تیرے بنا عید ادھوری ہے مریِ

’’امی! میں عید کی نماز پڑھ کر آؤں گا تو شیرخرمہ کھاؤں گا۔‘‘


Munira Adil June 11, 2018
’’امی! میں عید کی نماز پڑھ کر آؤں گا تو شیرخرمہ کھاؤں گا۔‘‘ فوٹو: فائل

''امی! دیکھیں میری منہدی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے۔''

''امی! میں عید کی نماز پڑھ کر آؤں گا تو شیرخرمہ کھاؤں گا۔''

''امی! مجھے باجی سے زیادہ عیدی دیجیے گا۔''

یہ خوب صورت آوازیں ہی گھر کی رونق ہوتی ہیں۔ عید کی اصل خوشی تو انھی کے دم سے ہوتی ہے۔ اور پھر کہیں فون پر امی کا دعوت دینا:

''بیٹی! آج عید کی دعوت ہے، تم داماد جی اور بچوں کے ساتھ آنا، شیر خرمہ بنایا ہے۔ ساتھ تمہاری پسند کی ڈش بھی بنا رہی ہوں۔''

یہ خوب صورت روایت عید کی خوشی سے دلوں کو لبریز کردیتی ہے۔ اور پھر کہیں بیوی کا عید کے دن سج سنور کر شوہر سے پوچھنا:''میں کیسی لگ رہی ہوں؟'' یہ محبت بھرے لمحات زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھردیتے ہیں۔

درحقیقت عید کے دن کی اصل خوشی انھی سب اپنوں کے دم سے ہوتی ہے۔ محبتیں، خوشیاں، زندگی کا اصل مزہ اپنوں کے سنگ جینے میں ہے، لیکن کبھی زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اپنے پردیس میں ہوں تو عید کے دن ان کی یاد بہت تڑپاتی ہے۔ چاہے بیٹا بہتر معاش کی تلاش میں سات سمندر پار مقیم ہو یا بیٹی بیاہ کر پیا کے سنگ پردیس چلی جائے، اسی طرح وہ بیاہی بیٹیاں جن کے والدین پردیس میں مقیم ہوں، عید کے دن والدین کی یاد ان کو بہت اداس کردیتی ہوگی۔ ایسی ہی کچھ خواتین سے جن کے پیار بھرے کچھ رشتے دیار غیر میں مقیم ہیں، ان سے ہم نے عید کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کیا بتایا، وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

٭سحرش فیصل۔ لاہور:

سحرش پاکستان کے شہر لاہور میں رہتی ہیں اور ان کے شوہر سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سحرش نے بتایا کہ شادی کے بعد ایک بھی عید ابھی تک شوہر کے ساتھ نہیں منائی۔ ڈھائی برس قبل فروری 2016 میں وہ آئے تھے۔ ان کو کھانے میں چکن کڑاہی پسند ہے۔ ہمارے اور وہاں کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ عید کے دن فون پر ہی سارا دن گزر جاتا ہے۔ وہ عیدی بھیجتے ہیں تو میں یہاں سے خریداری کرتی ہوں اور اپنی طرف سے زیادہ تر کپڑے ہی تحفے میں بھیجتی ہوں۔ عید کے دن میں ان کو یہ کہنا چاہوں گی کہ میں انہیں بہت زیادہ یاد کرتی ہوں۔

٭فرزانہ رشید۔ کراچی:

فرزانہ رشید کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، جب کہ ان کی بیٹی آسٹریلیا میں مقیم ہے۔ فرزانہ رشید نے بتایا کہ تیرہ چودہ برس قبل اکلوتی بیٹی نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ آسٹریلیا میں رہائش اختیار کرلی۔ وہ بہت یاد آتی ہے، دل پر بڑا پتھر رکھنا پڑتا ہے، خصوصاً عید کے دن یا کسی تہوار کے موقع پر تو بہت ہی یاد آتی ہے۔ تین سال قبل عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھائی کی شادی میں آئی تھی۔ عید کے دن ہاتھ چومنا، مبارک باد دینا، منہدی والے ہاتھ دکھانا، خوش ہونا وہ سب یاد آتا ہے۔ بیسن کے ڈوکرے اور ہری مرچ کا قیمہ فرمائش کرکے مجھ سے بنواتی ہے۔ ان کے اور ہمارے وقت میں پانچ چھے گھنٹے کا فرق ہے۔ پہلے عید کارڈ اور خط بھیجتی تھی، اب فون پر رابطہ ہوتا ہے۔ واٹس ایپ پر ویڈیو کال پر تراکیب بھی پوچھ کر بنالیتی ہے۔ رمضان سے قبل اس کی عیدی یعنی کپڑے، ہم رنگ زیورات، بیٹی اور بیٹیوں کے لیے بہت سارے تحائف وغیرہ پارسل کے ذریعے ارسال کردیتے ہیں۔ عید سے قبل ان کو مل جاتے ہیں۔عید کے دن بس یہی دعا ہے کہ ''جہاں رہیں، خوش رہیں۔ماں کو ماضی، شوہر کو حال اور بچوں کو مستقبل سمجھ کر اپنے گھر میں خوش رہو۔ اگر ہوسکے تو آجائیں، آکر مل جائیں۔'' فرزانہ کا گلوگیر اور اداس لہجہ ان کے جذبات کی غمازی کر رہا تھا۔

٭بنتِ جمیل۔ گوجرانوالا:

بنتِ جمیل گوجرانوالہ میں جب کہ شوہر یمن میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ''ان کو گئے دو سال آٹھ ماہ ہوگئے ہیں۔ میں اور میری بیٹی گھر میں اکیلے ہوتے ہیں اور جب سب بچوں کے والد ان کو عید کے دن گھمانے لے کے جاتے ہیں تو میری بیٹی کا دل بھی چاہتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اماں میرے بابا جانی ادھر میرے پاس ہوتے تو میں بھی گھومنے جاتی۔ اپنی بیٹی کو دیکھ کر زیادہ یاد آتی ہے۔ ان کا کوئی دوست پاکستان آرہا ہو تو اس کے ہاتھ میک اپ کا سامان، جوتے، گھر کی چیزیں وغیرہ سب بھجواتے ہیں۔ میں بھی اسی طرح ان کے دوست کے ہاتھ یہاں سے سامان بھجواتی ہوں۔ ابھی گاجر کا حلوہ اور جوتے بھجوائے ہیں۔ ان کو حلوہ بہت پسند ہے۔ عید کے دن اور عام دنوں میں بھی وائبر پر بات کرتے ہیں۔ تھوڑا سا بھی وقت ملے تو کال کرلیتے ہیں۔ ان کا اور ہمارا گرمیوں میں دو گھنٹے اور سردیوں میں تین گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔ میری شادی کے دو سال بعد میرے شوہر باہر گئے تھے، اب بیٹی دس بارہ سال کی ہوگئی ہے۔ عید کے دن یہ کہنے کا دل چاہتا ہے کہ کاش آپ عید پر ہمارے ساتھ ہوتے!'' بہتے اشک ان کی کیفیت بتا رہے تھے۔

٭جویریہ مجاہد۔ لاہور:

جویریہ مجاہد کا تعلق لاہور سے ہے اور والدین اور بھائی بھابھیاں جنوبی افریقا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا:''دونوں بھائی پندرہ سال قبل گئے تھے۔ دو سال قبل امی ابو بھی وہاں چلے گئے ہیں۔ بڑے بھائی سے ملے پندرہ برس بیت گئے۔ چھوٹے بھائی سے چار سال پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ بھائیوں کو گئے تو ایک عرصہ گزر گیا، جب کہ امی ابو کچھ عرصہ پہلے گئے ہیں تو ان کی بہت یاد آتی ہے۔ خاص طور پر عید کے دن امی کے گھر دعوت ہوتی تھی، بہترین کھانا پکاتی تھیں، اتنے پیار سے سب کی پسند کا کھانا بناتی تھیں۔ شیر خرمہ بناتی تھیں، میں اور بچے بھی نانو کے گھر جانا بہت یاد کرتے ہیں۔ واٹس ایپ پر ویڈیو کال کے ذریعے روزانہ رابطہ ہوتا ہے۔ ان کے اور ہمارے وقت میں تین گھنٹے کا فرق ہے۔ بھائی کا کوئی دوست آرہا ہو تو امی بچوں کے لیے تحفے وغیرہ بھیجتی ہیں اور بھائی عیدی بھیجتے ہیں۔ امی پیار سے مجھے جیرو کہتی ہیں۔ آپ نے تو رُلا دیا۔ الفاظ نہیں ہیں۔ عید کے دن ان کے بغیر بہت رونا آتا ہے۔'' الفاظ ان کے درد کی عکاسی کر رہے تھے۔

٭مسز یاسر محمود شاہ۔ ہری پور:

مسز یاسر ہری پور میں رہتی ہیں اور ان کے شوہر بحرین میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا:''شوہر ایک سال قبل آئے تھے۔ عید کے دن دل چاہتا ہے کہ ہم بھی عام فیملیز کی طرح ساتھ رہیں۔ کھانے میں ان کو بریانی بہت پسند ہے۔ ان کے اور ہمارے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ پہلے میسنجر (Messenger) پر بات ہوتی تھی، اب واٹس ایپ پر بات ہوتی ہے۔ میں اپنی سوچ کا بھرپور اظہار کرنے والوں میں سے ہوں۔ جو سوچتی ہوں کہہ بھی دیتی ہوں۔'' مسکراتے ہوئے جواب دیا اور مجھے لگا کہ اس مسکراہٹ کے پردے میں انھوں نے بہت کچھ چھپالیا تھا۔

٭کومل بٹ۔ گوجرانوالہ:

کومل بٹ گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بھائی دبئی اور والد ساؤتھ افریقہ میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ''پاپا کو گئے دس سال ہوگئے۔ پچھلے دنوں چند ماہ کے لیے آئے تھے۔ عید کے دن بہت یاد آتی ہے، کیوں کہ والدہ کا انتقال ہوچکا ہے اور والد بھی بیرون ملک ہوتے ہیں تو بہت یاد کرتی ہوں۔ میں اپنے پاپا کی بہت لاڈلی ہوں۔ انھوں نے کبھی کچھ بنانے کو نہیں کہا۔ میں نئی ڈشز بناتی رہتی ہوں تو وہ سب شوق سے کھاتے۔ ہمارے اور وہاں کے وقت میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ عید والے دن واٹس ایپ آیمو (IMO) پر کال کرتے ہیں۔ ویسے تو روز ہی بات ہوتی ہے۔ وہ عید پر نقد پیسے بھیجتے ہیں۔ جب کوئی آجائے تو میں چیزیں بھیج دیتی ہوں۔''

٭ ثنا صابر۔ جہلم:

ثنا جہلم میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے شوہر سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ثنا نے بتایا کہ ''شادی کو سات ماہ ہوئے ہیں، شادی کے بعد پہلی عید ہے، وہ بھی ان کے بغیر۔ پانچ مہینے پہلے وہ گئے ہیں۔ سچ میں عید پر بہت یاد آتی ہے ان کی، شادی کے بعد پہلی عید ہے تو بہت یاد کروں گی۔ ان کو کھانے میں مچھلی بہت پسند ہے، عید کے دن فون پر ویڈیو کال پر رابطہ ہوگا۔ پہلی عید ہے تو پتا نہیں عیدی میں کیا دیں گے۔ عید کے دن میں یہ کہنا چاہوں گی ''میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔ آپ ہمیشہ خوش رہیں اور خدا آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ عید مبارک!'' نوبیاہتا دلہن کے جذبات ان کے لفظوں سے عیاں تھے۔

٭ اسماء جام۔ رحیم یار خان:

اسماء رحیم یار خان میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے شوہر سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بتایا ''شوہر کو گئے دو سال ہوگئے ہیں۔ پچھلے دنوں دو ماہ کی چھٹیاں گزار کرگئے ہیں۔ بہت یاد آتی ہے اتنا پیارا رشتہ ہے۔ ان کو میرے ہاتھ کے بنے سب کھانے پسند ہیں۔ عید کے دن آیمو (IMO) ویڈیو کال پر بات ہوتی ہے۔ وہ پیسے بھیج دیتے ہیں، ہم خود ہی خریداری کرتے ہیں۔ اور جب کوئی وہاں سے آتا ہے تو ہمیں تحائف بھیجتے ہیں اور ہم بھی یہاں سے جانے والے کو ان کے لیے کچھ نہ کچھ بھیجتے ہیں۔ عید کے دن یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کو اپنے بابا کے ساتھ رہنا پسند ہے۔''

یہ تو تھے ان لوگوں کے جذبات جو اپنوں سے عید کے دن دوری کو بہت محسوس کرتے ہیں۔

عید کے پرمسرت موقع پر اپنی خوشیوں میں اپنے اردگرد رہنے والی کسی ایسی فیملی کو ضرور شامل کریں۔ ان کے بچوں کو اپنے بچوں کے ساتھ گھمانے لے جائیں۔ عید کی دعوت پر مدعو کریں یا ان کے ساتھ عید کا دن گزاریں۔ خوشیوں کے یہ چند لمحے ان کے لیے یادگار پل بن جائیں گے۔ اور کیا پتا یہ نیکی بارگاہ خداوندی میں آپ کی سرخ روئی کا سبب بن جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں