ڈبہ کھیس
خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کی بہت جلدی ہے، اس کے لیے وہ ہر حربہ آزما رہے ہیں۔
انتخابات کا زمانہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جاری اور رواں دواں ہے، سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اتارنے کے لیے اپنے نمایندوں کا چنائو کر رہی ہیں، سب سے زیادہ دبائو پنجاب کی نشستوں کے لیے ہے، پنجاب میں دو بڑی جماعتوں نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان جوڑ پڑے گا، اس لیے دونوں جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے امیدواروں کے انٹرویو کر نے کے بعد ان کو اپنے نمایندے کے طور پر عوام میں بھجوا رہے ہیں ۔
تحریک انصاف نے اس معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکی نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔تحریک انصاف نے جیسے ہی الیکشنی امیدواروں کا اعلان کیا، میڈیا میں تحریک کے نوجوان نمایندوں نے بھونچال برپا کر دیا کیونکہ ان کی اکثریت کو الیکشن کے لیے ٹکٹ نہیں مل سکے، اس لیے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں اور ان میں سے بعض تو اپنے لیڈر کی وسیع و عریض رہائش گاہ بنی گالہ بھی پہنچ گئے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے دیا ۔
دھرنوں کے بارے میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں سے زیادہ تجربہ کار کوئی نہیںبلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دھرنا سیاست کو عروج ہی تحریک انصاف نے دیا ہے، اسی لیے انھوں نے اس دفعہ دھرنا اپنی ہی جماعت کے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف دے دیا اور اطلاعات کے مطابق ان میں سے بعض لیڈر احتجاج کے بعد ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوگئے۔
جناب عمران خان کی پارٹی نے ملک میں تبدیلی کا جو نعرہ آج سے کچھ عرصہ قبل دیا تھا، اب وقت آ گیا تھا کہ عوام ان کے نئے پاکستان کے نعرے پر کھل کر لبیک کہتی اور ان کی جھولی اپنے ووٹوں سے بھر دیتی لیکن جب الیکشن کے لیے امیدواروں کا اعلان ہو اتو عمران خان جو ذاتی طور پر اس تمام عمل کی نگرانی کر رہے ہیں اور گزشتہ الیکشن میں ناموزوں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی غلطی تسلیم بھی کر چکے تھے اس دفعہ پھر کسی حد تک اسی غلطی کو دہرا بیٹھے اور اپنی جماعت کے جانثار کارکنو ں کو پیچھے دھکیل کر جماعت میں نئے آنے والوں کو ٹکٹ دے دئے جس سے ان کے دیرینہ کارکنوں میں بے دلی پھیل گئی ہے اور وہ اس بات پر بالکل بھی آمادہ نہیں کہ اپنے پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر نئے آنے والوں کے نعرے لگائیں، اس لیے مختلف انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے کارکن اپنی لیڈر شپ کا فیصلہ ماننے کو تیار نظر نہیں آتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت میں نئے آنے والے جن فصلی بٹیروں کو ٹکٹ نہیں ملے انھوںنے تو فوراً ہی آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔
اس سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ پارٹی میں نئے آنے والوں اور پرانے سیاسی ساتھیوںمیں کتنا فرق ہے جن پرانے کارکنوں کو ٹکٹ نہیں ملے وہ اس کے باوجود عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نظریے کے ساتھ ہیں اور الیکشن میںحصہ لینا ہی ان مطمح نظر نہیں ۔ گو ان میں سے اکثر دل برداشتہ ہیں لیکن پارٹی فیصلے کو قبول بھی کررہے ہیں ۔
میں ذاتی طور پر ان میں سے کئی ایک کو جانتا ہوں جنہوں نے سیا ست کے آغاز سے ہی عمران کا ساتھ دیا لیکن ان نظریاتی کارکنوں کو پیچھے کر دیا گیا اور ان امیدواروں کو ترجیح دی گئی جو اس ملک کی سیاست میں جانے پہچانے جاتے ہیں، شائد عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پرانے سیاستدانوں کے سہارے ہی وزیر اعظم بن سکتے ہیں، اس لیے انھوں نے ان کو ساتھ لے کر چلنا مناسب سمجھا اور اپنے مخلص اور جانثار ساتھیوں کو چھوڑ دیا ۔ حلقے کی سیاست کو ترجیح دی گئی حالانکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے مختلف حلقوں میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے پہلے سروے بھی کرائے یا تو وہ سرو ے جعلی تھے یا پھر امیدواروں نے ان سروے والوں کے ساتھ ساز باز کر لی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ایک ایسے کارکن بھی ٹکٹ سے محرو م رہ گئے جنہوںنے گزشتہ الیکشن میں ہزاروں کی تعداد میں ووٹ بھی لیے مگر اس بار وہ بھی پارٹی میں نووارد مگر گھاگ سیاستدانوں کا شکار بن کر ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ۔
عمران خان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ الیکشن ان کا آخری الیکشن ہے، وہ ہر قیمت پر اس الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے صرف اور صرف ایسے امیدواروں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی صورت میں وہ یقینی طور پر الیکشن میں کامیاب ہو جائیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو عوام ان جماندرو سیاستدانوں سے پہلے ہی تنگ ہیں اور وہ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عمران خان ہر حال میں الیکشن میں کامیابی چاہتے ہیں، اس کے لیے سیاسی میدان میں انھیںکیسی ہی چالیں کیوں نہ چلنی پڑیں، ان کے پاس اب کو دوسرا چانس نہیں وہ گزشتہ انتخابات میں بھی بہت پر امید تھے لیکن قرعہ نواز شریف کے نام نکل آیا ۔
ہمارے ہاں ایک زمیندار کے لڑکے کو تپ محرقہ ہوگیا، ان دنوں ٹائیفائیڈ اکیس روز چلتا تھا اور معیادی بخار کہلاتا تھا ۔ بیماری کے دوران لڑکا بہت چڑ چڑا ہو گیا اور ہر روز والد سے ضد کرنے لگاکہ اسے موٹر کار خرید کر دی جائے ۔ باپ نے بتایا کہ بیٹے گزشہ سال فصل ٹھیک نہیں ہوئی، اس سال بھی فصل ٹھیک نہیں جب بھی حالات بہتر ہوئے تو وہ اسے موٹر ضرور خرید دے گا لیکن بچے کی ضد جاری رہی ۔ اس نے باپ کی ایک نہ مانی لیکن جب بیمار لڑکا ضد کرتے کرتے تنگ آگیا تو ایک دن کہنے لگا ابا موٹر کار نہیں تو ڈبہ کھیس (چار خانوں والاسوتی کمبل) ہی لے دو۔ خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کی بہت جلدی ہے، اس کے لیے وہ ہر حربہ آزما رہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ ان کے حصے میں موٹر کار آئے ڈبہ کھیس نہیں۔
تحریک انصاف نے اس معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکی نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔تحریک انصاف نے جیسے ہی الیکشنی امیدواروں کا اعلان کیا، میڈیا میں تحریک کے نوجوان نمایندوں نے بھونچال برپا کر دیا کیونکہ ان کی اکثریت کو الیکشن کے لیے ٹکٹ نہیں مل سکے، اس لیے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں اور ان میں سے بعض تو اپنے لیڈر کی وسیع و عریض رہائش گاہ بنی گالہ بھی پہنچ گئے اور عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے دیا ۔
دھرنوں کے بارے میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور لیڈروں سے زیادہ تجربہ کار کوئی نہیںبلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دھرنا سیاست کو عروج ہی تحریک انصاف نے دیا ہے، اسی لیے انھوں نے اس دفعہ دھرنا اپنی ہی جماعت کے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف دے دیا اور اطلاعات کے مطابق ان میں سے بعض لیڈر احتجاج کے بعد ٹکٹ کے حصول میں کامیاب بھی ہوگئے۔
جناب عمران خان کی پارٹی نے ملک میں تبدیلی کا جو نعرہ آج سے کچھ عرصہ قبل دیا تھا، اب وقت آ گیا تھا کہ عوام ان کے نئے پاکستان کے نعرے پر کھل کر لبیک کہتی اور ان کی جھولی اپنے ووٹوں سے بھر دیتی لیکن جب الیکشن کے لیے امیدواروں کا اعلان ہو اتو عمران خان جو ذاتی طور پر اس تمام عمل کی نگرانی کر رہے ہیں اور گزشتہ الیکشن میں ناموزوں امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی غلطی تسلیم بھی کر چکے تھے اس دفعہ پھر کسی حد تک اسی غلطی کو دہرا بیٹھے اور اپنی جماعت کے جانثار کارکنو ں کو پیچھے دھکیل کر جماعت میں نئے آنے والوں کو ٹکٹ دے دئے جس سے ان کے دیرینہ کارکنوں میں بے دلی پھیل گئی ہے اور وہ اس بات پر بالکل بھی آمادہ نہیں کہ اپنے پرانے ساتھیوں کو چھوڑ کر نئے آنے والوں کے نعرے لگائیں، اس لیے مختلف انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے کارکن اپنی لیڈر شپ کا فیصلہ ماننے کو تیار نظر نہیں آتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت میں نئے آنے والے جن فصلی بٹیروں کو ٹکٹ نہیں ملے انھوںنے تو فوراً ہی آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔
اس سے تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ پارٹی میں نئے آنے والوں اور پرانے سیاسی ساتھیوںمیں کتنا فرق ہے جن پرانے کارکنوں کو ٹکٹ نہیں ملے وہ اس کے باوجود عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نظریے کے ساتھ ہیں اور الیکشن میںحصہ لینا ہی ان مطمح نظر نہیں ۔ گو ان میں سے اکثر دل برداشتہ ہیں لیکن پارٹی فیصلے کو قبول بھی کررہے ہیں ۔
میں ذاتی طور پر ان میں سے کئی ایک کو جانتا ہوں جنہوں نے سیا ست کے آغاز سے ہی عمران کا ساتھ دیا لیکن ان نظریاتی کارکنوں کو پیچھے کر دیا گیا اور ان امیدواروں کو ترجیح دی گئی جو اس ملک کی سیاست میں جانے پہچانے جاتے ہیں، شائد عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پرانے سیاستدانوں کے سہارے ہی وزیر اعظم بن سکتے ہیں، اس لیے انھوں نے ان کو ساتھ لے کر چلنا مناسب سمجھا اور اپنے مخلص اور جانثار ساتھیوں کو چھوڑ دیا ۔ حلقے کی سیاست کو ترجیح دی گئی حالانکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے مختلف حلقوں میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے پہلے سروے بھی کرائے یا تو وہ سرو ے جعلی تھے یا پھر امیدواروں نے ان سروے والوں کے ساتھ ساز باز کر لی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ایک ایسے کارکن بھی ٹکٹ سے محرو م رہ گئے جنہوںنے گزشتہ الیکشن میں ہزاروں کی تعداد میں ووٹ بھی لیے مگر اس بار وہ بھی پارٹی میں نووارد مگر گھاگ سیاستدانوں کا شکار بن کر ٹکٹ حاصل کرنے سے محروم رہ گئے ۔
عمران خان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ الیکشن ان کا آخری الیکشن ہے، وہ ہر قیمت پر اس الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے صرف اور صرف ایسے امیدواروں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی صورت میں وہ یقینی طور پر الیکشن میں کامیاب ہو جائیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو عوام ان جماندرو سیاستدانوں سے پہلے ہی تنگ ہیں اور وہ عمران خان کی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن عمران خان ہر حال میں الیکشن میں کامیابی چاہتے ہیں، اس کے لیے سیاسی میدان میں انھیںکیسی ہی چالیں کیوں نہ چلنی پڑیں، ان کے پاس اب کو دوسرا چانس نہیں وہ گزشتہ انتخابات میں بھی بہت پر امید تھے لیکن قرعہ نواز شریف کے نام نکل آیا ۔
ہمارے ہاں ایک زمیندار کے لڑکے کو تپ محرقہ ہوگیا، ان دنوں ٹائیفائیڈ اکیس روز چلتا تھا اور معیادی بخار کہلاتا تھا ۔ بیماری کے دوران لڑکا بہت چڑ چڑا ہو گیا اور ہر روز والد سے ضد کرنے لگاکہ اسے موٹر کار خرید کر دی جائے ۔ باپ نے بتایا کہ بیٹے گزشہ سال فصل ٹھیک نہیں ہوئی، اس سال بھی فصل ٹھیک نہیں جب بھی حالات بہتر ہوئے تو وہ اسے موٹر ضرور خرید دے گا لیکن بچے کی ضد جاری رہی ۔ اس نے باپ کی ایک نہ مانی لیکن جب بیمار لڑکا ضد کرتے کرتے تنگ آگیا تو ایک دن کہنے لگا ابا موٹر کار نہیں تو ڈبہ کھیس (چار خانوں والاسوتی کمبل) ہی لے دو۔ خان صاحب کو وزیر اعظم بننے کی بہت جلدی ہے، اس کے لیے وہ ہر حربہ آزما رہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ ان کے حصے میں موٹر کار آئے ڈبہ کھیس نہیں۔