پل
یہ پُل پانچ ہزارستونوں پراستوارکیا گیا ہے،اس کی تعمیرپر ایک تخمینے کے مطابق تقریباََ ایک ارب امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔
ہم تم بھی یہیں ہوں گے یہ پل بھی یہیں ہو گا
اس وقت جو دریا ہے کل صبح نہیں ہو گا
وقت کی روانی، کناروں کی دُوری، طبیعتوں کے اختلاف اور نظریات کے فرق کو دُور کرنے یا انھیں آپس میں ملانے کے لیے، کسی نہ کسی پل کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ لوہے اور سیمنٹ کا روایتی پل ہو یا مکالمہ اور افہام و تفہیم کا صد رنگ پل کہ زندگی کے سفر اور فروغ کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کا ایک اشلوک ہے کہ
ایک نے کہی، دوسرے نے مانی
نانکؔ کہے دونوں گیانی
سو یہ جو ہمارے چاروں طرف اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر ہر وقت اپنی کہنے اور اپنی منوانے کا ہنگامہ چھایا رہتا ہے اور کوئی دوسرے کی بات تحمل سے سننے یا سمجھنے پر تیار بھی نہیں ہوتا یعنی لوگ اپنے اپنے کناروں پر تو پائوں جما کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف والوں سے مکالمہ نہیں ہو پاتا یا بالفاظِ دیگر جب تک پل نہ تعمیر کیے جائیں دریائوں کے کنارے ایک مخصوص فاصلے کے ساتھ متوازی چلتے ہوئے سمندر کا رزق تو بن جاتے ہیں مگر ایک دوسرے سے آشنا نہیں ہو پاتے۔ محشر بدایونی کا ایک شعر ہے
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار، میرے
سو دیکھنے اور سوچنے والی بات یہی ہے کہ دریا کے دوسرے کنارے پر بھی ہم جیسے لوگ ہی آباد ہیں۔ کچھ ہماری طرح سے ہی دنیا کو دیکھتے ہیں اور کچھ بوجوہ ایسا نہیں کر پاتے لیکن اگر ان سے مکالمہ کیا جائے ان کی بات سمجھی اور اپنی بات انھیں سمجھائی جائے تو یہ فاصلے ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں عام طور پر پل ندی نالوں اور کم چوڑائی والے دریائوں پر تعمیر کیے جاتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ انجینئرنگ کی مہارت اور ٹیکنالوجی کے استعما ل سے انسان سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج جیسے پل بھی تعمیر کرنے کے قابل ہو گیا اور اس کے بعد سے اب تک اس ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی ہوئی ہے۔ کہ ''خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیئے'' جیسی صورت حال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں چین نے سمندر پر اب تک کا طویل ترین پل تعمیر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جو سابقہ طویل ترین پل سے تقریبا تین میل لمبا ہے اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔
چند برس قبل جب انگلستان کی بندرگاہ ڈوور اور فرانس کے ساحلی شہر کیلے کے درمیان زیر آب سرنگ تعمیر کی گئی جس میں آپ ریل کے ذریعے تقریبا 21 میل کا سفر کر سکتے ہیں تو پوری دنیا میں دھوم مچ گئی۔ میں اس سے پہلے دو بار فیری اور ہُوور(Hover) کرافٹ کے ذریعے یہ سفر کر چکا تھا لیکن سمندر کے نا قابل شمار پانی اور اس کے دبائو میں ایک سرنگ نما گزر گاہ کو ٹرین کے ذریعے عبور کرنا یقیناً ایک ہوش رُبا تجربہ تھا ۔گزشتہ چند برسوں میں خشکی کے دو ٹکڑوں کے درمیان حائل سمندر ی پٹی پر بالائے آب پل یعنی Causeway بنانے کے کچھ کامیاب تجربے کیے گئے ہیں۔
بحرین سے دمام (سعودی عرب) کے درمیان ایسے ہی ایک Causeway پر مجھے سفر کرنے کا تجربہ بھی ہوا ہے جو اپنی تعمیر کے وقت شائد دنیا کا طویل ترین سمندری پُل یا راستہ تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ چین کے اس نو تعمیر کر دہ پُل سے پہلے یہ ریکارڈ Lake Pontchartrain Causeway, Louisiana کے پاس تھا لیکن چینی انجینئرز نے اپنے دو شہروں کنگ ڈائو (جو ایک مشرقی ساحلی شہر ہے) اور ہانگ ڈائو کے درمیان ایک سو دس فٹ چوڑا اور 26.4 میل لمبا پُل تعمیر کر کے ساری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
یہ پُل پانچ ہزار ستونوں پر استوار کیا گیا ہے، اس کی تعمیر پر ایک تخمینے کے مطابق تقریباََ ایک ارب امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اسے چار سال میں مکمل کیا گیا ہے۔ اپنی طوالت کے اعتبار سے یہ دریائے ٹیمز پر تعمیر کردہ ٹاور آف لندن برج سے 174 گنا بڑا ہے۔ انجینئرز کے دو علیحدہ علیحدہ گروپس نے اسے اپنے اپنے کناروں سے 2006ء میں تعمیر کرنا شروع کیا تھا لیکن یہ اس قدر غیر معمولی احتیاط کا طالب کام تھا کہ صرف چند سینٹی میٹرز کے فرق سے سارا پراجیکٹ برباد اور ناکام ہو سکتا تھا۔ اس حوالے سے اس وقت ایک بہت پر لطف واقعہ نما لطیفہ یا لطیفہ نما واقعہ یا د آ رہا ہے۔ سو چینی پل کی بات کو کچھ دیر کے لیے روکتے ہیں اور اس لطف میں آپ کو شامل کرتے ہیں۔
''راویان خوش بیان نے اپنی عادت کے مطابق اس واقعے کے لیے بھی دو سکھ بھائیوں کو ہی بطور کر دار منتخب کیا ہے حالانکہ میرا ذاتی تجربہ (اور اس میں بے شمار لوگ بھی میرے ہم خیال ہیں) یہ ہے کہ سکھ قوم ایک بڑی زندہ دل، لائق اور کھلے دل و دماغ والی قوم ہے اور یہ دنیا میں جہاں جہاں بھی آباد ہے اس نے نہ صرف اپنے تشخص، زبان اور تہذیب کو قائم رکھا ہے بلکہ علم و عمل کے ہر میدان میں بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے مقابلے کا کام کیا ہے لہذا اس واقعے میں سردار صاحبان کے کرداروں کو اگر فرضی سمجھا جائے تو بھی کچھ غلط نہ ہو گا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جب انگلش چینل یعنی رَودبارِ انگلستان میں برطانیہ سے فرانس تک زیر آب سرنگ کا منصوبہ بنا تو دنیا کی بڑی بڑی تعمیرانی کمپنیوں سے اس کے لیے ٹینڈر طلب کیے گئے جب ان Bids کی اسکروٹنی کی گئی تو معلوم ہوا کہ دو سردار بھائیوں کی ایک فرم نے بقیہ تمام کمپنیوں کے مقابلے میں خاصی کم لاگت پر اس کام کی حامی بھری ہے۔
ٹھیکے سے متعلق جتنی شرائط تھیں ان پر بھی وہ پورا اُتر رہے تھے۔ سو متعلقہ تمام لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا جائے! آخری فیصلہ یہی ہوا کہ دونوں بھائیوں کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے۔ انٹرویو بورڈ نے ان سے جتنے بھی سوالات کیے ان کے جواب تسلی بخش تھے۔ تنگ آ کر بورڈ کے چیئرمین نے بڑے بھائی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کا تجربہ، سابقہ ریکارڈ اور کام کرنے کی صلاحیت یقیناً تسلی بخش ہے لیکن یہ منصوبہ اپنے انداز کا ایک انوکھا اور بہت ہی بڑا منصوبہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔
آپ نے کہا ہے کہ آپ برطانیہ کی طرف سے اور آ پ کا بھائی فرانس کی طرف سے سرنگ کی تعمیر کا کام شروع کرے گا لیکن کیا آپ کو اندازہ ہے کہ چند سینٹی میٹر کے فرق سے یہ فاصلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ یہ سرنگیں آپس میں ملنے کے بجائے ایک دوسرے کے متوازی چلنا شروع کر دیں گی، اس پر بڑے سردار صاحب نے مسکرا کر کہا'' تو اس میں بھی فائدہ آپ ہی کو ہو گا کہ ایک سرنگ کے خرچے میں دو سرنگیں مل جائیں گی''
بتا یا گیا ہے کہ 2016ء تک چین ایک اس سے بھی لمبا سمندری پل مکمل کر لے گا یعنی اس ریکارڈ کی باقی کل عمر بھی تین چار برس سے زیادہ نہیں ہے۔ اب یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا (اور کبھی رُکے گا بھی یا نہیں) یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سارے عمل سے جو اصل سیکھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان میں ہمت، ارادہ اور استعداد کی خصوصیات ہوں تو وہ سمندروں کی بے کرانی کو بھی اپنے قابو میں لا سکتا ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میڈیا کی آزادی کے جہاں مُضر اور منفی اثرات اور نتائج ہیں وہاں اس کے مثبت اثرات تعداد اور مقدار میں بھی کہیں زیادہ ہیں یعنی ہمارے ٹاک شوز میں مکالمے کے نام پر جو شور و غوغا اور طوفانِ بد تمیزی ہوتا ہے اگر اسے اس کی اصل یعنی مکالمے، بات چیت، افہام و تفہیم اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے دائرے میں لے آیا جائے تو یہی زحمت، رحمت بھی بن سکتی ہے، مسئلہ صرف دو کناروں کے درمیان پُل تعمیر کرنے کا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے عام طور پر Rating، اشتہارات اور سستی شہرت کے چکر میں پڑ کر اپنے اصل منصب اور فرض کو بھلا دیا ہے، بلاشبہ انھیں اپنے ہاتھیوں یعنی چینلز کو پالنے، چلانے اور کمانے کے لیے ''بزنس'' کی ضرورت ہے اور اسے حاصل کرنا ان کی ضروت بھی ہے اور مقصد بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ کون اس''مقصد'' کو کس ''قیمت'' پر حاصل کر رہا ہے۔ میں اپنے تجربے کی بناء پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ''اخلاقیات'' اور ''جمالیات'' کی پاسداری سے کبھی کوئی جائز بزنس کم نہیں ہوتا۔
ہماری قوم اس وقت مسائل اور وسائل کے دو مختلف کناروں میں واقع دُوری کے آشوب میں گھری ہوئی ہے، ان کے درمیان پل یا تو موجود نہیں یا ان میں بے شمار کھڈے پڑے ہوئے ہیں۔ آیئے ان پُلوں کی مرمّت اور تعمیر کریں یقین کیجیے جس دن ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے وہی دن اصل میں اس نئے پاکستان کے قیام کا دن ہو گا جو ایک پُل کے ذریعے قائد کے پاکستان اور اس سے وابستہ تصّورات سے جڑا ہوا ہے یعنی جب لمحہ موجود پل کی شکل میں استوار ہو تو ماضی کے خواب اور مستقبل کی تعبیریں ایک ہی ڈالی کے پھول بن جاتے ہیں۔
اس وقت جو دریا ہے کل صبح نہیں ہو گا
وقت کی روانی، کناروں کی دُوری، طبیعتوں کے اختلاف اور نظریات کے فرق کو دُور کرنے یا انھیں آپس میں ملانے کے لیے، کسی نہ کسی پل کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ لوہے اور سیمنٹ کا روایتی پل ہو یا مکالمہ اور افہام و تفہیم کا صد رنگ پل کہ زندگی کے سفر اور فروغ کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک کا ایک اشلوک ہے کہ
ایک نے کہی، دوسرے نے مانی
نانکؔ کہے دونوں گیانی
سو یہ جو ہمارے چاروں طرف اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر ہر وقت اپنی کہنے اور اپنی منوانے کا ہنگامہ چھایا رہتا ہے اور کوئی دوسرے کی بات تحمل سے سننے یا سمجھنے پر تیار بھی نہیں ہوتا یعنی لوگ اپنے اپنے کناروں پر تو پائوں جما کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف والوں سے مکالمہ نہیں ہو پاتا یا بالفاظِ دیگر جب تک پل نہ تعمیر کیے جائیں دریائوں کے کنارے ایک مخصوص فاصلے کے ساتھ متوازی چلتے ہوئے سمندر کا رزق تو بن جاتے ہیں مگر ایک دوسرے سے آشنا نہیں ہو پاتے۔ محشر بدایونی کا ایک شعر ہے
کرے دریا نہ پل مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اُس پار، میرے
سو دیکھنے اور سوچنے والی بات یہی ہے کہ دریا کے دوسرے کنارے پر بھی ہم جیسے لوگ ہی آباد ہیں۔ کچھ ہماری طرح سے ہی دنیا کو دیکھتے ہیں اور کچھ بوجوہ ایسا نہیں کر پاتے لیکن اگر ان سے مکالمہ کیا جائے ان کی بات سمجھی اور اپنی بات انھیں سمجھائی جائے تو یہ فاصلے ختم بھی ہو سکتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں عام طور پر پل ندی نالوں اور کم چوڑائی والے دریائوں پر تعمیر کیے جاتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ انجینئرنگ کی مہارت اور ٹیکنالوجی کے استعما ل سے انسان سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج جیسے پل بھی تعمیر کرنے کے قابل ہو گیا اور اس کے بعد سے اب تک اس ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی ہوئی ہے۔ کہ ''خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیئے'' جیسی صورت حال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں چین نے سمندر پر اب تک کا طویل ترین پل تعمیر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جو سابقہ طویل ترین پل سے تقریبا تین میل لمبا ہے اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔
چند برس قبل جب انگلستان کی بندرگاہ ڈوور اور فرانس کے ساحلی شہر کیلے کے درمیان زیر آب سرنگ تعمیر کی گئی جس میں آپ ریل کے ذریعے تقریبا 21 میل کا سفر کر سکتے ہیں تو پوری دنیا میں دھوم مچ گئی۔ میں اس سے پہلے دو بار فیری اور ہُوور(Hover) کرافٹ کے ذریعے یہ سفر کر چکا تھا لیکن سمندر کے نا قابل شمار پانی اور اس کے دبائو میں ایک سرنگ نما گزر گاہ کو ٹرین کے ذریعے عبور کرنا یقیناً ایک ہوش رُبا تجربہ تھا ۔گزشتہ چند برسوں میں خشکی کے دو ٹکڑوں کے درمیان حائل سمندر ی پٹی پر بالائے آب پل یعنی Causeway بنانے کے کچھ کامیاب تجربے کیے گئے ہیں۔
بحرین سے دمام (سعودی عرب) کے درمیان ایسے ہی ایک Causeway پر مجھے سفر کرنے کا تجربہ بھی ہوا ہے جو اپنی تعمیر کے وقت شائد دنیا کا طویل ترین سمندری پُل یا راستہ تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ چین کے اس نو تعمیر کر دہ پُل سے پہلے یہ ریکارڈ Lake Pontchartrain Causeway, Louisiana کے پاس تھا لیکن چینی انجینئرز نے اپنے دو شہروں کنگ ڈائو (جو ایک مشرقی ساحلی شہر ہے) اور ہانگ ڈائو کے درمیان ایک سو دس فٹ چوڑا اور 26.4 میل لمبا پُل تعمیر کر کے ساری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔
یہ پُل پانچ ہزار ستونوں پر استوار کیا گیا ہے، اس کی تعمیر پر ایک تخمینے کے مطابق تقریباََ ایک ارب امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور اسے چار سال میں مکمل کیا گیا ہے۔ اپنی طوالت کے اعتبار سے یہ دریائے ٹیمز پر تعمیر کردہ ٹاور آف لندن برج سے 174 گنا بڑا ہے۔ انجینئرز کے دو علیحدہ علیحدہ گروپس نے اسے اپنے اپنے کناروں سے 2006ء میں تعمیر کرنا شروع کیا تھا لیکن یہ اس قدر غیر معمولی احتیاط کا طالب کام تھا کہ صرف چند سینٹی میٹرز کے فرق سے سارا پراجیکٹ برباد اور ناکام ہو سکتا تھا۔ اس حوالے سے اس وقت ایک بہت پر لطف واقعہ نما لطیفہ یا لطیفہ نما واقعہ یا د آ رہا ہے۔ سو چینی پل کی بات کو کچھ دیر کے لیے روکتے ہیں اور اس لطف میں آپ کو شامل کرتے ہیں۔
''راویان خوش بیان نے اپنی عادت کے مطابق اس واقعے کے لیے بھی دو سکھ بھائیوں کو ہی بطور کر دار منتخب کیا ہے حالانکہ میرا ذاتی تجربہ (اور اس میں بے شمار لوگ بھی میرے ہم خیال ہیں) یہ ہے کہ سکھ قوم ایک بڑی زندہ دل، لائق اور کھلے دل و دماغ والی قوم ہے اور یہ دنیا میں جہاں جہاں بھی آباد ہے اس نے نہ صرف اپنے تشخص، زبان اور تہذیب کو قائم رکھا ہے بلکہ علم و عمل کے ہر میدان میں بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے مقابلے کا کام کیا ہے لہذا اس واقعے میں سردار صاحبان کے کرداروں کو اگر فرضی سمجھا جائے تو بھی کچھ غلط نہ ہو گا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ جب انگلش چینل یعنی رَودبارِ انگلستان میں برطانیہ سے فرانس تک زیر آب سرنگ کا منصوبہ بنا تو دنیا کی بڑی بڑی تعمیرانی کمپنیوں سے اس کے لیے ٹینڈر طلب کیے گئے جب ان Bids کی اسکروٹنی کی گئی تو معلوم ہوا کہ دو سردار بھائیوں کی ایک فرم نے بقیہ تمام کمپنیوں کے مقابلے میں خاصی کم لاگت پر اس کام کی حامی بھری ہے۔
ٹھیکے سے متعلق جتنی شرائط تھیں ان پر بھی وہ پورا اُتر رہے تھے۔ سو متعلقہ تمام لوگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کیا جائے! آخری فیصلہ یہی ہوا کہ دونوں بھائیوں کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے۔ انٹرویو بورڈ نے ان سے جتنے بھی سوالات کیے ان کے جواب تسلی بخش تھے۔ تنگ آ کر بورڈ کے چیئرمین نے بڑے بھائی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کا تجربہ، سابقہ ریکارڈ اور کام کرنے کی صلاحیت یقیناً تسلی بخش ہے لیکن یہ منصوبہ اپنے انداز کا ایک انوکھا اور بہت ہی بڑا منصوبہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی بھی تباہ کن ہو سکتی ہے۔
آپ نے کہا ہے کہ آپ برطانیہ کی طرف سے اور آ پ کا بھائی فرانس کی طرف سے سرنگ کی تعمیر کا کام شروع کرے گا لیکن کیا آپ کو اندازہ ہے کہ چند سینٹی میٹر کے فرق سے یہ فاصلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ یہ سرنگیں آپس میں ملنے کے بجائے ایک دوسرے کے متوازی چلنا شروع کر دیں گی، اس پر بڑے سردار صاحب نے مسکرا کر کہا'' تو اس میں بھی فائدہ آپ ہی کو ہو گا کہ ایک سرنگ کے خرچے میں دو سرنگیں مل جائیں گی''
بتا یا گیا ہے کہ 2016ء تک چین ایک اس سے بھی لمبا سمندری پل مکمل کر لے گا یعنی اس ریکارڈ کی باقی کل عمر بھی تین چار برس سے زیادہ نہیں ہے۔ اب یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا (اور کبھی رُکے گا بھی یا نہیں) یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس سارے عمل سے جو اصل سیکھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان میں ہمت، ارادہ اور استعداد کی خصوصیات ہوں تو وہ سمندروں کی بے کرانی کو بھی اپنے قابو میں لا سکتا ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میڈیا کی آزادی کے جہاں مُضر اور منفی اثرات اور نتائج ہیں وہاں اس کے مثبت اثرات تعداد اور مقدار میں بھی کہیں زیادہ ہیں یعنی ہمارے ٹاک شوز میں مکالمے کے نام پر جو شور و غوغا اور طوفانِ بد تمیزی ہوتا ہے اگر اسے اس کی اصل یعنی مکالمے، بات چیت، افہام و تفہیم اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے دائرے میں لے آیا جائے تو یہی زحمت، رحمت بھی بن سکتی ہے، مسئلہ صرف دو کناروں کے درمیان پُل تعمیر کرنے کا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے عام طور پر Rating، اشتہارات اور سستی شہرت کے چکر میں پڑ کر اپنے اصل منصب اور فرض کو بھلا دیا ہے، بلاشبہ انھیں اپنے ہاتھیوں یعنی چینلز کو پالنے، چلانے اور کمانے کے لیے ''بزنس'' کی ضرورت ہے اور اسے حاصل کرنا ان کی ضروت بھی ہے اور مقصد بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ کون اس''مقصد'' کو کس ''قیمت'' پر حاصل کر رہا ہے۔ میں اپنے تجربے کی بناء پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ''اخلاقیات'' اور ''جمالیات'' کی پاسداری سے کبھی کوئی جائز بزنس کم نہیں ہوتا۔
ہماری قوم اس وقت مسائل اور وسائل کے دو مختلف کناروں میں واقع دُوری کے آشوب میں گھری ہوئی ہے، ان کے درمیان پل یا تو موجود نہیں یا ان میں بے شمار کھڈے پڑے ہوئے ہیں۔ آیئے ان پُلوں کی مرمّت اور تعمیر کریں یقین کیجیے جس دن ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے وہی دن اصل میں اس نئے پاکستان کے قیام کا دن ہو گا جو ایک پُل کے ذریعے قائد کے پاکستان اور اس سے وابستہ تصّورات سے جڑا ہوا ہے یعنی جب لمحہ موجود پل کی شکل میں استوار ہو تو ماضی کے خواب اور مستقبل کی تعبیریں ایک ہی ڈالی کے پھول بن جاتے ہیں۔