ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر کوئی مداخلت نہیں کریں گے سپریم کورٹ

پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس، اثاثوں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ


ویب ڈیسک June 12, 2018
پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس، اثاثوں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ فوٹو:فائل

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر عدلیہ کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس، اثاثوں اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانیوں کے جتنے بھی غیر قانونی اکاونٹس اور اثاثے ہیں، وہ واپس لے کر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم، خدشات و توقعات

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم پر سپریم کورٹ کوئی مداخلت نہیں کرے گی، ایمنسٹی اسکیم حکومت کی وجہ سے فیل ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قرضے لے کر ہم نے آنے والی پانچ نسلوں کا رزق کھا لیا، ہم آئندہ نسل کو کو کیا دے کر جا رہے ہیں، اسمگلنگ کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، ملکی صنعتوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا گیا، قرضوں پر قرضہ لے کر سود دیا جا رہا ہے، ہیسے واپس کس نے کرنے ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا کہ کرنسی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں، دس ہزار ڈالرز سے زائد رقم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اسٹیٹ بنک، فارن کرنسی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، کیا اسٹیٹ بینک کی پالیسی ہمارے کلچر سے مطابقت رکھتی ہے، آپ ایسا قانون مت بنائیں جس سے آپ کو شرمندگی ہو، آپ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا پھر آپ کہتے ہیں کہ ادارہ کام نہیں کررہا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں خامیاں؛ لوگ اثاثے، کالا دھن ظاہر کرنے سے گریزاں

چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے کہا کہ بنک اکاؤنٹس اور جائیداد کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے 103 ممالک کے ساتھ معاہدہ یکم ستمبر سے نافذ العمل ہو جائے گا، سوئٹزرلینڈ کے ساتھ الگ معاہدہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ دس سال میں یہ معاہدے کیوں نہیں کیے گئے، حکومت نے فارن اکاؤنٹس کو چیک کیوں نہیں کیا، افسران پاکستان کے مالک تھے، بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسران نے کیوں کوئی کام نہیں کیا۔

ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا کہ صرف دبئی میں پاکستانیوں کی 4ہزار دو سو 40 ارب روپے کی جائیداد موجود ہے، دبئی میں 635 افراد نے جائیداد خرید رکھی ہیں، ان جائیدادوں کی خریداری کے لیے تمام رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھجوائی گئی، دبئی میں جائیداد خریدنے والے 100 افراد کی لسٹ ایف بی آر کو بھجوائی ہے۔ سیکریٹری خزانہ عارف خان نے کہا کہ پاکستان پر 24.3 ٹریلین روپے قرضہ ہے، گزشتہ پانچ سال میں 38 بلین ڈالرز قرضہ لیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے ملکی قرضوں کی بارے میں کچھ بھی نہیں کیا، خدا کا واسطہ ہے کہ قوم کو ان قوانین کی گنجلک سے نکالیں، نہ ہماری انڈسٹری ہے، ہم نے ساری آس سی پیک سے لگا رکھی ہے، آپ قرضہ لیکر قرضہ لوٹا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 5 اپریل کو حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن پاکستانی شہریوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں وہ دو فیصد جرمانہ ادا کرکے ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھاسکیں گے، جب کہ ملک میں اثاثے چھپانے والے افراد پانچ فیصد جرمانہ دے کر ٹیکس نیٹ کا حصہ بن سکیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور اثاثوں کے کیس کے ساتھ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا جائزہ لیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں