سیکھنے سکھانے کا ماہ مبارک
رمضان المبارک خوف خدا رکھنے والے مسلمانوں کے لیے نعمتوں سے بھرا مہینہ ہے۔
اللہ پاک کا اپنا مہینہ قرار دیا جانے والا ماہ رمضان اب تیسرے اختتامی عشرے میں ہے اور چند روز بعد رخصت ہو رہا ہے۔ سخت گرمی مئی کے درمیان شروع اور جون کے درمیان ختم ہونے والے ماہ صیام میں موسم کی سختی اور ملک بھر میں بجلی کے ہاتھوں ستائے جانے والوں میں جنھوں نے روزے رکھنے تھے اورکسی بھی بہانے کو جواز بنانے کی بجائے انھوں نے روزے رکھے۔
یکم رمضان المبارک سے مساجد کی رونقیں بڑھانے والوں نے گزشتہ دنوں کے ساتھ حسب سابق اپنی تعداد کم کرنا شروع کی مگر جنھیں رمضان نصیب ہوا وہ خوش نصیب تھے اور انھوں نے عبادتیں پورے ماہ میں مکمل کرکے اپنا فرض پورا کیا اور جو بد نصیب تھے وہ آہستہ آہستہ دنیا داری کی طرف لوٹے، ناجائز منافع خوروں نے لوگوں کو لوٹنے کی فطرت برقرار رکھی اور باقی اپنی چند روزہ دکھائوے کی عبادات کے بعد عید کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
رمضان المبارک خوف خدا رکھنے والے مسلمانوں کے لیے نعمتوں سے بھرا مہینہ ہے مگر نام کے مسلمان ناجائز منافع خوروں کے لیے یہ مہینہ سیکھنے سکھانے اور برکتیں سمیٹنے کا نہیں بلکہ کمائی بڑھانے اور ماہ مقدس میں گیارہ ماہ کے لیے بھی مال جمع کرلینے کا موقعے اس لیے ہے کہ آج تک ہماری حکومتوں نے مخلص ہوکر ماہ صیام میں لٹیروں کی لوٹ مار پر توجہ نہیں دی اور ناجائز منافع خوروں کو کھل کر عوام کو لوٹنے کا موقع فراہم کیا ۔
کبھی ان لٹیروں کے خلاف عوام کے مجموعی مفاد کے لیے سخت عملی طور پر کارروائی نہ کرکے غیر مسلمان ملکوں اور غیر مسلموں کو ہنسنے کا موقع دیا کہ یہ پاکستان کے کیسے مسلمان ہیں جو اپنے رب کے مہینے میں خود کو بخشوانے کی بجائے رمضان میں اپنے ہی مسلمانوں کو لوٹتے آرہے ہیں۔
رمضان المبارک میں خود کو اللہ سے بخشوانے، عبادتوں میں مصروف رہنے والوں کی جہاں کمی نہیں وہاں ایسے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو پھل مہنگے ہونے کے باوجود بہت بڑی تعداد میں روزے داروں کی افطاری کے لیے چھوٹے بڑے دستر خوان سجاتے ہیں، مشروبات روزے داروں کو پلاتے ہی نہیں گھر لے جانے بھی دیتے ہیں جس کا واضح ثبوت حسن اسکوائر پر بڑی مقدار میں یہ مشروب گھر لے جانے والوں کی قطاریں ہیں کہ جنھیں افطار سے قبل شربت تقسیم کیا جاتا ہے۔
ایک طرف رمضان میں مسلمانوں کو لوٹنے والے ہیں تو دوسری طرف رمضان میں کروڑوں روپے خرچ کرکے روزے داروں کو بہترین افطاری کرانے اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں تقسیم کرانے والے ہیں ۔ان لوگوں میں افطاری کی تیاری اور روزے کے باوجود ان کے اچھے جذبے کے ساتھ ان کی جسمانی محنت بھی اہم ہے۔ رمضان المبارک دنیاوی معاملات کے علاوہ دینی کام سیکھنے اور سکھانے کا مہینہ بھی ہے۔
مساجد میں چونکہ نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے مساجد میں فجر، عصر اور عشا کی نمازوں کے بعد رمضان کی اہمیت، افادیت کے علاوہ نماز پڑھنے ہی نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کا مختصر درس دیا جاتا ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح کسی کی نماز جنازے میں امام صاحبان نماز جنازہ کی ادائیگی کا طریقہ ہر میت کی نماز کے وقت سکھاتے ہیں ویسے ہی مساجد میں نماز قائم کرنے کا درس دیاجاتا ہے۔
سال بھر میں لوگوں کو نماز نہیں پڑھتے تو انھیں عزیزوں، دوستوں کی نماز جنازہ میں کئی بار مسجدوں میں آنا پڑتا ہے مگر ایسے مسلمانوں کی بھی کمی نہیں جو رمضان ہی میں مساجد میں نظر آتے ہیں اس لیے انھیں درسوں میں نماز پڑھنا بھی سکھایا جا تا ہے جو ایک بہت اچھا اور معلوماتی اقدام ہے اور گیارہ مہینے نماز نہ پڑھنے یا جمعہ کے جمعے نماز پڑھنے والوں کی ضرورت بھی ہے کیونکہ لوگ شرم کی وجہ سے دینی مسائل ایک دوسرے سے نہیں پوچھتے انھیں رمضان میں مساجد میں ہونے والے درسوں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
دین پھیلانے اور دین سکھانے میں تبلیغی جماعتیں اہم کردار ادا کررہی ہیں جو اپنے علاقائی گشت کے دوران لوگوں کو مسجد میں آنے کی دعوت دیتی ہیں تاکہ انھیں دین کے مطابق بتاسکیں مگر کوئی مسجد میں آئے گا تو ہی اسے ہدایت ملے گی مگر لوگ دین سیکھنے میں مسجد آتے ہی کم ہیں ، مساجد نماز پڑھنے کے علاوہ دین سکھانے کا بھی مرکز ہیں مگر صرف رمضان میں مساجد کی رونقیں بڑھانے سے دین سیکھانہیں جاسکتا۔
یوں تو مساجد بھی مسلکوں میں تقسیم ہیں مگر صرف نماز پڑھنے والے مسلک کو ترجیح نہیں دیتے کیونکہ بعض مساجد میں تو مسلکی تفرقات بڑھائے جاتے ہیں۔ رمضان میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مساجد میں سحر و افطار پر اذان دینے پر لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جب کہ سحری ختم ہونے اور افطارکے اوقات ہر مسلک میں مقرر ہیں جن پر کسی کو اختلاف بھی نہیں ہوتا مگر حیرت انگیز طور پر مقررہ وقت پر عمل نہیں ہورہا ہر گھر میں مختلف مساجد کی اذانوں کی آوازیں آتی ہیں۔
سائرنوں کا بجانا ختم ہوچکا جن کی وجہ سے لوگ تیاری مکمل کرکے اذان کا انتظار کرتے تھے مگر بعض علاقوں میں سحر اور خاص کر افطار کے وقت ایک ساتھ اذانیں نہ ہونے سے پریشان ہوتے ہیں کہ کون سی اذان پر سحر و افطار کریں، سحری ختم ہونے کا وقت مقرر ہونے کے باوجود دیگر مساجد کی اذانیں ختم ہوجانے کے پانچ منٹ بعد اذان دینے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے اس سے روزہ جلد کھول لینے یا سحری میں دیر کرنے والوں کے اگر روزے متاثر ہوں تو ذمے دار کون ہوگا بتائے کوئی۔