گنتی
آپ جیسے بڑے لوگوں کے مسائل بھی بڑے ہوتے ہوں گے۔ وہ شہروں، ملکوں اور دوسری تیسری دنیاؤں کی بات کرتے ہیں۔
آسمان پر تاروں کی تعداد کتنی ہے، اس سوال کا جواب آپ چاہیں تو مجھ سے تھوڑی دیر کے بعد طلب کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ابھی، اس وقت تک ان میں سے آدھے تو میں گن چکا ہوں۔ بے چینی اور پریشانی کے عالم میں اسی طرح ٹیرس پر گھومتا رہا تو تھوڑی ہی دیر میں باقی بھی گن لوں گا۔ پریشانی کیا ہے؟ چلیے! میں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
آپ جیسے بڑے لوگوں کے مسائل بھی بڑے ہوتے ہوں گے۔ وہ شہروں، ملکوں اور دوسری تیسری دنیاؤں کی بات کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل تلاش کرتے ہیں اور بے ستون اجارہ داریوں کو آپس میں ٹکرا دیتے ہیں۔ لیکن میرا مسئلہ میری طرح چھوٹا سا ہے اور صرف میرے گھر تک محدود ہے۔ آپ سے چونکہ میں نے کبھی کوئی بات چھپائی نہیں اس لیے بتائے دے رہا ہوں۔ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ آج کل لوگ بہت بڑی بڑی چیزیں بڑے آرام سے کھا جاتے ہیں۔ سیاستدان زمینیں اور خزانے کھا گئے ہیں اور جنھیں ابھی کھانے کا موقع نہیں ملا وہ چھتر اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور مختلف اداروں کو ساتھ ملانے کی کوشش میں ہیں۔ آپ دیکھیے گا اب اس کے بعد انھوں نے پورا الیکشن کھا جانا ہے۔
میرا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ میرا نیا ڈرائیور میرے پرانے باورچی کو کھا گیا ہے اور جب برسوں سے باورچی خانے کو سلیقے سے سنبھالنے والا باورچی یکایک غائب ہوجائے تو گھریلو نظام کتنا درہم برہم ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جاتے وقت باورچی دھمکی دے کے گیا ہے کہ جب تک ہم اس نئے ڈرائیور کی چھٹی نہ کردیں اس کے لوٹ آنے کی امید نہ رکھیں۔ گویا اس کے یوں فرار ہونے کی واحد وجہ یہ ڈرائیور ہے۔
آپ کو پتہ ہے کہ آج کل ڈھنگ کا ڈرائیور بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ یہ باورچی خور ڈرائیور بھی انھی نایاب لوگوں میں سے ہے۔ اسے آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن گاڑی اچھی چلاتا ہے۔ اسے اندر باہر سے صاف رکھتا ہے۔ غلطی کرے تو ٹوکنے پر ریش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور موبائل فون کان سے نہیں لگاتا، ہیڈ فون استعمال کرتا ہے۔ ایزی لوڈ کے بہانے باربار غائب نہیں ہوتا البتہ اخبار کا شوقین ہے۔ ہر روز پہلے سارے اخبار خود دیکھتا ہے پھر اندر بھیجتا ہے۔ بہت سلیقے سے دوبارہ لپیٹ کے اور ربڑ بینڈ لگا کے۔ یوں جیسے کسی نے چھوا بھی نہ ہو۔ لیکن دھیرے دھیرے میرے علم میں آیا کہ اکثر اخبارات کے کچھ اندرونی صفحات بھی غائب ہوتے ہیں اور جب میں دفتر سے لوٹتا ہوں تو موجود ہوتے ہیں۔ گویا وہ ان میں خاصا ٹائم لگاتا ہے۔
شروع میں اس کے تعلقات باورچی سے بہت اچھے تھے۔ یہاں تک کہ باورچی ہنڈیا چولہے پر چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھتا اور بلوٹوتھ کے ذریعے ودیا بالن اورسناکشی سنہا کی وڈیوز اپنے فون میں ٹرانسفر کرواتا رہتا۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب اسے ڈرائیور کی بھوک کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ کسی ایک دن کی بھوک نہیں ہے بلکہ اس کی ریگولر خوراک ہی وسیع وعریض ہے۔ اس کے آنے کے بعد سے اسے اب گھر میں تیار ہونے والی ہر چیز دوگنا پکانا پڑ رہی تھی۔ ناشتے کے پراٹھوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ دوپہر اور رات کو وہ آدھے آدھے کلو کی کم ازکم بارہ بارہ روٹیاں کھاتا ہے۔
دن میں دودھ پتی کتنی بار پیتا ہے، مجھے اس کا بھی علم نہیں لیکن سالن اتنا کہ پوری ہانڈی کھاجائے۔ تب سے ڈبل ہانڈیاں پکنا شروع ہوگئیں۔ باروچی کا کام دو گنا ہوگیا اور یہ سارا کام اسے ہی کرنا پڑا کیونکہ ڈرائیور بازارکی خوراک کھانے پر راضی نہیں تھا۔ آخر ایک روز وہ چیختا ہوا باہر نکل آیا ''اتنی گرمی میں کیا میں بس اسی کی نوکری کرنے کو رہ گیا ہوں؟ گھر میں ہر وقت اسی کی روٹیاں پکتی رہتی ہیں۔ اسی کی ہانڈیاں پکتی رہتی ہیں۔'' تب میں نے ڈرائیور کو الگ سے بلایا اور سمجھایا کہ بزرگ کہتے ہیں۔۔۔۔روٹی کم پڑ جائے تو میزبان کا قصور ہوتا ہے اور اگر سالن کم پڑجائے تو مہمان یعنی کھانے والے کا قصور ہے۔ تم اپنی خوراک میں کچھ توازن کیوں نہیں قائم کرلیتے؟
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ایک طویل سانس لے کر بولا۔
مسئلہ پیش ہے جو عشق ہے کشمیر نہیں
حل نکل آئے گا ہم بیٹھ کے جب بھی سوچیں
میں چونک گیا۔ پوچھا ''یہ کس کا شعر ہے؟''
بولا ''ناصرہ زبیری کا''۔
میں نے پوچھا ''کوئی اور شعر بھی آتا ہے؟''
بولا ''ہاں ۔۔۔۔
چلاؤں تیر میں کیسے کمان کیا کھینچوں
کہ ہو گیا ہے صف دشمناں میں شامل تو
میں نے پوچھا ''یہ کس کا ہے؟''
بولا ''یہ بھی ناصرہ زبیری کا ہے''۔
میں نے کہا ''یہ تو سنا سنا سا لگتا ہے۔ میرا خیال ہے فرازؔ کا ہے''۔
بولا ''نہیں وہ دوسرا ہے''۔
دشمنوں کا تو کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے میرا دوست کماں کھینچتا ہے
میں اٹھا اور اٹھ کے چپکے سے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اسی روز اس نے باورچی کو خصوصی مذاکرات کے لیے باہر لان کے ایک کونے میں بلایا، اسے ایک گھوری ڈالی اور انگلی اٹھاکے بولا ''دیکھو! گندم، صاحب کی زمینوں سے آتی ہے اور پسوا کے میں لاتا ہوں۔ جب صاحب کو اعتراض نہیں ہے تو روٹیاں ذرا اور موٹی کرتے ہوئے تمہیں کیوں تکلیف ہوتی ہے؟''
بس اسی شام سے باورچی کا دل ٹوٹ گیا۔ مجھ سے تو اس نے بات نہیں کی لیکن سسکیاں بھرتا ہوا بیگم صاحبہ سے بولا ''باجی! اس سے تو اچھا ہے میں کسی تنور پر روٹیاں لگاتا ہوا جل کے مرجاؤں۔ بس اب جب تک یہ بندہ آپ کے پاس موجود ہے، میں نہیں رہ سکتا''۔ اور پھر وہ واقعی چلا گیا۔
میں نے کہا تھا ناں کہ یہ ایک معمولی سا معاملہ ہے۔ بس اتنی ہی بات ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا چنداں مشکل نہیں۔ چالیس پچاس روٹیوں کا کیا ہے، وہ میں پکا لیا کروں گا۔ تارے تو میں یوں ہی شوقیہ گن رہا ہوں، اور اب تو تقریباً گن ہی چکا ہوں۔ لیکن ایک بدبخت بھورے رنگ کا بادل کا ٹکڑا بیچ میں آگیا ہے۔ بدبخت، ڈھیٹ، خبیث ہٹنے کی بجائے پھیلتا جارہا ہے۔ اس نے میری ساری گنتی خراب کردی ہے۔
آپ جیسے بڑے لوگوں کے مسائل بھی بڑے ہوتے ہوں گے۔ وہ شہروں، ملکوں اور دوسری تیسری دنیاؤں کی بات کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل تلاش کرتے ہیں اور بے ستون اجارہ داریوں کو آپس میں ٹکرا دیتے ہیں۔ لیکن میرا مسئلہ میری طرح چھوٹا سا ہے اور صرف میرے گھر تک محدود ہے۔ آپ سے چونکہ میں نے کبھی کوئی بات چھپائی نہیں اس لیے بتائے دے رہا ہوں۔ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ آج کل لوگ بہت بڑی بڑی چیزیں بڑے آرام سے کھا جاتے ہیں۔ سیاستدان زمینیں اور خزانے کھا گئے ہیں اور جنھیں ابھی کھانے کا موقع نہیں ملا وہ چھتر اٹھائے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں اور مختلف اداروں کو ساتھ ملانے کی کوشش میں ہیں۔ آپ دیکھیے گا اب اس کے بعد انھوں نے پورا الیکشن کھا جانا ہے۔
میرا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ میرا نیا ڈرائیور میرے پرانے باورچی کو کھا گیا ہے اور جب برسوں سے باورچی خانے کو سلیقے سے سنبھالنے والا باورچی یکایک غائب ہوجائے تو گھریلو نظام کتنا درہم برہم ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جاتے وقت باورچی دھمکی دے کے گیا ہے کہ جب تک ہم اس نئے ڈرائیور کی چھٹی نہ کردیں اس کے لوٹ آنے کی امید نہ رکھیں۔ گویا اس کے یوں فرار ہونے کی واحد وجہ یہ ڈرائیور ہے۔
آپ کو پتہ ہے کہ آج کل ڈھنگ کا ڈرائیور بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ یہ باورچی خور ڈرائیور بھی انھی نایاب لوگوں میں سے ہے۔ اسے آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن گاڑی اچھی چلاتا ہے۔ اسے اندر باہر سے صاف رکھتا ہے۔ غلطی کرے تو ٹوکنے پر ریش ڈرائیونگ نہیں کرتا اور موبائل فون کان سے نہیں لگاتا، ہیڈ فون استعمال کرتا ہے۔ ایزی لوڈ کے بہانے باربار غائب نہیں ہوتا البتہ اخبار کا شوقین ہے۔ ہر روز پہلے سارے اخبار خود دیکھتا ہے پھر اندر بھیجتا ہے۔ بہت سلیقے سے دوبارہ لپیٹ کے اور ربڑ بینڈ لگا کے۔ یوں جیسے کسی نے چھوا بھی نہ ہو۔ لیکن دھیرے دھیرے میرے علم میں آیا کہ اکثر اخبارات کے کچھ اندرونی صفحات بھی غائب ہوتے ہیں اور جب میں دفتر سے لوٹتا ہوں تو موجود ہوتے ہیں۔ گویا وہ ان میں خاصا ٹائم لگاتا ہے۔
شروع میں اس کے تعلقات باورچی سے بہت اچھے تھے۔ یہاں تک کہ باورچی ہنڈیا چولہے پر چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھتا اور بلوٹوتھ کے ذریعے ودیا بالن اورسناکشی سنہا کی وڈیوز اپنے فون میں ٹرانسفر کرواتا رہتا۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب اسے ڈرائیور کی بھوک کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ کسی ایک دن کی بھوک نہیں ہے بلکہ اس کی ریگولر خوراک ہی وسیع وعریض ہے۔ اس کے آنے کے بعد سے اسے اب گھر میں تیار ہونے والی ہر چیز دوگنا پکانا پڑ رہی تھی۔ ناشتے کے پراٹھوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ دوپہر اور رات کو وہ آدھے آدھے کلو کی کم ازکم بارہ بارہ روٹیاں کھاتا ہے۔
دن میں دودھ پتی کتنی بار پیتا ہے، مجھے اس کا بھی علم نہیں لیکن سالن اتنا کہ پوری ہانڈی کھاجائے۔ تب سے ڈبل ہانڈیاں پکنا شروع ہوگئیں۔ باروچی کا کام دو گنا ہوگیا اور یہ سارا کام اسے ہی کرنا پڑا کیونکہ ڈرائیور بازارکی خوراک کھانے پر راضی نہیں تھا۔ آخر ایک روز وہ چیختا ہوا باہر نکل آیا ''اتنی گرمی میں کیا میں بس اسی کی نوکری کرنے کو رہ گیا ہوں؟ گھر میں ہر وقت اسی کی روٹیاں پکتی رہتی ہیں۔ اسی کی ہانڈیاں پکتی رہتی ہیں۔'' تب میں نے ڈرائیور کو الگ سے بلایا اور سمجھایا کہ بزرگ کہتے ہیں۔۔۔۔روٹی کم پڑ جائے تو میزبان کا قصور ہوتا ہے اور اگر سالن کم پڑجائے تو مہمان یعنی کھانے والے کا قصور ہے۔ تم اپنی خوراک میں کچھ توازن کیوں نہیں قائم کرلیتے؟
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ایک طویل سانس لے کر بولا۔
مسئلہ پیش ہے جو عشق ہے کشمیر نہیں
حل نکل آئے گا ہم بیٹھ کے جب بھی سوچیں
میں چونک گیا۔ پوچھا ''یہ کس کا شعر ہے؟''
بولا ''ناصرہ زبیری کا''۔
میں نے پوچھا ''کوئی اور شعر بھی آتا ہے؟''
بولا ''ہاں ۔۔۔۔
چلاؤں تیر میں کیسے کمان کیا کھینچوں
کہ ہو گیا ہے صف دشمناں میں شامل تو
میں نے پوچھا ''یہ کس کا ہے؟''
بولا ''یہ بھی ناصرہ زبیری کا ہے''۔
میں نے کہا ''یہ تو سنا سنا سا لگتا ہے۔ میرا خیال ہے فرازؔ کا ہے''۔
بولا ''نہیں وہ دوسرا ہے''۔
دشمنوں کا تو کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے میرا دوست کماں کھینچتا ہے
میں اٹھا اور اٹھ کے چپکے سے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
اسی روز اس نے باورچی کو خصوصی مذاکرات کے لیے باہر لان کے ایک کونے میں بلایا، اسے ایک گھوری ڈالی اور انگلی اٹھاکے بولا ''دیکھو! گندم، صاحب کی زمینوں سے آتی ہے اور پسوا کے میں لاتا ہوں۔ جب صاحب کو اعتراض نہیں ہے تو روٹیاں ذرا اور موٹی کرتے ہوئے تمہیں کیوں تکلیف ہوتی ہے؟''
بس اسی شام سے باورچی کا دل ٹوٹ گیا۔ مجھ سے تو اس نے بات نہیں کی لیکن سسکیاں بھرتا ہوا بیگم صاحبہ سے بولا ''باجی! اس سے تو اچھا ہے میں کسی تنور پر روٹیاں لگاتا ہوا جل کے مرجاؤں۔ بس اب جب تک یہ بندہ آپ کے پاس موجود ہے، میں نہیں رہ سکتا''۔ اور پھر وہ واقعی چلا گیا۔
میں نے کہا تھا ناں کہ یہ ایک معمولی سا معاملہ ہے۔ بس اتنی ہی بات ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنا چنداں مشکل نہیں۔ چالیس پچاس روٹیوں کا کیا ہے، وہ میں پکا لیا کروں گا۔ تارے تو میں یوں ہی شوقیہ گن رہا ہوں، اور اب تو تقریباً گن ہی چکا ہوں۔ لیکن ایک بدبخت بھورے رنگ کا بادل کا ٹکڑا بیچ میں آگیا ہے۔ بدبخت، ڈھیٹ، خبیث ہٹنے کی بجائے پھیلتا جارہا ہے۔ اس نے میری ساری گنتی خراب کردی ہے۔