ملک کی قسمت کا فیصلہ

پاکستان میں عوام کو ووٹ ڈالنا ہے، ان کو ووٹ ڈالیں گے تو یہی قصے کہانیاں ہوںگے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیے۔

ملک میں نگراں حکومت قائم ہو چکی ہے اور اس حکومت سے ملک آزاد ہوچکا ہے جس نے انا پرستی اور لوٹ مار کا ملک میں اور ملک سے باہر نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، دعا یہی ہے کہ یہ ڈوبا ہوا ملک جس کو قرضوں کی دلدل میں پہنچانے کے یہ ذمے دار ہیں ان کے ہاتھوں سے محفوظ رہے۔

دوسری طرف سندھ میں بھی پی پی کی جگہ زرداری لیگ اور ''کولیگ'' نے اپنا مفاد عزیز رکھا اور رکھے ہوئے ہیں اور زرداریوں کو بھٹو کا وارث قرار دے کر عوام سے کھیلا جارہاہے۔ عوام کے حالات کراچی سے تھر تک ایک جیسے بد ترین رہے، نوابشاہ، دادو اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے کبھی کبھار لاڑکانہ میں بھی سیاسی چادر چڑھاتے رہے۔

چند خبریں مئی کے دوسرے ہفتے میں ملک میں جو افراتفری ہے اس کی غماز ہیں سندھ کے تعلیمی بجٹ میں چودہ فی صد اضافہ کیا گیا ہے جس دن یہ خبر چھپی ہے دوسرے دن کے اخبار میں ایک نوٹس کوئی چار صفحات کا شایع ہوا ہے جس کے مطابق سندھ میں ہزار کی تعداد میں یا اس سے کچھ کم تعلیم کے شعبے کے ٹیچرز مستقل غیر حاضر ہیں اور ظاہر ہے کہ اس دوران میں تنخواہ اور مراعات لیتے رہے اور لے رہے ہیں یہ نوٹس صرف بچنے بچانے کی کارروائی ہے معاملات ''ٹھیک'' کرلیے جائیںگے ان لوگوں کا تعلق بھی تھر، حیدرآباد، دادو، جامشورو، سانگھڑ اور دوسرے شہروں سے ہے

یہ یہاں کا پراناکاروبار ہے جو دوسرے صوبوں کے بعد یہاں پھیلا ہے اور خوب پھل پھول رہا ہے نقل کے علاوہ اوپر سے نیچے تک تعلیم کا شعبہ زوال کی بد ترین حالت میں ہے، دوسرے اداروں کی طرح کراچی بورڈ کے چیئرمین کی گرفتاری اور جیل میں جانا تو یاد ہوگا آپ کو مگر ایک وہی نہیں ہیں بہت سے ہیں جو نہ پکڑے گئے نہ پکڑے جائیںگے۔ زرداری مافیا ان کی پشت پر ہے، خیر سندھ کی بیماری کا تو اﷲ ہی علاج کرے اور اس صوبے کو صحت مند کرے اورکوئی راستا نہیں ہے۔

حکومت سے باہر ہونے والوں کی بھارت سے دوستی ڈھکی چھپی نہیں، مودی کی لاہور جاتی امرا آمد ایک بھارتی صنعت کارکی بغیر پاسپورٹ آمد مری میں ملاقات یہ کیا پاکستان کے لیے دریائے ستلج کا پانی کھلوانے کی باتیں تھیں۔ 11 مئی کو چیئرمین کو دھمکی دے رہے ہیں چیئرمین کا طمانچہ دوسری خبر ہے کہ قومی خزانے کے محافظوں سے سوال کرنا جرم ہے تو یہ جرم کرتے رہیںگے۔ پاکستان 84 ارب ڈالر کا مقروض ہے رقم کہاں خرچ ہوئی کیا کرپشن کرنے والوں سے اس کے بارے میں پوچھنا جرم ہے؟ کوئی خوش ہو یا ناراض یہ کام کرتے رہیںگے کسی کو بھی بلایا جاسکتا ہے پوچھا جاسکتا ہے۔ قمر الزماں کائرہ نے کہاکہ چیئرمین نیب نے کیا گناہ کردیا یا صرف خبر کی تصدیق کا کہا ہے۔

سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والوں، ججوں، جرنیلوں کو ذاتی عناد پر نشانہ بنانے والے اب عدالت جانے کا کہہ رہے ہیں بلا وجہ اور الیکشن اسسٹنٹ کے طور پرکچھ نہیں ہوگا، مطلوبہ جج عبدالقیوم نہیں رہے، عوام سمجھدار ہیں جن کو آپ نے غیر ملکی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے اور بچہ بچہ مقروض ہے چیئرمین خود لگایا تھا اس نے مطلوبہ جج بننے سے انکار کردیا تو اب شرمندہ ہیں سابق وزیراعظم بھی اور نا اہل کمپنی بھی چیئرمین نیب نے اینٹ کا جواب پتھر سے ضمیر کے مطابق اور قانون کے تحت دے کر ہر فرعون اور موسیٰ کو ثابت کردیا ہے۔


یہی نہیں کرپشن کے بہی خواہوں میں ہلچل ہے جو ہمیشہ ان کا ساتھ دیتے رہے ،وزیراعظم جواب سابق کہلائیںگے شاہد خاقان عباسی، ان کو ایئر بلیوکے سی ای او سپریم کورٹ نے طلب کرلیا تھا حکومت نہیں چیف جسٹس کہہ رہے ہیں کہ پانی کے مسئلے پر توجہ نہ دی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی ۔کوئٹہ کے بارے میں انھوں نے کہاکہ اور اس وقت کی حکومت بلوچستان سے سینیٹ چیئرمین آنے پر برہم اور حواس باختہ تھی، ہاشمی وہیں پہنچ گئے جہاں کا خمیر تھے اب بھی کچھ بھروسا نہیں۔

جاتے جاتے فاٹا اصلاحات کا شوشا چھوڑکر حواریوں کو طاقت دینے کی کوشش کی، اچکزئی نے کہا ایک اور بھٹو کیس بنایا جا رہا ہے، نواز شریف کی بیٹی جد وجہد کرے گی میں ساتھ دوںگا ،کیا ججوں کو خدا کا خوف نہیں ، ان کے بھی بچے ہیں یہ پاکستان کی تاریخ کے کمزور ترین اپوزیشن لیڈر نے کہا۔ محمود اچکزئی اور ان جیسے دوسروں کے بارے میں ن لیگ کی 4 قومی اسمبلی کی وکٹیں اڑنے کے بعد کوئٹہ کے ارکان نے کہاکہ نواز شریف صرف محمود اچکزئی اور میر حاصل بزنجو کے مسائل حل کیے عوام کے نہیں وہ ملتے ہی نہیں تھے تو مسائل کیا حل کرتے۔

اور سینیٹ کے بلوچستان سے چیئرمین نے قومی اسمبلی کے ارکان کو عشا ئیہ دے کر نئی روایت قائم کردی، جانے والوں کو خوش دلی سے رخصت کیا، صدر پاکستان بھی اس عشایئے میں مہمان خاص تھے ۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں نیب بنائی ہی گئی سیاست دانوں کو گندا کرنے کے لیے تھی ملک میں جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے احتساب کا نعرہ بلند کردیا جاتا ہے۔ یعنی مولانا چاہتے ہیں کہ احتساب کا دائرہ کشمیر کمیٹی اور دیگر معاملات تک نہ آئے۔

بے نظیر نے سوائے غلط شادی کرنے کے کوئی غلطی ایسی نہیں کی کہ قوم حساب مانگے مگر ان کی اس ایک غلطی نے قوم اور ان کے بچوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے اور اچکزئی محض ایک مقامی لیڈر ہیں اور جلد اپنے خول میں چلے جائیںگے جب نیب کی دستک دروازے پر ہوگی۔ حاصل بزنجو، ربانی کی طرح ایوان میں رونا دھونا کرتے ہیں بعد میں سینیٹ چیئرمین کے دفتر میں جاکر ان سے مل آتے ہیں اس لیے یہ لا حاصل ہیں ججوں کو خدا کا خوف یاد دلانے والوں کو خود خدا کا خواب نہیں ہے پانچ پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن رہ کر ملک کا کیا حال کروادیا آپ بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔

پاکستان میں عوام کو ووٹ ڈالنا ہے، ان کو ووٹ ڈالیں گے تو یہی قصے کہانیاں ہوںگے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیے۔ یہ صرف ووٹ لینے تک بھیگی بلی ہیں اس کے بعد آپ کے سر پر عذاب مسلط کردیںگے۔ دس سال میں یہ لوگ کچھ نہ کرسکے صرف باریاں لیں ملائیشیا میں پچاس سال کے بعد عوام نے ووٹ سے دھوکا بازوں کو شخصیت دی اور مہاتیر محمد 92 سال کی عمر میں وزیراعظم بنے ہیں اور آتے ہی انھوں نے سابق بد عنوانوں اور اداروں کے احتساب کا اعلان کیا ہے۔

الیکشن کمیشن اور اٹارٹی جنرل تک کے خلاف تحقیقات کرکے سزا دی جائے گی۔ یہ ہے عزم اور یہ عزم ان کو قوم نے دیا ہے ملک کی خاطر، ہمیں بھی سبق سیکھنا چاہیے، شخصیت پرستی کو ختم کرکے ملک کے لیے کام کریں اور ملک کے لیے آپ کا ایک کام ہی بہت ہے کہ درست اور سچے لوگوں کا چنائوکریں سوچ سمجھ کر آپ ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے جارہے ہیں بہت جلد۔
Load Next Story