جمائما سے سیکھیے
تعلق کی نوعیت کا بدل جانا ہمارے ہاں دشمنی اور انتقام کی نفسیات کو جنم دیتا ہے۔ اس کا کم سے کم نتیجہ بھی نفرت اور۔۔۔
''میں نے اسے کبھی ایک پیسہ بھی نہیں دیا، نہ اس نے کبھی مانگا''
یہ بہت عام سا جملہ ہے، مگر اپنے پس منظر کے ساتھ بہت خاص ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کے الفاظ ہیں جو امارت کی الف لیلوی دنیا میں پلی بڑھی،ایک ترقی یافتہ ملک کی شہری کی حیثیت سے اور پُرتعیش زندگی کے سائے میں آسودہ زندگی گزاری۔۔۔۔۔اور پھر بیس سال کی روپ اور سپنوں سے بھری عمر میں ایک وجیہہ مرد، جو اس سے چوبیس سال بڑا تھا،کی محبت میں مبتلا ہوکر اپنا مذہب چھوڑا اور اس کے تیسری دنیا میں واقع دیس چلی آئی، جہاں کے طورطریقوں کوگلے سے لگایا، زبان سیکھنے کے جتن کیے اور اس اجنبی تہذیب کا آنچل یوں اوڑھا کہ محبت میں سب کچھ تج دینے کی تصویر بن گئی۔ محبت میں گُندھی یہ رفاقت شوہر کی مصروفیات یا نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر در آنے والی تلخیوں کے باعث فاصلے میں بدل گئی اور یہ بندھن 9 سال بعد ٹوٹ گیا۔
اب ہماری ''روایت'' میں تو ترک تعلق نفرت اور الزام تراشیوں کی بنیاد بنتا ہے، مگر یہ خاتون آج بھی اپنے سابق شوہرکی خوبیاں بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتی، وہ اس پر لگنے والے الزامات کی تردید پوری سچائی کے ساتھ کرتی ہے، بلکہ اگر اس کے کسی اقدام کو درست سمجھے تو شانہ بہ شانہ کھڑی ہوتی ہے۔
یہ ہے جمائما خان، کرکٹ کے میدان میں کامرانیاں سمیٹنے کے بعد اب سیاست کے ایوانوں پر کمند ڈالنے کا ارادہ باندھے عمران خان کی سابق اہلیہ۔
اوپر دیے گئے الفاظ جمائما نے اس وقت ادا کیے تھے جب عمران خان کے مخالفین نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ اپنی سابق اہلیہ کے امیرکبیر خاندان کے مالی وسائل سے مستفید ہوئے ہیں۔ آج جب عمران خان کی جماعت تحریک انصاف فتح اور حصول اقتدار کے امکانات اور امیدوں کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں اتری ہے تو جمائما سوشل میڈیا پر اپنے سابق شوہر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہی ہیں۔
اسی طرح کی ایک خاصی مختلف مثال ہمیں تہمینہ دُرانی کی صورت میں ملتی ہے۔ تہمیہ درانی نے اپنی مشہور کتاب جس کا ترجمہ ''میڈا سائیں'' کے نام سے ہوا، اپنے سابق شوہر غلام مصطفیٰ کھر کی پردہ نمائی اور کھر کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے مبینہ مصائب بیان کرنے کے لیے لکھی تھی، مگر انصاف سے کام لیتے ہوئے کتاب میں غلام مصطفیٰ کھر پر لگے اس الزام کی تردید کی جو ان کے سیاسی کیریر پر داغ بنا رہا ہے۔ تہمینہ درانی نے پوری وضاحت سے مصطفیٰ کھر پر بہ طور گورنر پنجاب ایک لڑکی کے اغوا کے الزام کو رد کیا۔
تہمینہ درانی کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کے دیگر مندرجات کو سچ ثابت کرنے کے لیے غلام مصطفیٰ کھر کے دامن پر لگا ایک دھبا دھو دیا، تاکہ خود ان کے لگائے گئے داغ نمایاں ہوسکیں، مگر جمائما کا معاملہ مختلف ہے، انھیں عمران خان کی حمایت یا ان کے حق میں گواہی دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جمائما کا رویہ ہمارے معاشرے کے لیے ایک مثال ہے کہ کیسے تعلق میں دراڑ آنے کے باوجود جس سے ناتا ٹوٹا ہے اس کی برائیاں ہی نہ دیکھی جائیں خوبیوں کو بھی یاد رکھا اور ان کا کُھل کے اعتراف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ سماجی تعلقات کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ آج باہمی اتفاق کا رشتہ کل گہرے اختلاف کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ کاروباری تعلق ٹوٹ کر شراکت کاروں کو تجارت کی دنیا میں حریف بناسکتا ہے۔ نظریہ اور نقطۂ نظر کا بدل جانا تعلق کا چہرہ کچھ کا کچھ کرسکتا ہے۔ گھریلو ناچاقی میاں بیوی کو ایک خاندان کی اکائی سے نکال کر دو الگ الگ گھرانوں کا فرد بناسکتی ہے۔ تعلق کی نوعیت کا بدل جانا ہمارے ہاں دشمنی اور انتقام کی نفسیات کو جنم دیتا ہے۔ اس کا کم سے کم نتیجہ بھی نفرت اور الزام تراشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
اختلاف اور علیحدگی کا منظر گھر کی چاردیواری میں ابھرے یا سیاست کی راہوں پر گام زن شریکِ سفر راستے الگ کرلیں، الزام اور دشنام کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ یہ کج روی ہمارے سماج میں اس قدر عام ہے کہ کوئی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کسی شادی شدہ جوڑے سے اس میں طلاق ہونے کے بعد فریقین سے الگ الگ ملیے، ایک دوسرے کے لیے نفرت کی زبان کے علاوہ آپ کو کچھ سننے کو نہیں ملے گا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے دو حصوں میں بٹنے یا کسی رہنما کے اپنی جماعت سے الگ ہونے کے بعد اس فاصلے کے آرپار کھڑے افراد ایک دوسرے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھتے اور زبانوں سے ایک دوسرے پر انگارے برساتے نظر آئیں گے۔
یہ رویہ ہماری ذہنی پس ماندگی کی عکاسی کرتا ہے جو سماج کے ہر گوشے اور ملک کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ رشتوں کے حوالے سے ہمارے رویے عجیب و غریب ہیں۔ جس پہ فدا ہوں اس کی ہر بُرائی سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، اس کے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں، اس پر تنقید کا ایک لفظ سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے، مذہب، اخلاق، اقدار کوئی چیز ہمیں اپنے ممدوح کی خامی تو کیا کسی سیاہ کاری کی حمایت سے بھی نہیں روکتی نہ اسے غلط کہنے کی اخلاقی جُرأت دیتی ہے۔
خاص طور پر سیاست کی دنیا میں یہی چلن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بعض نعرے ہی سُن لیجیے اور ان پر غور بھی کیجیے، اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے سیاسی کارکن اور سیاست دانوں کے حامی کسی بھی نظریے اور قدر سے بے نیاز ہوکر کس طرح اپنے راہ نما سے غیرمشروط تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ ایسا تعلق عشق کی داستانوں میں تو ملتا ہے مہذب معاشروں کی سیاست میں ناپید ہے۔ دوسری طرف اختلاف کی دراڑ پڑتے ہی جن پر جان فدا کردینے کی آرزو تھی، ان کی جان لینے کا جذبہ دل میں دہک اٹھتا ہے۔
رہنما قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ان کے رویے عوام کے لیے مثال بنتے ہیں، مگر ہمارے ہاں رہنماؤں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک دوسرے پر ذاتی حملے، مخالفین کے لیے غلیظ الفاظ کا استعمال، پگڑی اچھالنا ہماری سیاست میں ''حکمت عملی'' کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کسی سیاست داں کے منہ سے اس کے مخالف کی کسی خصوصیت کی تعریف نہیں سنیں گے (البتہ مرحومین کو استثنیٰ حاصل ہے کہ ہمارا معاشرہ مرجانے والوں کی فوری بُرائی برداشت نہیں کرتا) سوال یہ ہے کہ کیا سیاست داں اپنے مخالف میں کوئی خوبی نہیں پاتے؟ کیا کوئی حکومت ایک بھی ایسا کام نہیں کرتی کہ حزب مخالف کے لوگ جس کی ستائش کرسکیں؟ ایسا نہیں، بس بات اتنی ہے کہ ہم مخالف یا تعلق کی ایک خاص شکل بدل جانے پر فریقِ ثانی کی تعریف یا اس کی کسی خوبی کے اعتراف کو اپنی کم زوری اور ذلت تصور کرتے ہیں۔
قربت کے فاصلے میں بدل جانے کے بعد ہمارے نزدیک اس تعلق کی بس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے، نفرت اور دشمنی۔ ہم اب تک نہیں جان پائے کہ باہمی احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ میدان ِ جنگ میں بھی یہ رشتہ خود کو منواتا رہا ہے۔ہمارے سماج اور سیاست دانوں کو جمائما سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب انتخابی مہم جاری ہے اور بالخصوص عمران خان کو جو اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود صرف الزامات کے سہارے سیاست کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔