ڈالر اور تیل مہنگاعوام حقائق جانناچاہتے ہیں
پانچ پانچ سال حکومت کرنے والی دونوں حکومتوں نے عوام کے مزے کرا دیے ہیں۔
مبارک ہو! سابق حکمرانوں کو مبارک ہو کہ عوام اُن کے دیے ہوئے ثمرات سے لطف و اندوز ہونا شروع ہوگئے ہیں، پانچ پانچ سال حکومت کرنے والی دونوں حکومتوں نے عوام کے مزے کرا دیے ہیں۔
ایک ہی دن میں بغیر پیشگی اطلاع کے پٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں چھ چھ روپے اضافے کی جو عیدی قوم کو دی گئی ہے۔ میرے خیال میں لاچار عوام کے لیے اس سے اچھا اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا! ہو بھی کیوں؟ کیوں کہ ہم ہیں ہی اس قابل جب ایک حکومت کرپشن کر رہی ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اسے مدت پوری کرنے دی جائے اور جب وہ اپنی کرپشن کی ''مدت'' پوری کر چکی ہوتی ہے تو ہم سر پر ہاتھ رکھ کر بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں اور حکومتی ارکان بغلیں بجا بجا کر دلاسے دے رہے ہوتے ہیں۔
ن لیگ سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ یہ کیسی حکومت تھی؟ حکومت ختم ہونے کے بعد ہی ورلڈ بینک نے معیشت کے حوالے سے پروانہ جاری کر دیا کہ وطن عزیز کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا ورنہ ملک دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
یہ کیسی معیشت بنائی گئی تھی کہ 10دن بعد ہی نگران حکومت کی ہوائیاں اُڑ گئیں اور پٹرولیم کی مد میں عوام سے پیسہ اکٹھا کرنا پڑگیا، نئے نوٹ چھاپ کر روپے کی ویلیو کم کردی گئی۔کہاں ہیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اُن کے تخت نشیں مفتاح اسماعیل جن کے ادوارمیں کیے جانے والے ''سنہرے کارناموں'' نے آج یہ دن دکھایا ہے۔گزشتہ 5 برسوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سب سے زیادہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرکے ''ورلڈ ریکارڈ'' قائم کیا ہے۔کہا گیا کہ یہ سارا پیسہ انرجی سیکٹر میں لگایا گیا، کہاں ہے لوڈ شیڈنگ میں کمی؟ آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں 8 گھنٹے سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
سستی روٹی اسکیم، لیب ٹاپ اسکیم، دانش اسکول، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم، یوتھ لون اسکیم، ٹیکسی اسکیم، ہرا ٹریکٹر اسکیم، ہیلتھ کارڈ اسکیم، میٹروبس پراجیکٹس، اورنج ٹرین یہ سب منصوبے معیشت کو مضبوط نہ کرسکے۔ پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا سامنا ہے۔ نگران حکومت کا ڈالر پر کنٹرول نہ رہنا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردینا اور ابھی معاشی ماہرین عید کے بعد روپے کی قدر میں شدید کمی کا عندیہ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں آنے والی 70فیصد اشیائے ضرورت جو امپورٹ کی جاتی ہیں وہ اس قدر مہنگی ہو جائیں گی کہ عام آدمی سڑک پر آجائے گا۔اس کے علاوہ سابقہ حکومت نے 3ارب ڈالر کے بانڈ جاری کیے تھے جن کی ادائیگیاں 2019ء میں شروع ہونی ہیں ، حکومت جاری اخراجات پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے حاصل کر تی رہی۔ ہماری صنعتیں بحران سے دو چار ہیں جس کی وجہ بجلی کی فراہمی میں رکاوٹیں اور مہنگا ہونا ہے۔لاگتی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسٹائل ملز کے ٹیکس ریفرنڈ بھی صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
افسوس آج پاکستان پر کل قرض 2سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، ملک میں پیدا ہونے والا ہر ہر بچہ 2لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے، آج پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں تیس لاکھ نوجوان داخل ہو رہے ہیںجس میں تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ گریجویٹ بھی شامل ہیں، انہی نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈا میں بیس لاکھ نوجوان کو سالانہ نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کی مجموعی ترقی کی شرح 13%سالانہ ہو ،اللہ کرے ایسا ہی ہو، اگلی حکومت ان گزشتہ دو حکومتوں کے علاوہ کسی تیسری پارٹی کو ملے شاید وہ ہی عوام کی مسیحا بنے اور عوام کی روایتی پارٹیوں سے جان چھوٹ جائے۔
جن کی تمام معاشی پالیسیاں اپنے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں، جو عوام سے حقائق چھپا کر آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرکے شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ بہرکیف نواز لیگ کے گزرے ہوئے پانچ سال سیاست، معیشت، معاشرت پر بہت بھاری ثابت ہوئے۔ تعلیم، صحت، مذہبی رواداری، بین الاقوامی تعلقات، کرپشن، دہشت گردی،ادارہ جاتی تصادم کے بدترین حکومتی رویے اور طرزِ حکمرانی نے ریاست کو مفلوج کر دینے کی حد تک منفی اثرات مرتب کیے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ڈیڑھ سو کے قریب فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف اسی شعبے سے وابستہ 8لاکھ مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے معاشی، اقتصادی، پلاننگ اور منصوبہ ساز اداروں میں بیٹھے افراد گزشتہ پچیس سالوں سے اپنے بیرونی آقاؤں اور ان کے مقاصد کوپورا کرنے میں مگن ہیں اور حکومتیں اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ تمام افسران شطرنج کے کھیل کی طرح کبھی ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر براجمان ہوکر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہر پاکستانی پر قرض ہے۔ قرض کی ''مے'' پینے والو ں کو اپنی 'فاقہ مستی' کے رنگ لا نے کی امید ہے۔قرض لے کر ہی قرض اتاریں جائیں گے تو یہ خوشحالی کیسے آئے گی۔آخر کار دیو الیہ ہو نے پر قرض کی ادئیگی اور وصولی بند ہو جائے گی۔
کب تک ملک کے دگرگوں حالات اور دہشت گردی کا رونا رویا جائے گا۔ قرض دینے والے عالمی ادارے اب تو ملک میں خود ٹیکس عائد کرنے کی فرمائش کر تے ہیں۔جب کہ اس سارے عمل میں عوام کو بے خبر رکھا گیا ہے، بے خبر کیسے نہ رکھا جاتا عوام خود کچھ جاننے کے لیے بھی تگ و دو نہیں کرتے، اگر عوام میں اتنا شعور آجائے تو حکومتوں کے دو نمبریاں کرنے سے پہلے ہی اُس کا تختہ گرا دے بالکل اُسی طرح جس طرح یورپی و مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔
ایک ہی دن میں بغیر پیشگی اطلاع کے پٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں چھ چھ روپے اضافے کی جو عیدی قوم کو دی گئی ہے۔ میرے خیال میں لاچار عوام کے لیے اس سے اچھا اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا! ہو بھی کیوں؟ کیوں کہ ہم ہیں ہی اس قابل جب ایک حکومت کرپشن کر رہی ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اسے مدت پوری کرنے دی جائے اور جب وہ اپنی کرپشن کی ''مدت'' پوری کر چکی ہوتی ہے تو ہم سر پر ہاتھ رکھ کر بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں اور حکومتی ارکان بغلیں بجا بجا کر دلاسے دے رہے ہوتے ہیں۔
ن لیگ سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ یہ کیسی حکومت تھی؟ حکومت ختم ہونے کے بعد ہی ورلڈ بینک نے معیشت کے حوالے سے پروانہ جاری کر دیا کہ وطن عزیز کو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا ورنہ ملک دیوالیہ ہونے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
یہ کیسی معیشت بنائی گئی تھی کہ 10دن بعد ہی نگران حکومت کی ہوائیاں اُڑ گئیں اور پٹرولیم کی مد میں عوام سے پیسہ اکٹھا کرنا پڑگیا، نئے نوٹ چھاپ کر روپے کی ویلیو کم کردی گئی۔کہاں ہیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور اُن کے تخت نشیں مفتاح اسماعیل جن کے ادوارمیں کیے جانے والے ''سنہرے کارناموں'' نے آج یہ دن دکھایا ہے۔گزشتہ 5 برسوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سب سے زیادہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرکے ''ورلڈ ریکارڈ'' قائم کیا ہے۔کہا گیا کہ یہ سارا پیسہ انرجی سیکٹر میں لگایا گیا، کہاں ہے لوڈ شیڈنگ میں کمی؟ آج بھی ملک کے کئی علاقوں میں 8 گھنٹے سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔
سستی روٹی اسکیم، لیب ٹاپ اسکیم، دانش اسکول، آشیانہ ہائوسنگ اسکیم، یوتھ لون اسکیم، ٹیکسی اسکیم، ہرا ٹریکٹر اسکیم، ہیلتھ کارڈ اسکیم، میٹروبس پراجیکٹس، اورنج ٹرین یہ سب منصوبے معیشت کو مضبوط نہ کرسکے۔ پاکستانی معیشت کو اندورنی اور بیرونی خدشات کا سامنا ہے۔ نگران حکومت کا ڈالر پر کنٹرول نہ رہنا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردینا اور ابھی معاشی ماہرین عید کے بعد روپے کی قدر میں شدید کمی کا عندیہ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں آنے والی 70فیصد اشیائے ضرورت جو امپورٹ کی جاتی ہیں وہ اس قدر مہنگی ہو جائیں گی کہ عام آدمی سڑک پر آجائے گا۔اس کے علاوہ سابقہ حکومت نے 3ارب ڈالر کے بانڈ جاری کیے تھے جن کی ادائیگیاں 2019ء میں شروع ہونی ہیں ، حکومت جاری اخراجات پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے حاصل کر تی رہی۔ ہماری صنعتیں بحران سے دو چار ہیں جس کی وجہ بجلی کی فراہمی میں رکاوٹیں اور مہنگا ہونا ہے۔لاگتی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسٹائل ملز کے ٹیکس ریفرنڈ بھی صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
افسوس آج پاکستان پر کل قرض 2سو ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، ملک میں پیدا ہونے والا ہر ہر بچہ 2لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے، آج پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں تیس لاکھ نوجوان داخل ہو رہے ہیںجس میں تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ گریجویٹ بھی شامل ہیں، انہی نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے تحریک انصاف نے اپنے سو روزہ ایجنڈا میں بیس لاکھ نوجوان کو سالانہ نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کی مجموعی ترقی کی شرح 13%سالانہ ہو ،اللہ کرے ایسا ہی ہو، اگلی حکومت ان گزشتہ دو حکومتوں کے علاوہ کسی تیسری پارٹی کو ملے شاید وہ ہی عوام کی مسیحا بنے اور عوام کی روایتی پارٹیوں سے جان چھوٹ جائے۔
جن کی تمام معاشی پالیسیاں اپنے ارد گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں، جو عوام سے حقائق چھپا کر آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرکے شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ بہرکیف نواز لیگ کے گزرے ہوئے پانچ سال سیاست، معیشت، معاشرت پر بہت بھاری ثابت ہوئے۔ تعلیم، صحت، مذہبی رواداری، بین الاقوامی تعلقات، کرپشن، دہشت گردی،ادارہ جاتی تصادم کے بدترین حکومتی رویے اور طرزِ حکمرانی نے ریاست کو مفلوج کر دینے کی حد تک منفی اثرات مرتب کیے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ڈیڑھ سو کے قریب فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف اسی شعبے سے وابستہ 8لاکھ مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے معاشی، اقتصادی، پلاننگ اور منصوبہ ساز اداروں میں بیٹھے افراد گزشتہ پچیس سالوں سے اپنے بیرونی آقاؤں اور ان کے مقاصد کوپورا کرنے میں مگن ہیں اور حکومتیں اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ تمام افسران شطرنج کے کھیل کی طرح کبھی ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر براجمان ہوکر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ہر پاکستانی پر قرض ہے۔ قرض کی ''مے'' پینے والو ں کو اپنی 'فاقہ مستی' کے رنگ لا نے کی امید ہے۔قرض لے کر ہی قرض اتاریں جائیں گے تو یہ خوشحالی کیسے آئے گی۔آخر کار دیو الیہ ہو نے پر قرض کی ادئیگی اور وصولی بند ہو جائے گی۔
کب تک ملک کے دگرگوں حالات اور دہشت گردی کا رونا رویا جائے گا۔ قرض دینے والے عالمی ادارے اب تو ملک میں خود ٹیکس عائد کرنے کی فرمائش کر تے ہیں۔جب کہ اس سارے عمل میں عوام کو بے خبر رکھا گیا ہے، بے خبر کیسے نہ رکھا جاتا عوام خود کچھ جاننے کے لیے بھی تگ و دو نہیں کرتے، اگر عوام میں اتنا شعور آجائے تو حکومتوں کے دو نمبریاں کرنے سے پہلے ہی اُس کا تختہ گرا دے بالکل اُسی طرح جس طرح یورپی و مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔