ہماری ذلت ورسوائی کا اصل سبب

پاکستان کی سیاست و حکومت پر آج جب کہ وطن عزیز اپنی آزادی کے 66 ویں برس کی جانب بڑھ رہا ہے مکمل طور پر سیکولرزم کا۔۔


[email protected]

11 جنوری 1938 کو قائداعظم نے اپنے خطاب میں اہم ترین بات فرمائی کہ ''جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کا جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھتے ہیں، وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھیسٹ رہے ہیں، حالانکہ یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں، اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات دیتاہے، یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے، در حقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے، جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں، ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات و اخوت ہے۔''

اس بات کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے خوبصورت شعر میں اس طرح سے فرمایا کہ:

جدا ہو دیں سیاست سے
تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اس کے بعد قائد اعظم نے 6 مارچ 1946 کو فرمایا:

''ہمیں قرآن پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح ترجمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں۔''
نیز یہ امر بھی انتہائی قابل غور ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے ایک سال بعد انتہائی علالت کے عالم میں زیارت ریذیڈنس میں اپنے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے بستر مرگ پر اپنی حیات فانی کے آخری ایام میں پاکستان کے قیام کا مقصد اور اس کے مستقبل کا پورا خاکہ پیش کرتے ہوئے جو چشم کشا اور بصیرت افروز الفاظ فرمائے وہ ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں، ملاحظہ فرمایے۔

'' تم جانتے ہو، جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے، یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کرسکتا تھا، میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں، تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا فرمائے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت عطا فرمائے۔ پاکستان میں سب کچھ ہے، اس کی پہاڑیوں، ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی، انھیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے، قومیں نیک نیتی، دیانت داری، اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اور اخلاقی برائیوں، منافقت، زرپرستی اور خود پسندی سے تباہ ہوجاتی ہیں۔''

بانی پاکستان کے مندرجہ بالا الفاظ کے آخری جملوں کے تناظر میں قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ہمیں جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہیں اگر ان کا حقیقی جائزہ لیاجائے تو پہلی بات تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ہماری تباہی وبربادی کا اصل سبب ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم نے ملک بنایا اسلام کے نام پر اب اسلام کی جانب جو پیش قدمی ہم نے کی ہے وہ ہمارے سامنے ہے، لہٰذا حقیقت حال یہ ہے کہ پسپائی ہوئی ہے پیش قدمی نہیں۔

پھر کیا خیال ہے، کیا اﷲ کے عذاب کا کوڑا ہم پر نہیں پڑے گا؟ ہم نے آج تک جو ہزیمت اٹھائی، اٹھا رہے ہیں اور آئندہ جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے کیا وہ ہماری اﷲ کے حضور عہد شکنی، بدعہدی، بدعمل اور ناشکری کا نتیجہ نہیں ہے؟ چنانچہ آج کیا ہورہا ہے؟ ہم بحیثیت مجموعی پوری قوم اس کے ذمے دار اور مجرم ہیں کہ آج تک کبھی اسلام کی طرف کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ اسلام کا سوشل جسٹس کا نظام، عدل اجتماعی، اخوت و بھائی چارہ، مساوات، معاشرتی نظام، رواداری اور آزادی... یہ سب کہاں ہیں؟

پاکستان کی سیاست و حکومت پر آج جب کہ وطن عزیز اپنی آزادی کے 66 ویں برس کی جانب بڑھ رہا ہے مکمل طور پر سیکولرزم کا رنگ کیوں چھایا ہوا ہے؟ کیا ہوا وہ نعرہ... 'پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اﷲ...' کہاں گیا وہ مقصد جس کی خاطر پاکستان کا قیام رمضان المبارک کی 27 ویں شب مبارک کو عمل میں آیا؟ اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی قوم اﷲ تعالیٰ سے وعدہ کرے کہ ''اے اﷲ! ہمیں آزادی دے دے، ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے۔'' تو اﷲ تعالیٰ اسے ضرور آزادی دیتا ہے۔ لہٰذا وطن عزیز کا قیام دراصل اﷲ تعالیٰ کی حکمت عملی، اس کی مشیت اور اس کی تدبیر سے ہی عمل میں آیا تھا۔

پاکستان کا معرض وجود میں آجانا بھی ایک طرح سے ہندوؤں کی ہلاکت تھی کیونکہ مہاتما گاندھی چند مہینے پہلے کہہ چکا تھا کہ پاکستان صرف میری لاش پر بن سکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ جب ہماری عہد شکنی، بد عہدی، بد عملی اور ناشکری کے سبب 1971 میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں چھوٹا عذاب دکھاکر بڑا عذاب فی الحال ٹال دیا۔

آج معلوم ہوتا ہے کہ ہم اﷲ کے اس عذاب کا شکار ہیں جس کی جانب اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت 65 میں توجہ دلائی ہے کہ ''اے نبیؐ ان سے کہہ دیجیے کہ اﷲ قادر ہے اس بات پر کوئی عذاب بھیجے، تم پر تمہارے سروں کے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب نکال دے، یا تیسری شکل سب سے زیادہ خوفناک وخطرناک کہ تمہیں طبقات اور گروہوں میں تقسیم کرکے آپس میں ٹکرادے کہ ایک دوسرے کی طاقت کو تم چکھو۔'' یہ بدترین شکل ہے عذاب کی، اور اﷲ ظالم نہیں ہے ہم خود ظالم ہیں۔

لہٰذا انتہائی قابل غور ہے رینڈ کارپوریشن کی یہ پیش گوئی کہ 2020 میں پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر کوئی ملک نہیں ہوگا۔ اس وقت حالات اسی رخ پر جارہے ہیں، آج بحیثیت قوم ہمارے درمیان عصبیتیں ہی عصبیتیں ہیں، صوبائی عصبیتیں، علاقائی عصبیتیں، لسانی عصبیتیں اور پھر مذہبی ومسلکی اختلافات ہیں، لوٹ مار، لڑائی، جھگڑے اور قتل وغارت گری روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ آج ہم نے اس حدیث شریف کو بھی بالائے طاق رکھ دیاہے کہ ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس کی جان، مال اور عزت وآبرو دوسرے پر حرام ہے۔'' (متفق علیہ) آج ہماری نظریہ پاکستان سے انحراف، عہد شکنی، بد عہدی اور ناشکری کی وجہ سے ہم سزا اورعذاب میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں