نور کا تصور
تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کی تمام مشقیں لاشعوری مزاحمت سے دوچار ہوتی ہیں۔
گزشتہ کالم میں ہم نے مشق تنفس نور کا مکمل طریقہ پیش کیا تھا لیکن چونکہ یہ موضوع ایک کالم میں نہیں سمٹ سکتا تھا اس لیے مشق تنفس نور کے حوالے سے ہی مزید ہدایات اس کالم میں شامل کی جارہی ہیں۔ جن لوگوں نے ای میل پر رابطہ کیا تھا انھیں جواب دیا جاچکا ہے، ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہر ای میل کو بطور حوالہ اس کالم میں شامل نہیں کیا جاسکتا لیکن کوئی بہت ہی خاص موضوع اگر زیر بحث آیا تو یقیناً یہاں شامل اشاعت کریں گے۔ آئیے مشق تنفس نور سے متعلق مزید گفتگو کرتے ہیں۔
بعض لوگوں کو نور کا تصور قائم کرنے میں بڑی الجھن پیش آتی ہے، وہ لاشعوری طور پر مزاحمت اور رکاوٹ کے زیر اثر یہی طے نہیں کر پاتے کہ کس قسم کی روشنی کے شعلے کا تصور قائم کیا جائے؟ لالٹین کی روشنی، بلب کی روشنی، سورج کی روشنی، چاند کی روشنی۔ کبھی بند آنکھیں کرکے چراغ کا تصور کرتے ہیں، کبھی برقی قمقمے کا یا پھر کبھی چاند کا، کبھی سورج کا... نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی قسم کا تصور نور قائم نہیں ہوتا اور وہ بیزار ہو کر مشق تنفس نور ہی کو ترک کر دیتے ہیں۔ یہ درحقیقت لاشعوری مزاحمت ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ زبردستی نور کا کوئی تصور قائم نہ کریں، ذہن کو آزاد چھوڑ دیں، آپ کا ذہن جس قسم کا چاہے تصور نور قائم کرلے۔
دورانِ مشق کسی قسم کا تصور نور قائم نہ ہو یا نور جھلک دکھلا کر غائب ہوجائے، تب بھی بددل ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کوشش جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ تصور نور پر آپ کی گرفت مضبوط ہونے لگے گی اور ایک دن وہ آئے گا کہ آپ روشنیوں میں ڈوب جائیں گے۔ یہ دقت بھی پیش آتی ہے کہ روشنی کا رنگ کیا ہو؟ دودھیا، سبز، سرخ، زرد، ارغوانی، چاندنی جیسی یا دھوپ کی طرح! یہاں بھی اسی اصول پر عمل کرنا چاہیے، یعنی ذہن کو کسی خاص رنگ کی روشنی کے تصور پر مجبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ نور کے تصور کے ساتھ خود بخود ہی جس قسم کی روشنی کا دھیان بندھ جائے، اسی کو قائم رکھیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی تصور چند لمحے سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ مشق تنفس نور میں تصور کرتے ہی چاروں طرف سے خیال ہلہ بول دیں گے۔ آپ ان خیالات کو دبانے، مسترد کرنے اور بھلانے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر ہے کہ خیالات آئیں اور خودبخود گزر جائیں اور پھر آپ نور کا تصور شروع کریں۔ یوں سمجھیے کہ اگر آپ ایک منٹ تک نور کا تصور قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ایک منٹ میں کم سے کم پانچ سات بار آپ کو دوسرے خیالات کے غلبے کے سبب اس تصور کو منقطع کرکے از سر نو شروع کرنا پڑے گا۔
اس عمل کا بار بار دہرانا (یعنی نور کے تصور کا ٹوٹنا اور پھر قائم کرنا) مشق کرنے والے کو اکتا دیتا ہے، لیکن یہ اکتاہٹ اور گھبراہٹ عارضی ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ مشق کرنے والا، نور کے تصور کے ساتھ سانس کھینچنے، سانس روکنے اور سانس خارج کرنے کے عمل پر قادر ہوجاتا ہے۔ ذہن انسانی ارادے کی مملکت کا اسی طرح ایک شہری ہے جس طرح جسم کے دوسرے اعضاء (ہاتھ پاؤں، آنکھ اور ناک وغیرہ)۔ جس طرح جسم کے اور اعضاء ارادے کے زیر حکم ہیں، ذہن کو بھی اس اطاعت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ آپ جس طرح کسی سرکش گھوڑے کو دوڑ میں حصہ لینے کی تربیت دیتے ہیں، اسی طرح ہوشیار شہ سوار کی طرح ذہن کو بھی عملی تربیت دینی چاہیے۔
تجربہ ہے کہ سو میں سے بیس فیصد افراد ایسے ہیں جو مشق نور کرتے ہوئے نور کے تصور پر قادر ہی نہیں ہوسکتے، جونہی تصور نور شروع کرتے ہیں ذہن بغاوت کر دیتا ہے اور ان کی مشق دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں انھیں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ''مشق تنفس نور'' میں سے ''نور'' کو خارج کردیں اور صرف سانس کی مشق جاری رکھیں، البتہ یہ فقرہ دہراتے رہیں کہ:
''میرے اندر بھی نور ہے، باہر بھی نور ہے، میں نور ہی نور ہوں۔''
ناک کے نتھنوں سے سانس کھینچتے، سینے میں سانس روکتے اور سانس خارج کرتے وقت آنکھیں بند کرکے دل ہی دل میں یہی فقرہ دہراتے رہیں۔ اس طرح بے شک نور کا تصور تو قائم نہ ہوگا لیکن نور کا لفظ، شعلہ نور میں تبدیل ہوجائے گا۔
تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کی تمام مشقیں لاشعوری مزاحمت سے دوچار ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ پہلے ہی قدم پر ہار جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان اندرونی مزاحمتوں پر غالب آکر مشق جاری رکھتے ہیں ان کی ذہنی اور دماغی صحت میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور وہ بتدریج اپنی منزل مقصود حاصل کرلیتے ہیں۔ ای میل پر کچھ حضرات نے لاشعوری مزاحمت کی جن دشواریوں کا ذکر کیا ہے وہ تقریباً تمام یا اکثر و بیشتر مشق کرنے والوں کو پیش آتی ہیں۔ البتہ ان کے درجے مختلف ہوتے ہیں۔
بعض حساس لوگوں پر ان کا فوری اثر مرتب ہوتا ہے بعض دیر میں متاثر ہوتے ہیں یہی حال اندرونی رکاوٹ کا ہے، کوئی لاشعوری مزاحمت کو رفتہ رفتہ ناکام بنا دیتا ہے۔ نفس کی منفی قوت (جو ہر اصلاح اور بہتر تبدیلی کی مخالف ہوتی ہے) ہر شخص میں مختلف پیمانے پر ہوتی ہے۔ یہ بھی منفی قوت ہی کا کرشمہ ہے کہ آپ دوران مشق یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ کی تمام دماغی صلاحیتیں کسی نے سلب کر لی ہیں یا اندر سے آواز آنے لگے کہ ان مشقوں کو ترک کردو۔
رئیس امروہوی مرحوم اپنی کتاب 'لے سانس بھی آہستہ' میں بیان کرتے ہیں کہ ''حقیقت یہ ہے کہ مشق تنفس نور نفس انسانی کی تمام قوتوں کو ابھار دیتی ہے، ان میں کچھ شر کے پہلو ہیں کچھ خیر کے۔ تنفس نور کرنے والوں کی اکثریت کا متفق الفاظ میں بیاں یہ ہے کہ جونہی انھوں نے یہ مشق شروع کی عجیب و غریب معمولی کیفیتیں طاری ہوگئیں یعنی تمام دبائے ہوئے جذبات یکایک ابھر آئے، کوئی ڈرپوک تھا تو اس کے خوف میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا، کوئی جنسی ہیجان میں مبتلا ہوگیا، کسی کے اندر سخت لاشعوری مزاحمت پیدا ہوگئی، کسی پر مایوسی اور بیزاری کے دورے پڑنے لگے، کسی پر گریہ طاری ہوگیا، کسی کی جھلاہٹ اور جھنجلاہٹ ترقی کرگئی، بات بے بات غصہ آنے لگا۔
یہ تمام ذہنی کیفیات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مشق تنفس سے اندرونی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور یہ نہایت صحت مند اور مفید علامت ہے، جب معدے اور انتڑیوں میں فاسد اور گندی (ناہضم شدہ) غذا جمع ہوجاتی ہے تو اس کا واحد علاج یہ ہے کہ جلاب اور قے کے ذریعے اس زہریلے مادے کو خارج کردیا جائے، یہی حال سانس کی مشق کا ہے۔ انسان کے نفس میں منفی جذبات (خوف، غصہ، تشویش، مایوسی، محرومی وغیرہ) تہہ در تہہ جمع ہوتے رہتے ہیں۔
شعور کی مستقل کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس جہنمی لاوے کو اندر دبائے رہے، یہیں سے تمام نفسیاتی امراض (وہم، مراق، خبط، مالیخولیا اور جنون) کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عالم میں سانس کی مشق جلاب اور قے کا کام دیتی ہے اور رفتہ رفتہ تمام منفی جذبات کو ابھار کر انھیں لاشعور سے خارج کردیتی ہے تاکہ نفس کا تزکیہ اور تطہیر (صفائی اور پاکیزگی) ہوجائے، یا یوں سمجھیے کہ سانس کی مشق میں ہر چکر جھاڑو کا کام دیتا ہے، یعنی ذہن کے تمام کوڑے کباڑ کو کونوں کھدروں سے نکال کر صحن میں لے آتا ہے۔ بے شک نفسیاتی صحت مندی کی کوشش میں یہ مرحلہ سخت تکلیف دہ ہے، تاہم یہ صورت حال عارضی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ جب گندہ جذباتی مواد خارج ہوجاتا ہے تو قلب کو عجیب نشاط لذت اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔''
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
(www.facebook.com/shayan.tamseel
بعض لوگوں کو نور کا تصور قائم کرنے میں بڑی الجھن پیش آتی ہے، وہ لاشعوری طور پر مزاحمت اور رکاوٹ کے زیر اثر یہی طے نہیں کر پاتے کہ کس قسم کی روشنی کے شعلے کا تصور قائم کیا جائے؟ لالٹین کی روشنی، بلب کی روشنی، سورج کی روشنی، چاند کی روشنی۔ کبھی بند آنکھیں کرکے چراغ کا تصور کرتے ہیں، کبھی برقی قمقمے کا یا پھر کبھی چاند کا، کبھی سورج کا... نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی قسم کا تصور نور قائم نہیں ہوتا اور وہ بیزار ہو کر مشق تنفس نور ہی کو ترک کر دیتے ہیں۔ یہ درحقیقت لاشعوری مزاحمت ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ زبردستی نور کا کوئی تصور قائم نہ کریں، ذہن کو آزاد چھوڑ دیں، آپ کا ذہن جس قسم کا چاہے تصور نور قائم کرلے۔
دورانِ مشق کسی قسم کا تصور نور قائم نہ ہو یا نور جھلک دکھلا کر غائب ہوجائے، تب بھی بددل ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کوشش جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ تصور نور پر آپ کی گرفت مضبوط ہونے لگے گی اور ایک دن وہ آئے گا کہ آپ روشنیوں میں ڈوب جائیں گے۔ یہ دقت بھی پیش آتی ہے کہ روشنی کا رنگ کیا ہو؟ دودھیا، سبز، سرخ، زرد، ارغوانی، چاندنی جیسی یا دھوپ کی طرح! یہاں بھی اسی اصول پر عمل کرنا چاہیے، یعنی ذہن کو کسی خاص رنگ کی روشنی کے تصور پر مجبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ نور کے تصور کے ساتھ خود بخود ہی جس قسم کی روشنی کا دھیان بندھ جائے، اسی کو قائم رکھیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی تصور چند لمحے سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ مشق تنفس نور میں تصور کرتے ہی چاروں طرف سے خیال ہلہ بول دیں گے۔ آپ ان خیالات کو دبانے، مسترد کرنے اور بھلانے کی کوشش نہ کریں۔ بہتر ہے کہ خیالات آئیں اور خودبخود گزر جائیں اور پھر آپ نور کا تصور شروع کریں۔ یوں سمجھیے کہ اگر آپ ایک منٹ تک نور کا تصور قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ایک منٹ میں کم سے کم پانچ سات بار آپ کو دوسرے خیالات کے غلبے کے سبب اس تصور کو منقطع کرکے از سر نو شروع کرنا پڑے گا۔
اس عمل کا بار بار دہرانا (یعنی نور کے تصور کا ٹوٹنا اور پھر قائم کرنا) مشق کرنے والے کو اکتا دیتا ہے، لیکن یہ اکتاہٹ اور گھبراہٹ عارضی ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ مشق کرنے والا، نور کے تصور کے ساتھ سانس کھینچنے، سانس روکنے اور سانس خارج کرنے کے عمل پر قادر ہوجاتا ہے۔ ذہن انسانی ارادے کی مملکت کا اسی طرح ایک شہری ہے جس طرح جسم کے دوسرے اعضاء (ہاتھ پاؤں، آنکھ اور ناک وغیرہ)۔ جس طرح جسم کے اور اعضاء ارادے کے زیر حکم ہیں، ذہن کو بھی اس اطاعت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ شرط یہ ہے کہ آپ جس طرح کسی سرکش گھوڑے کو دوڑ میں حصہ لینے کی تربیت دیتے ہیں، اسی طرح ہوشیار شہ سوار کی طرح ذہن کو بھی عملی تربیت دینی چاہیے۔
تجربہ ہے کہ سو میں سے بیس فیصد افراد ایسے ہیں جو مشق نور کرتے ہوئے نور کے تصور پر قادر ہی نہیں ہوسکتے، جونہی تصور نور شروع کرتے ہیں ذہن بغاوت کر دیتا ہے اور ان کی مشق دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اس صورت میں انھیں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ''مشق تنفس نور'' میں سے ''نور'' کو خارج کردیں اور صرف سانس کی مشق جاری رکھیں، البتہ یہ فقرہ دہراتے رہیں کہ:
''میرے اندر بھی نور ہے، باہر بھی نور ہے، میں نور ہی نور ہوں۔''
ناک کے نتھنوں سے سانس کھینچتے، سینے میں سانس روکتے اور سانس خارج کرتے وقت آنکھیں بند کرکے دل ہی دل میں یہی فقرہ دہراتے رہیں۔ اس طرح بے شک نور کا تصور تو قائم نہ ہوگا لیکن نور کا لفظ، شعلہ نور میں تبدیل ہوجائے گا۔
تعمیر و تنظیم شخصیت اور کردار سازی کی تمام مشقیں لاشعوری مزاحمت سے دوچار ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ پہلے ہی قدم پر ہار جاتے ہیں لیکن جو لوگ ان اندرونی مزاحمتوں پر غالب آکر مشق جاری رکھتے ہیں ان کی ذہنی اور دماغی صحت میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور وہ بتدریج اپنی منزل مقصود حاصل کرلیتے ہیں۔ ای میل پر کچھ حضرات نے لاشعوری مزاحمت کی جن دشواریوں کا ذکر کیا ہے وہ تقریباً تمام یا اکثر و بیشتر مشق کرنے والوں کو پیش آتی ہیں۔ البتہ ان کے درجے مختلف ہوتے ہیں۔
بعض حساس لوگوں پر ان کا فوری اثر مرتب ہوتا ہے بعض دیر میں متاثر ہوتے ہیں یہی حال اندرونی رکاوٹ کا ہے، کوئی لاشعوری مزاحمت کو رفتہ رفتہ ناکام بنا دیتا ہے۔ نفس کی منفی قوت (جو ہر اصلاح اور بہتر تبدیلی کی مخالف ہوتی ہے) ہر شخص میں مختلف پیمانے پر ہوتی ہے۔ یہ بھی منفی قوت ہی کا کرشمہ ہے کہ آپ دوران مشق یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ کی تمام دماغی صلاحیتیں کسی نے سلب کر لی ہیں یا اندر سے آواز آنے لگے کہ ان مشقوں کو ترک کردو۔
رئیس امروہوی مرحوم اپنی کتاب 'لے سانس بھی آہستہ' میں بیان کرتے ہیں کہ ''حقیقت یہ ہے کہ مشق تنفس نور نفس انسانی کی تمام قوتوں کو ابھار دیتی ہے، ان میں کچھ شر کے پہلو ہیں کچھ خیر کے۔ تنفس نور کرنے والوں کی اکثریت کا متفق الفاظ میں بیاں یہ ہے کہ جونہی انھوں نے یہ مشق شروع کی عجیب و غریب معمولی کیفیتیں طاری ہوگئیں یعنی تمام دبائے ہوئے جذبات یکایک ابھر آئے، کوئی ڈرپوک تھا تو اس کے خوف میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا، کوئی جنسی ہیجان میں مبتلا ہوگیا، کسی کے اندر سخت لاشعوری مزاحمت پیدا ہوگئی، کسی پر مایوسی اور بیزاری کے دورے پڑنے لگے، کسی پر گریہ طاری ہوگیا، کسی کی جھلاہٹ اور جھنجلاہٹ ترقی کرگئی، بات بے بات غصہ آنے لگا۔
یہ تمام ذہنی کیفیات اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مشق تنفس سے اندرونی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور یہ نہایت صحت مند اور مفید علامت ہے، جب معدے اور انتڑیوں میں فاسد اور گندی (ناہضم شدہ) غذا جمع ہوجاتی ہے تو اس کا واحد علاج یہ ہے کہ جلاب اور قے کے ذریعے اس زہریلے مادے کو خارج کردیا جائے، یہی حال سانس کی مشق کا ہے۔ انسان کے نفس میں منفی جذبات (خوف، غصہ، تشویش، مایوسی، محرومی وغیرہ) تہہ در تہہ جمع ہوتے رہتے ہیں۔
شعور کی مستقل کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس جہنمی لاوے کو اندر دبائے رہے، یہیں سے تمام نفسیاتی امراض (وہم، مراق، خبط، مالیخولیا اور جنون) کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عالم میں سانس کی مشق جلاب اور قے کا کام دیتی ہے اور رفتہ رفتہ تمام منفی جذبات کو ابھار کر انھیں لاشعور سے خارج کردیتی ہے تاکہ نفس کا تزکیہ اور تطہیر (صفائی اور پاکیزگی) ہوجائے، یا یوں سمجھیے کہ سانس کی مشق میں ہر چکر جھاڑو کا کام دیتا ہے، یعنی ذہن کے تمام کوڑے کباڑ کو کونوں کھدروں سے نکال کر صحن میں لے آتا ہے۔ بے شک نفسیاتی صحت مندی کی کوشش میں یہ مرحلہ سخت تکلیف دہ ہے، تاہم یہ صورت حال عارضی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ جب گندہ جذباتی مواد خارج ہوجاتا ہے تو قلب کو عجیب نشاط لذت اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔''
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
(www.facebook.com/shayan.tamseel