اینٹی بائیوٹک دوائوں کے غیرضروری استعمال سے صحت کو خطرات

غلط وقت اور نامکمل ڈوزکے استعمال سے بیکٹیریا مضبوط اور طاقتور ہو گئے ہیں، ڈاکٹر سلمان فریدی

اب ٹائیفائیڈ کے جراثیم نے بھی اینٹی بائیوٹک دوائوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرلی ہے، گفتگو۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں اینٹی بائیٹک دوائوں کابے دریخ استعمال کرنے سے متعدد جراثیم نے دوائوں کے خلاف مزاحمت اختیارکرلی جو ایک خطرناک صورتحال ہے، پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دوائوں کا غلط استعمال اور غلط ڈوز سے جراثیم نے ان دوائوں کے خلاف مزاحمت پیداکر لی ہے۔

لیاقت نیشنل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹرسلمان فریدی نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ اینٹی بائیوٹک دوائوں کی غلط وقت اور نامکمل ڈوزکے استعمال سے بیکٹیریا مضبوط اور طاقتور ہوگئے جبکہ بیشتر بیکٹیریا اور وائرس اپنی شکل اور ہیئت بھی مسلسل تبدیل کررہے ہیں۔

اینٹی بائیوٹک دوائوں کے غیرضروری استعمال سے انسانی صحت کو سنگین طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، تپ دق (ٹی بی)کے مرض کے بعد اب ٹائیفائیڈکے مرض میںاستعمال کی جانی والی اینٹی بائیوٹک دوائوں کے خلاف بھی جراثیم نے مزاحمت پیدا کرلی ہے اب صرف2 دوائیں ایسی ہیں جوٹائیفائیڈکے لیے باقی رہ گئی ہیں، انھیں طبی زبان میں اینٹی مائیکرو بائیل ریزسٹنٹ انفیکشن کہا جاتاہے۔

ڈاکٹرسلمان فریدی نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے اور کوئی نئی دوابھی تیار نہیںکی جاسکی ہے، عالمی ادارہ صحت نے ایسے بیکٹیریاکی فہرست تیارکی ہے جن پر دوائیں بے اثرثابت ہورہی ہیں اور وہ انسانی صحت کیلیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ان میں سر فہرست ای کولائی جیسے جراثیم ہیں جو اسپتال میں داخل کمزورمریضوںکے خون میں جان لیوا انفیکشن یا نمونیا پھیلا سکتے ہیں۔

سیلف میڈیکشن انتہائی نقصان دہ ہے، اینٹی بائیوٹک کی غلط ڈوز، غلط وقت اوراینٹی بائیوٹک دوا مطلوبہ دورانیے سے کم استعمال کی جائے تواس کا اثرنہیں ہوتا اور اس دوران جراثیم مذکورہ اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت اختیار کرلیتے ہیں، پہلے تپ دق کے دوران استعمال کی جانے والی ادھورا علاج سے ڈرگ ریزسٹنٹ یعنی جراثیم دوا کے خلاف مزاحمت اختیارکرجاتے ہیں جس کے بعد ٹی بی کی دوا اثرانداز نہیں ہوتی تھی جسےMDRکہا جاتاہے۔


پاکستان میں ٹائیفائیڈ ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے اس مرض میں دستیاب دوائیں بے اثر ہورہی ہیں، ٹائیفائیڈکے مریض کو اب ڈبل اینٹی بائیوٹک دوائیں دی جارہی ہیں،اسی طرح ای کولائی جراثیم کے خلاف دستیاب دوائیں بے اثر ہورہی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ تمام اسپتالوںکودیکھنا ہوگا کہ ان کے اپنے اسپتال میں اینٹی بائیوگرام کی شرح کیا ہے۔

ڈاکٹرسلمان فریدی کا کہنا تھاکہ اب جراثیم اپنی شکل تبدیل کررہے ہیں پہلے سے طاقتور بن گئے ہیں، عالمی ادارہ سمیت دنیا بھر میں بیکٹریاکے طاقتور ہونے پر تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دوائوںکے خلاف مزاحمت کی صلاحیت کو ذہن میں رکھ کر یہ نئی فہرست تیار کی جائے ۔

ڈاکٹر سلمان فریدی کا کہنا تھاکہ غیرضروری اینٹی بائیوٹک دوائیںسب سے زیادہ تجویزکی جارہی ہیں لیکن اکثروبیشتر غیرموزوں اینٹی بائیوٹک تجویزکردی جاتی ہیں یا اس وقت تجویز کی جاتی ہیں جب ان کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے لیے غلط وقت اور غلط ڈوز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اینٹی بائیوٹک کو اینٹی مائیکروبائیل ڈرگز بھی کہا جاتا ہے جو انسانوں اور جانوروں میں بیکٹریا سے پیدا ہونے والے انفیکشنزکے خلاف لڑتی ہیں۔ اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹنٹ انفیکشنزکی مینیجمنٹ پر اب تک100 ٹریلین لگائے جا چکے ہیں۔ گزشتہ چند سال میں اس کے استعمال میں36 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 2050 تک جانوروں میں اس کا استعمال70فیصد تک بڑھ جائے گا۔ ان دوائوں کا بے دریغ اور غلط استعمال اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔

 
Load Next Story