پاکستان کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ کے معاملات میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
شہباز شریف نے اسپتال کا 3 مرتبہ افتتاح کیا اور اس کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے، عدالتی کمیشن
پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے معاملات کا جائزہ لینے والے عدالتی کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اسپتال کا 3 مرتبہ افتتاح کیا اور تشہیر کے لئے 10 کروڑ روپے صرف کئے۔
پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کوکب جمال زبیری پر مشتمل عدالتی کمیشن نے جزوی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی کے ایل آئی میں میرٹ اور طریقہ کار کے برعکس بھرتیاں کی گئیں، ڈاکٹر سعید اختر، ان کی بیگم اور زیادہ تر عملہ الشفاء اسپتال سے لیا گیا، سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اسپتال کا تین مرتبہ افتتاح کیا اور تشہیر کے لئے 10 کروڑ روپے صرف کئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نجی سوسائٹی بناکر حکومت پنجاب سے غیر قانونی طور پر عطیات وصول کئے، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب قائم کر کے پیپرا رولز نظر انداز کئے اور تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا، میڈیکل آلات کی خریداری کا ٹھیکہ بھی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کودے دیا، ابتدائی تعمیر اور میڈیکل آلات کی خریداری کاابتدائی ٹھیکہ 13 ارب کا تھا جسے بڑھا کر 19 ارب کر دیا گیا، مزید چار ارب روپے مانگے جا رہے ہیں۔
عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے غیر قانونی طور پر نجی کمپنی زیڈ کے بی کو آٹھ ارب کا غیر قانونی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا، پے کے ایل آئی کے بورڈآف گورنر کے ممبر ظاہر خان زیڈ کے بی کا مالک ہے، زیڈ کے بی نے میٹرو بس کے لئے پنجاب میں تعمیراتی ٹھیکے حاصل کئے، طے شدہ معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اسپتال کو 131 بیڈ مکمل کرکے دینے تھے لیکن 31 دسمبر 2017 تک 16 بیڈ دئیے، معاہدے کے برعکس 12 میں سے 2 آپریشن تھیٹر فراہم کیے اور وہ بھی غیر معیاری ہیں۔ ناقص میٹریل اور معاہدے کی خلاف ورزی کے باوجود پی کے ایل آئی نے اسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پیسوں کی مکمل ادائیگی کر دی۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پی کے ایل آئی بورڈ آف گورنر کے چیئرمین تھے،شہباز شریف کی منظوری سے معاہدہ جات طے پائے، رقوم کی ادائیگی کی گئیں، پی کے ایل آئی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے 80 کروڑ کی رقم کی ادائیگی کے باوجود پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی کے ایل آئی، زیڈ کے بی اوراندرون بیرون آڈیٹرز کی چھان بین کی جائے۔عدالتی کمیشن کو اسپتال اور کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔ عدالتی کمیشن کی معاونت کے لئے ماہرین کی خدمات دی جائیں۔
پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کوکب جمال زبیری پر مشتمل عدالتی کمیشن نے جزوی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی کے ایل آئی میں میرٹ اور طریقہ کار کے برعکس بھرتیاں کی گئیں، ڈاکٹر سعید اختر، ان کی بیگم اور زیادہ تر عملہ الشفاء اسپتال سے لیا گیا، سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اسپتال کا تین مرتبہ افتتاح کیا اور تشہیر کے لئے 10 کروڑ روپے صرف کئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نجی سوسائٹی بناکر حکومت پنجاب سے غیر قانونی طور پر عطیات وصول کئے، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب قائم کر کے پیپرا رولز نظر انداز کئے اور تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا، میڈیکل آلات کی خریداری کا ٹھیکہ بھی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کودے دیا، ابتدائی تعمیر اور میڈیکل آلات کی خریداری کاابتدائی ٹھیکہ 13 ارب کا تھا جسے بڑھا کر 19 ارب کر دیا گیا، مزید چار ارب روپے مانگے جا رہے ہیں۔
عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے غیر قانونی طور پر نجی کمپنی زیڈ کے بی کو آٹھ ارب کا غیر قانونی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا، پے کے ایل آئی کے بورڈآف گورنر کے ممبر ظاہر خان زیڈ کے بی کا مالک ہے، زیڈ کے بی نے میٹرو بس کے لئے پنجاب میں تعمیراتی ٹھیکے حاصل کئے، طے شدہ معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اسپتال کو 131 بیڈ مکمل کرکے دینے تھے لیکن 31 دسمبر 2017 تک 16 بیڈ دئیے، معاہدے کے برعکس 12 میں سے 2 آپریشن تھیٹر فراہم کیے اور وہ بھی غیر معیاری ہیں۔ ناقص میٹریل اور معاہدے کی خلاف ورزی کے باوجود پی کے ایل آئی نے اسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو پیسوں کی مکمل ادائیگی کر دی۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پی کے ایل آئی بورڈ آف گورنر کے چیئرمین تھے،شہباز شریف کی منظوری سے معاہدہ جات طے پائے، رقوم کی ادائیگی کی گئیں، پی کے ایل آئی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے 80 کروڑ کی رقم کی ادائیگی کے باوجود پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پی کے ایل آئی، زیڈ کے بی اوراندرون بیرون آڈیٹرز کی چھان بین کی جائے۔عدالتی کمیشن کو اسپتال اور کمپنیوں کے ریکارڈ تک رسائی دی جائے۔ عدالتی کمیشن کی معاونت کے لئے ماہرین کی خدمات دی جائیں۔