طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا

سارے قانون دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جن کے پاس ہتھیار، گولا بارود تھا، وہ کمزور ممالک کو دباتے رہے۔


Saeed Parvez June 11, 2018

جنیوا شہر میں انجمن اقوام متحدہ کا صدر دفتر ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے ممالک اس انجمن کے ممبر ہیں۔ اس انجمن کا بنیادی کام یہ تھا اور ہے کہ کسی ملک یا قوم کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔ مگر اپنے قیام سے آج تک دنیا کے سنگین مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ عرصہ دراز سے اس انجمن میں مسائل کا انبار لگا ہے۔ مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔

کئی جنگیں ہوچکیں، لاکھوں انسان مارے گئے، شہر کے شہر کھنڈر بن گئے جوان بوڑھے تو اپنی جگہ معصوم پھول سے بچوں کو بھی گولا بارود نے بھسم کر ڈالا ، رنگ، نسل، مذہب کے نام پر خون بہا، انسان کی آزادی کو سلب کیا گیا۔ اتنی تباہی اتنی بربادی! مگر کوئی فلسفہ کوئی تدبر، کوئی عقل و دانش، کچھ بھی کام نہ آیا، بلکہ یہ تمام تباہی و بربادی اور انسانی آزادی کے خلاف اہل علم و دانش ہی کام کر رہے تھے اور ہیں۔

سارے قانون دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جن کے پاس ہتھیار، گولا بارود تھا، وہ کمزور ممالک کو دباتے رہے۔ انھیں اپنے اشاروں پر چلاتے رہے اور اقوام متحدہ بالکل خاموش، بے سدھ، گونگی، بہری، اندھی، لنگڑی لولی، مگر صرف غریب ممالک کے لیے اس انجمن کی ساخت ہی ظالمانہ ہے۔ دنیا کے آٹھ بڑے بڑے طاقتور ممالک ہیں، جن کے پاس ویٹو پاور ہے۔ ان آٹھ ممالک میں سے اگر کسی ایک نے بھی نہیں (NO) کہہ دیا، تو وہ کام نہیں ہوسکتا، چاہے وہ کام بنی نوع انسان کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو۔

امریکا ان آٹھ ویٹو پاور ممالک کا سرغنہ ہے۔ باقی ممالک امریکا کے بغل بچے ہیں، سوائے روس اور چین کے۔ ساری دنیا پر انھی آٹھ ممالک کا زور چلتا ہے۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ ، فرانس، جرمنی، روس، چین امریکا اپنی جارحیت کی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ اس کی جارحیت کا شکار پوری غریب دنیا ہے۔ انگولا، کانگو، ویت نام، فلسطین، سارے افریقی ممالک اور حالیہ چند سال میں امریکا نے مصر، لیبیا، عراق، شام (ایران کو بھی ٹارگٹ بنا رکھا ہے، لیبیا اور عراق افغانستان برباد ہوچکے، اس امریکا کے آیندہ ارادے بھی خطرناک ہیں۔

پاکستان میں امریکا کے سفارت کار، شہریوں کو مارنے کے بعد بلا سزا، بحفاظت اپنے ملک چلے جاتے ہیں، اور ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ خیر امریکا کا کیا ذکر یہاں اپنے پاکستان میں جو جو ''ناپاک'' کام ہوتے ہیں۔ وہ کیا کم سنگین ہیں! امیروں کے بچے سرعام گولیاں چلاتے ہیں، انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور جیل میں بھی نہیں رہتے۔ ہمارا پاکستان کا قانون خاموش تماشائی ہے۔ جاگیردار اپنے قاتل بھائیوں کی رہائی پر ہوائی فائرنگ کرکے اپنی دہشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

میں ذرا موضوع سے ہٹ گیا تھا، پھر موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہمارے مسلمان ممالک کے پاس پٹرول کی صورت بہت بڑا اور قیمتی خزانہ ہے۔ مگر ہمارے عرب ممالک کے بادشاہ اور ان کے شہزادے اپنی دولت کو دونوں ہاتھوں سے یورپ اور امریکا کے جوئے خانوں میں اڑا دیتے ہیں۔ ان عیاش بادشاہوں کی بیگمات کے جتھے لندن، فرانس، نیویارک وغیرہ کے شاپنگ پلازاز میں کروڑوں ڈالروں کی خریداریاں کرتے ہیں۔ عرب ممالک کے تیل کے کنوؤں تک امریکا کی رسائی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی کانفرنس کے بعد سمندر کنارے ایک بڑا کیسینو بنانا شروع کردیا تھا۔ بھٹو کا پروگرام تھا کہ بگڑے ہوئے عرب شہزادے یورپ امریکا کو چھوڑ دیں اور جوا کھیلنے پاکستان آئیں۔ بھٹو صاحب کے آیندہ پروگرام سے امریکا آگاہ ہوچکا تھا اور اسی کی انھیں سزا دی گئی۔ بھٹو نے امریکا کو للکارتے ہوئے کہا تھا''تم سفید ہاتھی ہو، تو میں صحرائی اونٹ ہوں'' بھٹو تو مر گیا، مگر وہ جاتے جاتے عزت سے جینے کا راستہ دکھا گیا ہے۔ اب دیکھیں اس راستے پر کون چلتا ہے۔

امریکا نے اسلامی کانفرنس کے سارے کردار مار دیے۔ شاہ فیصل، کرنل قذافی، صدام حسین۔ بھٹو کے بعد اس کی بیٹی بے نظیر۔ مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو۔ خیر آج بھی امریکا سے ٹکر لینے والا ملک ایران زندہ ہے، ترکی زندہ ہے، شام زندہ ہے، خصوصاً ایران نے غیرت مندی کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کیا ہے۔

بہت سال پہلے یوں کہہ لیں کہ کم و بیش سو سال پہلے شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ یہ ایک تین اشعار کی چھوٹی سی نظم ہے۔ یہ نظم علامہ اقبال کی کتاب ''ضرب کلیم'' میں شامل ہے۔ اس نظم کا عنوان اور نظم پیش خدمت ہے۔ اقبال نے کرۂ ارض کی تقدیر بدلنے کا اظہار کیا ہے۔

جمعیتِ اقوامِ مشرق

پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی مسخر

کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب

ممکن ہے کہ اُس خواب کی تعبیر بدل جائے

''طہران'' ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

نوٹ: اکثر 'ت' سے تہران لکھا جاتا ہے۔ مگر کلیات اقبال میں طہران لکھا گیا ہے۔ ایران کا دارالخلافہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں