اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا
کراچی میں دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے نگراں حکومت انتہائی سخت اور مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات کرے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے بعد اے این پی کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکے میں11 افراد کے جاں بحق اور بچوں سمیت 40 کے زخمی ہو نے کی دہشت انگیز کارروائی کوبلاشبہ انتخابات بمقابلہ طالبان جیسی صورتحال کہنا کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا جب کہ قتل وغارت کے اس درد ناک اور قابل مذمت سلسلے کے انجام کے بارے میں مبصرین موثر اور بروقت حکومتی سیکورٹی اقدامات کے اعلانات سے خاصے مضطرب نظر آتے ہیں۔اس حملے کے بعداے این پی نے سندھ بھر میں پر امن یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تاہم ٹرانسپورٹ اور کاروبار بند نہیں ہوا ، ادھرکالعدم تحریک طالبان نے واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پولیس ذرایع نے بتایا کہ اے این پی سندھ کے سیکریٹری جنرل اور سندھ اسمبلی کے لیے امیدوار بشیر جان کے انتخابی دفتر کے باہر دھماکا ہوا جہاں پر امیدوار برائے صوبائی حلقہ93 بشیر جان بھی خطاب کے لیے موجود تھے۔ بشیر جان نے میڈیاکو بتایا کہ میری کارنر میٹنگ جاری تھی تاہم میں گاڑی میں موجود تھا ابھی باہر نہیں نکلا تھا کہ بیس گز دور بم دھماکا ہو گیا جس سے میری گاڑی 5 فٹ تک ہوا میں اچھلی اور تباہ ہو گئی، تاہم میں محفوظ رہا۔
در حقیقت مسئلہ دہشت گردی کے سیلاب سے بچنے اور ان قوتوں کو قابو کرنے کا ہے جس نے صورتحال کو انتخابی امیدواروں کے لیے سوالیہ نشان بنا دیا ہے کہ ''کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد''۔ دوسری جانب کوہاٹ کے سرحدی علاقے سے برآمدہو نیوالے 5 بم ناکارہ بنادیئے گئے،مہمندایجنسی کی تحصیل حلیمزئی میں بھی نامعلوم افراد نے قبائلی رہنما ملک گلنوازخان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، شبقدر میں بی ڈی ایس نے سولہ کلوبارودی مواد ناکارہ بنادیا، دریں اثناء لنڈی کوتل میں نامعلوم افراد نے افغانستان جانے والے نیٹو کنٹینرپرفائرنگ کردی جس سے پنجاب کارہائشی ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
اسی نوعیت کی وارداتیں کسی بھی وقت متوقع ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ایک طرف وہ ملک اور جمہوریت دشمن انتہا پسند مذہبی قوتیں ہیں جن کا ریاست اور طرز حکمرانی کے خلاف جنگ نامہ نوشتہ دیوار ہے کہ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گی اور چند من پسند سیاسی اکائیوں کو چھوڑ کر دوسروں کو نشان عبرت بنا دیں گی۔یہ کھلی لڑائی ہے ۔
تاہم طالبان اور بلوچستان میں دیگر مزاحمت پسند تنظیموں کی مسلسل کارروائیوں کے سدباب کے لیے اب تک جو ٹھوس اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ تاحال حتمی شکل اختیار نہیں کر پائے یا اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی طے پائی ہے تو اس کا عملی مظاہرہ یا جملہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں،اس لیے سیاسی حلقوں اور امیدواروں کی تشویش بلا وجہ نہیں ہے، دہشت گردی کے واقعات کے تسلسل سے سفینہ غم کے کسی جگہ ٹھہرنے کا اعتبار توان سیاست دانوں کو اب آ ہی جائے جو الیکشن مہم بھی یکسوئی سے نہیں چلا سکتے۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں لبرل اور جمہوری جماعتوں کو الیکشن سے دور رکھنا چاہتی ہیں، دہشتگردی کے واقعات کا مقصد ہمیں انتخابی میدان سے بھگانا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہو گا۔ گزشتہ روز نگراں وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کراچی میںدہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بھرپور ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کومکمل فری ہینڈ دے دیاگیا ۔
اجلاس میں اس بات پراتفاق کیا گیا ہے کہ حکومت سندھ 30 اپریل کوایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرے گی جس میں کراچی سمیت سندھ بھر میں عام انتخابات کے لیے سیکیورٹی پلان مرتب کرنے اور دیگرایشوز پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر اہم فیصلے کیے جائیں گے ۔ جہاں تک فری ہینڈ دینے کی بات ہے تو کراچی میں نا معلوم کتنی بار پولیس اور رینجرز کو فری ہینڈ دیا گیا مگر دہشت گردوں ،ٹارگٹ کلرز ، گینگ وار کارندوں اور بھتہ خوروں سمیت طالبان کے ہائی پروفائل ملزمان کی گرفتاری اور انھیں ملنے والی سزاؤںکے بارے میں عوام لاعلم ہیں،بیشتر دہشت گرد،قاتل،ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور یا تو ضمانت پر رہا ہوتے گئے یا پھر ان کو غائب کردیا گیا چنانچہ آجکل جتنی قتل وغارت ہورہی ہے وہ بظاہر نامعلوم افراد کرتے ہیں جن کے چہرے چھپے ہوئے ہیں اور ٹھکانوں کو نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے۔
ووٹرز امن کے منتظر ہیں۔ ملک کو لہو میں ڈوبے ہوئے انتخابات نہیں ملنے چاہییں بلکہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم دفاتر اور امیدواروں کو آج سے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے، حساس علاقوں میں رینجرز کی چوکیاں قائم کی جائیں،جب کہ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اورسیکیورٹی معاملات پرتعاون کے لیے جوایک سیکیورٹی کو آرڈینیشن کمیٹی بھی قائم کی جا رہی ہے وہ تمام اداروں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے اور نتائج دے۔
اسی طرح وزیر اعظم کی اس ہدایت پرکہ کراچی کے تمام حساس علاقوں میں پولیس اور رینجرز کے گشت میں اضافہ کیا جائے اورکراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کے نظام کومزیدفعال اور مربوط کرنے کے علاوہ تمام حساس مقامات پر سیکیورٹی چوکیاں قائم کی جائیںفوری عمل درآمد کیا جائے۔دہشت گرد تنظیموں کے مذموم عزائم کس درجہ ہولناک ہیں اس کی ایک جھلک صدر مملکت آصف علی زرداری کے اس انتباہ اور عزم میں ملتی ہے کہ جمہوریت دشمن قوتیں ملک میں ایسے واقعات رونما کرا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں لیکن حکومت ان کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
صدرمملکت نے ہدایت کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر اور سخت ایکشن لیا جائے اور عوام کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے نگراں حکومت انتہائی سخت اور مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات کرے۔ ادھر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے کہا ہے کہ موجودہ سیکیورٹی کے تناظرمیںجہاں انتہا پسند ہمارے امن کو تباہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ہماری افواج انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نبردآزما ہیں ملکی سلامتی کے پیش نظر مسلح افواج کی ذمے داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ظاہر ہے متوازی قوت بن کر جب دہشت گرد تنظیمیں ملکی سلامتی ،قومی یک جہتی اور داخلی امن وامان کے لیے خطرہ بن جائیں تو کون سی جمہوری حکومت ، اس کی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے ادارے ،میڈیا ،عدلیہ ،الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس ساری صورتحال کو تماشائی بن کر دیکھنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
ایسا نہ ہوا ہے نا اب ہوگا۔ چنانچہ تحریک طالبان نے ضلع مردان میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹروں کو اپنی جانب مبذول کر انے کے لیے موسیقی اور گانوں کا سہارا لینے کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے فی الفور بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے اس کا نوٹس لیا جائے ۔ مردان کے صحافیوں کے نام بھیجے گئے خط میں تحریک طالبان کے رہنماؤں نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں اور بالخصوص ایک مذہبی جماعت ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جوکہ غیراسلامی فعل ہے لہذا اس کا تدارک ازحد ضروری ہے۔
اداکارہ اور تحریک مساوات کی سربراہ مسرت شاہین نے کہا ہے کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں مگرکسی صورت بھی حوصلہ نہیں ہاروں گی۔دھمکیوں اور شدید حملوں کو روکنے میں ریاستی تساہل کے حوالے سے بعض غیر ملکی ذرایع ابلاغ آئندہ انتخابات کو بے سمت کہہ رہے ہیں جو قابل غور ہے۔ ارباب اختیار کو ملک میں الیکشن سے قبل یا بعد میں ''گینگ لینڈ پولیٹیکل کلچر'' کو جڑ پکڑنے سے روکنا ہوگا۔ قوم اور حکمرانوں کو یکساں ہمہ جہتی اعصاب شکن چیلنجوں کا سامنا ہے تاہم ان کا مقابلہ فیس ٹو فیس کرنا ہوگا۔
انتخابی مہم میں مصروف امیدواروں کو آزادانہ کنوینسنگ ، کارنر میٹنگز اور جلسے کرنے کی کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں آزادی میسر ہو۔ ووٹر ہر قسم کے خوف و دھونس سے محفوظ رہتے ہوئے اپنا جمہوری فرض ادا کرسکیں۔ دشمن چھپ کر حملے کررہا ہے لیکن قوم منتظر ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے ان عناصر کو یادگار ،لرزہ خیز اورعبرت ناک شکست ملے اور بتا دیا جائے کہ کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں امریکی نسل پرست تنظیم کو کلس کلاں (kkk) نہیں بننے دیا جائے گا۔
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پولیس ذرایع نے بتایا کہ اے این پی سندھ کے سیکریٹری جنرل اور سندھ اسمبلی کے لیے امیدوار بشیر جان کے انتخابی دفتر کے باہر دھماکا ہوا جہاں پر امیدوار برائے صوبائی حلقہ93 بشیر جان بھی خطاب کے لیے موجود تھے۔ بشیر جان نے میڈیاکو بتایا کہ میری کارنر میٹنگ جاری تھی تاہم میں گاڑی میں موجود تھا ابھی باہر نہیں نکلا تھا کہ بیس گز دور بم دھماکا ہو گیا جس سے میری گاڑی 5 فٹ تک ہوا میں اچھلی اور تباہ ہو گئی، تاہم میں محفوظ رہا۔
در حقیقت مسئلہ دہشت گردی کے سیلاب سے بچنے اور ان قوتوں کو قابو کرنے کا ہے جس نے صورتحال کو انتخابی امیدواروں کے لیے سوالیہ نشان بنا دیا ہے کہ ''کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد''۔ دوسری جانب کوہاٹ کے سرحدی علاقے سے برآمدہو نیوالے 5 بم ناکارہ بنادیئے گئے،مہمندایجنسی کی تحصیل حلیمزئی میں بھی نامعلوم افراد نے قبائلی رہنما ملک گلنوازخان کو فائرنگ کرکے قتل کردیا، شبقدر میں بی ڈی ایس نے سولہ کلوبارودی مواد ناکارہ بنادیا، دریں اثناء لنڈی کوتل میں نامعلوم افراد نے افغانستان جانے والے نیٹو کنٹینرپرفائرنگ کردی جس سے پنجاب کارہائشی ڈرائیور زخمی ہوگیا۔
اسی نوعیت کی وارداتیں کسی بھی وقت متوقع ہیں ، مطلب یہ ہے کہ ایک طرف وہ ملک اور جمہوریت دشمن انتہا پسند مذہبی قوتیں ہیں جن کا ریاست اور طرز حکمرانی کے خلاف جنگ نامہ نوشتہ دیوار ہے کہ وہ الیکشن نہیں ہونے دیں گی اور چند من پسند سیاسی اکائیوں کو چھوڑ کر دوسروں کو نشان عبرت بنا دیں گی۔یہ کھلی لڑائی ہے ۔
تاہم طالبان اور بلوچستان میں دیگر مزاحمت پسند تنظیموں کی مسلسل کارروائیوں کے سدباب کے لیے اب تک جو ٹھوس اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ تاحال حتمی شکل اختیار نہیں کر پائے یا اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس حکمت عملی طے پائی ہے تو اس کا عملی مظاہرہ یا جملہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں،اس لیے سیاسی حلقوں اور امیدواروں کی تشویش بلا وجہ نہیں ہے، دہشت گردی کے واقعات کے تسلسل سے سفینہ غم کے کسی جگہ ٹھہرنے کا اعتبار توان سیاست دانوں کو اب آ ہی جائے جو الیکشن مہم بھی یکسوئی سے نہیں چلا سکتے۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ کچھ قوتیں لبرل اور جمہوری جماعتوں کو الیکشن سے دور رکھنا چاہتی ہیں، دہشتگردی کے واقعات کا مقصد ہمیں انتخابی میدان سے بھگانا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہو گا۔ گزشتہ روز نگراں وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کراچی میںدہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بھرپور ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کومکمل فری ہینڈ دے دیاگیا ۔
اجلاس میں اس بات پراتفاق کیا گیا ہے کہ حکومت سندھ 30 اپریل کوایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرے گی جس میں کراچی سمیت سندھ بھر میں عام انتخابات کے لیے سیکیورٹی پلان مرتب کرنے اور دیگرایشوز پر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر اہم فیصلے کیے جائیں گے ۔ جہاں تک فری ہینڈ دینے کی بات ہے تو کراچی میں نا معلوم کتنی بار پولیس اور رینجرز کو فری ہینڈ دیا گیا مگر دہشت گردوں ،ٹارگٹ کلرز ، گینگ وار کارندوں اور بھتہ خوروں سمیت طالبان کے ہائی پروفائل ملزمان کی گرفتاری اور انھیں ملنے والی سزاؤںکے بارے میں عوام لاعلم ہیں،بیشتر دہشت گرد،قاتل،ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور یا تو ضمانت پر رہا ہوتے گئے یا پھر ان کو غائب کردیا گیا چنانچہ آجکل جتنی قتل وغارت ہورہی ہے وہ بظاہر نامعلوم افراد کرتے ہیں جن کے چہرے چھپے ہوئے ہیں اور ٹھکانوں کو نو گو ایریا قرار دیا گیا ہے۔
ووٹرز امن کے منتظر ہیں۔ ملک کو لہو میں ڈوبے ہوئے انتخابات نہیں ملنے چاہییں بلکہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اہم دفاتر اور امیدواروں کو آج سے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے، حساس علاقوں میں رینجرز کی چوکیاں قائم کی جائیں،جب کہ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے اورسیکیورٹی معاملات پرتعاون کے لیے جوایک سیکیورٹی کو آرڈینیشن کمیٹی بھی قائم کی جا رہی ہے وہ تمام اداروں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے اور نتائج دے۔
اسی طرح وزیر اعظم کی اس ہدایت پرکہ کراچی کے تمام حساس علاقوں میں پولیس اور رینجرز کے گشت میں اضافہ کیا جائے اورکراچی کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کے نظام کومزیدفعال اور مربوط کرنے کے علاوہ تمام حساس مقامات پر سیکیورٹی چوکیاں قائم کی جائیںفوری عمل درآمد کیا جائے۔دہشت گرد تنظیموں کے مذموم عزائم کس درجہ ہولناک ہیں اس کی ایک جھلک صدر مملکت آصف علی زرداری کے اس انتباہ اور عزم میں ملتی ہے کہ جمہوریت دشمن قوتیں ملک میں ایسے واقعات رونما کرا کر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں لیکن حکومت ان کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
صدرمملکت نے ہدایت کہ دہشت گردوں کے خلاف موثر اور سخت ایکشن لیا جائے اور عوام کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔ کراچی میں دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے نگراں حکومت انتہائی سخت اور مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات کرے۔ ادھر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں نے کہا ہے کہ موجودہ سیکیورٹی کے تناظرمیںجہاں انتہا پسند ہمارے امن کو تباہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں ہماری افواج انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نبردآزما ہیں ملکی سلامتی کے پیش نظر مسلح افواج کی ذمے داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ظاہر ہے متوازی قوت بن کر جب دہشت گرد تنظیمیں ملکی سلامتی ،قومی یک جہتی اور داخلی امن وامان کے لیے خطرہ بن جائیں تو کون سی جمہوری حکومت ، اس کی مسلح افواج، قانون نافذ کرنے ادارے ،میڈیا ،عدلیہ ،الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس ساری صورتحال کو تماشائی بن کر دیکھنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔
ایسا نہ ہوا ہے نا اب ہوگا۔ چنانچہ تحریک طالبان نے ضلع مردان میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹروں کو اپنی جانب مبذول کر انے کے لیے موسیقی اور گانوں کا سہارا لینے کے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے فی الفور بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے اس کا نوٹس لیا جائے ۔ مردان کے صحافیوں کے نام بھیجے گئے خط میں تحریک طالبان کے رہنماؤں نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں اور بالخصوص ایک مذہبی جماعت ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جوکہ غیراسلامی فعل ہے لہذا اس کا تدارک ازحد ضروری ہے۔
اداکارہ اور تحریک مساوات کی سربراہ مسرت شاہین نے کہا ہے کہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں مگرکسی صورت بھی حوصلہ نہیں ہاروں گی۔دھمکیوں اور شدید حملوں کو روکنے میں ریاستی تساہل کے حوالے سے بعض غیر ملکی ذرایع ابلاغ آئندہ انتخابات کو بے سمت کہہ رہے ہیں جو قابل غور ہے۔ ارباب اختیار کو ملک میں الیکشن سے قبل یا بعد میں ''گینگ لینڈ پولیٹیکل کلچر'' کو جڑ پکڑنے سے روکنا ہوگا۔ قوم اور حکمرانوں کو یکساں ہمہ جہتی اعصاب شکن چیلنجوں کا سامنا ہے تاہم ان کا مقابلہ فیس ٹو فیس کرنا ہوگا۔
انتخابی مہم میں مصروف امیدواروں کو آزادانہ کنوینسنگ ، کارنر میٹنگز اور جلسے کرنے کی کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں آزادی میسر ہو۔ ووٹر ہر قسم کے خوف و دھونس سے محفوظ رہتے ہوئے اپنا جمہوری فرض ادا کرسکیں۔ دشمن چھپ کر حملے کررہا ہے لیکن قوم منتظر ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے ان عناصر کو یادگار ،لرزہ خیز اورعبرت ناک شکست ملے اور بتا دیا جائے کہ کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں امریکی نسل پرست تنظیم کو کلس کلاں (kkk) نہیں بننے دیا جائے گا۔