گجرات NA104 جٹ اور گجر کی سیاست کا مورثی حلقہ

ن لیگ نے نوابزادہ مظہر علی کو چوہدری وجاہت حسین کے مدمقابل اتارا ہے۔


ن لیگ نے نوابزادہ مظہر علی کو چوہدری وجاہت حسین کے مدمقابل اتارا ہے۔ فوٹو : فائل

گجرات کا حلقہ این اے 104 صوبائی اسمبلی کے د و حلقوں پی پی 108 اور پی پی 109 کے دیہی علاقوں جلالپورجٹاں ، ٹانڈہ ، کڑیانوالہ ، دولت نگر ، فتح پور ، جلالپورصوبتیاں اوردیگر دیہات پرمشتمل ہے۔

جہاں آج کے جدید دور میں عوام کے باشعور ہو جانے کے باوجود برادری ازم سے بالاتر ہو کر ووٹ ڈالنے کی بجائے ووٹرزدھڑے بندی اور برادری ازم کے نعرے پر ہی عمل پیرا ہو کر اپنے مستقبل کی کمان اُسی سیاستدان کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ دھڑوں کو اپنے ساتھ لگا لے اسی وجہ سے یہاں سیاسی جماعتوں نے اہلیت ، نااہلیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے صر ف جٹ اورگجر ہونے کو ترجیح دے کر ٹکٹ امیدواروں کودیئے ہیں۔

حالیہ الیکشن میں 13ا میدواروں میں مسلم لیگ ن کے امیدوارقومی اسمبلی نوابزادہ مظہر علی خان ، امیدوارصوبائی اسمبلی نوابزادہ حیدرمہدی کے علاوہ چوہدری شجاعت نوازاجنالہ، محمد علی گجر ، چوہدری خورشید سانتل ، چوہدری نوید جنگل ، حافظ زبیرکو گجر او ر چوہدری وجاہت حسین، میجر (ر) معین نواز ،چوہدری شفاعت حسین،چوہدری تنویر گوندل ، چوہدری طارق عثمان، چوہدری ریاض احمد ہرڑکو جٹ برادری سے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے لگایا جاسکتا ہے۔ حلقے میں موروثی سیاست کے دلدادہ نوابزادہ خاندان اور چوہدری ظہور الٰہی خاندان کی دوسر ی نسل سیاسی میدان میں موجود ہے۔

نوابزادہ خاندان کے افراد بنیادی طور پر 1826ء سے لیکر الیکشن لڑتے آئے ہیں جبکہ 1985ء کے بعد چوہدری ظہور الٰہی خاندان نے حلقہ میں کامیابیوں کے سلسلہ کا آغاز کیاتو نواب زادہ خاندان کی گرفت دن بدن پرانے طرز سیاست کی وجہ سے کمزور ہوتی رہی۔ اس حلقے میں 3لاکھ 66ہزار 896 رجسٹرڈووٹرز ہیں۔ اس حلقہ میں اصل مقابلہ جٹ اور گجر برادری کے مابین ہوگا۔ جٹ برادری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے بھائی سابق وفاقی وزیر چوہدری وجاہت حسین امیدوارہیں جبکہ گجر برادری کی جانب سے 39 سال تک پیپلزپارٹی کا جھنڈا تھامے رکھنے والے نواب زادہ خاندان کے نوابزادہ مظہرعلی خان میدان میں ہیں۔



نوابزادہ مظہر علی ایک مرتبہ ایم پی اے اور ایک مرتبہ ایم این اے بن چکے ہیں۔ چوہدری وجاہت حسین اپنے جارہانہ سیاسی سٹائل کی وجہ سے2 مرتبہ ایم این اے منتخب ہو کر حلقہ کے عوام کے آقابھی تصورکیے جاتے رہے ہیں جبکہ اس سیٹ پر پاکستان پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رُکن نوابزادہ غضنفر علی 3 مرتبہ قومی اور ایک مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست سے دوچار ہو چکے ہیں جس پر ان کے سوا نوابزادہ خاندان کے تمام افرادجن میں انکے بھائی نوابزادہ مظہر علی خان ، نوابزادہ مظفر علی خان ، بیٹے نوابزادہ حیدرمہدی ، بھتیجے نوابزادہ طاہر الملک بھی شامل ہیں مزید شکستوں سے بچنے کیلئے پاکستان پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ کر (ن) لیگ میں شامل ہو گئے اور اپنے حریفوں کو ہرانے کے مدتوں پرانے خواب کو تعبیر دینے کیلئے خود الیکشن میں کھڑے ہو چکے ہیں۔

2002ء کے الیکشن میں چوہدری وجاہت حسین نے 82 ہزار 126 اور نوابز اد ہ غضنفر علی گل نے 62651 ووٹ لیے۔ چودھری وجاہت نے کامیابی کے بعد مشرف دور حکومت میں پسماندہ ترین حلقے پر فنڈز ایسے نچھاور کیے کے گرد و نواح کے حلقوں اور اضلاع کے سیاستدان بھی دنگ رہ گئے۔ اس دوران انہوں نے تجربہ کار سیاستدان کے فرزند ہونے کا ثبوت دیتے اور اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ کرنے کیلئے حلقے میں ہی گجرات یونیورسٹی کے کبھی نہ مرجھانے والے ایسے پودے کو اُس وقت کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ملکرلگا دیا جس سے آج 17ہزار سے زائد طلباء وطالبا ت مستفید ہو رہے ہیں۔

2008ء میں دوبار چوہدری وجاہت حسین نے نوابزادہ غضنفر علی گل کو شکست دے کر 96ہزار379ووٹ حاصل کیے اور اتحادی حکومت کا حصہ بن کر وفاقی وزیر ہیومن ریسورس اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت حاصل کر لی۔ مسلسل ہارنے کے باوجود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مشیر بننے والے نوابزادہ غضنفر علی گل نے پارٹی اجلاسوں میں حریفوں کو وزارت دینے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ان پر پولنگ لوٹنے کا شوربھی مچایا مگر شنوائی نہ ہونے پرو ہ انصاف کے لئے اپنی انتخابی مہم چلانے کے بجائے ابتک عدالتوں سے ہی رجوع کیے ہوئے ہیں۔



اس الیکشن میں نوابزادہ غضنفر علی گل پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے اور اتحادیوں کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولہ طے ہونے کے باعث اپنی اناء اور اصولوں کو قائم رکھنے کیلئے حسینیت کا علم بلند کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے کر چوہدری وجاہت حسین کے مدمقابل آنے کے ساتھ (ن) لیگ کے ٹکٹ پراین اے 104سے ہی حصہ لینے والے اپنے سگے بھائی نوابزادہ مظہر علی خان اور پی پی 108پر بیٹے نوابزادہ حیدر مہدی کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں جس پر گجر برادر ی کی اکثریت'' نوابی اکھاڑہ ''سجنے پر دوبارہ نوابزادہ خاندان کو تنقید کا نشانہ بنار ہی ہے۔

کئی حلقے نواب زادہ خاندان میں صلح کیلئے کوششیں کر کے نوابزادہ غضنفر علی گل کو دستبردار کرانے کی کاوشیں بھی کر رہے ہیں لیکن نوابزادہ گل کے قریبی حلقوں کا موقف ہے کہ نوابزادہ غضنفر علی گل اند ر سے آمادہ ہیں مگر نوابزادہ مظہر علی خان ،چوہدری وجاہت حسین کے ساتھ اپنے بھائی کو بھی سیاست کرنے کا مزہ چکھانے کی خواہش کا اظہار کرکے سر دمہری کا ثبوت دے ر ہے ہیں جس کی وجہ سے بیل منڈے نہیں چڑ رہی۔

اگر نوابزادہ خاندان نے دوبارہ پرانا تجربہ دوہرا یا تو نوابزادہ خاندان چوہدری برادران کو شکست دینے کے خواب کے ساتھ اپنی ساکھ ہمیشہ کیلئے ختم کر دینگے تاہم اگر نوابزادہ غضنفر علی گل الیکشن سے دستبردار ہو کر بڑھاپے میں بھی سیاسی دائو پیچ لڑانے والے نوابزادہ مظہر علی خان کے ساتھ (ن) لیگ کے سٹیج پر موجود ہوں تو چوہدری وجاہت حسین کی جیت کے آثار کم ہوجائیں گے۔

کیونکہ ایک طرف تو نوابزادہ غضنفر علی گل انہیں عدالت سے نااہل کروا کر انکی انتخابی کشتی میں سوراخ کر چکے ہیں تو دوسری جانب چوہدری برادران کی من پسند سیاست ، عوام کے بجائے چند لوگوں کی سرپرستی سے کئی دیرینہ ساتھی الگ ہو کر خود امیدوار بن چکے ہیں ،جن میں پی ٹی آئی کی جانب سے حصہ لینے والے چوہدری خورشید سانتل ، آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے محمد علی گجر ، چوہدری نوید جنگل شامل ہیں۔ این اے 104کے اسی حلقے سے جماعت اسلامی کی جانب سے حافظ زبیر کو اور پی ٹی آئی کی جانب سے میرٹ پر پورا اترنے والے نئے چہر ے عثمان طارق کو ٹکٹ دیا گیا ہے مگردوسرے سیاسی گھروں سے ٹکٹ کی خواہش لیکر آنے والے مقاصد پورا نہ ہونے پرنوجوان امیدوار کی کامیابی کیلئے تبدیلی کا نعرہ لگاتے کم ہی دکھائی دے رہے ہیں۔



(ن) لیگ میں رہنے کے وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنیوالے چوہدری تنویر گوندل سے این اے 104 اور پی پی 109 کا ٹکٹ چھین کرپارٹی قیادت نے نواب زدگان کی جھولی میں توڈال دیاہے مگر انہوں نے آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کروا کر پارٹی وابستگی چھوڑتے چھوڑتے چُپ سادھ رکھی ہے جس پر (ن) لیگ کیلئے قربانیاں دینے والے ساتھی آج بھی قیادت سے نالاں ہیں جنہیں نوابزادہ خاندان نے اوپر تک ڈائریکٹ رابطہ ہو جانے پر ساتھ لیکر چلنا مناسب نہیں سمجھا۔

صوبائی حلقہ پی پی 108ایک لاکھ 77ہزار 893ووٹرز پر مشتمل ہے جہاں سے (ق) لیگ کی قیادت نے 2002 اور 2008ء میں لگا تار کامیابی حاصل کرنیوالے چوہدری خالد اصغرگھرال کو اگلی صف سے نکال کر لیڈیز کی مخصوص نشست دینے اور گجر کا مقابلہ گجر سے کرانے کیلئے اپنے پرانے وفاداراور نواب زادگان کے کزن سابق تحصیل ناظم چوہدری سعادت نوازاجنالہ کو ٹکٹ دیا ہے جنہیں عدالت نے نااہل قرار دیدیا جس پر اب ٹکٹ ان کے بھائی اور حلقے میں غیر مقبول چوہدری شجاعت نوازاجنالہ کوخالد اصغرگھرال کے ہاتھوں دلوا دیا ہے۔ یوں شجاعت نواز اجنالہ اپنے ہی کزن اور حلقے کی نوجوان نسل میں مقبول ، ناقابل شکست سمجھے جانیوالے نوابزادہ حیدرمہدی کا مقابلہ کرینگے۔

اس سیٹ پر جماعت اسلامی کی جانب سے چوہدری ریاض احمد ہرڑ ،پی ٹی آئی کی جانب سے پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہنے والے عبدالحمید بٹ جبکہ چوہدری برادران سے ناراض ہو کر انتخابی مہم میں جوش و خروش پیدا کر کے علاقے میں انتخابی مہم کو گرما نے والے امیدوار نوید اصغر جنگل ، سجاد احمد باہڑہ ، اور چوہدری محمد علی گجر ، (ن) لیگ سے اور نوابزادہ فیملی سے تعلق رکھنے والے چوہدری زبیر ٹانڈہ آزاد حیثیت سے اپنا آپ منوانے کیلئے جتن کررہے ہیں تاہم ان امیدواروں کے کھڑا ہونے کا نقصان نوابزادہ اور چوہدری وجاہت حسین دونوں کو ہوگا۔

پی پی 109 میں رجسٹرڈووٹروں کی تعداد 1لاکھ 89ہزار 3 ہے۔ اس صوبائی حلقہ میں بھی (ق) لیگ کی قیادت نے دو مرتبہ کامیاب ہونیوالے عبداللہ یوسف کو امیدواروں کی لسٹ سے گائوں کلاچورکے عوام کے پر زور مطالبہ پر نکال کر اپنے چھوٹے بھائی سابق ضلع ناظم چوہدری شفاعت حسین کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے جنہیں دیہی علاقے کے لوگ تو ظہور الٰہی شہید کا بیٹا ہونے پر سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں مگر حلقے کے شہری علاقے کے عوام پی پی 109 کے نمائندوں کو نظر انداز کر کے موروثی سیاست کو پروان چڑھانے کے فیصلہ سے ناخوش دکھائی دے کر انہیں دلی طور پر قبول نہیں کر پارہے مگر چوہدری شفاعت دور نظامت کے ٹولے کے ساتھ خود کو اہل ثابت کرنے کیلئے اپنا سکھ چین اور نیند یںبرباد کیے ہوئے ہیں۔

اس حلقے میں جماعت اسلامی کی جانب سے مدبر ریاض ، پیپلزپارٹی کی جانب سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ ہار کر نواب زادہ خاندان کے اشارے پر (ن) لیگ میں چھلانگ لگانے والے میجر (ر) معین نواز اور پی ٹی آئی کی جانب سے بلال گورسی ایڈووکیٹ بھی امیدوار ہیں جو چوہدری شفاعت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں تاہم 11مئی کو دیکھنا یہ ہے کہ حلقے کے عوام موروثی سیاست کر پروان چڑھانے والے نواب زادہ خاندان ، چوہدری برادران میں سے کس کا انتخاب کر تے ہیں اور 2008ء کے الیکشن میں آنیوالا ٹرن آئوٹ 55.07سے بڑھتا ہے یا پھر علاقے کے عوام گھروں سے نہ نکل کر سیاستدانوں اور موجود ہ سسٹم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں