اجالے کا رستہ اور تاریکی کا رستہ
اگر تبدیلی صرف خواہشات سے آجائے تو دنیا کا ہر ملک خوشحال ہوجائے اور دنیا میں ہرقسم کے مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔
گرے نے کہا ہے قوموں کی عظمتو ں کے رستے قبرستانوں سے ہوکرآگے بڑھتے ہیں جب کہ مائوزے تنگ کہتے ہیں ہر قوم کے سامنے دو رستے ہوتے ہیں اجالے کا رستہ اور تاریکی کا رستہ ۔ دو امکانی تقدیریں ہوتی ہیں اجالے کی تقدیر اور تاریکی کی تقدیر ۔ تبدیلی اور انقلاب کی خواہش بری بات نہیں یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حقائق کو نظر انداز کرکے تبدیلی کے خواں ہوجائیں ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہماری قوم مختلف علاقائی،مختلف سیاسی،مذہبی،نسلی گروہوں میںمنقسم ہے اور انہیں ایک متفقہ پروگرام کی طرف لانے کے لیے ایک طویل سیاسی عمل اور جدوجہد کی ضرورت ہے جو پاکستان کی تمام قومی سیاسی جماعتیں کسی بڑے سمجھوتے کی طرف بڑھ کر اور اپنے اندرونی سیاسی ڈھانچوں کی اصلاح کر کے ہی کرسکتی ہیں ۔
اگر تبدیلی صرف خواہشات سے آجائے تو دنیا کا ہر ملک خوشحال ہوجائے اور دنیا میں ہرقسم کے مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔ محض خواہشات سے تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد،عملی اقدامات،صبرواستقامت، ذاتی اصلاح سمیت تمام قسم کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معاشرہ میڈیا کی آزادی کی وجہ سے پہلی مرتبہ کھل کر مختلف معاملات پر بحث کا آغاز کرچکا ہے لیکن محض مباحثے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا قومی تاریخی پس منظر کیاہے برصغیر میں طویل عرصے تک بادشاہت رہی اور اس بادشاہت کے خلاف عوامی بغاوت کی کوئی تاریخ مو جود نہیں جب کہ دوسرا دور غیر ملکی غلامی کا تھا اس کے خلاف جدوجہد ہو ئی لیکن اس کے نمایاں علاقے وہ تھے جو پاکستان کا حصہ نہیں ہیں وہ بنگال اور دیگر علاقے تھے جوآج بھارت کا حصہ ہیں۔
قائد اعظم نے جس پاکستان کا تصور دیا تھا وہ ایک جمہوری اور لبرل پاکستان تھا۔ قائداعظم نے 1943 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ـ'' مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون میں رچی ہوئی ہے یہ ہمارے ہڈیوں میں ہے صرف مخالف حالات کی صدیوں نے اس خون کی گردش کو سردکر دیا ہے یہ جم چکی ہے اور آپ کی شریانیں کام نہیں کررہی ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ خو ن پھر گردش کرنے لگا ہے اسلام اور اس کے نظریا ت نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے '' مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1955 میں قائد اعظم کے یوم ولادت کے موقعے پر اپنی نشر ی تقریر میں کہا تھا '' یہ دوسرا موقع ہے کہ میں ریڈیو پاکستان سے آپ سے مخاطب ہوں آج قائداعظم کا یوم ولادت ہے قائداعظم کی بے مثال خدمات کو صرف اسی طرح خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان اصولوں کی سختی سے پیروی کریں۔
جنہیں وہ نہایت عزیز رکھتے تھے اور جو ہماری مملکت کو معرض وجود میں لانے کا موجب بنے اور جو انھوں نے اپنے تصورات کے مطابق اس ملک کی تعمیر نو کے لیے ہمارے لیے وضع کیے تھے ان کی بے مثال کامیابی کا راز کیا تھا جو اب بہت آسان ہے انہیں اپنے نصب العین پر کامل یقین تھا اس کامل یقین نے انہیں خود اعتمادی اور خود انحصاری عطا کی جو ان کی تمام تر سرگرمیوں میں کا میابی کی ضمانت بن گئی انھوں نے اپنے عوام پر اعتماد کیا جس کے جواب میں عوام نے بھی ان پر بھروسہ کیا اور یوں یہ پرانی کہاوت بھی سچ ہوگئی کہ اعتماد اعتماد کو جنم دیتا ہے ۔ قائداعظم پاکستان کو ایک آزاد و خود مختار جمہوریہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے وہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جس کی بنیاد سماجی انصاف کے ان اصولوں پر استوار ہو جو تمام لوگوں کے درمیان مساوات اور اخوت کا رشتہ برقرار رکھے۔
تحریک پاکستان جمہوری جذبہ کے تحت ، جمہوری طریقے سے اور ایسے جمہوری مقاصد کے لیے چلائی گئی جس کا مقصد اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ایسے آزاد سماجی نظام کا قیام تھاجہاں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل ہو اور وہ خوف ، احتیاج اور مصائب سے آزاد ہوں ۔''میں آپ کو یاد دلادوں کہ محض پاکستان کا حصول ہی ہماری جدوجہد کا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور ارفع مقصود کے لیے ذریعہ تھا یعنی ملک کے ہر شہری کے لیے پر امن زندگی، خوشحالی ، آزادی اور خوشی کی فراہمی ۔ ہماری جد و جہد آزادی کا مقصد در حقیقت ایک ایسے ماحول اور موقع کا حصول تھا جس میں رہ کر ہم آزاد اور اس کے تمام ثمرات اور خو شیاں اس زمین کی حدود میں رہنے والے تمام افراد کو مہیا کرنے کا اہتمام کر سکیں لیکن ہماری اپنی کوتاہیوں،نادانیوں کی وجہ سے آج پاکستان اس چوٹی پر تکیہ کیے ہوئے ہے جسے عدم رواداری ،نفرت ،تشدد اور غلبہ کے جذبات کا آتش فشاں کہا جاسکتا ہے۔
حضرت ابراہیم ادھم درویش بننے سے پہلے ایک بہت بڑی سلطنت کے بادشاہ تھے وہ بادشاہت کے دنوں میں دن رات اسی فکر میں رہتے کہ خدا سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ایک رات وہ اپنی شاہی خواب گاہ میں نرم و نازک بستر پر استراحت فرمارہے تھے اور چاروں طرف مسلح سپاہیوں کا پہرہ تھا یکایک ان کی آنکھ کھل گئی انھوں نے سناکہ خواب گاہ کی چھت پر کوئی چل پھررہا ہے اور آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز بھی آرہی ہے حضرت ابراہیم ادھم سوچنے لگے کہ شاہی محل میں آدھی رات کے وقت یوں چوری چھپے گھسنے کی جرأت کس میں ہے آخر اٹھ کر چھت کی طرف گئے وہاں نورانی چہر ے والے آدمیوں کی ایک جماعت دیکھی۔
بادشاہ نے پو چھا کہ تم لوگ کون ہو اور اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ۔ انھوں نے عاجزی سے گردنیں خم کر کے کہا اے بادشاہ ہم رات کے ابتدائی حصے سے اپنا گم شدہ مال ڈھو نڈ رہے ہیں لیکن اس کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ بادشاہ نے پو چھا آخرکیا کھو گیا ہے جو تم ڈھونڈ رہے ہو انھوں نے کہا ہم اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں ۔بادشاہ نے کہا حیرت ہے اونٹ بھلاشاہی محل کی اس بلند چھت پر کیسے چڑھ سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا اگر اونٹ اس محل کی چھت پر نہیں چڑھ سکتا تب تو تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر خدا کو کیسے ڈھونڈ سکتاہے ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہمارے سامنے دو ہی امکانی رستے تھے ایک اجالے کا رستہ دوسرا تاریکی کا رستہ ۔ ہم نے اپنے لیے دوسرے رستے کا انتخاب کیا تاریکی کے رستے کا۔
عوام کی طاقت پر یقین کرنے کی بجائے سازشوں ، سودا بازیوں ، انتشار، موقع پرستی اور ذاتی اغراض کو اپنی طاقت بنانا اور سمجھنا شروع کر دیا پھر اسی کے بعد ہم نے قائداعظم کے برعکس اپنے عوام پر کبھی اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نمائندوں پر بلکہ جتنا ممکن ہوسکتا تھا ہم عوام کو بے اختیار،کنگال، فقیر و حقیر بناتے چلے گئے۔ پاکستان کی کہانی دراصل مساوات ، اخوت ، سماجی و معاشی انصاف کے حصول کی اس جدو جہد کا نام ہے جو تسلط، استحصال ، تعصب اور جبر و استبداد کی طاقتوں کے خلاف کی گئی۔
اس کہانی کی اصل طاقت اور قوت متحرکہ عوام کی مرضی اور ان کی آرزوئیں تھیں ۔ آج ہماری نجات اور استحکام کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جد و جہد پر ہے پوری دنیا صدیوں کے تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اجالے کی تقدیر صرف عوام کی طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور عوام پر اعتماد کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ، تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ ہی عوام کا اعتماد ۔ اگر ہمیں اپنی تقدیر بدلنی ہے تو ہمیں آج ہی پہلے رستے کا انتخاب کرنا ہو گا اجالے کے رستے کا ۔ صرف اس ہی رستے پر چل کے ہمیں خوشحالی ، ترقی اور استحکام حاصل ہوسکتا ہے اور ساتھ ساتھ تمام بحرانوں سے نجات بھی۔
اگر تبدیلی صرف خواہشات سے آجائے تو دنیا کا ہر ملک خوشحال ہوجائے اور دنیا میں ہرقسم کے مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔ محض خواہشات سے تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد،عملی اقدامات،صبرواستقامت، ذاتی اصلاح سمیت تمام قسم کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پاکستانی معاشرہ میڈیا کی آزادی کی وجہ سے پہلی مرتبہ کھل کر مختلف معاملات پر بحث کا آغاز کرچکا ہے لیکن محض مباحثے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا قومی تاریخی پس منظر کیاہے برصغیر میں طویل عرصے تک بادشاہت رہی اور اس بادشاہت کے خلاف عوامی بغاوت کی کوئی تاریخ مو جود نہیں جب کہ دوسرا دور غیر ملکی غلامی کا تھا اس کے خلاف جدوجہد ہو ئی لیکن اس کے نمایاں علاقے وہ تھے جو پاکستان کا حصہ نہیں ہیں وہ بنگال اور دیگر علاقے تھے جوآج بھارت کا حصہ ہیں۔
قائد اعظم نے جس پاکستان کا تصور دیا تھا وہ ایک جمہوری اور لبرل پاکستان تھا۔ قائداعظم نے 1943 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ـ'' مجھے یقین ہے کہ جمہوریت ہمارے خون میں رچی ہوئی ہے یہ ہمارے ہڈیوں میں ہے صرف مخالف حالات کی صدیوں نے اس خون کی گردش کو سردکر دیا ہے یہ جم چکی ہے اور آپ کی شریانیں کام نہیں کررہی ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ خو ن پھر گردش کرنے لگا ہے اسلام اور اس کے نظریا ت نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے '' مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے 1955 میں قائد اعظم کے یوم ولادت کے موقعے پر اپنی نشر ی تقریر میں کہا تھا '' یہ دوسرا موقع ہے کہ میں ریڈیو پاکستان سے آپ سے مخاطب ہوں آج قائداعظم کا یوم ولادت ہے قائداعظم کی بے مثال خدمات کو صرف اسی طرح خراج تحسین پیش کیا جاسکتا ہے کہ ہم ان اصولوں کی سختی سے پیروی کریں۔
جنہیں وہ نہایت عزیز رکھتے تھے اور جو ہماری مملکت کو معرض وجود میں لانے کا موجب بنے اور جو انھوں نے اپنے تصورات کے مطابق اس ملک کی تعمیر نو کے لیے ہمارے لیے وضع کیے تھے ان کی بے مثال کامیابی کا راز کیا تھا جو اب بہت آسان ہے انہیں اپنے نصب العین پر کامل یقین تھا اس کامل یقین نے انہیں خود اعتمادی اور خود انحصاری عطا کی جو ان کی تمام تر سرگرمیوں میں کا میابی کی ضمانت بن گئی انھوں نے اپنے عوام پر اعتماد کیا جس کے جواب میں عوام نے بھی ان پر بھروسہ کیا اور یوں یہ پرانی کہاوت بھی سچ ہوگئی کہ اعتماد اعتماد کو جنم دیتا ہے ۔ قائداعظم پاکستان کو ایک آزاد و خود مختار جمہوریہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے وہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جس کی بنیاد سماجی انصاف کے ان اصولوں پر استوار ہو جو تمام لوگوں کے درمیان مساوات اور اخوت کا رشتہ برقرار رکھے۔
تحریک پاکستان جمہوری جذبہ کے تحت ، جمہوری طریقے سے اور ایسے جمہوری مقاصد کے لیے چلائی گئی جس کا مقصد اسلامی اصولوں پر مبنی ایک ایسے آزاد سماجی نظام کا قیام تھاجہاں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل ہو اور وہ خوف ، احتیاج اور مصائب سے آزاد ہوں ۔''میں آپ کو یاد دلادوں کہ محض پاکستان کا حصول ہی ہماری جدوجہد کا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور ارفع مقصود کے لیے ذریعہ تھا یعنی ملک کے ہر شہری کے لیے پر امن زندگی، خوشحالی ، آزادی اور خوشی کی فراہمی ۔ ہماری جد و جہد آزادی کا مقصد در حقیقت ایک ایسے ماحول اور موقع کا حصول تھا جس میں رہ کر ہم آزاد اور اس کے تمام ثمرات اور خو شیاں اس زمین کی حدود میں رہنے والے تمام افراد کو مہیا کرنے کا اہتمام کر سکیں لیکن ہماری اپنی کوتاہیوں،نادانیوں کی وجہ سے آج پاکستان اس چوٹی پر تکیہ کیے ہوئے ہے جسے عدم رواداری ،نفرت ،تشدد اور غلبہ کے جذبات کا آتش فشاں کہا جاسکتا ہے۔
حضرت ابراہیم ادھم درویش بننے سے پہلے ایک بہت بڑی سلطنت کے بادشاہ تھے وہ بادشاہت کے دنوں میں دن رات اسی فکر میں رہتے کہ خدا سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ایک رات وہ اپنی شاہی خواب گاہ میں نرم و نازک بستر پر استراحت فرمارہے تھے اور چاروں طرف مسلح سپاہیوں کا پہرہ تھا یکایک ان کی آنکھ کھل گئی انھوں نے سناکہ خواب گاہ کی چھت پر کوئی چل پھررہا ہے اور آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز بھی آرہی ہے حضرت ابراہیم ادھم سوچنے لگے کہ شاہی محل میں آدھی رات کے وقت یوں چوری چھپے گھسنے کی جرأت کس میں ہے آخر اٹھ کر چھت کی طرف گئے وہاں نورانی چہر ے والے آدمیوں کی ایک جماعت دیکھی۔
بادشاہ نے پو چھا کہ تم لوگ کون ہو اور اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو ۔ انھوں نے عاجزی سے گردنیں خم کر کے کہا اے بادشاہ ہم رات کے ابتدائی حصے سے اپنا گم شدہ مال ڈھو نڈ رہے ہیں لیکن اس کا کہیں نشان نہیں ملتا۔ بادشاہ نے پو چھا آخرکیا کھو گیا ہے جو تم ڈھونڈ رہے ہو انھوں نے کہا ہم اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں ۔بادشاہ نے کہا حیرت ہے اونٹ بھلاشاہی محل کی اس بلند چھت پر کیسے چڑھ سکتا ہے تو انھوں نے جواب دیا اگر اونٹ اس محل کی چھت پر نہیں چڑھ سکتا تب تو تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر خدا کو کیسے ڈھونڈ سکتاہے ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہمارے سامنے دو ہی امکانی رستے تھے ایک اجالے کا رستہ دوسرا تاریکی کا رستہ ۔ ہم نے اپنے لیے دوسرے رستے کا انتخاب کیا تاریکی کے رستے کا۔
عوام کی طاقت پر یقین کرنے کی بجائے سازشوں ، سودا بازیوں ، انتشار، موقع پرستی اور ذاتی اغراض کو اپنی طاقت بنانا اور سمجھنا شروع کر دیا پھر اسی کے بعد ہم نے قائداعظم کے برعکس اپنے عوام پر کبھی اعتماد نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نمائندوں پر بلکہ جتنا ممکن ہوسکتا تھا ہم عوام کو بے اختیار،کنگال، فقیر و حقیر بناتے چلے گئے۔ پاکستان کی کہانی دراصل مساوات ، اخوت ، سماجی و معاشی انصاف کے حصول کی اس جدو جہد کا نام ہے جو تسلط، استحصال ، تعصب اور جبر و استبداد کی طاقتوں کے خلاف کی گئی۔
اس کہانی کی اصل طاقت اور قوت متحرکہ عوام کی مرضی اور ان کی آرزوئیں تھیں ۔ آج ہماری نجات اور استحکام کا انحصار خود ہماری کوششوں اور جد و جہد پر ہے پوری دنیا صدیوں کے تجربوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اجالے کی تقدیر صرف عوام کی طاقت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور عوام پر اعتماد کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ، تخت شاہی پر رونق افروز ہو کر نہ خدا مل سکتا ہے اور نہ ہی عوام کا اعتماد ۔ اگر ہمیں اپنی تقدیر بدلنی ہے تو ہمیں آج ہی پہلے رستے کا انتخاب کرنا ہو گا اجالے کے رستے کا ۔ صرف اس ہی رستے پر چل کے ہمیں خوشحالی ، ترقی اور استحکام حاصل ہوسکتا ہے اور ساتھ ساتھ تمام بحرانوں سے نجات بھی۔