شیشے کے حکمران

درباری سرکاری ملازم یقین دلاچکے ہیں کہ آپ ہی اس ملک کی سالمیت کے ضامن ہیں۔


راؤ منظر حیات June 11, 2018
[email protected]

بازنطینی سلطنت دنیاکی عظیم ریاستوں میں سے ایک تھی۔پورے یورپ پرمسلط۔اس کابادشاہ تقریباًایک چوتھائی دنیاکامالک تھا۔کرہِ اَرض پردولت مندترین لوگوں میں سے ایک۔جسٹن دوئم چھٹی صدی میں اس کاشہنشاہ بن گیا۔ جسٹن میں تمام عیب اورمسائل موجودتھے جواس وقت کے حکمرانوں میں تھے۔بلکہ آج کے حکمرانوں میں بھی ہیں۔ تیسری دنیامیں صرف عہدے اورنام تبدیل ہوئے ہیں مگر جمہوری یافوجی بادشاہوں کی عادات بالکل تبدیل نہ ہوئیں۔

جسٹن شدیدذہنی بیماریوں کاشکارتھا۔اس کاحکم تھاکہ محل کے باہرکسی کوبھی پتہ نہ چلے۔محل کے اندرکی دنیامیں وہ ایک پاگل انسان تھااوراپنے عشرت کدے سے باہرایک عادل، خادم اورانسان دوست بادشاہ۔یہ کہنابھی مناسب ہے کہ متعددذہنی بیماریوں میں ایک بیماریBipolarہونابھی تھی۔جسٹن کودماغ کے اندرمختلف آوازیں سنائی دیتی تھیں۔لگتاتھاکہ اَن گنت لوگ شورمچارہے ہیں۔

ڈرکی وجہ سے جسٹن خواب گاہ کے شاہی پلنگ کے نیچے چھپ جاتا تھا۔گھنٹوں نہیں بلکہ کئی کئی دن وہاں بیٹھارہتاتھا۔نوکروں کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی کہ کسی بھی طریقے سے باہرنکالیں۔یہ انتہائی کٹھن اورصبرآزماکام تھا۔پہلاطریقہ تویہ ہوتاتھاکہ خادمین پورے محل میں میوزک بجاناشروع کردیتے۔موسیقی کے شورسے جسٹن کولگتاتھاکہ کانوں میں شورمچانے والے غیبی لوگ چلے گئے ہیں۔

آہستہ آہستہ پلنگ کے نیچے سے نکلناشروع کردیتاتھا۔ایک وزیرکے دل میں اُچھوتاخیال آیا۔ایک قیمتی تخت بنوایااور نیچے چارپہیے لگادیے۔جیسے ہی جسٹن کوخیالی آوازیں سنائی دیتی تھیں،اسی وقت ملازمین بادشاہ کو پہیوں والی کرسی یانشست پربٹھادیتے تھے۔کبھی آگے کی طرف دھکیلتے تھے۔کبھی پیچھے کی طرف۔سارے محل میں جسٹن گھنٹوں بچوں کی طرح اس پر بیٹھا سیر کرتارہتا تھا۔

اس کا تاریخ دان جان آف ایپی سس(John of Ephesus)لکھتاہے کہ جب جسٹن غصے میں ہوتا تو ملازمین کے سرپردانتوں سے زورسے کاٹتاتھا۔ملازمین دردسے چیخیں مارتے تھے اورجسٹن ہنستاتھا۔تصویرکاتلخ رخ یہ تھاکہ بازنطینی سلطنت پراس کامکمل کنٹرول تھا۔لوگ اس کے سائے سے بھی خوف زدہ تھے۔کھڑے کھڑے اردگردلوگوں کوقتل کرودیتاتھا۔قیدکردیتاتھا۔

کسی کوعلم نہیں تھاکہ اگلے لمحے جسٹن اس کے ساتھ کیاسلوک کریگا۔سب سے المناک نکتہ۔ جسٹن کوحکومت سے علیحدہ کرنے کاکوئی طریقہ نہیں تھا۔پاگل پن اس کے دورِسلطنت کی معیادکوکم نہ کرسکا۔وہ بغیرکسی ترددکے سالہاسال حکومت کرتارہا۔

بالکل اسی طرح سولہویں صدی میں چین کی سلطنت بے حدوسیع اورطاقتورتھی۔زینگ زی(Zheng de)چودہ برس کی عمرمیں اس کابادشاہ بن گیا۔تیس برس بلاشرکت غیرے حکومت کرتارہا۔مگرمسئلہ یہ تھاکہ مرتے دم تک ذہنی طور پر چودہ سال کابچہ ہی رہا۔ زینگ اس نقلی بازارمیں دکاندار بن جاتاتھا اورعام لوگوں کوسوداسلف بیچناشروع کردیتا تھا۔ ذہنی مسائل یہاں پرنہیں رُکتے۔

پوری فوج کوسلک کے کپڑے پہنوادیتاتھا۔اس کے بعد اپنی ہی فوج میں ایک سپاہی کاسوانگ رچالیتاتھا۔پھر فوج کے ساتھ ایک فرضی مہم پر چلا جاتا تھا۔وہاں جاکرکسی''فرضی دشمن'' کو قید کردیتا تھا۔ پوری فوج کوحکم تھاکہ کوئی بھی اسے نہ پہچانے۔ ہرایک کومعلوم ہوتاتھاکہ وہ بادشاہ ہے۔مگرزینگ کاحکم تھاکہ اسے بالکل پہچاننے کی کوشش نہ کی جائے۔فرضی جنگیں بھی لڑتاتھا۔اس کی دنیاحددرجہ تصوراتی تھی۔

حقیقت سے اس کاکسی قسم کاکوئی تعلق ہی نہیں تھا۔مگرزینگ اس تصوراتی دنیاکو ساتھ لے کر طویل عرصے تک حکومت کرتارہا۔ایک دن دریا کی سیر کر رہاتھا۔ملازموں کوحکم دیاکہ ایک شہنشاہ نہیں بلکہ ایک مچھیرا ہے۔لہذااسے پانی میں دھکیل دیاجائے۔کچھ عرصہ دریا کے پانی میں تیرکرمچھلیاں پکڑے گا۔ملازموں نے یہی کیا۔ پانی میں دھکا دیدیا۔ زینگ کاخیال تھاکہ اسے تیرا کی آتی ہے مگرحقیقت میں وہ تیرنابالکل نہیں جانتاتھا۔پانی میں ڈوب کر مرگیااورکوئی بھی اس کی مددکے لیے نہیں آیا۔

دنیامیں غیرمعقول،فارغ البال اورپاگل حکمرانوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔صدیوں پہلے اورنہ آج کے دورمیں۔ فرانس کاچارلس ششم(VI)چودھویں صدی میں تخت نشین ہوا۔ سارادورپرآشوب اورجنگوں پرمحیط تھا۔بادشاہ بننے تک کسی کو علم نہیں تھاکہ وہ ذہنی طورپرٹھیک نہیں ہے۔ایک دن چارلس اپنے فوجی دستے کے ساتھ ایک باغی کوپکڑنے نکلا۔ تھوڑی دیرکے بعد،بادشاہ نے اپنے ہی فوجیوں پرحملہ کردیا۔کئی بندے اپنی تلوارسے دشمن سمجھ کرمار دیے۔

مصاحبین پکڑ کر زبردستی محل تک واپس لے کرآئے۔یہ وہ مشکل وقت تھاجب فرانس اپنے سارے ہمسایہ ملکوں سے لڑرہاتھا۔چارلس ایک ایسے ذہنی فشارکاشکارہوگیاکہ اسے نام یادرکھنے بے حد مشکل ہوگئے۔آہستہ آہستہ چارلس اپنانام بھی بھولنے لگا۔ بھول جاتاتھاکہ وہ کون ہے۔بادشاہ ہے یانوکر۔کوئی درباری ہے یاعام ساآدمی۔اردگردکے لوگ اسے یاددلواتے تھے کہ وہ اصل میں ایک شہنشاہ ہے۔

کئی بار چارلس ان کی بات مان لیتا تھااورکئی بارصاف انکار کردیتا تھا۔متعددبارایسے ہواکہ کہ محل سے نکل کرباہربھاگناشروع کردیتاتھا۔اسے یقین تھاکہ وہ ایک انسان نہیں بلکہ بھیڑیاہے۔بھیڑیے کی طرح منہ سے آوازیں نکالتا تھا اور عام لوگوں پرحملہ کرتارہتاتھا۔مشکل بات یہ بھی تھی کہ کسی کو اجازت نہیں تھی کہ اسے چھولیں۔ کیونکہ چارلس کاخیال تھاکہ وہ شیشے کابناہواہے۔گوشت پوست کا نہیں۔اندازہ کیجیے۔

طویل جنگ کے دورانیہ میں ایک ایسا بادشاہ جوہرطرح کے ذہنی امراض کاشکار ہو،اپنے ملک کی کیاخدمت کرسکتا تھا۔یہی ہوا۔فرانس میں خانہ جنگی ہوگئی اورخلفشارکافائدہ اُٹھاکرانگلینڈنے فرانس کے بہت سے علاقوں پرقبضہ کرلیا۔

ان واقعات کوعرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ حکمران دماغی امراض کاشکارہوسکتے ہیں۔مگرصدیوں پہلے کی روایت کی طرح ان مسائل کورعایاسے چھپایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں خیراب یہ ممکن نہیں۔کیونکہ ان معاشروں نے اتنی پختگی حاصل کرلی ہے کہ اگران کاوزیراعظم یاصدرمعمولی سی بھی عجیب وغریب حرکت کرے توفوری طورپرطبی معائنہ کرایا جائیگا۔اگرتھوڑاسابھی مرض ثابت ہوگیاتواسے فوری طور پرحکمرانی سے نکال دیاجائیگا۔

حالیہ مثال امریکی صدر، ٹرمپ کے اوپرلگائے ہوئے الزامات تھے کہ اسے ذہنی امراض ہیں۔فوری طورپردنیاکے بہترین ڈاکٹروں نے چیک اَپ کیااورذہنی اورجسمانی طورپرصحت مندقراردیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے کئی فیصلے انتہائی حیرت انگیز اورمعمول سے ہٹ کرہیں۔ میں تیسری دنیاکی طرف آتا ہوں۔

کہا یہی جاتاہے کہ فلاں شخص آپکاوزیراعظم،وزیراعلیٰ یا صدر ہے۔ مگر بلندپایہ جمہوری اورانسانی روایات کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمام لوگ قدیم بادشاہوں کی طرح کا طرزِعمل رکھتے ہیں۔ بادشاہ بھی نہیں بلکہ عملی طورپرشہنشاہ بن جاتے ہیں۔ ان تمام ملکوں میں عام آدمی کویہ نہیں معلوم ہونے دیا جاتاکہ حکمران کس درجہ جسمانی یاذہنی طورپرعلیل ہے۔ ہر چیز کو اچھا بلکہ بہت اچھادکھایاجاتاہے۔

اپنے ملک کی طرف آئیے۔شروع شروع میں غلام محمد اس ملک کا بادشاہ،معاف کیجیے گاگورنرجنرل رہا۔اسے فالج کامرض تھا۔اس کی ذہنی حالت بھی بے حدبے ترتیب تھی۔ ہر وقت ملاقاتیوں کوگالیاں دیتا رہتا تھا۔اس کی بات سمجھناناممکن تھی۔مگرسارے سرکاری ملازمین اورسیاست دان اس کے سامنے کمال ادب سے بیٹھے رہتے تھے۔گورنرجنرل کی انگریزذاتی سیکریٹری، لبوں سے نکلنے والی آوازوں کوسمجھتی تھی۔

ترجمہ کرکے لوگوں کوبتاتی تھی کہ گورنرجنرل صاحب انھیں کن گالیوں سے نوازرہے ہیں۔غلام محمدسرکاری گھرمیں وہیل چیئرپرسیرکرتاتھا۔لان میں جاکرمالیوں کوجمع کرلیتا تھا۔مالیوں میں فرضی کابینہ بنادیتاتھا۔کوئی وزیرخارجہ توکوئی مالی وزیرخزانہ۔یہ معاملہ چلتارہتاتھا۔کیاآپکواندازہ ہے کہ اس مکمل طورپرپاگل حکمران کوہماری قوم نے کتنی دیربغیراُف کیے برداشت کیا۔دوچارماہ یادس ماہ نہیں، غلام محمدپورے چارسال پاکستان پرحکومت کرتارہا۔ہرادارہ اس کی بات مانتا تھا۔غلام محمدبھی اپنے آپکواس ملک کامسیحاکہتاتھا۔

عرض یہ ہے کہ اپنے حکمرانوں کومشکل ذہنی رویوں کے عدسہ سے دیکھیے۔حیران ہوجائینگے کہ ان میں سے اکثریت آج بھی اپنی بنائی ہوئی فرضی دنیامیں رہ رہے ہیں۔ ان کے فرمودات سنکرلگتاہے کہ پاکستان میں خوشحالی اورترقی کا انقلاب آچکا ہے۔ مگر اس کا حقیقت سے دور دورتک کوئی تعلق نہیں ۔ہرلحاظ سے ملک تنزلی کا شکار ہے۔مگران حکمرانوں کی نظرمیں ہرطرف امن، چین اور بے مثال معاشی ترقی ہو رہی ہے۔

درباری سرکاری ملازم یقین دلاچکے ہیں کہ آپ ہی اس ملک کی سالمیت کے ضامن ہیں۔ غور کیجیے۔ آپکو صدیوں پہلے کے پاگل حکمران،ہمارے موجودہ مقتدرطبقے میں کثرت سے نظر آئینگے۔مگرظلم یہ ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے بعدبھی کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔عملاًیہاں زبان بندی ہے۔ ہماراہرحکمران دراصل گوشت پوست کا نہیں بلکہ شیشے کا بنا ہواہے۔یقین نہ آئے تواسے چھوکردیکھیے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں