تحریک انصاف کی ٹکٹیں
شائد عمران خان کو حقیقت کا اندازہ تھا کہ کوئی بھی پارٹی کے ووٹ بینک کی بنیاد پر نہیں جیت سکتا۔
بی بی سی کے ایک ہارڈ ٹاک پروگرام کا بہت شور ہے۔ یہ پروگرام گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پروگرام میں خاتون میزبان نے عمران خان سے نہایت ہی بنیادی نوعیت کے تین چار سوال کیے ہیں لیکن دلچسپ ہیں۔
ایک سوال میں میزبان نے عمران خان سے پوچھا ہے کہ آپ کہتے رہے ہیں کہ تعلیم اور صحت کے شعبہ پر آپ خصوصی توجہ دیں گے۔ آپ کی پاکستان کے ایک صوبے خیبر پختونخوا میں پانچ سال حکومت رہی ہے، ان پانچ سالوں میں آپ نے اپنے زیر انتظام صوبے میں کتنے نئے اسپتال اور یونیورسٹیاں بنائی ہیں؟ لیکن عمران خان کے پاس اس سادہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جواب میں ایک نئے اسپتال کا نام نہیں بتا سکے جو ان کی جماعت کی حکومت میں خٰیبر پختونخوا میں بنایا گیا ہو۔ وہ ایک بھی یونیورسٹی کا نام نہیں بتا سکے جو ان کے دور میں نئی بنائی گئی ہو۔
وہ بس میزبان کو یہی بتاتے رہے کہ ہیرالڈ رسالہ نے لکھا ہے کہ صحت میں کے پی سب سے آگے ہے۔ اس لیے سب سے آگے ہے۔ اب اگر فرض کر لیا جائے کہ یہی ہارڈ ٹاک پروگرام شہباز شریف کے ساتھ ہو رہا ہوتا اور یہی سوال میزبان ان سے پوچھتی تو وہ بتا سکتے تھے کہ انھوں نے اس دور میں پنجاب میں 19نئی یونیورسٹیاں بنائی ہیں اور کتنے نئے اسپتال بنائے ہیں جن میں پی کے ایل آئی سمیت اور دیگر شامل ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو حکومتوں کی کارکردگی کا غیر جانبدارانہ موزنہ پیش کر سکے۔ تا کہ عوام کو سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کے بارے میں حقیقی طور پر علم ہو سکے۔
یہاں تو الزام تراشی کا مقابلہ رہتا ہے۔ کارکردگی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بی بی سی کے اسی پروگرام میں میزبان نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کے پی کے میں اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کا موقع تھا۔ آپ نے ان پانچ سالوں میں خیبر پختونخوا میں کتنی بیروزگاری ختم کی ہے۔ کتنے نئی نوکریاں دی ہیں۔ اپنے خان صاحب کے پاس سوال کا بھی کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا۔ تحریک انصاف جو سائنسی بنیادوں پر ایک منظم جماعت ہے۔
مخالفین کا ڈیٹا اکٹھے کرنے میں کمال مہارت رکھتی ہے۔ اعداد و شمار کے ڈھیر لگا دیتی ہے۔ اس کے سربراہ کے اس بات کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اس کی خیبر پختونخوا کی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں کتنی نئی نوکریاں دی ہیں۔کتنی نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ وہ بس جواب میں یہ کہتے رہے کہ خیبر پختونخوا میں غربت کم ہوئی ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تمام سروے کہہ رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک ڈبل ہو گیا ہے۔
اگر ہم نے کام نہ کیا ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ ہم الیکشن جیت رہے ہیں۔ میزبان نے عمران خان سے ان کے سوشل ایجنڈا اور غربت کے خاتمہ کے نظریات کے حوالے سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی سیاسی مہم کے دوران کہتے رہے ہیں کہ ایک مہذب معاشرہ اس بات سے نہیں پہچانا جاتا کہ اس کے پاس کتنے بڑے گھر ہیں بلکہ وہاں غریب کس حالت میں رہتا ہے۔ جب کہ آپ خود کئی ملین ڈالر کی مالیت کے ایک بہت بڑے گھرمیں رہتے ہیں جو ایک پہاڑ کے اوپر واقع ہے۔ (عرف عام میں جسے بنی گالہ کہتے ہیں)۔ کیا یہ آپ کے سوشل ایجنڈے سے متصادم نہیں ہے۔
اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا وہ کیسے رہتے ہیں، انھیں کیسا رہنا پسند ہے، اس سے کسی کا کیا تعلق ہے۔ اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اتنے بڑے گھر میں رہ کر اپنے نظریات قائم نہیں رکھ سکتے۔ بہر حال ان کا یہ بھی کہنا تھا انھوں نے معاشرہ میں بہت کام کیا ہے۔ شوکت خانم اسپتال بنایا ہے۔ تا ہم میرے ذہن میں یہ سوال آیا ہے کہ عمران خان نے شوکت خانم اپنی جیب سے تو نہیں بنایا ہے۔ وہ تو لوگوں سے پیسے اکٹھاکر کے بنایا ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ میں نے شوکت خانم کو اپنی ساری جائیداد چندہ میں دے دی تھی اور خود ایک چھوٹے سے گھر میں آگیا تھا۔یہ انٹرویوبہت طویل تھا اور اس میں کئی دلچسپ سوال تھے جن کے بہت ہی دلچسپ جواب دیے گئے۔
آج کل تحریک انصاف کی جانب سے اگلے انتخابات میں دی جانے والی ٹکٹوں کا بہت شور ہے۔ تحریک انصاف نے کل 172امیدوران کو ٹکٹ دیے ہیں۔ ان میں صرف 25 کا تعلق تحریک انصاف سے ہے باقی سب نے حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ فخر رہا ہے کہ یہ نوجوانوں کی جماعت ہے۔ اسی لیے گزشتہ انتخاب میں نوجوانوں کو خیبر پختونخوا میں ٹکٹ دیے بھی گئے۔
پنجاب میں بھی دیے گئے لیکن پنجاب میں وہ جیت نہیں سکے اور خیبر پختونخوا میں وہ جیت کر سامنے آئے۔ لیکن اس بار جو ٹکٹ دیے گئے ہیں ان میں 25 ایسے ہیں جن کی عمر ستر سال سے زائد ہے۔ 45 ایسے ہیں جن کی عمریں 50 سے 65 سال کے درمیان ہیں۔ اس طرح کل 65 ایسے امیدواران کو ٹکٹ دئے گئے ہیں جو بڑھاپے میں ہیں۔ کیا یہ بھی ان کی گزشتہ پالیسی سے یو ٹرن نہیں ہے۔
آپ دیکھ لیں پاکستان میں موروثی سیاست کے بارے میں عمران خان نے سب سے ز یادہ شور مچایا۔ بالخصوص وہ شریف خاندان کے خلاف بولتے تھے کہ شریف خاندان کے بچے بھی سیاست میں آگئے ہیں۔ تحریک انصاف اس موروثی سیاست کو ختم کر دے گی۔ لیکن اب تحریک انصاف نے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، لیاقت جتوئی، انور علی چیمہ کے بیٹوں اورپرویز خٹک کے داماد سمیت سب کے بچوں کو ٹکٹوں سے نواز دیا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ عمران خان نے ایک بھی ٹکٹ کسی عام کارکن کو نہیں دیا۔ ایک بھی ٹکٹ کسی غریب کو نہیں دیا گیا۔ کسی دھرنے میں ساتھ دینے والے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اسلام لاک ڈائون میں مار کھانے والے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔بس جیتنے والے گھوڑوں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنے ستر ایسے ٹکٹ ہولڈر تھے جنھوں نے گزشتہ انتخاب میں چالیس ہزار یا اس سے زائد ووٹ لیے تھے۔ لیکن انھیں اس بار ٹکٹ نہیں دیے گئے بلکہ ان کے حلقوں میں دوسری جماعتوں میں نئے امیدوار امپورٹ کر کے ٹکٹ دے دیے گئے ہیں۔
شائد عمران خان کو حقیقت کا اندازہ تھا کہ کوئی بھی پارٹی کے ووٹ بینک کی بنیاد پر نہیں جیت سکتا۔ انھیں جیتنے والے گھوڑے ہی میدان میں اتارنے ہوںگے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی سے بھی انھیں دو نمبر مال ہی ملا ہے۔ وہ اس بار بھی دھوکہ کھا گئے ہیں۔ اصل جیتنے والے گھوڑے تو اب بھی ن لیگ کے پاس ہی ہیں۔