سوات NA29 NA30 ٹکٹوں کی تقسیم پر تمام بڑی پارٹیاں انتشار کا شکار
این اے 30 سے اے این پی کے بزرگ سیاستدان محمد افضل خان لالہ کے خاندان کا اثرر ورسوخ زیادہ ہے۔
ضلع سوات میں قومی اسمبلی کی دونشستیں این اے29اوراین اے30شامل ہیں،قومی اسمبلی کے ان دوحلقوں میں صوبائی اسمبلی کی 7 نشستیں ہیں جن میں پی کے 80،پی کے 81،پی کے 82،پی کے 83،پی کے 84،پی کے 85 اورپی کے 86 شامل ہیں۔
ان نشستوں پر کل رجسٹرڈووٹو ں کی تعداد9لاکھ 81ہزار824ہے ،جن میں مرد 5لاکھ 44 ہزارجبکہ خواتین 4لاکھ 37ہزار ہیں۔11مئی 2013کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے سوات میں کل 257 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں جن میں حلقہ این اے 29سوات ون کے لئے 34امیدوار،این اے 30سوات ٹو سے 40امیدوار ہیں۔7صوبائی نشستوں پرپی کے 80کے لئے 30 امیدوار، پی کے 81 کے لئے 25،پی کے 82کے لئے 24،پی کے 83کے لئے 34،پی کے 84کے لئے 23،پی کے 85کے لئے 24،پی کے 86کے لئے 24امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے سید علاؤالدین کی دہری شہریت اور ایم کیوایم کے دو امیدوار سید جہانگیر شاہ اور شاہ اسلم خان کے کاغذات کم عمری جبکہ تحریک انصاف کے محب اللہ خان اور عبدالہادی کے کاغذات نامزدگی غیرحاضری کی بنا پر مسترد کردیئے گئے ہیں ۔سوات ،بونیر اور شانگلہ1988تک ایک ہی ضلع رہا ہے ، وسیع علاقہ ہونے کی وجہ سے دو قومی نشستوں اور 9 صوبائی نشستوں پر مشتمل حلقہ بندی کی گئی تھی جس وقت سوات میں ایک قومی اور پانچ صوبائی نشستیں تھیں جبکہ بونیراور شانگلہ کو 2،2 نشستوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔
1990کے بعد سب سے پہلے بونیر کوسوات سے الگ کردیا گیاجس کے تین سال بعد 1997میں شانگلہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔سوات میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ چھ انتخابات کے دوران ریاست سوات کا شاہی خاندان قومی نشست کے حلقہ این اے 29سوات 1پر تین مرتبہ کامیاب رہا ،1988ء میں شہزادہ امان روم ،1993ء میں میاں گل اورنگزیب اور 1997ء میاں گل عدنان اورنگزیب ایم این اے منتخب ہوئے ، 1990ء میں جماعت اسلامی کے خالق داد خان،2002ء میں جے یو آئی کے قاری عبدالباعث (مرحوم) اور 2008ء میں اے این پی کے انجینئر مظفرالملک کاکی خان منتخب ہوئے۔
1993 میں این اے 29 سو ات1سے میاں گل اورنگزیب نے پی ایم ایل کے ٹکٹ پر 32533 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی مد مقابل آئین خان نے آزاد امیدوارکی حیثیت سے 3556 ووٹ حاصل کئے ۔ 1997 میں میاں گل اورنگزیب کے فرزند میاں گل عدنان اورنگزیب نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر 25018 ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی جبکہ مدمقابل اے این پی کے امیدوار فقیر محمد خان نے 14402 ووٹ لئے ،2002ء میں اس حلقے پر متحدہ مجلس عمل کے اتحاد پر جے یو آئی کے امیدوار قاری عبدالباعث (مرحوم ) نے 65808ووٹ لیکر عدنان اورنگزیب کو47ہزار پانچ سوووٹ سے شکست دی،جس کے بعد سابق گورنر میاں گل اورنگزیب کے صاحبزادے عدنان اورنگزیب کو 2008ء میں اے این پی کے امیدوار مظفر الملک کا کی خان نے 2600ووٹوں سے شکست دی۔
تاہم شاہی خاندان کی سیاست اس وقت دم توڑ گئی جب والی سوات کا نواسہ اور سابق صوبائی وزیرتعلیم اسفندیار امیرزیب دہشت گردوں کا نشانہ بنا، جس کے بعد میاں گل اورنگزیب اور عدنان اورنگزیب ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کو بھی خیر باد کہہ کر سوات سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ این اے 29سوات 1پر سابق ایم اے این کاکی خان ایک بار پھر پر امید نظر آرہے ہیں اور ان کے مد مقابل ن لیگ کے سید محمد علی شاہ باچہ لال عمر رسیدہ ہونے کے باوجود مضبوط امیدوار ہیں لیکن اس بار ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم سے کارکن کافی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔
این اے 29 سے منسلک حلقوں میں کارکن دھڑوں میں تقسیم ہیں جبکہ اے این پی واحد جماعت ہے جس کے امیدوار کے مقابلے میں کسی کارکن نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ہیں ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انجینئر مظفرالملک کاکی خان کے لئے ایک بار پھر میدان خالی ہے جس سے وہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔سوات کے این اے 30 سوات 2 پر 1997میں مسلم لیگ کے شجاعت علی خان نے اے این پی کے امیدوار محمد علی خان کو 14 ہزار ووٹ سے شکست دی۔
2002 میں متحدہ مجلس عمل کی طرف سے جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر فضل سبحان نے مسلم لیگ کے امیدوار شجاعت علی خان کو 51 ہزار ووٹوں سے شکست دیکر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جبکہ 2008ء میں پی پی پی کے امیدوار سید علاؤالدین خان نے مسلم لیگ کے امیدوار شجاعت علی خان پر 8ہزار ووٹ سے برتری حاصل کی۔
این اے 30 سے اے این پی کے بزرگ سیاستدان محمد افضل خان لالہ کے خاندان کا اثرر ورسوخ زیادہ ہے، لیکن اس حلقے کی ایک بات نمایاں ہے کہ اس پر کسی خاندان کی اجارہ داری قائم نہیں ہوئی ، ماضی میں یہاں پر اے این پی ،پی پی پی اور ن لیگ کے امیدواروقتاً فوقتاًکامیاب ہوتے رہے ہیں، اس بار ن لیگ کے انجینئر امیر مقام ،اے این پی کے خورشید علی خان،پی پی پی کے سید علاؤالدین،تحریک انصاف کے سلیم الرحمان ،جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فضل سبحان اور ن لیگ کے رہنماء نیروز میاں ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار ہیں،اس سیٹ پر اصل مقابلہ ن لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان ہونے کی توقع زیادہ ہے۔
ٹکٹ نہ ملنے کے باعث شجاعت علی خان اور ان کے فرزند جمال ناصر خان اور خاندان کے دیگر افراد واپس مسلم لیگ(ن) میں آگئے ہیں۔2013 کا سوات میں انتخابی دنگل ماضی کے انتخابات سے کافی مختلف دکھائی دے رہا ہے ایک طرف ہر جماعت کے کارکنوں میں کافی جوش وجذبہ موجود ہے تو دوسری طرف پر امن ماحول میں الیکشن کے انعقاد سے لوگ بھی مطمئن نظر آرہے ہیں، 2008ء کے انتخابات میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر تیس فیصد سے زیادہ ووٹ پول نہیں ہوئے تھے ، طالبائزیشن کی وجہ سے خواتین کو ووٹ سے روکا گیا تھا ، اس بار پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ ووٹ پول ہونے کا امکان ہے۔
خواتین کو بھی حق رائے دہی استعمال کی اجازت حاصل ہوگی۔سوات میں تمام پارٹیوں نے اپنے امیدوار فائنل کرلئے ہیں ۔این اے29 سوات ون سے اے این پی کے سابق ممبر قومی اسمبلی انجینئر مظفرالملک کاکی خان ،مسلم لیگ ن کے سابق صوبائی وزیر سید محمد علی شاہ باچہ لالا ،جماعت اسلامی کے اختر علی خان ،پی پی پی کے دوست محمد خان ،تحریک انصاف کے علی مراد ،جمعیت علما ء اسلام کے مولانا نظام الدین ،جے یو آئی نظریاتی مولانا عبید الرحمان ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی خورشید کاکا جی ، این اے30 سوات ٹو سے مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام ، اے این پی کے خورشید خان ،پی پی پی علاؤالدین ، نیروز میاں آزاد، تحریک انصاف سلیم الرحمان،جماعت اسلامی ڈاکٹر فضل سبحان ،جے یو آئی (ف) مولانا حفیظ الرحمان ،قومی وطن پارٹی امجد علی خان ،گوجر قومی تحریک کے شہزاد گوجر،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی مختیار خان،قومی وطن پارٹی کے ڈاکٹر سراج اور جے یوآئی نظریاتی کے قاری نذیراحمد شامل ہیں۔
پی کے 80 کے پارٹی ٹکٹ ہولڈروں میں جماعت اسلامی کے امیدوار محمد آمین ،پی پی پی کے ریاض احمد ،اے این پی کے واجد علی خان ،مسلم لیگ ن کے انجینئر امیر مقام ،پی ٹی آئی کے فضل حکیم ،جے یو آئی کے حجت اللہ ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر خالد محمود اور قومی وطن پارٹی کے فضل الرحمان نونو شامل ہیں۔
پی کے 81 سے اے این پی شیرشاہ خان ،پی پی پی کے فضل حیات چٹان ،مسلم لیگ ن کے میاںگل شہریارامیرزیب، جماعت اسلامی کے ریاض احمد ، جے یو آئی کے حبیب علی شاہ ،پی ٹی آئی کے عزیزاللہ گران،قومی وطن پارٹی کے افضل شاہ شامل ہیں۔
پی کے 82 میں اے این پی کے وقار احمد خان،پی ایم ایل این کے انجینئر امیر مقام،پی پی پی کے محمد عارف ایڈووکیٹ ،جماعت اسلامی کے رفیع اللہ ،پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے اصغرخان ،قومی وطن پارٹی کے جمیل احمد ،تحریک انصاف کے ڈاکٹر امجد علی،جے یو آئی (ف) کے عرفان اللہ اور جے یوآئی (ن) کے مولانااقبال احمد شامل ہیں
پی کے 83 میں مسلم لیگ ن کے حاجی جلات خان،گجر قومی تحریک کے شہزاد گجر ،اے این پی کے رحمت علی خان ،جماعت اسلامی کے حسین احمد کانجو ،جے یو آئی (ف) کے مولانا قطب الدین،جے یوآئی (ن)کے مولاناطاہر بنوری،پی پی پی کے نجیب اللہ خان ،پی ٹی آئی کے عظمت علی خان،قومی وطن پارٹی کے شیر بہادر خان شامل ہیں
حلقہ پی کے 84اے این پی کے ایوب خان آشاڑے ،جے یو آئی(ف) کے قاری محمود ،مسلم لیگ ن کے دوست محمد خا ن ،پی پی پی کے سید اکبر خان، پی ٹی آئی کے محمود خان ،جے یوآئی (ن) کے عبید الرحمان ،جماعت اسلامی کے خائستہ باچہ ،قومی وطن پارٹی کے نصر اللہ خان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے عمرعلی شامل ہیں۔
پی کے 85 میں اے این پی سید جعفر شاہ،پی پی پی کے ملک خورشید ،جے یو آئی(ف) کے ملک آفتاب ،جماعت اسلامی کے بخت امین ،مسلم لیگ ن کے شرافت علی خان،تحریک انصاف کے ملک نثاراور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے اختر علی خان شامل ہیں
پی کے 86 میں اے این پی کے ڈاکٹر حیدر علی خان ،پی پی پی کے شاہی خان ،مسلم لیگ ن کے قیموس خان ،جے یو آئی کے علی شاہ ایڈووکیٹ ،جے یو آئی (ن) کے حاجی گل زادہ،جماعت اسلامی کے فضل غفور ایڈووکیٹ ،قومی وطن پارٹی کے حید رعلی خان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مختیار خان یوسف زئی میدا ن میں ہیں۔
اس کے علاوہ ان حلقوں میں اے این پی ،پی پی پی ،مسلم لیگ نوازاورپی ٹی آئی کے متعدد کارکن ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناراض ہوکر پارٹی امیدواروں کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں ، بہرحال ٹکٹوں کی تقسیم پر جو پارٹیاں دھڑے بندی کا شکار ہوئیں انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فی الوقت سوات کی سطح پر کسی بھی سیاسی جماعت نے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، جبکہ جے یو آئی ،تحریک انصاف ،قومی وطن پارٹی اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے لئے پر تول رہی ہیں ۔
سوات کے حلقے پی کے 80،پی کے 81اور پی کے 82 میں مسلم لیگ ن کو کارکنوں کے تحفظات کی وجہ سے ان حلقوں پر پوزیشن سوالیہ نشان بن گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کوبھی ٹکٹوں کی جنگ نے تہہ وبالا کردیاہے اور کارکن پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں، جس سے این اے29اور این اے 30کی دوقومی نشستوں کے علاوہ پی کے 83اور 84میں پی ٹی آئی شدید انتشار کا شکار ہے حالانکہ پی کے 83تحریک انصاف کاگڑھ سمجھا جاتا ہے، غلط فیصلے کی وجہ سے کارکن دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی چیئر مین عمران خان کی سوات آمد پر ہزاروں کارکنوں نے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کیخلاف اپنے قائد کا استقبال سیاہ جھنڈوں سے کیا اور جلسہ گاہ میں مشتعل کارکنوں نے کافی شورشرابہ بھی کیا ،لیکن جلسے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے سے عمران خان اس احتجاج سے بے خبر رہے اوریوں کارکن مایوس ہوکر چلے گئے۔ حلقہ پی کے 86 سے مسلم لیگ ن کے صوبائی نائب صدر اوردیرینہ کارکن علی شاہ ایڈووکیٹ، ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناراض ہوکر جے یو آئی (ف)میں چلے گئے ہیں اور قیموس خان کے مقابلے میں جے یو آئی (ف) سے ٹکٹ حاصل کرکے مد مقابل ہوگئے ہیں۔
سوات کے صوبائی حلقہ پی کے80جو مینگورہ شہر اور ضلعی صدرمقام سیدوشریف پر مشتمل ہے اس حلقے میںکل رجسٹرڈووٹ143264 ہیںجسمیں مرد 78979، خواتین کے 64285ووٹ درج ہیں ، 2002ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے محمدامین ایم ایم اے کے ٹکٹ ایم پی اے منتخب ہوئے تھے جنہیں جے یو آئی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ 2008کے انتخابات میں اس حلقے سے اے این پی کے واجد علی خان نے کامیابی حاصل کی ،2013کے انتخابات میں ایم ایم اے کے راستے جد ا ہوچکے ہیں اور جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) الگ سفر کررہی ہیں ۔
جے یو آئی ف کے ضلعی امیر مولاناحجت اللہ امیدوارہیں جبکہ جماعت اسلامی نے دوبارہ محمدامین کوٹکٹ دیا ہے جنہیں اپنی ہی جماعت میں بھی پس پردہ اختلاف کا سامنا ہے۔ان حالات میں ن لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر انجینئر امیرمقام کے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے بعد ڈرامائی تبدیلی بھی آگئی ہے اور مینگورہ شہر سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے سابق ضلع ناظم ملک سردارعلی کی ن لیگ میں شمولیت سے انجینئر امیرمقام کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے ،پیپلزپارٹی کے ریاض احمدایڈووکیٹ 2008کے انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آئے تھے۔
جس کے باعث وہ بھی اس بار مقابلے کی دوڑمیں کسی سے پیچھے نہیں ، تحریک انصاف کے فضل حکیم خان بھی اپنی جیت کے لئے پر امید ہیں تو دوسری جانب 2008ء میں اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہونے والے اے این پی کے واجد علی خان بھی سابقہ کارکردگی پر دوبارہ میدان مارنے کے لئے پر امید دکھائی دے رہے ہیں۔حلقہ پی کے 81 سنگوٹہ، گوگدرہ،بری کوٹ ،مرغزار،قمبر،پاڑئی وغیرہ پر مشتمل وسیع حلقہ ہے اس حلقے کا ٹوٹل ووٹ 143507 ہے مرد ووٹ 79839 خواتین 63668پر مشتمل ہیں اس حلقے پر سوات کے شاہی خاندان کا کافی ہولڈرہا ہے۔
یہاں پر ماضی میں میاں گل امیر زیب مضبوط امیدوار رہے جن کی وفات کے بعد انکے فرزند میاں گل اسفندیار امیر ز یب دو مرتبہ کامیاب ہوئے جو بعدازاں 2008ء کے انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے کی نذر ہوگئے ،2002ء میں مولانا نظام الدین ایم ایم اے کے ٹکٹ پرکامیاب ہوئے اور 2008ء میں اے این پی کے شیرشاہ خان منتخب ہوئے ،اس حلقے پر مرحوم اسفندیار امیر زیب کے بھائی شہریار امیر زیب ن لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں نکلے ہیں اوران کا اے این پی کے شیرشاہ خان کیساتھ کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔
حلقہ پی کے 82میں ٹوٹل رجسٹر ووٹ 141120ہے جس میں مرد 77430 خواتین 63690ووٹرہیں، کسی زمانے میں یہ مسلم لیگ کا حلقہ سمجھاجاتا تھا جبکہ 2008ء کے بعد اے این پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور دہشت گردی کے دوران اے این پی کے ایم پی اے وقار احمد خان کے خاندان کے چھ افراد کو شہید کیا گیا جس کے بعد اس حلقے میں وقارخان کو علاقے کے عوام کی کافی ہمدردیاں حاصل ہیں، اس حلقے سے امیر مقام بھی صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں تاہم اس حلقے پر امیر مقام کی کامیابی کا امکان کم نظر آرہاہے اسکی اصل وجہ سوات کی دو صوبائی اور ایک قومی نشست پر ان کا کھڑا ہوناہے ۔
جمعیت علماء اسلام (ف) بھی سوات میں اچھی خاصی حیثیت رکھتی ہے۔ 2002ء میں جے یوآئی نے سوات میں ایک قومی اور چار صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سابق ضلعی امیر قاری عبدالباعث صدیقی (مرحوم) این اے 29سوات ون سے رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جے یوآئی کے حلقہ پی کے 81سے ایم پی اے مولانا نظام الدین، حلقہ پی کے 82مولانا عرفان اللہ ،پی کے 86سے حافظ حسین احمد اورحلقہ پی کے 84 سے سابق صوبائی وزیر قاری محمود کامیاب ہوئے تھے ۔
دو سال قبل جے یوآئی کے ضلعی سیٹ اپ پر نئی قیادت سامنے آئی ہے اور اس وقت ضلعی امیر کی ذمہ داری قاری حجت اللہ کے سرپر ہے اور وہ خود حلقہ پی کے 80کے نشست پر امیدواربن گئے ہیں ۔ تجزیوں سے قطع نظر ضلع میں تحریک انصا ف کی بڑ ھتی ہوئی مقبولیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ضلع میں تمام جماعتیں کامیابی کے لئے پر امید ہیں لیکن عوام اس بار کس کے سر پر کامیابی کا تاج رکھتے ہیں اس کا فیصلہ گیارہ مئی کوہی ہوگا۔
ان نشستوں پر کل رجسٹرڈووٹو ں کی تعداد9لاکھ 81ہزار824ہے ،جن میں مرد 5لاکھ 44 ہزارجبکہ خواتین 4لاکھ 37ہزار ہیں۔11مئی 2013کو ہونے والے عام انتخابات کیلئے سوات میں کل 257 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں جن میں حلقہ این اے 29سوات ون کے لئے 34امیدوار،این اے 30سوات ٹو سے 40امیدوار ہیں۔7صوبائی نشستوں پرپی کے 80کے لئے 30 امیدوار، پی کے 81 کے لئے 25،پی کے 82کے لئے 24،پی کے 83کے لئے 34،پی کے 84کے لئے 23،پی کے 85کے لئے 24،پی کے 86کے لئے 24امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے سید علاؤالدین کی دہری شہریت اور ایم کیوایم کے دو امیدوار سید جہانگیر شاہ اور شاہ اسلم خان کے کاغذات کم عمری جبکہ تحریک انصاف کے محب اللہ خان اور عبدالہادی کے کاغذات نامزدگی غیرحاضری کی بنا پر مسترد کردیئے گئے ہیں ۔سوات ،بونیر اور شانگلہ1988تک ایک ہی ضلع رہا ہے ، وسیع علاقہ ہونے کی وجہ سے دو قومی نشستوں اور 9 صوبائی نشستوں پر مشتمل حلقہ بندی کی گئی تھی جس وقت سوات میں ایک قومی اور پانچ صوبائی نشستیں تھیں جبکہ بونیراور شانگلہ کو 2،2 نشستوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔
1990کے بعد سب سے پہلے بونیر کوسوات سے الگ کردیا گیاجس کے تین سال بعد 1997میں شانگلہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔سوات میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ چھ انتخابات کے دوران ریاست سوات کا شاہی خاندان قومی نشست کے حلقہ این اے 29سوات 1پر تین مرتبہ کامیاب رہا ،1988ء میں شہزادہ امان روم ،1993ء میں میاں گل اورنگزیب اور 1997ء میاں گل عدنان اورنگزیب ایم این اے منتخب ہوئے ، 1990ء میں جماعت اسلامی کے خالق داد خان،2002ء میں جے یو آئی کے قاری عبدالباعث (مرحوم) اور 2008ء میں اے این پی کے انجینئر مظفرالملک کاکی خان منتخب ہوئے۔
1993 میں این اے 29 سو ات1سے میاں گل اورنگزیب نے پی ایم ایل کے ٹکٹ پر 32533 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی مد مقابل آئین خان نے آزاد امیدوارکی حیثیت سے 3556 ووٹ حاصل کئے ۔ 1997 میں میاں گل اورنگزیب کے فرزند میاں گل عدنان اورنگزیب نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر 25018 ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی جبکہ مدمقابل اے این پی کے امیدوار فقیر محمد خان نے 14402 ووٹ لئے ،2002ء میں اس حلقے پر متحدہ مجلس عمل کے اتحاد پر جے یو آئی کے امیدوار قاری عبدالباعث (مرحوم ) نے 65808ووٹ لیکر عدنان اورنگزیب کو47ہزار پانچ سوووٹ سے شکست دی،جس کے بعد سابق گورنر میاں گل اورنگزیب کے صاحبزادے عدنان اورنگزیب کو 2008ء میں اے این پی کے امیدوار مظفر الملک کا کی خان نے 2600ووٹوں سے شکست دی۔
تاہم شاہی خاندان کی سیاست اس وقت دم توڑ گئی جب والی سوات کا نواسہ اور سابق صوبائی وزیرتعلیم اسفندیار امیرزیب دہشت گردوں کا نشانہ بنا، جس کے بعد میاں گل اورنگزیب اور عدنان اورنگزیب ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کو بھی خیر باد کہہ کر سوات سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ این اے 29سوات 1پر سابق ایم اے این کاکی خان ایک بار پھر پر امید نظر آرہے ہیں اور ان کے مد مقابل ن لیگ کے سید محمد علی شاہ باچہ لال عمر رسیدہ ہونے کے باوجود مضبوط امیدوار ہیں لیکن اس بار ن لیگ کے ٹکٹوں کی تقسیم سے کارکن کافی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔
این اے 29 سے منسلک حلقوں میں کارکن دھڑوں میں تقسیم ہیں جبکہ اے این پی واحد جماعت ہے جس کے امیدوار کے مقابلے میں کسی کارکن نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ہیں ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انجینئر مظفرالملک کاکی خان کے لئے ایک بار پھر میدان خالی ہے جس سے وہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔سوات کے این اے 30 سوات 2 پر 1997میں مسلم لیگ کے شجاعت علی خان نے اے این پی کے امیدوار محمد علی خان کو 14 ہزار ووٹ سے شکست دی۔
2002 میں متحدہ مجلس عمل کی طرف سے جماعت اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر فضل سبحان نے مسلم لیگ کے امیدوار شجاعت علی خان کو 51 ہزار ووٹوں سے شکست دیکر بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جبکہ 2008ء میں پی پی پی کے امیدوار سید علاؤالدین خان نے مسلم لیگ کے امیدوار شجاعت علی خان پر 8ہزار ووٹ سے برتری حاصل کی۔
این اے 30 سے اے این پی کے بزرگ سیاستدان محمد افضل خان لالہ کے خاندان کا اثرر ورسوخ زیادہ ہے، لیکن اس حلقے کی ایک بات نمایاں ہے کہ اس پر کسی خاندان کی اجارہ داری قائم نہیں ہوئی ، ماضی میں یہاں پر اے این پی ،پی پی پی اور ن لیگ کے امیدواروقتاً فوقتاًکامیاب ہوتے رہے ہیں، اس بار ن لیگ کے انجینئر امیر مقام ،اے این پی کے خورشید علی خان،پی پی پی کے سید علاؤالدین،تحریک انصاف کے سلیم الرحمان ،جماعت اسلامی کے ڈاکٹر فضل سبحان اور ن لیگ کے رہنماء نیروز میاں ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار ہیں،اس سیٹ پر اصل مقابلہ ن لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان ہونے کی توقع زیادہ ہے۔
ٹکٹ نہ ملنے کے باعث شجاعت علی خان اور ان کے فرزند جمال ناصر خان اور خاندان کے دیگر افراد واپس مسلم لیگ(ن) میں آگئے ہیں۔2013 کا سوات میں انتخابی دنگل ماضی کے انتخابات سے کافی مختلف دکھائی دے رہا ہے ایک طرف ہر جماعت کے کارکنوں میں کافی جوش وجذبہ موجود ہے تو دوسری طرف پر امن ماحول میں الیکشن کے انعقاد سے لوگ بھی مطمئن نظر آرہے ہیں، 2008ء کے انتخابات میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر تیس فیصد سے زیادہ ووٹ پول نہیں ہوئے تھے ، طالبائزیشن کی وجہ سے خواتین کو ووٹ سے روکا گیا تھا ، اس بار پچھلے انتخابات کی نسبت زیادہ ووٹ پول ہونے کا امکان ہے۔
خواتین کو بھی حق رائے دہی استعمال کی اجازت حاصل ہوگی۔سوات میں تمام پارٹیوں نے اپنے امیدوار فائنل کرلئے ہیں ۔این اے29 سوات ون سے اے این پی کے سابق ممبر قومی اسمبلی انجینئر مظفرالملک کاکی خان ،مسلم لیگ ن کے سابق صوبائی وزیر سید محمد علی شاہ باچہ لالا ،جماعت اسلامی کے اختر علی خان ،پی پی پی کے دوست محمد خان ،تحریک انصاف کے علی مراد ،جمعیت علما ء اسلام کے مولانا نظام الدین ،جے یو آئی نظریاتی مولانا عبید الرحمان ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی خورشید کاکا جی ، این اے30 سوات ٹو سے مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام ، اے این پی کے خورشید خان ،پی پی پی علاؤالدین ، نیروز میاں آزاد، تحریک انصاف سلیم الرحمان،جماعت اسلامی ڈاکٹر فضل سبحان ،جے یو آئی (ف) مولانا حفیظ الرحمان ،قومی وطن پارٹی امجد علی خان ،گوجر قومی تحریک کے شہزاد گوجر،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی مختیار خان،قومی وطن پارٹی کے ڈاکٹر سراج اور جے یوآئی نظریاتی کے قاری نذیراحمد شامل ہیں۔
پی کے 80 کے پارٹی ٹکٹ ہولڈروں میں جماعت اسلامی کے امیدوار محمد آمین ،پی پی پی کے ریاض احمد ،اے این پی کے واجد علی خان ،مسلم لیگ ن کے انجینئر امیر مقام ،پی ٹی آئی کے فضل حکیم ،جے یو آئی کے حجت اللہ ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر خالد محمود اور قومی وطن پارٹی کے فضل الرحمان نونو شامل ہیں۔
پی کے 81 سے اے این پی شیرشاہ خان ،پی پی پی کے فضل حیات چٹان ،مسلم لیگ ن کے میاںگل شہریارامیرزیب، جماعت اسلامی کے ریاض احمد ، جے یو آئی کے حبیب علی شاہ ،پی ٹی آئی کے عزیزاللہ گران،قومی وطن پارٹی کے افضل شاہ شامل ہیں۔
پی کے 82 میں اے این پی کے وقار احمد خان،پی ایم ایل این کے انجینئر امیر مقام،پی پی پی کے محمد عارف ایڈووکیٹ ،جماعت اسلامی کے رفیع اللہ ،پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے اصغرخان ،قومی وطن پارٹی کے جمیل احمد ،تحریک انصاف کے ڈاکٹر امجد علی،جے یو آئی (ف) کے عرفان اللہ اور جے یوآئی (ن) کے مولانااقبال احمد شامل ہیں
پی کے 83 میں مسلم لیگ ن کے حاجی جلات خان،گجر قومی تحریک کے شہزاد گجر ،اے این پی کے رحمت علی خان ،جماعت اسلامی کے حسین احمد کانجو ،جے یو آئی (ف) کے مولانا قطب الدین،جے یوآئی (ن)کے مولاناطاہر بنوری،پی پی پی کے نجیب اللہ خان ،پی ٹی آئی کے عظمت علی خان،قومی وطن پارٹی کے شیر بہادر خان شامل ہیں
حلقہ پی کے 84اے این پی کے ایوب خان آشاڑے ،جے یو آئی(ف) کے قاری محمود ،مسلم لیگ ن کے دوست محمد خا ن ،پی پی پی کے سید اکبر خان، پی ٹی آئی کے محمود خان ،جے یوآئی (ن) کے عبید الرحمان ،جماعت اسلامی کے خائستہ باچہ ،قومی وطن پارٹی کے نصر اللہ خان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے عمرعلی شامل ہیں۔
پی کے 85 میں اے این پی سید جعفر شاہ،پی پی پی کے ملک خورشید ،جے یو آئی(ف) کے ملک آفتاب ،جماعت اسلامی کے بخت امین ،مسلم لیگ ن کے شرافت علی خان،تحریک انصاف کے ملک نثاراور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے اختر علی خان شامل ہیں
پی کے 86 میں اے این پی کے ڈاکٹر حیدر علی خان ،پی پی پی کے شاہی خان ،مسلم لیگ ن کے قیموس خان ،جے یو آئی کے علی شاہ ایڈووکیٹ ،جے یو آئی (ن) کے حاجی گل زادہ،جماعت اسلامی کے فضل غفور ایڈووکیٹ ،قومی وطن پارٹی کے حید رعلی خان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے مختیار خان یوسف زئی میدا ن میں ہیں۔
اس کے علاوہ ان حلقوں میں اے این پی ،پی پی پی ،مسلم لیگ نوازاورپی ٹی آئی کے متعدد کارکن ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناراض ہوکر پارٹی امیدواروں کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں ، بہرحال ٹکٹوں کی تقسیم پر جو پارٹیاں دھڑے بندی کا شکار ہوئیں انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فی الوقت سوات کی سطح پر کسی بھی سیاسی جماعت نے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، جبکہ جے یو آئی ،تحریک انصاف ،قومی وطن پارٹی اورپختونخواہ ملی عوامی پارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے لئے پر تول رہی ہیں ۔
سوات کے حلقے پی کے 80،پی کے 81اور پی کے 82 میں مسلم لیگ ن کو کارکنوں کے تحفظات کی وجہ سے ان حلقوں پر پوزیشن سوالیہ نشان بن گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کوبھی ٹکٹوں کی جنگ نے تہہ وبالا کردیاہے اور کارکن پارلیمانی بورڈ کے فیصلوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں، جس سے این اے29اور این اے 30کی دوقومی نشستوں کے علاوہ پی کے 83اور 84میں پی ٹی آئی شدید انتشار کا شکار ہے حالانکہ پی کے 83تحریک انصاف کاگڑھ سمجھا جاتا ہے، غلط فیصلے کی وجہ سے کارکن دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی چیئر مین عمران خان کی سوات آمد پر ہزاروں کارکنوں نے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کیخلاف اپنے قائد کا استقبال سیاہ جھنڈوں سے کیا اور جلسہ گاہ میں مشتعل کارکنوں نے کافی شورشرابہ بھی کیا ،لیکن جلسے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے سے عمران خان اس احتجاج سے بے خبر رہے اوریوں کارکن مایوس ہوکر چلے گئے۔ حلقہ پی کے 86 سے مسلم لیگ ن کے صوبائی نائب صدر اوردیرینہ کارکن علی شاہ ایڈووکیٹ، ٹکٹ کی غیر منصفانہ تقسیم پر ناراض ہوکر جے یو آئی (ف)میں چلے گئے ہیں اور قیموس خان کے مقابلے میں جے یو آئی (ف) سے ٹکٹ حاصل کرکے مد مقابل ہوگئے ہیں۔
سوات کے صوبائی حلقہ پی کے80جو مینگورہ شہر اور ضلعی صدرمقام سیدوشریف پر مشتمل ہے اس حلقے میںکل رجسٹرڈووٹ143264 ہیںجسمیں مرد 78979، خواتین کے 64285ووٹ درج ہیں ، 2002ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے محمدامین ایم ایم اے کے ٹکٹ ایم پی اے منتخب ہوئے تھے جنہیں جے یو آئی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ 2008کے انتخابات میں اس حلقے سے اے این پی کے واجد علی خان نے کامیابی حاصل کی ،2013کے انتخابات میں ایم ایم اے کے راستے جد ا ہوچکے ہیں اور جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) الگ سفر کررہی ہیں ۔
جے یو آئی ف کے ضلعی امیر مولاناحجت اللہ امیدوارہیں جبکہ جماعت اسلامی نے دوبارہ محمدامین کوٹکٹ دیا ہے جنہیں اپنی ہی جماعت میں بھی پس پردہ اختلاف کا سامنا ہے۔ان حالات میں ن لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر انجینئر امیرمقام کے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کے بعد ڈرامائی تبدیلی بھی آگئی ہے اور مینگورہ شہر سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے سابق ضلع ناظم ملک سردارعلی کی ن لیگ میں شمولیت سے انجینئر امیرمقام کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے ،پیپلزپارٹی کے ریاض احمدایڈووکیٹ 2008کے انتخابات میں دوسری پوزیشن پر آئے تھے۔
جس کے باعث وہ بھی اس بار مقابلے کی دوڑمیں کسی سے پیچھے نہیں ، تحریک انصاف کے فضل حکیم خان بھی اپنی جیت کے لئے پر امید ہیں تو دوسری جانب 2008ء میں اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہونے والے اے این پی کے واجد علی خان بھی سابقہ کارکردگی پر دوبارہ میدان مارنے کے لئے پر امید دکھائی دے رہے ہیں۔حلقہ پی کے 81 سنگوٹہ، گوگدرہ،بری کوٹ ،مرغزار،قمبر،پاڑئی وغیرہ پر مشتمل وسیع حلقہ ہے اس حلقے کا ٹوٹل ووٹ 143507 ہے مرد ووٹ 79839 خواتین 63668پر مشتمل ہیں اس حلقے پر سوات کے شاہی خاندان کا کافی ہولڈرہا ہے۔
یہاں پر ماضی میں میاں گل امیر زیب مضبوط امیدوار رہے جن کی وفات کے بعد انکے فرزند میاں گل اسفندیار امیر ز یب دو مرتبہ کامیاب ہوئے جو بعدازاں 2008ء کے انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے کی نذر ہوگئے ،2002ء میں مولانا نظام الدین ایم ایم اے کے ٹکٹ پرکامیاب ہوئے اور 2008ء میں اے این پی کے شیرشاہ خان منتخب ہوئے ،اس حلقے پر مرحوم اسفندیار امیر زیب کے بھائی شہریار امیر زیب ن لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں نکلے ہیں اوران کا اے این پی کے شیرشاہ خان کیساتھ کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔
حلقہ پی کے 82میں ٹوٹل رجسٹر ووٹ 141120ہے جس میں مرد 77430 خواتین 63690ووٹرہیں، کسی زمانے میں یہ مسلم لیگ کا حلقہ سمجھاجاتا تھا جبکہ 2008ء کے بعد اے این پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور دہشت گردی کے دوران اے این پی کے ایم پی اے وقار احمد خان کے خاندان کے چھ افراد کو شہید کیا گیا جس کے بعد اس حلقے میں وقارخان کو علاقے کے عوام کی کافی ہمدردیاں حاصل ہیں، اس حلقے سے امیر مقام بھی صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں تاہم اس حلقے پر امیر مقام کی کامیابی کا امکان کم نظر آرہاہے اسکی اصل وجہ سوات کی دو صوبائی اور ایک قومی نشست پر ان کا کھڑا ہوناہے ۔
جمعیت علماء اسلام (ف) بھی سوات میں اچھی خاصی حیثیت رکھتی ہے۔ 2002ء میں جے یوآئی نے سوات میں ایک قومی اور چار صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں سابق ضلعی امیر قاری عبدالباعث صدیقی (مرحوم) این اے 29سوات ون سے رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جے یوآئی کے حلقہ پی کے 81سے ایم پی اے مولانا نظام الدین، حلقہ پی کے 82مولانا عرفان اللہ ،پی کے 86سے حافظ حسین احمد اورحلقہ پی کے 84 سے سابق صوبائی وزیر قاری محمود کامیاب ہوئے تھے ۔
دو سال قبل جے یوآئی کے ضلعی سیٹ اپ پر نئی قیادت سامنے آئی ہے اور اس وقت ضلعی امیر کی ذمہ داری قاری حجت اللہ کے سرپر ہے اور وہ خود حلقہ پی کے 80کے نشست پر امیدواربن گئے ہیں ۔ تجزیوں سے قطع نظر ضلع میں تحریک انصا ف کی بڑ ھتی ہوئی مقبولیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ضلع میں تمام جماعتیں کامیابی کے لئے پر امید ہیں لیکن عوام اس بار کس کے سر پر کامیابی کا تاج رکھتے ہیں اس کا فیصلہ گیارہ مئی کوہی ہوگا۔