عالمی سطح کے کھلاڑیوں کی تیاری کے لیے سپورٹس کلچر کو فروغ دینا ہوگا
فٹنس کے بارے میں بنیادی سطح پر شعور اجاگر کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔
کھیل زندگی میں تحرک کی علامت اور صحت مند معاشرے کی ضمانت ہوتے ہیں،زندہ قومیں اپنی نئی نسل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں صلاحیتوں کے جو ہر دکھانے کے لئے بھی بہترین مواقع فراہم کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں حکومتیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو اپنی ذمہ داری خیال نہیں کرتیں تو دوسری طرف سپورٹس سے وابستہ ادارے بھی کھیلوں کے لئے انفراسٹرکچر کی فراہمی کے بجائے ذاتی مفادات کے لئے اپنی اپنی دکانداری چمکانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں' نت نئی ہاؤسنگ سکمیوں میں ڈویلپرز میدانوں کے لئے جگہ مخصوص کر کے بعدازاں وہاں شاپنگ پلازے کھڑے کر کے مال بناتے ہی۔
سرکاری زمینوں پر بنے کھیلوں کے میدانوں پر قبضہ مافیا کی من مانی نوجوانوں سے کھلی فضا میں سانس لینے کا حق چھین لیتی ہے ،ڈربہ نما نجی سکولوں کی بڑی تعداد کے پاس گراؤنڈ تو کیا صحن تک نہیں ہوتے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، سپورٹس دشمن ماحول کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی عالمی سطح پر مقابلوں میں کارکردگی کا حال سب کے سامنے ہے۔
دورہ جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز کے دوران کپتان مصباح الحق بولرز کی کسی جوڑی کو مسلسل مواقع اس لئے نہیں دے سکے کہ ایک کی فٹنس بہتر ہوتی تو دوسرے کی ہمت جواب دے جاتی، بالآخر وطن واپسی پر ان کو کہنا پڑا کہ ہمارے پاس باصلاحیت بیٹسمین اور بولر تو موجود ہیں لیکن سپراتھلیٹس جیسی فٹنس کے حامل نہ ہونے کی وجہ سے پرفارم نہیں کر پائے۔ قومی ہاکی ٹیم کے کوچ اختر رسول نے بھی اپنی ذمہ اریاں سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ توجہ کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس پر دی مگر کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
قومی کھیل سے لگاؤ رکھنے والے شائقین جانتے ہیں کہ ماضی میں کئی اہم میچوں کے دوران گرین شرٹس نے پہلے ہاف میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے واضح برتری حاصل کی لیکن دوسرے ہاف کے اختتامی لمحات میں سٹیمنا کی کمی کے سبب حریف ٹیمیں غالب آ ئیں اور مقابلے کے اختتام پاکستان کی غیر متوقع شکست کے ساتھ ہوا۔
فٹبال ٹیم کی کارکردگی کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی، کسی یورپی لیگ میں کلب سطح کا کھیل دیکھنے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کا میچ دیکھیں تو فٹنس میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ماضی میں سکواش کے افق پر درخشاں ستارے بن کر دنیا کی نظروں کو خیرہ کرنے والے جہانگیر خان اور جان شیر خان کے گھنٹوں طویل مقابلوں کی ویڈیوز نئی نسل کے کئی ٹاپ کھلاڑیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔
اتھلیٹکس سمیت دیگر انفرادی کھیلوں کا ذکر کرنا اس لئے فضول ہو گا کہ پاکستان کی کوششیں چند ایونٹس میں وائلڈ کارڈ انٹریز سے لے کر کوالیفائنگ راؤنڈ سے اخراج تک محدود رہی ہیں، ظاہر ہے کہ جب سپورٹس کلچر اور فٹنس قومی ترجیحات میں شامل نہیں ہوں گے تو اپنے شوق یا سرکاری محکموں میں کلرک کی نوکری حاصل کرنے کے لئے میدانوں میں تھوڑی بہت جان مارنے والے چند سو افراد میں سے عالمی معیار کے اتھلیٹس کیسے سامنے آئیں گے؟
ماضی میں پاکستانی کھیلوں میں چند سپر اتھلیٹس سامنے آئے بھی تو انفرادی کوشش کا نتیجہ تھے' عمران خان کو تعلیم اور پھر کاؤنٹی کرکٹ کے دوران انگلینڈ کے ماحول میں فٹنس کی اہمیت کا بخوبی احساس ہوا،انہوں نے کیریئر کے دوران ٹریننگ کا شیڈول کبھی متاثر نہیں ہونے دیا، راقم الحروف کے زمانہ طالب علمی میں سابق کپتان عروج پر تھے، وکٹ کیپر روڈنی مارش کی کزن مارین گرفتھس سمیت آسٹریلوی سیاح دوستوں کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگا، اتفاق سے گوجرانوالہ میں ٹیسٹ میچ بارش کے سبب جاری نہ رہ سکا، موقع غنیمت جان کر آل رائونڈر کے گھر زمان پارک گئے تو دوپہر کے وقت ٹریننگ میں مصروف تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز کا کھیل تو ممکن نہ ہو سکا، ابھی گوجرانوالہ سے واپس آیا تو سوچا کہ روٹین کی ایکسرسائز کیوں چھوڑی جائے، تھوڑا لہو گرمانے کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال کے سلسلے میں میٹنگ کے لئے روانہ ہوجائوں گا، اسی طرح امریکہ میں ایک امداد میچ کے دوران عمران خان ٹریننگ کے لئے جم گئے تو وہاں نسبتاً نو آموز بولر وقار یونس پہلے سے ہی سرگرم تھے، وسیم اکرم نے بھی شوگر سمیت فٹنس مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے طویل کیریئر میں شاندار پرفارمنس سے کروڑوں شائقین کے دل جیتے۔
دوسری طرف آج کے بولرز کو دیکھیں تو عمر گل اور سہیل تنویر کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوئے، جنید خان،محمد عرفان، اسد علی، احسان عادل اور قومی ٹیم شرکت کے امیدوار کئی بولرز کی فٹنس بھی مشکوک نظر آتی ہے،بیٹنگ میں بھی میراتھن اننگز کھیلنے کی اہلیت رکھنے والوں میں مصباح الحق' محمد حفیظ، اظہر علی اور اسد شفیق کے نام ہی گنوائے جا سکتے ہیں، دیگر کھیلوں کی حالت زار کا ذکر پہلے ہی ہو چکا۔
آج کے دور میں کھیل ایک سائنس بن چکے، ہمارے ہاں بھی اس شعبے میں ڈگریاں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے مگر گراس روٹ سطح پر سپورٹس کلچر کے فروغ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، دو عشرے قبل بھی انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا مگر سکول کالج کی سطح پر کھیلوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی' سپورٹس کے لئے روزانہ پیریڈ مخصوص ہوتا، تعلیم کے اوقات ختم ہونے کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد فضولیات میں پڑنے کے بجائے میدانوں کا رخ کرتی،صحت مندانہ فضا کا نتیجہ تھا کہ گوجرہ میں ہاکی کی نرسری پاکستان کو ایک سے بڑھ کر ایک سٹار دیتی،والدین اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد اپنے سکول یا کالج کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے گراؤنڈ کے اطراف میں موجود رہتی، شہباز سینئر جیسا شہرہ آفاق کھلاڑی گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی نمائندگی کرتے ہوئے ہی اپنے روشن مستقبل کی نوید سنانے میں کامیاب ہوا تھا۔
اب طلبہ کی بڑی تعداد نصاب تعلیم سے فارغ ہو تو انٹرنیٹ اور ان ڈور سرگرمیوں میں مصروفیت تلاش کرتی ہے، زیادہ تر کو ٹی وی پر میچ دیکھنا تو پسند ہے خود کھیلنے میں زیادہ دلچسپی نہیں' اگر ہے بھی تو سڑک پر ایکشن دکھانے تک محدود، ایک صحت مند قوم اور سپر اتھلیٹس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سکولوں،کالجوں کی منظوری دیتے ہوئے کھیلوں کے لئے سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔
میدانوں کو آباد کرنے کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں، مختلف سپورٹس فیڈریشنز کے عہدیداروں کو اختیارات کی جنگ چھوڑ کر بنیادی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کرنے کا پابند کر کے ان کی کارکردگی مانیٹر کی جائے، کھیل کوئی بھی ہو پلیئرز کے اعصاب کو مشقت کا عادی بنانے کے لئے سائنسی خطوط پر مناسب رہنمائی کرتے ہوئے بلاصلاحیت اتھلیٹس کے لئے ماہانہ وظائف کا سلسلہ شروع کیا جائے تو صورتحال میں بتدریج بہتری آتی جائے گی، سیاسی اور سماجی طور پر اپنی تشہیر کے لئے چند کھلاڑیوں کو اکٹھے کر کے فوٹو سیشن کروانے سے کھیلوں کی حالت نہیں سدھر سکتی۔
abbas.raza@express.com.pk
ہمارے ہاں حکومتیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو اپنی ذمہ داری خیال نہیں کرتیں تو دوسری طرف سپورٹس سے وابستہ ادارے بھی کھیلوں کے لئے انفراسٹرکچر کی فراہمی کے بجائے ذاتی مفادات کے لئے اپنی اپنی دکانداری چمکانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں' نت نئی ہاؤسنگ سکمیوں میں ڈویلپرز میدانوں کے لئے جگہ مخصوص کر کے بعدازاں وہاں شاپنگ پلازے کھڑے کر کے مال بناتے ہی۔
سرکاری زمینوں پر بنے کھیلوں کے میدانوں پر قبضہ مافیا کی من مانی نوجوانوں سے کھلی فضا میں سانس لینے کا حق چھین لیتی ہے ،ڈربہ نما نجی سکولوں کی بڑی تعداد کے پاس گراؤنڈ تو کیا صحن تک نہیں ہوتے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں، سپورٹس دشمن ماحول کے نتیجے میں کھلاڑیوں کی عالمی سطح پر مقابلوں میں کارکردگی کا حال سب کے سامنے ہے۔
دورہ جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز کے دوران کپتان مصباح الحق بولرز کی کسی جوڑی کو مسلسل مواقع اس لئے نہیں دے سکے کہ ایک کی فٹنس بہتر ہوتی تو دوسرے کی ہمت جواب دے جاتی، بالآخر وطن واپسی پر ان کو کہنا پڑا کہ ہمارے پاس باصلاحیت بیٹسمین اور بولر تو موجود ہیں لیکن سپراتھلیٹس جیسی فٹنس کے حامل نہ ہونے کی وجہ سے پرفارم نہیں کر پائے۔ قومی ہاکی ٹیم کے کوچ اختر رسول نے بھی اپنی ذمہ اریاں سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ توجہ کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس پر دی مگر کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
قومی کھیل سے لگاؤ رکھنے والے شائقین جانتے ہیں کہ ماضی میں کئی اہم میچوں کے دوران گرین شرٹس نے پہلے ہاف میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے واضح برتری حاصل کی لیکن دوسرے ہاف کے اختتامی لمحات میں سٹیمنا کی کمی کے سبب حریف ٹیمیں غالب آ ئیں اور مقابلے کے اختتام پاکستان کی غیر متوقع شکست کے ساتھ ہوا۔
فٹبال ٹیم کی کارکردگی کبھی بھی قابل رشک نہیں رہی، کسی یورپی لیگ میں کلب سطح کا کھیل دیکھنے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کا میچ دیکھیں تو فٹنس میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ ماضی میں سکواش کے افق پر درخشاں ستارے بن کر دنیا کی نظروں کو خیرہ کرنے والے جہانگیر خان اور جان شیر خان کے گھنٹوں طویل مقابلوں کی ویڈیوز نئی نسل کے کئی ٹاپ کھلاڑیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔
اتھلیٹکس سمیت دیگر انفرادی کھیلوں کا ذکر کرنا اس لئے فضول ہو گا کہ پاکستان کی کوششیں چند ایونٹس میں وائلڈ کارڈ انٹریز سے لے کر کوالیفائنگ راؤنڈ سے اخراج تک محدود رہی ہیں، ظاہر ہے کہ جب سپورٹس کلچر اور فٹنس قومی ترجیحات میں شامل نہیں ہوں گے تو اپنے شوق یا سرکاری محکموں میں کلرک کی نوکری حاصل کرنے کے لئے میدانوں میں تھوڑی بہت جان مارنے والے چند سو افراد میں سے عالمی معیار کے اتھلیٹس کیسے سامنے آئیں گے؟
ماضی میں پاکستانی کھیلوں میں چند سپر اتھلیٹس سامنے آئے بھی تو انفرادی کوشش کا نتیجہ تھے' عمران خان کو تعلیم اور پھر کاؤنٹی کرکٹ کے دوران انگلینڈ کے ماحول میں فٹنس کی اہمیت کا بخوبی احساس ہوا،انہوں نے کیریئر کے دوران ٹریننگ کا شیڈول کبھی متاثر نہیں ہونے دیا، راقم الحروف کے زمانہ طالب علمی میں سابق کپتان عروج پر تھے، وکٹ کیپر روڈنی مارش کی کزن مارین گرفتھس سمیت آسٹریلوی سیاح دوستوں کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگا، اتفاق سے گوجرانوالہ میں ٹیسٹ میچ بارش کے سبب جاری نہ رہ سکا، موقع غنیمت جان کر آل رائونڈر کے گھر زمان پارک گئے تو دوپہر کے وقت ٹریننگ میں مصروف تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز کا کھیل تو ممکن نہ ہو سکا، ابھی گوجرانوالہ سے واپس آیا تو سوچا کہ روٹین کی ایکسرسائز کیوں چھوڑی جائے، تھوڑا لہو گرمانے کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال کے سلسلے میں میٹنگ کے لئے روانہ ہوجائوں گا، اسی طرح امریکہ میں ایک امداد میچ کے دوران عمران خان ٹریننگ کے لئے جم گئے تو وہاں نسبتاً نو آموز بولر وقار یونس پہلے سے ہی سرگرم تھے، وسیم اکرم نے بھی شوگر سمیت فٹنس مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے طویل کیریئر میں شاندار پرفارمنس سے کروڑوں شائقین کے دل جیتے۔
دوسری طرف آج کے بولرز کو دیکھیں تو عمر گل اور سہیل تنویر کے مسائل کبھی ختم نہیں ہوئے، جنید خان،محمد عرفان، اسد علی، احسان عادل اور قومی ٹیم شرکت کے امیدوار کئی بولرز کی فٹنس بھی مشکوک نظر آتی ہے،بیٹنگ میں بھی میراتھن اننگز کھیلنے کی اہلیت رکھنے والوں میں مصباح الحق' محمد حفیظ، اظہر علی اور اسد شفیق کے نام ہی گنوائے جا سکتے ہیں، دیگر کھیلوں کی حالت زار کا ذکر پہلے ہی ہو چکا۔
آج کے دور میں کھیل ایک سائنس بن چکے، ہمارے ہاں بھی اس شعبے میں ڈگریاں تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے مگر گراس روٹ سطح پر سپورٹس کلچر کے فروغ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی، دو عشرے قبل بھی انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا مگر سکول کالج کی سطح پر کھیلوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی' سپورٹس کے لئے روزانہ پیریڈ مخصوص ہوتا، تعلیم کے اوقات ختم ہونے کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد فضولیات میں پڑنے کے بجائے میدانوں کا رخ کرتی،صحت مندانہ فضا کا نتیجہ تھا کہ گوجرہ میں ہاکی کی نرسری پاکستان کو ایک سے بڑھ کر ایک سٹار دیتی،والدین اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد اپنے سکول یا کالج کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے گراؤنڈ کے اطراف میں موجود رہتی، شہباز سینئر جیسا شہرہ آفاق کھلاڑی گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی نمائندگی کرتے ہوئے ہی اپنے روشن مستقبل کی نوید سنانے میں کامیاب ہوا تھا۔
اب طلبہ کی بڑی تعداد نصاب تعلیم سے فارغ ہو تو انٹرنیٹ اور ان ڈور سرگرمیوں میں مصروفیت تلاش کرتی ہے، زیادہ تر کو ٹی وی پر میچ دیکھنا تو پسند ہے خود کھیلنے میں زیادہ دلچسپی نہیں' اگر ہے بھی تو سڑک پر ایکشن دکھانے تک محدود، ایک صحت مند قوم اور سپر اتھلیٹس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سکولوں،کالجوں کی منظوری دیتے ہوئے کھیلوں کے لئے سہولیات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔
میدانوں کو آباد کرنے کے لئے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں، مختلف سپورٹس فیڈریشنز کے عہدیداروں کو اختیارات کی جنگ چھوڑ کر بنیادی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لئے کام کرنے کا پابند کر کے ان کی کارکردگی مانیٹر کی جائے، کھیل کوئی بھی ہو پلیئرز کے اعصاب کو مشقت کا عادی بنانے کے لئے سائنسی خطوط پر مناسب رہنمائی کرتے ہوئے بلاصلاحیت اتھلیٹس کے لئے ماہانہ وظائف کا سلسلہ شروع کیا جائے تو صورتحال میں بتدریج بہتری آتی جائے گی، سیاسی اور سماجی طور پر اپنی تشہیر کے لئے چند کھلاڑیوں کو اکٹھے کر کے فوٹو سیشن کروانے سے کھیلوں کی حالت نہیں سدھر سکتی۔
abbas.raza@express.com.pk