مسجد اﷲ کی۔ نماز ملاّ کی

ایک معمولی آپریشن میں دہشت گردی اور ٹارچر کی یہ داستان سن کر ایک بار تو میری سٹّی گم ہوگئی۔


Tariq Mahmood Mian August 11, 2012

مجھے یاد ہے کہ چند برس قبل اگر کوئی آنکھ کا آپریشن کرواتا تھا تو اسے کئی روز تک اسپتال میں رہنا پڑتا تھا۔ اب یہ ایک معمولی کام بن گیا ہے۔ یہی معمولی کام کروانے کی مجھے ضرورت پڑی تو میں انجانے خوف کے مارے اسے ٹالتا رہا۔ لیکن آخر کب تک۔ رات کو گاڑی چلانے میں دشواری ہورہی تھی۔ سامنے سے آنے والی ٹریفک کی لائٹ اس قدر پھیل جاتی کہ کچھ سجھائی نہ دیتا۔ دیگر مسائل بھی تھے۔ سو ایک روز میں نے ہمت کی اور آپریشن کا وقت لے لیا۔ اس آپریشن میں آج کل ڈاکٹر باہر بیٹھے مریضوں کو باری باری اندر بلاتے ہیں اور کھٹ سے کام تمام کرکے نکال باہر کرتے ہیں کہ گھر جائو اور شام کو خود ہی پٹّی اتار دینا۔ لیکن میرا ڈاکٹر ایسا نہیں تھا۔

میرا ڈاکٹر چونکہ آنکھ کے ایک ایسے اسپتال میں آپریشن کرتا ہے جہاں مریضوں کو ٹھہرانے کے کمرے بھی ہیں، لہٰذا مجھے باقاعدہ ایک کمرہ الاٹ کیا گیا۔ بستر پر لٹایا گیا۔ لباس بدلا گیا۔ کالے مارکر سے آنکھ پر نشان لگایا گیا اور پھر اسٹریچر پر ڈال کے آپریشن تھیٹر پہنچادیا گیا۔ وہاں دو تین چھوٹے ڈاکٹر اور ان کے چمچوں نے میرے کل پرزے درست کرنا اور شکنجے میں جکڑنا شروع کردیا۔ ان میں سے ایک مجھ سے پیار بھری باتیں بھی کررہا تھا تاکہ میں نارمل رہوں اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہوجائوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اب تو کیٹریکٹ کا آپریشن بالکل معمولی سمجھا جاتا ہے؟ بولا ''ہاں۔ بالکل معمولی۔ بس ہم آنکھ کو رگڑنے کے بعد پتلی کو تھوڑا سا کاٹیں گے۔

اس میں جو اوریجنل لینس ہے اس کو توڑ دیں گے۔ لینز کے ٹکڑوں کو ایک پائپ کے ذریعے چوس کے باہر نکال دیں گے اور پھر اس میں ایک نیا لینس ڈالیں گے۔ بس آپریشن ختم۔'' ایک معمولی آپریشن میں دہشت گردی اور ٹارچر کی یہ داستان سن کر ایک بار تو میری سٹّی گم ہوگئی۔ لیکن اس سے قبل کہ میری گھبراہٹ شدّت اختیار کرتی، اصلی ڈاکٹر نے مجھے قابو کرلیا اور آنکھ کے نیچے ایک چبھتا ہوا انجکشن لگا کے اس میں اپنی کارروائی شروع کردی۔ مجھے کچھ گھومتی، اچھلتی اور لہراتی ہوئی روشنیوں کے فائر ورکس دکھائی دیتے رہے اور تھوڑی ہی دیر میں آپریشن مکمل ہوگیا۔

اب میں سلطانہ ڈاکو بن چکا تھا اور میری ایک آنکھ پر، رہٹ پر گھومنے والے بیل جیسا کھوپا چڑھا ہوا تھا۔اسی حالت میں اگلے روز ڈاکٹر کے پاس حاضر ہوا تو اس نے کھوپا اتار دیا۔ آپریشن کی کامیابی کا مژدہ سنایا اور آئی ڈراپس کی دو شیشیاں دے کر کہا کہ انھیں ہر ایک گھنٹے کے بعد باری باری آنکھ میں ڈالتے رہنا۔ پھر اس نے مجھے ڈرانا اوردھمکانا شروع کردیا۔ آنکھ کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کو کہا۔ کچھ ہدایات دیں اور ان پر سختی سے عمل کرنے کو کہا۔ مثلاً آنکھ کو پانی نہ لگے۔ ہاتھ نہ لگے۔ کوئی بھی استعمال شدہ کپڑا اس کے قریب مت لے جائو۔ وضو میں مسح سے کام چلائو۔ سر کو جھکانا نہیں۔نماز پڑھو تو سجدہ ہرگز نہیں کرنا۔ اشارے سے پڑھنا۔ اس طرف کروٹ لے کر سونا بھی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور سنو اگر ذرا بھی بے احتیاطی کی تو پھر یاد رکھنا کہ آنکھوں سے بڑی نعمت دنیا میں اور کوئی نہیں۔

ایک خوف زدہ اور سہمے ہوئے مریض کی طرح اگلے دو دن تو میں نے خود کو اپنے بیڈروم میں محصور رکھا۔ تیسرے دن ذرا جھجک کھلی تو اس حصار سے باہر نکلا۔ سوچا کہ آئی ڈراپس خریدنا ہیں تو خود ہی جاکے اس میڈیکل اسٹور سے لے آتا ہوں جہاں دس فیصد ڈسکائونٹ ملتا ہے۔ یوں ساڑھے گیارہ روپے کی بچت ہوجائے گی۔ وہاں پہنچا تو اذان شروع ہوگئی۔ اگلی گلی میں مسجد ہے۔ اس میں شہر کے ایک معروف خطیب نماز پڑھاتے ہیں۔ یہ علاقے کی سب سے پرانی مسجد ہے۔

تیس برس قبل میں نے دیکھا تھا کہ ایک دبلا پتلا سا باریش نوجوان سائیکل پر آتا ہے اور بڑی خوش الحانی سے نماز پڑھا کے چلا جاتا ہے۔ اس کی خطابت بھی جاندار تھی۔ آج وہی نوجوان شہر کے ایک نامور عالمِ دین میں ڈھل چکا ہے اور اپنے جیسے سیکڑوں نوجوانوں کا سالار ہے۔ سائیکل کی جگہ لینڈ کروزر اور دوسری گاڑیوں نے لے لی ہے اور ایک اسلحہ بردار دستہ قدرت کی ڈیوٹی آسان کرنے کے لیے اسے اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔

میں مسجد میں نماز کے انتظار میں تھا کہ اچانک ایک چھوٹا سا مولوی کود کے مجھ تک پہنچا اور بولا، ''آپ ٹوپی پہن لیجیے۔'' میں نے بتایا کہ میں کسی اور کام سے ادھر آیا تھا۔ اس لیے ٹوپی ساتھ نہیں لایا ہوں۔ اس نے کھٹ سے کپڑے کی ایک ٹوپی نکالی اور مجھے پیش کردی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں آنکھ کے آپریشن میں احتیاط کے باعث کسی کی استعمال شدہ ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ وہ کچھ ناراض سا ہو کے چلا گیا۔ لیکن فوراً ہی دو اور مولوی ایک اور طرف سے دوڑتے ہوئے آگئے۔ بولے ہماری ٹوپیاں دھلی ہوئی ہوتی ہیں لیکن اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ کسی اور نے نہیں پہنی ہوں گی۔

پھر انھوں نے اتنی ضد کی کہ میں نے ایک ٹوپی لے لی اور ان کے جانے کے بعد تہہ کرکے اسے سامنے صف پر رکھ دیا۔پھر میں نے اردگرد نظر دوڑائی تو مجھے صحن میں ٹوپی کے بغیر کوئی شخص دِکھائی نہ دیا۔ جگہ جگہ ٹرے میں ٹوپیاں اٹھائے مولوی کھڑے تھے اور ان کے ہرکارے ہر ننگے سر والے کو دوڑ کے ٹوپی پہنا دیتے تھے۔ اب آہستہ آہستہ میرے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوگئے اور مساموں سے ننھی ننھی ٹھنڈی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔ کچھ مولوی میری طرف اشارے کرکرکے آپس میں سرگوشیاں بھی کررہے تھے۔

اس وقت مجھے کئی سال پہلے کا وہ منظر یاد آگیا جب ہم سڑک کے راستے سفر کے دوران اسلام آباد کے نواح میں ایک چھوٹی سی مسجد کے پاس رکے تھے اور ہماری نظروں کے سامنے ایک نحیف و نزار کالے سے آدمی کو دو موٹے تازے نمازیوں نے اٹھا کے مسجد سے باہر پٹخ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کے مسلک کے خلاف غلط جگہ پر ہاتھ باندھ کے نماز پڑھ رہا تھا۔ اب مسجد بھی دھونا پڑے گی۔

مجھے یوں لگا کہ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ جہلاء سے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ نماز ٹوپی کے بغیر بھی ہوجاتی ہے یا نہیں۔ بس اب یہی ہوگا کہ جراثیموں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ایک ٹوپی زبردستی میرے سر پہ منڈھ دی جائے گی یا پھر مجھے ڈنڈا ڈولی کرکے مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے بہتے ہوئے گٹر کے پانی میں پٹخ دیا جائے گا۔ لہٰذا جب ہٹو بچو کی صدائوں کے درمیان، درجنوں نام لیوائوں کے جلو میں امام صاحب اکبرِ اعظم سے بھی زیادہ تزک و احتشام کے ساتھ امامت کے لیے تشریف لارہے تھے، میں آنکھ بچا کے انتہائی پھرتی سے بھاگ گیا۔ قریب ہی دوسری گلی میں دوسری مسجد ہے۔ میں اس میں داخل ہوگیا ہوں۔ یہاں بڑا سکون ہے۔ نماز بھی بخیر و عافیت شروع ہوگئی ہے لیکن ذرا ٹھہریے۔ مجھے یہاں بھی ایک پرابلم دِکھائی دے رہا ہے۔

دراصل میں ایک کمزور سا دنیا دار نمازی ہوں۔ امام قرأت کررہا ہو تو حساب کتاب کرتا رہتا ہوں اور کن انکھیوں سے مسجد میں ہونے والی ایکٹیویٹی کا بھی جائزہ لیتا رہتا ہوں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام نمازی سجدے میں جاچکے ہیں اور تین چار کلاشنکوف بردار حفاظتی مولوی سامنے کھڑے مجھے گھور رہے ہیں۔ مجھے ان کے ارادے اچھے دکھائی نہیں دیتے۔ اشاروں میں سجدہ کرتا دیکھ کے شاید وہ مجھے کسی اور مسلک کا پیروکار سمجھ رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے زمین پر ماتھا نہ ٹیکا تو یہ کود کے مجھ پر حملہ آور ہوں گے اور میری گدّی دبا کے سجدہ کروا ڈالیں گے۔

ہوسکتا ہے یہ میرا وہم ہو لیکن میں سخت تذبذب میں ہوں۔ سوچتا ہوں کیا کروں۔ میرے سامنے دو آپشن ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کا رسک لے لوں یا چھلانگ مار کے یہاں سے بھی اٹھوں اور بھاگ لوں۔ تیسری گلی میں تیسری مسجد موجود ہے۔ وہاں چلا جائوں اور اندر جانے سے پہلے داروغۂ مسجد سے اچھی طرح پوچھ لوں، ''اﷲ کے اس گھر میں راج کس کا ہے۔'' میرا فون آن ہے۔ مجھے جلدی سے ایس ایم ایس کیجیے کہ میں کیا کروں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں