تبدیلی کا مطلب کیا
تبدیلی کا پرچم اٹھا کر چلنے والے اس حقیقی تبدیلی کی طرف بھولے سے بھی نہیں دیکھتے جسے دنیا دیکھ رہی ہے۔
اان دنوں ہمارے یہاں بہت سے ایسے نووارد سیاست کے اکھاڑے میں اُترے ہیں جو ہر آن تبدیلی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں اگر کسی گول چہرے کی جگہ لمبوترا چہرہ لے تو یہ تبدیلی ہے اور اگر بردبار یا پختہ کار اور تجربہ کار افراد کی بجائے 25 برس سے بڑی عمر کے نوجوان سیاست کے افق پر نمودار ہوں تو یہ ایک عظیم الشان تبدیلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جیسے وضع دار اور خوش گفتار سیاست دان جو بیسویں صدی پر محیط انقلابی شاعری سے لوگوں کا دل گرماتے تھے، ان کی جگہ لمبے بالوں اور تنگ پتلونوں والے گلے میں گٹار لٹکائے مغربی دھنوں پر گاتے بجاتے ہوں اور سیاسی اسٹیج پر رقص کر رہے ہوں تو یہ تبدیلی ہے۔
کسی دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر دشنام طرازی کی جائے اور ثقہ لوگوں کی توہین کی جائے تو یہ تبدیلی کا ایک سنگ میل ہے کیونکہ اس سے پہلے والوں کو بے محابا گالیاں دینی نہیں آتی تھیں۔ ایسی ہی متعدد باتیں ہیں جنھیں یہ ''تعلیم یافتہ'' اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں۔ ان کی اعلیٰ ڈگریوں کو دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی کی ڈگری جعلی نہیں اور ان میں سے بیشتر ایک مطمئن اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے ان دنوں ٹیلی وژن چینلوں پر دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بزرگوں کا زمانہ گزر گیا، وہ اصلی تبدیلی کے اہل ہی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ان کی ہو جو اس ایوان میں نئے چہروں کی حیثیت رکھتے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے چہرے ہی اس بات کے اہل ہوں گے کہ وہ ملک کے نظم و نسق کو یکسر تبدیل کر دیں اور ایک نیا پاکستان طلوع ہو گا۔ ایک ایسا پاکستان جہاں تعلیم کا مساوی نظام ہر بچے اور نوجوان کا منتظر ہو۔ جہاں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب طبقاتی نہ ہو اور کسی دور دراز دیہات میں بیٹھا ہوا بچہ بھی وہی کتابیں پڑھ رہا ہو جو لاہور ایچی سن اور کراچی گرامر میں پڑھائی جاتی ہیں۔
اسی طرح کی باتیں کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے خواہاں افراد یہ نہیں بتاتے کہ وہ بچی یا بچہ جس نے ابھی انگریزی کے نام پر اے بی سی ڈی نہیں پڑھی وہ برطانیہ یا امریکا سے چھپی ہوئی دل کش کتابوں کو حسرت کی نظر سے دیکھنے کے سوا اور کیا کر سکے گا۔ ان کا نعرہ 'تبدیلی' ہے لیکن یہ تبدیلی کس طرح رونما ہو گی، اسے بتانے سے وہ قاصر ہیں۔ وہ اس تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اس دعوے کے باوجود وہ کئی مذہبی جماعتوں سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جو لوگ تبدیلی کا ورد صبح و شام کرتے ہیں وہ اس بارے میں کچھ کہنے سے دامن بچاتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی کا عمل مسلسل جاری ہے اور یہ اسی تبدیلی کا سلسلہ ہے جس نے انھیں اس قابل بنایا کہ وہ جنھیں کونسل اور ضلع کی سطح پر آج کوئی نہیں جانتا، وہی لوگ ہندوستان سے امریکا تک سب ہی کے دانت کھٹے کر دینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کوئی ان بلند بانگ دعوؤں پر ''دندان شکن'' ہونے کی حرکت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ایک ایسا متحرک میڈیا موجود ہے جو پل پل کی خبر رکھتا ہے۔ ایک ایسی عدلیہ بیٹھی ہے جو معاملات پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور 'سوموٹو' لینے سے نہیں چوکتی۔
یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ پانچ برس کے دوران جاری مسلسل جمہوری عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ جمہوریت واپس لانے اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے میں ان گنت سیاسی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد شامل ہے۔ جنھیں آج تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تبدیلی کا پرچم اٹھا کر چلنے والے اس حقیقی تبدیلی کی طرف بھولے سے بھی نہیں دیکھتے جسے دنیا دیکھ رہی ہے۔ انھیں یہ تسلیم کرنے سے ڈر لگتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر گزشتہ پانچ برسوں کے درمیان پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ وہ اختیارات جنھیں وفاقی حکومت اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ ان میں سے بہت سے معاملات وفاق کے دائرہ اختیار سے نکل کر صوبوں کے پاس آ چکے ہیں۔ وہ ملک جہاں اختیارات کو وفاقی حکومت کے ہاتھوں میں مرتکزر کھنے کا اتنا شوق تھا کہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے ون یونٹ بنا دیا جاتا تھا اور مطلق العنان بادشاہوں کی طرح مغربی حصے پر حکومت کی جاتی تھی۔ رہ گیا مشرقی پاکستان جس کے ووٹوں کے بغیر ملک وجود میں نہیں آ سکتا تھا اسے تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا اور اس پر نوآبادیاتی آقاؤں کی طرح حکمرانی کی جاتی تھی۔
وہ پارلیمنٹ جو چند دنوں پہلے رخصت ہوئی ہے اس سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن اس نے متعدد اچھے کام بھی کیے ہیں۔ یہ اسی کی کار گزاری ہے کہ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم پر کام ہوا اور پھر وہ متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔ یہ درست ہے کہ ان ترامیم کو مرتب کرتے ہوئے ضیاء الحق کے بوئے ہوئے کئی زہریلے کانٹے نہیں نکالے گئے لیکن یہ رِیت تو پڑی کہ معاملات کو بہتر کیا گیا۔ 61 اور 62 جیسی شقوں پر وہ شور مچا کہ اگلی پارلیمنٹ خود ہی ان سے نمٹ لے گی۔ کیا اسے جمہوری حکومت کی طرف سے تبدیلی کا ایک شاندار مظہر نہ تسلیم کیا جائے کہ ان 5 برسوں میں کوئی شخص سیاسی بنیادوں پر جیل نہیں بھیجا گیا اور نہ اخباروں یا ٹیلی وژن چینلوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ میڈیا کو برا بھلا کہنے اور صحافیوں پر جانبداری کا بہتان باندھنے والے اس تبدیلی کو نہیں دیکھتے کہ ان کی تہمتوں کے باوجود انھیں ٹیلی وژن پروگراموں میں بلایا جاتا ہے، ان کے چہروں سے عوام کو آشنا کرایا جاتا ہے اور انھیں بھی اپنا نقطہ نظر زور وشور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت پرنٹ میڈیا کی ہے کہ اس نے اپنے صفحے ان کے لیے رطب اللسان کالم نگاروں کے لیے بند نہیں کیے۔
تبدیلی کا نشان بننے والے کبھی اس حقیقی تبدیلی کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے جس سے پاکستان گزشتہ 6 اور 7 برس سے دو چار ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی دیگر جرنیلوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر کے قابل احترام چیف جسٹس نے ملک کی تاریخ بدل دی تھی۔
ان کی اس جرات رندانہ نے لوگوں کے اندر انکار کا وہ شعلہ روشن کیا تھا جس نے آمریت کو خاکستر کر دیا۔ یہی وہ تبدیلی تھی جس نے پاکستان کی عدلیہ کے چہرے پر لگے سیاہ دھبے دھو دیے۔ آج اس کا چہرہ پوری دنیا میں آفتابِ عالم تاب کی طرح جگمگاتا ہے اور امریکا، انگلستان اور یورپ کی عدلیہ چیف صاحب کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتی ہے اور انھیں ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے۔ اس سال، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہو جائیں گے، ان کی جگہ کوئی اور آ جائے گا لیکن چہرے کی اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اصل اہمیت پاکستانی عدلیہ کی ماہیتِ قلبِ کی ہے۔
حقیقی تبدیلی یہ ہے کہ آئندہ کوئی بھی طالع آزما اگر ملکی آئین کو روندے اور پارلیمنٹ کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے اسے ٹینکوں کو طلب کرنا پڑے گا۔ آج تک جب بھی کسی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تو کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی، لیکن اس مرتبہ کسی نے یہ مہم جوئی کی تو سڑکوں پر لاشیں بچھانی پڑیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہو گی کہ عدلیہ اعلان کر چکی ہے کہ نظریہ ضرورت اپنی طبعی موت مر چکا، اس کا لاشہ دفن کیا جا چکا اور اب کسی فوجی بغاوت کے پلڑے میں عدلیہ اپنا وزن نہیں ڈالے گی۔
تبدیلی کا سنکھ پھونکنے والے اس تبدیلی کا ذکر نہیں کرتے کہ اپنی نااہلیوں اور خرابیوں کے باوجود ایک منتخب پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور اب انتخابات سر پر کھڑے ہیں جس کے بعد گزشتہ پارلیمنٹ، آنے والی پارلیمنٹ کو حق حکومت تفویض کرے گی اور پاکستان کی تاریخ میں ایک ناقابل یقین شاندار تبدیلی عمل میں آئے گی۔ پاکستان میں تبدیلی لانے کے دعویداروں کو یہ ناقابل یقین واقعے کیوں نظر نہیں آتا کہ ایک سابق فوجی آمر پس دیوار زندان ہے یہ سوچتا ہے کہ یہ کون سا پاکستان ہے جس میں وہ واپس آیا ہے۔
پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس سے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم ہو گی اور طاقت کا حقیقی مرکز پارلیمنٹ ہو گی۔ جو اس عمل کی حمایت کرے گا وہ تبدیلی کا حقیقی علم بردار ہو گا۔ اب پاکستان میں جعلی تبدیلیوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ محض چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی۔
کسی دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں بڑھ چڑھ کر دشنام طرازی کی جائے اور ثقہ لوگوں کی توہین کی جائے تو یہ تبدیلی کا ایک سنگ میل ہے کیونکہ اس سے پہلے والوں کو بے محابا گالیاں دینی نہیں آتی تھیں۔ ایسی ہی متعدد باتیں ہیں جنھیں یہ ''تعلیم یافتہ'' اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد تبدیلی کا نشان سمجھتے ہیں۔ ان کی اعلیٰ ڈگریوں کو دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی کی ڈگری جعلی نہیں اور ان میں سے بیشتر ایک مطمئن اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے ان دنوں ٹیلی وژن چینلوں پر دکھائی اور سنائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بزرگوں کا زمانہ گزر گیا، وہ اصلی تبدیلی کے اہل ہی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ان کی ہو جو اس ایوان میں نئے چہروں کی حیثیت رکھتے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے چہرے ہی اس بات کے اہل ہوں گے کہ وہ ملک کے نظم و نسق کو یکسر تبدیل کر دیں اور ایک نیا پاکستان طلوع ہو گا۔ ایک ایسا پاکستان جہاں تعلیم کا مساوی نظام ہر بچے اور نوجوان کا منتظر ہو۔ جہاں تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب طبقاتی نہ ہو اور کسی دور دراز دیہات میں بیٹھا ہوا بچہ بھی وہی کتابیں پڑھ رہا ہو جو لاہور ایچی سن اور کراچی گرامر میں پڑھائی جاتی ہیں۔
اسی طرح کی باتیں کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نظام میں تبدیلی کے خواہاں افراد یہ نہیں بتاتے کہ وہ بچی یا بچہ جس نے ابھی انگریزی کے نام پر اے بی سی ڈی نہیں پڑھی وہ برطانیہ یا امریکا سے چھپی ہوئی دل کش کتابوں کو حسرت کی نظر سے دیکھنے کے سوا اور کیا کر سکے گا۔ ان کا نعرہ 'تبدیلی' ہے لیکن یہ تبدیلی کس طرح رونما ہو گی، اسے بتانے سے وہ قاصر ہیں۔ وہ اس تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں کہ عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اس دعوے کے باوجود وہ کئی مذہبی جماعتوں سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جو لوگ تبدیلی کا ورد صبح و شام کرتے ہیں وہ اس بارے میں کچھ کہنے سے دامن بچاتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی کا عمل مسلسل جاری ہے اور یہ اسی تبدیلی کا سلسلہ ہے جس نے انھیں اس قابل بنایا کہ وہ جنھیں کونسل اور ضلع کی سطح پر آج کوئی نہیں جانتا، وہی لوگ ہندوستان سے امریکا تک سب ہی کے دانت کھٹے کر دینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کوئی ان بلند بانگ دعوؤں پر ''دندان شکن'' ہونے کی حرکت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ایک ایسا متحرک میڈیا موجود ہے جو پل پل کی خبر رکھتا ہے۔ ایک ایسی عدلیہ بیٹھی ہے جو معاملات پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور 'سوموٹو' لینے سے نہیں چوکتی۔
یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ پانچ برس کے دوران جاری مسلسل جمہوری عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ جمہوریت واپس لانے اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے میں ان گنت سیاسی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد شامل ہے۔ جنھیں آج تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تبدیلی کا پرچم اٹھا کر چلنے والے اس حقیقی تبدیلی کی طرف بھولے سے بھی نہیں دیکھتے جسے دنیا دیکھ رہی ہے۔ انھیں یہ تسلیم کرنے سے ڈر لگتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر گزشتہ پانچ برسوں کے درمیان پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ وہ اختیارات جنھیں وفاقی حکومت اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ ان میں سے بہت سے معاملات وفاق کے دائرہ اختیار سے نکل کر صوبوں کے پاس آ چکے ہیں۔ وہ ملک جہاں اختیارات کو وفاقی حکومت کے ہاتھوں میں مرتکزر کھنے کا اتنا شوق تھا کہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے ون یونٹ بنا دیا جاتا تھا اور مطلق العنان بادشاہوں کی طرح مغربی حصے پر حکومت کی جاتی تھی۔ رہ گیا مشرقی پاکستان جس کے ووٹوں کے بغیر ملک وجود میں نہیں آ سکتا تھا اسے تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا اور اس پر نوآبادیاتی آقاؤں کی طرح حکمرانی کی جاتی تھی۔
وہ پارلیمنٹ جو چند دنوں پہلے رخصت ہوئی ہے اس سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن اس نے متعدد اچھے کام بھی کیے ہیں۔ یہ اسی کی کار گزاری ہے کہ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم پر کام ہوا اور پھر وہ متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔ یہ درست ہے کہ ان ترامیم کو مرتب کرتے ہوئے ضیاء الحق کے بوئے ہوئے کئی زہریلے کانٹے نہیں نکالے گئے لیکن یہ رِیت تو پڑی کہ معاملات کو بہتر کیا گیا۔ 61 اور 62 جیسی شقوں پر وہ شور مچا کہ اگلی پارلیمنٹ خود ہی ان سے نمٹ لے گی۔ کیا اسے جمہوری حکومت کی طرف سے تبدیلی کا ایک شاندار مظہر نہ تسلیم کیا جائے کہ ان 5 برسوں میں کوئی شخص سیاسی بنیادوں پر جیل نہیں بھیجا گیا اور نہ اخباروں یا ٹیلی وژن چینلوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ میڈیا کو برا بھلا کہنے اور صحافیوں پر جانبداری کا بہتان باندھنے والے اس تبدیلی کو نہیں دیکھتے کہ ان کی تہمتوں کے باوجود انھیں ٹیلی وژن پروگراموں میں بلایا جاتا ہے، ان کے چہروں سے عوام کو آشنا کرایا جاتا ہے اور انھیں بھی اپنا نقطہ نظر زور وشور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت پرنٹ میڈیا کی ہے کہ اس نے اپنے صفحے ان کے لیے رطب اللسان کالم نگاروں کے لیے بند نہیں کیے۔
تبدیلی کا نشان بننے والے کبھی اس حقیقی تبدیلی کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے جس سے پاکستان گزشتہ 6 اور 7 برس سے دو چار ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی دیگر جرنیلوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر کے قابل احترام چیف جسٹس نے ملک کی تاریخ بدل دی تھی۔
ان کی اس جرات رندانہ نے لوگوں کے اندر انکار کا وہ شعلہ روشن کیا تھا جس نے آمریت کو خاکستر کر دیا۔ یہی وہ تبدیلی تھی جس نے پاکستان کی عدلیہ کے چہرے پر لگے سیاہ دھبے دھو دیے۔ آج اس کا چہرہ پوری دنیا میں آفتابِ عالم تاب کی طرح جگمگاتا ہے اور امریکا، انگلستان اور یورپ کی عدلیہ چیف صاحب کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتی ہے اور انھیں ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے۔ اس سال، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہو جائیں گے، ان کی جگہ کوئی اور آ جائے گا لیکن چہرے کی اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اصل اہمیت پاکستانی عدلیہ کی ماہیتِ قلبِ کی ہے۔
حقیقی تبدیلی یہ ہے کہ آئندہ کوئی بھی طالع آزما اگر ملکی آئین کو روندے اور پارلیمنٹ کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے اسے ٹینکوں کو طلب کرنا پڑے گا۔ آج تک جب بھی کسی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹا گیا تو کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی، لیکن اس مرتبہ کسی نے یہ مہم جوئی کی تو سڑکوں پر لاشیں بچھانی پڑیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہو گی کہ عدلیہ اعلان کر چکی ہے کہ نظریہ ضرورت اپنی طبعی موت مر چکا، اس کا لاشہ دفن کیا جا چکا اور اب کسی فوجی بغاوت کے پلڑے میں عدلیہ اپنا وزن نہیں ڈالے گی۔
تبدیلی کا سنکھ پھونکنے والے اس تبدیلی کا ذکر نہیں کرتے کہ اپنی نااہلیوں اور خرابیوں کے باوجود ایک منتخب پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی اور اب انتخابات سر پر کھڑے ہیں جس کے بعد گزشتہ پارلیمنٹ، آنے والی پارلیمنٹ کو حق حکومت تفویض کرے گی اور پاکستان کی تاریخ میں ایک ناقابل یقین شاندار تبدیلی عمل میں آئے گی۔ پاکستان میں تبدیلی لانے کے دعویداروں کو یہ ناقابل یقین واقعے کیوں نظر نہیں آتا کہ ایک سابق فوجی آمر پس دیوار زندان ہے یہ سوچتا ہے کہ یہ کون سا پاکستان ہے جس میں وہ واپس آیا ہے۔
پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس سے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم ہو گی اور طاقت کا حقیقی مرکز پارلیمنٹ ہو گی۔ جو اس عمل کی حمایت کرے گا وہ تبدیلی کا حقیقی علم بردار ہو گا۔ اب پاکستان میں جعلی تبدیلیوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ محض چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی۔