جمہوریت کے رکھوالے یا جمہوریت کے دشمن
اپوزیشن جماعتیں بھی مخمصے کا شکار ہیں۔
حکومت' پارلیمنٹ' عدلیہ اور اپوزیشن سب اپنی اپنی طاقت اور اختیارات پارلیمنٹ سے لیتے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سب اپنے اپنے طریقے سے آئین اور قانون کی بالا دستی کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ آئین ایک ہے تو اس کی تشریح بھی ایک ہی ہونی چاہیے اور اس کی بالادستی کے علمبرداروں کا مؤقف بھی ایک ہونا چاہیے مگر یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے۔ سب آپس میںدست و گریباں بھی ہیں اور آئین کی بالادستی کے لیے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بھی بنائے بیٹھے ہیں۔ عام طور پر بحث سے معاملات سلجھتے ہیں مگر یہاں آئین اور قانون پر روزانہ بحث ہونے کے بعد بھی معاملات الجھتے ہی نظر آتے ہیں اور عوام مزید کنفیوژن کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
سب جلدی میں ہیں۔ حکومت اتحادیوں کے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم کرنے میں تو عدلیہ اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے میں۔ اپوزیشن فوراً یہ نعرہ لگانے میں کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جو کر رہی ہے وہ قطعی طور پر آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے نہیں۔ حکومت ترمیم کرے تو لگتا ہے کہ ملک میں اور کوئی مسئلہ ہی نہیں سوائے توہین عدالت کے قانون کے۔ معیشت ترقی کر رہی ہے' لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو چکا ' بیروزگاری تو کبھی ماضی میں مسئلہ تھا' قومی ادارے منافع میں ہیں' ٹرینیں ٹائم پر چلتی ہیں' جہاز وقت پر اڑتے اور اترتے ہیں' خارجہ پالیسی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں اور دہشت گردی کا نام و نشان نہیں ہے۔
اس لیے ضرورت ہے تو اس بات کی کہ چند منٹوں میں توہین عدالت کے قانون میں بغیر کوئی بحث کیے ترمیم کر دی جائے ورنہ ملک کہیں مسائل کا شکار نہ ہو جائے' ادھر جس تیز رفتاری سے اس ترمیم پر سماعت اور اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے یا حکومت کے خلاف دوسرے فیصلے آتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں میں عام افراد کے لاکھوں کیسز پینڈنگ ہی نہیں بلکہ سب نمٹا دیئے گئے ہیں۔ غریب آدمی کو ماتحت عدالتوں میں فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ آج کوئی یہ نہیں کہتا کہ بھائی وکیل کو اتنے پیسے کیوں دے رہے ہو۔ بہتر ہے کہ کوئی جج ہی کر لو۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ بس حکومت کی آئین سازی اور کرپشن ہے۔
حکومتی مؤقف سن کر لگتا ہے کہ پارلیمنٹ نے آئین میں ترمیم کر دی تو عدالت کا کوئی اختیار نہیں۔گویا عدالت کو حق ہی نہیں کہ اس کی تشریح کرے۔ دوسری جانب عدلیہ کے حق میں ایسے دلائل دیئے جاتے ہیں جیسے پارلیمنٹ کا کوئی کردار ہی نہیں اور بہتر ہو گا اسے تالے لگا دیئے جائیں۔ ایک دلیل آتی ہے کہ ایک ہی معاملے پر جب یوسف رضا گیلانی کو نہیں چھوڑا گیا تو بھلا عدالت کیسے دہرا معیار اختیار کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کو رعایت دے سکتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی گیلانی جیسا ہی سلوک ہونا چاہیے ۔ تو دوسری طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جب اٹھارویں ترمیم میں ججز کی تقرری کے حوالے سے شقوں کو اعلیٰ عدلیہ نے واپس پارلیمنٹ کے سپرد کر کے ان میں ترمیم کرنے کو کہا اور پارلیمنٹ نے حکم بجالاتے ہوئے انیسویں ترمیم میں عدلیہ کے اعتراضات ختم کر دیئے تو کیا وجہ ہے کہ توہین عدالت کے قانون پر دہرے معیار کا ثبوت دیا گیا۔
کیوں اس قانون کو بھی دوبارہ پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کے بجائے کالعدم قرار دیدیا گیا۔ ایک طرف سے دلیل آتی ہے کہ حکومت کے کام ہی ایسے ہیں کہ عدلیہ کو کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ تو دوسری طرف سے دلائل دیئے جاتے ہیں کہ اصغر خان کی پٹیشن پر تاریخیں اتنی تیزی سے کیوں نہیں لگیں جیسا کہ حکومتی کیسز پر۔ کیوں پنجاب حکومت کے اسٹے آرڈر کا فیصلہ اسی طرح فوری طور پر نہیں کیا جاتا جیسے حکومتی کیسز کا۔ کیوں شریف برادران کے پینڈنگ کیسز اسی طرح تیزی سے نہیں نمٹائے جاتے جیسا کہ مرکزی حکومت یا پیپلزپارٹی کے۔
اپوزیشن جماعتیں بھی مخمصے کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں موجود ہونے کے باوجود یہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں توہین عدالت کے قانون کو کیوں بلڈوز کیا گیا مگر وہ یہ جواب دینے سے قاصر کہ آخر پارلیمنٹ کا کام کیا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر پٹیشن داخل کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں تو کچھ ہو نہیں رہا کیونکہ اسے ربڑاسٹیمپ بنا دیا گیا ہے ۔جب یہ طعنہ سننا پڑاکہ اپوزیشن کا کام صرف واک آئوٹ کر کے پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر کافی پینا نہیں ہے،ایسا کر کے اپوزیشن بھی عوام کے مینڈیٹ کی توہین کر رہی ہے، تو پھر اپنا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔
شاید مسلم لیگ (ن) اس طعنے سے محفوظ رہتی اگر توہین عدالت قانون کے خلاف بھی پٹیشن داخل کر دیتی۔ تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں اویس لغاری کے سوا کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے اور وہ چونکہ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ہیں، اس لیے ان کا مؤقف ہمیشہ حکومت کے خلاف اور عدالت کے حق میں ہی ہوتا ہے۔ عمران خان اپنے سونامی کے ذریعے جس طرح ملک کو بدلنا چاہتے ہیں اس کے لیے عدلیہ' مقننہ اور انتظامیہ کا جو توازن انھیں درکار ہو گا فی الحال الیکشن سے پہلے تحریک انصاف اس کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہتی۔ ابھیاس کی یہی حکمت عملی ہے کہ حکومت کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے اور عدلیہ کا ہر فیصلہ درست ہوتا ہے۔
اگر پارلیمنٹ کو بالا دست بنانا تھا تو حکومت اور اس کے اتحادیوں کو بہت پہلے یہ کام کرنا چاہیے تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے فائدے کے لیے پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا جائے اور جب کوئی مشکل پڑے تو اس کی بالادستی کا نعرہ لگا کر دوسری سیاسی جماعتوں سے سپورٹ کی توقع کی جائے۔ قومی سلامتی پر پارلیمنٹ سے متفقہ قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ کبھی کسی قرارداد کے چودہ نکات کا اور کبھی کسی قرارداد کے اس سے زیادہ نکات کا کھل کر پرچار کیا جائے اور پھر ان قراردادوں کو سرد خانے کی نذر کر دیا جائے۔
انتظامی امور کو پارلیمنٹ کے حوالے کر کے بلند و بالا اعلانات کے ساتھ خارجی معاملات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار اور امریکا کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے پالیسی پارلیمنٹ سے بنوائی جائے اور پھر اس پالیسی کو ایک طرف رکھ کر انتظامیہ اپنی مرضی سے فیصلے کرے اور پارلیمنٹ کو ان فیصلوں اور معاہدے کے نکات پر بحث کا موقع تک نہ دیا جائے۔ سوات میں نظام عدل کو پارلیمنٹ سے منظور کراتے ہوئے عوام کو امن کا نیا خواب دکھایا جائے اور پھر چند دنوں کے اندر وہی پارلیمنٹ سوات آپریشن پر بھی تصدیق کی مہر لگاتی نظر آئے۔
جمہوریت کی مضبوطی کے لیے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے نعرے لگائے جائیں اور پھر بغیر کسی بحث اور اہم امور کی نشاندہی کے بجٹ پارلیمنٹ سے منظور بھی ہو جائے۔ آئین کے مطابق نیب کے سربراہ اور آڈیٹر جنرل کی تقرری میں لیڈر آف اپوزیشن سے معنی خیز مشاورت لازمی ہو مگر پھر خود ہی یہ تقرری کر دی جائے۔ آئین میں وزارتوں کی تعداد کو ارکان اسمبلی کی تعداد کا گیارہ فیصد کر دیا جائے مگر پھر بھی وزیروں کی ایک بڑی تعداد نئے نئے اور انوکھے محکموں کے ساتھ حکومت چلاتی رہے۔
جب ساڑھے چار سالوں میں پارلیمنٹ کی بالاستی کا مذکورہ بالا معاملات میں خیال نہ کیا گیا ہو اور پھر ایک خط نہ لکھنے کی وجہ سے دوسرے وزیراعظم کو قربانی کا بکرا بننے سے بچانے کے لیے اچانک توہین عدالت کا قانون بنایا جائے گا تو یہی ہو گا جو ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ سے قانون سازی کاحق چھنتا نظر آئے گا مگر نہ تو پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن حکومت کا ساتھ دیتی نظر آئے گی نہ ہی کوئی دوسری سیاسی جماعت۔ پھر پارلیمنٹ جیسے ادارے کو یہ طعنے بھی سننے پڑیں گے کہ اس میں جو قانون سازی کی گئی وہ بدنیتی پر مبنی تھی۔
گویا اگر زیادتی ہو بھی رہی ہے تو بھی کوئی حکومت کے ساتھ ہم آواز ہونے کو تیار نہیں۔ بہر حال مذکورہ بالا باتوں کی اپوزیشن بھی اگر برابر کی نہیں تو بہت حد تک ذمے دار ہے۔ پارلیمنٹ کی قراردادوں اور ترامیم پر عمل درآمد کرانے کے لیے اگر اپوزیشن کھل کر پارلیمنٹ کے اندر یا باہر حکومت پر مسلسل دبائو ڈالتی رہتی تو یہ ممکن نہ رہتا کہ حکومت پارلیمنٹ کی بالا دستی کو نظر انداز کرتی۔ محض چند تقریریں کرنے سے نہ حکومت پر دبائو پڑا اور نہ ہی حکومت کے کان پر جوں رینگی اور آج نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ اگر اس پارلیمنٹ کا کوئی کام ہی نہیں اور یہ قانون سازی ہی نہیں کر سکتی تو اس کو تالے لگا دیئے جائیں۔
یہ سوالیہ نشان پارلیمنٹ پر نہیں درحقیقت جمہوریت کے مستقبل پر ہے اور ماضی کے برعکس اس دفعہ جمہوریت کو خطرے میں کسی غیر جمہوری قوت نے نہیں بلکہ ان اداروں نے ڈال دیا ہے جو خود اپنا مستقبل جمہوریت سے منسلک کیے بیٹھے ہیں مگر یہ تسلیم نہیں کر پاتے کہ جمہوریت میں آئین کے تحت ہر ادارے کے کردار کا تعین کر دیا گیا ہے۔ اختیارات کی لڑائی ہی لڑائی۔ نعرے جمہوریت مضبوط کرنے کے مگر حاصل کمزوری ' اس کمزور جمہوریت کی ایک مثال تو یہ ہے کہ کہاں 2008ء کے الیکشن کے بعد جمہوریت کا سفر میثاق جمہوریت کے تحت شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کی شق نمبر 32 میں واضح کیا گیا کہ تمام انٹیلی جنس ایجنیسوںکو جمہوری حکومت کے تابع کیا جائے گا۔ ان کے بجٹ متعلقہ وزارت کی سفارشات کے تحت طے کیے جائیں گے اور تمام سینئر افسران کی تقرریاں حکومت کی منظوری سے ہوں گی۔
مگر آج حال یہ ہے کہ ایجنسیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما جناب فرحت اللہ بابر کو پرائیویٹ بل پیش کرنا پڑتا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد ملک میں جمہوریت کی بالادستی کا شاندار موقع گنوا دیا گیا اور جمہوریت کے رکھوالے ہی جمہوریت کے دشمن نظر آتے ہیں۔