بھارتی جاسوس پر جیل میں حملہ

ایسے قیدی کے حفاظتی انتظامات غیرمعمولی ہونے چاہیے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ دوسری بیرک میں بند قیدی آسانی سے کیسے۔۔۔

ایسے قیدی کے حفاظتی انتظامات غیرمعمولی ہونے چاہیے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ دوسری بیرک میں بند قیدی آسانی سے کیسے باہر نکلے؟ فوٹو: فائل

لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بعض قیدیوں نے بم دھماکوں کے الزام میں سزائے موت کے قیدی بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کو تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا،جناح اسپتال لاہور میں اس کی حالت تشویشناک ہے۔ حکومت نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل' دو وارڈنز اور بیرک انچارج کو معطل کر کے انکوائری شروع کر دی ہے۔

اخبارات نے جیل ذرایع کے حوالے سے جو معلومات دی ہیں' ان کے مطابق جیل کی بیرک نمبر7 میں سربجیت سنگھ کا دو روز قبل مدثر اور عامر نامی دو قیدیوں سے جھگڑا ہوا تھا جو رفع دفع کرا دیا گیا۔ سربجیت سنگھ کو خصوصی سیل میں بند کیا جاتا ہے، جمعہ کو اسے جب چہل قدمی کے لیے بیرک سے باہر نکالا گیا تو دوسری بیرک میں بند دونوں قیدیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا، مزید 2 قیدیوں نے بھی اس پر حملہ کر دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ ان سطور کے لکھے جانے تک اس کی حالت تشویش ناک بیان کی جاتی ہے۔ سربجیت کا معاملہ خاصا حساس اور پیچیدہ نوعیت کا ہے۔

ایسے قیدی کے حفاظتی انتظامات غیرمعمولی ہونے چاہیے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ دوسری بیرک میں بند قیدی آسانی سے کیسے باہر نکلے؟ اگر سربجیت کے بیرک سے باہر آنے کے وقت ، دوسری بیرکوں کا کھلا رہنا معمول کا حصہ ہے تو اس کا مطلب یہ کہ جیل حکام اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ نہیں تھے۔ یہ حملہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے یا اس میں کوئی منصوبہ بندی شامل ہے' اس کا پتہ تو تحقیقات کے نتیجے میں چل سکتا ہے لیکن اس واقعے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی جیلوں میں قیدیوں کی حفاظت کے لیے انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں خصوصاً سربجیت سنگھ جیسے قیدی کی حفاظت کے لیے انتہائی فول پروف انتظامات ہونے چاہیے تھے۔


ادھر بھارتی ہائی کمیشن نے سربجیت سنگھ کے معاملے پر وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی قونصلر کو رسائی دیدی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی حکام نے صدر آصف علی زرداری سے بھی رابطہ کیا ہے اور بھارتی ہائی کمیشن کے دو افسران اسلام آباد سے لاہور پہنچ گئے ہیں۔ سربجیت سنگھ کی بہن دلبیر کور نے بھی کہا ہے کہ سربجیت کو جیل میں قیدیوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں، بھائی سے ملنا چاہتی ہوں، ویزہ دیا جائے۔ آخری اطلاعات آنے تک سربجیت کے رشتہ داروں کو ویزا دے دیا گیا ہے۔

سربجیت سنگھ کو 1990 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ لاہور اور دیگر علاقوں میں بم دھماکے کرنے کے بعد واہگہ بارڈر کے راستے بھارت فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوران تفتیش سربجیت سنگھ نے بم حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا جس پر انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے اسے 1991 میں موت کی سز ا سنائی تھی۔

اس عدالتی فیصلے کو پہلے لاہور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ سربجیت سنگھ کو مئی 2008 میں پھانسی دی جانا تھی تاہم حکومتِ پاکستان نے اس پھانسی پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا تھا۔ بہرحال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو' سربجیت پر جیل میں حملہ ہونا' بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ حکومت کو اس واقعے کی غیرجانبدار تحقیقات کرانا چاہیے تا کہ اس واقعے کے اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
Load Next Story