چاند، ٹھوڑی تارا، نسوانیت کا مرقع اور فن مصوری کا نادر شاہکار۔ تصویر کیا تھی ایک زندہ حقیقت۔ دوسری طرف نگاہ کی۔ ہر دیوار، ہر کونہ، ہر زاویہ عریاں عورتوں کی تصویروں سے مزین۔ میں مبہوت رہ گئی۔''

جب ناگی صاحب سے ملاقات ہوئی اور مکالمہ شروع ہوا تو خوش بخت کا تاثر یہ تھا۔ ''شاید جوش صاحب مصور ہوتے تو کچھ ایسے ہی ہوتے اور اگر ناگی صاحب اپنی سوانح حیات کو رنگوں میں بکھیرتے تو یادوں کی ایک اور بارات نکلتی۔'' لکھتی ہیں ''ناگی صاحب نے نہایت دوستانہ اور مشفقانہ رویے سے میرے سوالات کے جواب دیے، دو ٹوک، کھری گفتگو۔ بعض اوقات تو اتنا برہنہ سچ بولتے کہ سننے والا خود ہی لفظوں کو کپڑے پہنانا شروع کردیتا۔''

گل جی کے بارے میں خوش بخت شجاعت کہتی ہیں ''ان کی سوچ نے رنگوں کو قید کیا ہے۔ لکیروں میں زندگی دوڑائی ہے۔ چہرے بنائے بھی ہیں اور تراشے بھی ہیں۔ یہی نہیں رنگوں کے تناسب سے چہروں کے خد و خال کو دوام بخشا ہے۔ گل جی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پتھروں میں دل دھڑکایا ہے۔''

گل جی نے پہلے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور پھر مصوری کی طرف توجہ کی۔ خوش بخت نے ان سے پوچھا، آپ نے مصوری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے؟ گل جی نے کہا، جی نہیں۔ میں نے بہت کچھ پڑھا اور خود ہی سیکھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے دادا مصور تھے اور والد انجینئر ان سے بھی سیکھا۔

شاہ فیصل مسجد پر گل جی جو کام کر رہے تھے اس کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ''فیصل مسجد میں، میں تین چیزوں پر کام کر رہا ہوں، محراب، منبر اور گنبد و مینار۔''

لاہور میں سخت گرم دن تھا جب خوش بخت شجاعت بانو قدسیہ سے باتیں کرنے ''داستان سرائے'' پہنچیں۔ ''گھر میں سکون بول رہا تھا۔ بانو قدسیہ کی سانولی رنگت، گھٹیلے جسم اور مشقت سے آشنا مضبوط ہاتھوں، نرم نرم مسکراہٹ، دھیمی دھیمی گفتگو اور اپنائیت بھری باتوں والی شخصیت بالکل ویسی ہی معلوم ہو رہی تھی جیسے کچے آنگن میں نیم تلے نواڑ کے پلنگ پر کوئی گھر والی بیٹھی اپنے گھر آئے مہمانوں کی تواضح کرتی ہے۔ ان کے لہجے میں انٹلیکچوئل خواتین کا تفاخر نہیں تھا۔''

خوش بخت لکھتی ہیں ''پھر باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ ایک ممتاز مصنفہ مجھ سے ہم کلام تھی جس کو لڑکپن میں بھی پڑھا اور جوانی کی سلگتی راتوں میں بھی۔ نہ جانے تحریر کی کیا سچائی تھی۔ وہ مجھے رلاتی بھی تھی اور ہنساتی بھی تھی۔''

خوش بخت نے پوچھا، بانو آپا! آپ نے لکھنا کیوں کم کردیا۔ کیا مصروف کی بنا پر؟

قدسیہ نے جواب دیا، ''ہاں مجھے ان کاموں سے پیار ہے۔ لطف آتا ہے مجھے کام کرکے۔ عورت کا حسن اس کے کام میں پوشیدہ ہے پھر جس گھر میں پیار و محبت دونوں چیزیں موجود ہوں وہاں صرف دینے کا تصور ہوتا ہے اور دیتی ہمیشہ عورت ہے۔''

خوش بخت نے سوال کیا۔ ''آپ افسانے یا ناول کا خاکہ کیسے مرتب کرتی ہیں؟''

بانو قدسیہ نے جواب دیا، ''کوئی خیال یا کوئی بات ایک دم دل میں داخل ہوجاتی ہے بالکل اس بھنورے کی طرح جو اچانک کمرے میں آجاتا ہے۔ بھنورا دراصل تھیم ہوتی ہے۔ آج میں سوچوں سچائی پر لکھنا ہے۔ بھنورا سچائی ہے۔''

خوش بخت نے پوچھا، آپ کی تحریر میں اشفاق احمد کی شخصیت کا کتنا اثر ہے۔ جواب دیا، ''ان کی محبت اور شفقت کا زیادہ ہاتھ ہے۔ شاید کسی اور سے محبت کرتی تو وہ میری شہرت سے خائف ہوتا۔''

شجاعت کہتی ہیں، خود آگہی کی ان منزلوں تک پہنچنے کے لیے دید و دل وا کرنے پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری سے گفتگو کرنے کے بعد خوش بخت شجاعت کو یہ احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کا ذہن ایک ایسے پارس کی مانند ہے کہ اگر مخاطب کے خیالات ان کے الفاظ سے چھو جائیں تو سونا بن جاتے ہیں۔ اپنی ایک تصنیف میں وہ لکھتے ہیں کہ زبان کا کام حیوان ناطق بنانا اور تعلیم کا کام اسے انسان بنانا ہے۔

خوش بخت لکھتی ہیں ''ڈاکٹر صاحب کے ساتھ نشست کا اہتمام ان کی قیام پر تھا۔ ڈرائنگ روم میں ایک طرف ستار، طبلہ اور ہارمونیم رکھا تھا۔ مشرقی طرز کی آرائش، گاؤ تکیے اور سفید چادر کے ساتھ۔ بڑا سا دکنی پاندان بھی موجود تھا۔

خوش بخت نے سوال کیا ''آپ کا بچپن کن حالات میں گزرا۔'' ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ''میری تربیت صحیح معنوں میں گھر میں کم، باہر زیادہ ہوئی۔ پانچ سال کا بھی نہیں تھا تو پرائمری اسکول میں داخل کردیا گیا، دس گیارہ عمر ہونے کو آئی تو ہائی اسکول میں چلا گیا۔ فطرتاً مجھ میں جستجو بہت تھی اور شروع سے صرف پڑھنے کا نہیں بلکہ دیکھنے اور سوچنے کا بھی مجھے شوق تھا۔ اسکولوں میں جو رسمی تعلیم ہوتی ہے اس کی میں نے پابندی کی لیکن جو میں نے علم حاصل کیا وہ اپنے مشاہدے اور مطالعے سے۔ میرا ذہن چیزوں کو تلاش کرتا تھا۔''

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے انگریزی اسکول میں پڑھا، اردو میں لکھنے سے پہلے وہ ہندی میں نام پیدا کرچکے تھے۔ پھر انھوں نے ایک مقالہ لکھا ادب اور زندگی کے عنوان سے۔ یہ تنقیدی مقالہ تھا، جس کی جدید اردو تنقید میں بنیادی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت کتابوں کے اردو میں ترجمے کیے، افسانے لکھے، تنقیدوں کا مجموعہ شایع ہوا۔

خوش بخت نے کہا، ڈاکٹر صاحب آپ کو ہفت زبان کہا جاتا ہے۔ کون کون سی زبانیں آپ کو آتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا۔ ''اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی، ہندی تو ہے ہی۔ سنسکرت جانتا ہوں اور بنگالی بھی میں نے سیکھی۔

خوش بخت نے پوچھا، تعلیمی مشاغل کے علاوہ اور کیا مشاغل ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا، موسیقی سے مجھے شغف رہا ہے، مشرقی اور مغربی دونوں، زیادہ تر کلاسیکل بہت سنا ہے، بہت اچھے اچھے لوگوں سے۔ شطرنج کا بھی شوق رہا ہے۔ سیاحت کا تو ذکر آچکا ہے۔ سیاحت بھی اس نوعیت کی جسے مہم جوئی کہیں۔''

خوش بخت نے پوچھا، آپ کے گھر میں بہت سے طوطے، چڑیاں اور مختلف قسم کے پرندے ہیں، یہ سب آپ نے جمع کیے ہیں۔ یہ شوق کیسے ہوا؟

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے جواب دیا ''میں آپ سے ایک بات کہوں کہ جب سے انسانوں میں انسانی خوبیاں کم ہوگئیں۔ میں نے بے زبانوں سے دوستی کرلی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔