شب عید کی اہمیت
شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔
عید الفطر قریب آگئی ہے خواتین وحضرات عید الفطرکی بھرپورتیاریوں میں مصروف ہیں، بازاروں، مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹر ز میں دوپہر سے رات گئے تک رونق جاری ہے، خواتین جہاں ملبوسات کی خریداری کے بعد میچنگ کی سینڈل کی تلاش میں ہیں وہیں انھیں اپنے کپڑوں کے رنگ کی مناسبت سے چوڑیوں کی بھی تلاش ہے ۔ مصنوعی زیورات کی خریداری بھی عروج پر ہے ، لڑکیاں چوڑیوں کے بجائے جدید ڈیزائن کے کنگن اور برسلٹ کی خریداری کو ترجیح دے رہی ہیں ،بناؤ سنگھار خواتین کی شخصیت کا اہم جز و ہے اس کے بغیر ان کی تیاری ادھوری ہوتی ہے ، عید پر خواتین بننے سنورنے ، خوبصورت و دلکش نظر آنے کے لیے بیوٹی پالرزکا بھی رخ کرنے لگی ہیں ۔
مہندی ہمیشہ سے مشرقی خواتین کے بناؤ سنگھار کا لازمی حصہ رہی ہے،امسال بیوٹی پارلرز پر چاند رات کو خواتین اور لڑکیوں کا رش متوقع ہے، اسی لیے بیوٹی پارلرز مالکان نے پہلے سے مہندی کے سیکڑوں بنڈل آرڈر کر رکھے ہیں ،جب کہ زیادہ تر بیوٹی پارلرز نے ٹینٹ لگا کر مہندی لگانے کے لیے جگہ کاانتظام بھی کرلیا ہے اورگھروں پر بھی مہندی لگوائی جاتی ہیں، مارکیٹوں میں مہندی کے مختلف اور منفرد ڈیزائن کی کتابیں بھی دستیاب ہیں ۔ مارکیٹوں ، بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں ننھی بچیاں اور بچے بھی اپنے والدین کے ہمراہ عید کی خریداری میں مصروف ہیں اور بچوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں ۔
خواتین اور بچوں کی عید کی تیاریاں تو اپنی طرف نوجوان لڑکے بھی شاپنگ کرتے نظر آرہے ہیں ،مختلف بازاروں میں نوجوان ٹولیوں کی شکل میں عید کی شاپنگ کررہے ہیں، لڑکے زیادہ تر کرتے پاجامے اور تیار قمیض شلوار خرید رہے ہیں، نوجوان پشاوری، بلوچی،کولہا پوری چپلیں خرید رہے ہیں، اس کے علاوہ مختلف برانڈزکی چپلیں بھی خریدی جا رہی ہیں ۔ عید کے لیے سجنے سنورنے کی روایت پہلے خواتین کے لیے مخصوص ہوتی ہیں لیکن اب خود کو خوبصورت بنانے کا رجحان نوجوانوں اور بچوں میں بھی بڑھ رہا ہے، خواتین کی طرح نوجوانوں اور بچوں کے لیے بھی بالوں کو سنوارنے کے جدید اسٹائل متعارف کرادیے گئے ہیں۔
نوجوان لڑکوں نے بالوں کی کٹنگ، شیو، فیشل، فیس واش اور بیلیچ کرانے کے لیے ہیئر ڈریسرز کی دکانوں پر ڈیرے ڈال دیے ہیں،جس سے ہیئر ڈریسرز کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، کئی علاقوں میں ہیئر ڈریسرز نے باقاعدہ ٹوکن سسٹم کا اہتمام کیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ بچے مختلف قسم کے ہیروز کے ہیئر اسٹائل بنوانے کی فرمائش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایک کو خوش و خرم رکھے۔آمین۔ لیکن قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹتے ہوئے ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے اور عید الفطردامن پھیلائے خوشیاں ہی خوشیاں بانٹنے والی ہے ۔
شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ چاند رات یا شب عید رمضان المبارک کی آخری رات کوکہا جاتا ہے، یہ بڑی فضیلت والی رات ہے۔ ایک بہت بڑی غفلت جو عموما دیکھی جاتی ہے، وہ شب عید کی برکتوں سے محرومی ہے۔آپ نے سارا رمضان اپنے رب سے ٹوٹے ہوئے رشتے کواستوارکرنے کی جد وجہد کی اور اب اختتام پر جب کہ آپ کا رب آپ سے راضی ہو رہا ہے اور وہ اپنے مومن بندوں پر انعامات کی برکھا برسانے والا ہے، تو ہم نفس امارہ کے بہکاوے میں آکر اپنی تمام محنت و ریاضت پر خود تیشہ چلانے پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ شب عید اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کی ابتداء ہے اور ہم اسے بازاروں میں خریداریوں کی نذرکردیتے ہیں یہاں تک کہ بعض تاجر حضرات کاروبار میں اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ نماز عید تک نکل جاتی ہے۔
اسی طرح خریداروں کی بدقسمتی انھیں ماہ مقدس میں کی گئی تمام ریاضتوں کے ثمرکے حصول سے محرومی کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ رات ضایع نہ ہونے پائے، چوں کہ اس رات فرشتوں میں خوشی کی دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرماکر دریافت فرماتا ہے کہ بتاؤ جب مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے، تو اس کا اجرکیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو ، میں نے امت محمد ﷺکے روزے داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا ۔ رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ جو شخص دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا، نیک نیتی اور اخلاص سے، تو اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(ابن ماجہ ) ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مہینے بھرکی محنت ہمارے کسی معمولی عمل سے ضایع ہوجائے۔
آئیے! یہ رات خوب یاد الٰہی میں گزارے اور نفس کو شکست دے کر رب کو راضی کیجیے۔ عید الفطر اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھام سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی، خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں جب کہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں۔ یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عیدالفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور رمضان کے مہینے کے عبادت کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ لہذا اس تہوارکو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں سورت البقر (185آیت) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق، ہر مسلمان پر رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جب کہ اسی ماہ قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی ذکر ہے، لہٰذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
عید الفطر کے روز مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر اکتفا کرتے ہیں جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ عیدکے روز غسل کرنا ، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے، مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ عیدکی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت صدقہ فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ عید کی نمازکی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد اور دوسری رکعت میں قرات سورت کے بعد ہاتھ اٹھاکر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
عید الفطر کی نماز کے موقعے پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ سے کوتائیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عیدالفطر سے متعلق مذہبی ذمے داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادا ئیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہوجاتا ہے۔
نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ زیارت القبورکی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا،گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتے داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
مہندی ہمیشہ سے مشرقی خواتین کے بناؤ سنگھار کا لازمی حصہ رہی ہے،امسال بیوٹی پارلرز پر چاند رات کو خواتین اور لڑکیوں کا رش متوقع ہے، اسی لیے بیوٹی پارلرز مالکان نے پہلے سے مہندی کے سیکڑوں بنڈل آرڈر کر رکھے ہیں ،جب کہ زیادہ تر بیوٹی پارلرز نے ٹینٹ لگا کر مہندی لگانے کے لیے جگہ کاانتظام بھی کرلیا ہے اورگھروں پر بھی مہندی لگوائی جاتی ہیں، مارکیٹوں میں مہندی کے مختلف اور منفرد ڈیزائن کی کتابیں بھی دستیاب ہیں ۔ مارکیٹوں ، بازاروں اور شاپنگ سینٹرز میں ننھی بچیاں اور بچے بھی اپنے والدین کے ہمراہ عید کی خریداری میں مصروف ہیں اور بچوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہیں ۔
خواتین اور بچوں کی عید کی تیاریاں تو اپنی طرف نوجوان لڑکے بھی شاپنگ کرتے نظر آرہے ہیں ،مختلف بازاروں میں نوجوان ٹولیوں کی شکل میں عید کی شاپنگ کررہے ہیں، لڑکے زیادہ تر کرتے پاجامے اور تیار قمیض شلوار خرید رہے ہیں، نوجوان پشاوری، بلوچی،کولہا پوری چپلیں خرید رہے ہیں، اس کے علاوہ مختلف برانڈزکی چپلیں بھی خریدی جا رہی ہیں ۔ عید کے لیے سجنے سنورنے کی روایت پہلے خواتین کے لیے مخصوص ہوتی ہیں لیکن اب خود کو خوبصورت بنانے کا رجحان نوجوانوں اور بچوں میں بھی بڑھ رہا ہے، خواتین کی طرح نوجوانوں اور بچوں کے لیے بھی بالوں کو سنوارنے کے جدید اسٹائل متعارف کرادیے گئے ہیں۔
نوجوان لڑکوں نے بالوں کی کٹنگ، شیو، فیشل، فیس واش اور بیلیچ کرانے کے لیے ہیئر ڈریسرز کی دکانوں پر ڈیرے ڈال دیے ہیں،جس سے ہیئر ڈریسرز کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، کئی علاقوں میں ہیئر ڈریسرز نے باقاعدہ ٹوکن سسٹم کا اہتمام کیا ہوا ہے۔اس کے علاوہ بچے مختلف قسم کے ہیروز کے ہیئر اسٹائل بنوانے کی فرمائش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اسی طرح ہر ایک کو خوش و خرم رکھے۔آمین۔ لیکن قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹتے ہوئے ہم سے رخصت ہوا چاہتا ہے اور عید الفطردامن پھیلائے خوشیاں ہی خوشیاں بانٹنے والی ہے ۔
شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ چاند رات یا شب عید رمضان المبارک کی آخری رات کوکہا جاتا ہے، یہ بڑی فضیلت والی رات ہے۔ ایک بہت بڑی غفلت جو عموما دیکھی جاتی ہے، وہ شب عید کی برکتوں سے محرومی ہے۔آپ نے سارا رمضان اپنے رب سے ٹوٹے ہوئے رشتے کواستوارکرنے کی جد وجہد کی اور اب اختتام پر جب کہ آپ کا رب آپ سے راضی ہو رہا ہے اور وہ اپنے مومن بندوں پر انعامات کی برکھا برسانے والا ہے، تو ہم نفس امارہ کے بہکاوے میں آکر اپنی تمام محنت و ریاضت پر خود تیشہ چلانے پر مستعد ہوجاتے ہیں۔ شب عید اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کی ابتداء ہے اور ہم اسے بازاروں میں خریداریوں کی نذرکردیتے ہیں یہاں تک کہ بعض تاجر حضرات کاروبار میں اس قدر مشغول رہتے ہیں کہ نماز عید تک نکل جاتی ہے۔
اسی طرح خریداروں کی بدقسمتی انھیں ماہ مقدس میں کی گئی تمام ریاضتوں کے ثمرکے حصول سے محرومی کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا پوری کوشش کریں کہ یہ رات ضایع نہ ہونے پائے، چوں کہ اس رات فرشتوں میں خوشی کی دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرماکر دریافت فرماتا ہے کہ بتاؤ جب مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے، تو اس کا اجرکیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو ، میں نے امت محمد ﷺکے روزے داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت کو واجب کردیا ۔ رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے ۔ جو شخص دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا، نیک نیتی اور اخلاص سے، تو اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے ۔(ابن ماجہ ) ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مہینے بھرکی محنت ہمارے کسی معمولی عمل سے ضایع ہوجائے۔
آئیے! یہ رات خوب یاد الٰہی میں گزارے اور نفس کو شکست دے کر رب کو راضی کیجیے۔ عید الفطر اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھام سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی، خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں جب کہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں۔ یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عیدالفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور رمضان کے مہینے کے عبادت کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ لہذا اس تہوارکو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں سورت البقر (185آیت) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق، ہر مسلمان پر رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جب کہ اسی ماہ قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی ذکر ہے، لہٰذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
عید الفطر کے روز مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر اکتفا کرتے ہیں جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ عیدکے روز غسل کرنا ، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے، مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ عیدکی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت صدقہ فطرانہ ادا کرتے ہیں۔ عید کی نمازکی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد اور دوسری رکعت میں قرات سورت کے بعد ہاتھ اٹھاکر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
عید الفطر کی نماز کے موقعے پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ سے کوتائیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عیدالفطر سے متعلق مذہبی ذمے داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادا ئیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہوجاتا ہے۔
نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ زیارت القبورکی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا،گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتے داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔