سقراط کی فوج
سقراط کی موت زہر کا پیالہ پینے سے واقع ہوئی۔
CAMBRIDGE, UNITED KINGDOM:
سقراط کی موت زہر کا پیالہ پینے سے واقع ہوئی، اس پر کچھ الزامات لگائے گئے اور ایتھنز کی حکومت (عدالت) نے اسے موت کی سزا سنائی، جسے اس نے بخوشی قبول کیا، لیکن اپنے فلسفیانہ اور سیاسی نظریات سے منہ نہیں موڑا۔ اس پر پہلا الزام یہ تھا کہ وہ ریاست اور قوم کی طرف سے مقرر کردہ دیوتائوں کو نہیں مانتا۔ دوسرا الزام تھا کہ وہ کچھ نئے دیوتائوں کا ذکر کرتا ہے اور تیسرا الزام تھا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوں کے خیالات کو پراگندہ کر رہا ہے۔
سقراط پر لگنے والے الزامات کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو مذہبی ہے جب کہ دوسرا پہلو اخلاقی ہے، لیکن دوسرا الزام درحقیقت سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔ الزام لگانے والوں کو اصل تکلیف سقراط کی اخلاقی تعلیمات کے پھیلنے سے ہوئی تھی اور اس سماجی اخلاقی تعلیم کے سیاسی مضمرات نے حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقہ کو خوفزدہ اور بے چین کر دیا تھا، اس کے علاوہ اس نے اس دور کے سیاست دانوں کے علمی اور اخلاقی معیار کو بھی چیلنج کردیا تھا، جس کا جواب ان لوگوں کے پاس نہ تھا۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ امرا کو بھی سقراط کے اقتصادی نظریات سے خطرہ پیدا ہوچلا تھا۔ اس دور کے نقلی علما بھی اس کے جدلیاتی انداز فکر سے خوفزدہ تھے۔
سقراط کے خلاف ایک الزام یہ بھی تھا کہ alcibiades اور Critias جیسے لوگ سقراط کے شاگر د تھے، جنھوں نے 411 اور 404 ق م کے انقلابات یا ہنگامہ خیز دور میں نظریاتی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دور میں ایتھنز میں ریاست اور قوم کی طرف سے منتخب کردہ دیوتائوں کی باقاعدہ عبادت ہر شہری کے فرائض میں شامل تھی اور عبادت نہ کرنا ایک شہری ڈیوٹی کی عدم ادائیگی کا جرم تصور ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایتھنز میں مذہب سیاسیات کا ایک حصہ تھا اور ان حقائق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ سقراط کی موت کی اصل وجہ اس کے اختلاقی نظریات اور ان کے سیاسی اقتصادی مضمرات تھے۔
سقراط پر مذہبی عقائد سے انحراف کا الزام صرف اسے سزا دینے کے لیے ایک عارضی متعصبانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے لگایا گیا تھا تاکہ سماجی اور سیاسی قوتوں کے علاوہ مذہبی قوتوں کو بھی اس کا مخالف بنادیا جائے۔ جو جنگ سقراط نے شروع کی تھی وہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ایک طرف سقراط اور اس کی فوج ہے تو دوسری طرف آج بھی ایتھنز کے وہی حکمران اور مراعات یافتہ طبقات اور سیاست دان ہیں، جن کے آج صرف نام، زبان اور حلیے تبدیل ہوگئے ہیں لیکن سوچ، نظریات اور طریقہ کار وہی کے وہی ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف دنیا بھر کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں لڑی جارہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ جنگ پاکستان کے شہروں، گلی کوچوں، اقتدار کے ایوانوں، طاقت کے مراکز میں جاری ہے۔ یہ جنگ نظریات کی جنگ ہے، نیکی اور بد ی کی جنگ ہے، خیر اور شر، اچھائی اور برائی کی جنگ ہے۔ جب تک دنیا میں انسان کا وجود ہے، یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی۔ یہ جنگ کون جیتا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا کیونکہ وقت سب سے بڑا جج ہے۔
آئیں پاکستان میں جاری جنگ کا جائزہ لیتے ہیں، ہم اگر سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا شروع کریں کہ پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں اور انھوں نے کہاں سے جنم لیا تو ہم غور کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہمارا صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے اخلاقیات کا مسئلہ۔ ہمارے تمام کے تمام مسائل نے اخلاقیات کی عدم موجودگی سے جنم لیا۔ یہ بات یاد رہے کہ ساری کی ساری اچھائیاں اخلاق سے نکلتی ہیں اور ساری کی ساری برائیاں بداخلاقی سے جنم لیتی ہیں۔ یعنی اخلاق وہ ماں ہے جو اچھائی کو جنم دیتی ہے اور بداخلاقی وہ ماں ہے جو برائی اور بدی کو جنم دیتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایک اور ماں ہے جو سوتیلی ماں ہے جو ناسمجھی اور لاعلمی کو جنم دیتی ہے۔
سقراط نے اپنے فلسفے ''تھیوری آف نالج'' میں علم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم بالکل سطحی قسم کا ہوتا ہے، جس کی بنیاد کوئی ٹھوس حقیقت نہیں بلکہ صرف عام نہیں عمومی رائے ہوتی ہے اور یہ علم کی نقلی صورت ہے، جب کہ اصل علم کی بنیاد ٹھوس حقیقت ہے اور یہ علم نقلی عمل کے برعکس پائیدار دائمی ہوتا ہے۔
انسان پر فرض ہے کہ وہ علم کی جستجو کرے، لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے جب جستجو کرنے والے کو علم کی بنیادی حقیقت معلوم ہو۔ حقیقی علم ہی حقیقی اچھائی یانیکی ہے، جب آپ کو حقیقی علم کا علم ہوجاتا ہے تو پھر آپ حقیقی سماجی انصاف کو فروغ دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں آپ سماجی زندگی کو خودغرضی، بے حسی، کرپشن، لوٹ مار، بدنظمی کی طرف راغب کردیتے ہیں اور سیاسی زندگی کو ظلم، بے رحمی اور طاقت کے ناروا استعمال کی سمت لگا دیتے ہیں، اس طرح آپ نیکی، اچھائی، اخلاقیات، قانون، انصاف کے جذبات اور تصورات، مساوات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیتے ہیں اور پھر اخلاق کے نام پر بداخلاقی اور انصاف کے نام پر ناانصافی کو فروغ دینے کا دھندا شروع کردیا جاتا ہے۔
جب ہم اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہم پر بے علم اور ناسمجھ لوگ مسلط رہے، جو خودغرضی، بے حسی، کرپشن، لوٹ مار، بدنظمی، ظلم، بے رحمی کو فروغ دیتے رہے اور جنھوں نے اچھائی، اخلاقیات، قانون، انصاف، مساوات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا اور یہ دھندا آج بھی جاری ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج سقراط کی فوج بہت کمزور ہے اور اسے ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے اور دوسری طرف کی فوج بہت مضبوط اور طاقتور ہے اور اسے ہر محاذ پر فتح کا سامنا ہے، کیونکہ وہ جنگ کے تمام قدیمی اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے اور وہ ان کا بھرپور استعمال کرنا بھی جانتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک نئے سچ سے بالکل ناواقف ہیں کہ کہیں دور اور کہیں قریب حقیقی علم کی روشنی آہستہ آہستہ، مدہم مدہم پھیلتی جارہی ہے، جب اندھیرا بہت سیاہ ہوجاتا ہے تو صبح بہت ہی نزدیک آجاتی ہے، جب صبح کی پہلی پہلی کرنیں پھوٹیں گی تو وہ کرنیں سقراط کی فوج کو ایسی طاقت فراہم کریں گی کہ وہ تازہ دم ہوکر پلٹے گی اور حملہ آور ہوگی، پھر اس کی فتح یقینی ہوگی۔ یہ بات آسمان پر صاف لکھی ہوئی ہے۔ اگر تمہاری آنکھیں صحیح کام کررہی ہیں تو پھر اسے پڑھ لو۔
سقراط کی موت زہر کا پیالہ پینے سے واقع ہوئی، اس پر کچھ الزامات لگائے گئے اور ایتھنز کی حکومت (عدالت) نے اسے موت کی سزا سنائی، جسے اس نے بخوشی قبول کیا، لیکن اپنے فلسفیانہ اور سیاسی نظریات سے منہ نہیں موڑا۔ اس پر پہلا الزام یہ تھا کہ وہ ریاست اور قوم کی طرف سے مقرر کردہ دیوتائوں کو نہیں مانتا۔ دوسرا الزام تھا کہ وہ کچھ نئے دیوتائوں کا ذکر کرتا ہے اور تیسرا الزام تھا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوں کے خیالات کو پراگندہ کر رہا ہے۔
سقراط پر لگنے والے الزامات کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو مذہبی ہے جب کہ دوسرا پہلو اخلاقی ہے، لیکن دوسرا الزام درحقیقت سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔ الزام لگانے والوں کو اصل تکلیف سقراط کی اخلاقی تعلیمات کے پھیلنے سے ہوئی تھی اور اس سماجی اخلاقی تعلیم کے سیاسی مضمرات نے حکمرانوں اور مراعات یافتہ طبقہ کو خوفزدہ اور بے چین کر دیا تھا، اس کے علاوہ اس نے اس دور کے سیاست دانوں کے علمی اور اخلاقی معیار کو بھی چیلنج کردیا تھا، جس کا جواب ان لوگوں کے پاس نہ تھا۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ امرا کو بھی سقراط کے اقتصادی نظریات سے خطرہ پیدا ہوچلا تھا۔ اس دور کے نقلی علما بھی اس کے جدلیاتی انداز فکر سے خوفزدہ تھے۔
سقراط کے خلاف ایک الزام یہ بھی تھا کہ alcibiades اور Critias جیسے لوگ سقراط کے شاگر د تھے، جنھوں نے 411 اور 404 ق م کے انقلابات یا ہنگامہ خیز دور میں نظریاتی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دور میں ایتھنز میں ریاست اور قوم کی طرف سے منتخب کردہ دیوتائوں کی باقاعدہ عبادت ہر شہری کے فرائض میں شامل تھی اور عبادت نہ کرنا ایک شہری ڈیوٹی کی عدم ادائیگی کا جرم تصور ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایتھنز میں مذہب سیاسیات کا ایک حصہ تھا اور ان حقائق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ سقراط کی موت کی اصل وجہ اس کے اختلاقی نظریات اور ان کے سیاسی اقتصادی مضمرات تھے۔
سقراط پر مذہبی عقائد سے انحراف کا الزام صرف اسے سزا دینے کے لیے ایک عارضی متعصبانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے لگایا گیا تھا تاکہ سماجی اور سیاسی قوتوں کے علاوہ مذہبی قوتوں کو بھی اس کا مخالف بنادیا جائے۔ جو جنگ سقراط نے شروع کی تھی وہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ایک طرف سقراط اور اس کی فوج ہے تو دوسری طرف آج بھی ایتھنز کے وہی حکمران اور مراعات یافتہ طبقات اور سیاست دان ہیں، جن کے آج صرف نام، زبان اور حلیے تبدیل ہوگئے ہیں لیکن سوچ، نظریات اور طریقہ کار وہی کے وہی ہیں۔ یہ جنگ نہ صرف دنیا بھر کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں لڑی جارہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ جنگ پاکستان کے شہروں، گلی کوچوں، اقتدار کے ایوانوں، طاقت کے مراکز میں جاری ہے۔ یہ جنگ نظریات کی جنگ ہے، نیکی اور بد ی کی جنگ ہے، خیر اور شر، اچھائی اور برائی کی جنگ ہے۔ جب تک دنیا میں انسان کا وجود ہے، یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی۔ یہ جنگ کون جیتا ہے اس کا فیصلہ وقت کرے گا کیونکہ وقت سب سے بڑا جج ہے۔
آئیں پاکستان میں جاری جنگ کا جائزہ لیتے ہیں، ہم اگر سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا شروع کریں کہ پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں اور انھوں نے کہاں سے جنم لیا تو ہم غور کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہمارا صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے اخلاقیات کا مسئلہ۔ ہمارے تمام کے تمام مسائل نے اخلاقیات کی عدم موجودگی سے جنم لیا۔ یہ بات یاد رہے کہ ساری کی ساری اچھائیاں اخلاق سے نکلتی ہیں اور ساری کی ساری برائیاں بداخلاقی سے جنم لیتی ہیں۔ یعنی اخلاق وہ ماں ہے جو اچھائی کو جنم دیتی ہے اور بداخلاقی وہ ماں ہے جو برائی اور بدی کو جنم دیتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایک اور ماں ہے جو سوتیلی ماں ہے جو ناسمجھی اور لاعلمی کو جنم دیتی ہے۔
سقراط نے اپنے فلسفے ''تھیوری آف نالج'' میں علم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم بالکل سطحی قسم کا ہوتا ہے، جس کی بنیاد کوئی ٹھوس حقیقت نہیں بلکہ صرف عام نہیں عمومی رائے ہوتی ہے اور یہ علم کی نقلی صورت ہے، جب کہ اصل علم کی بنیاد ٹھوس حقیقت ہے اور یہ علم نقلی عمل کے برعکس پائیدار دائمی ہوتا ہے۔
انسان پر فرض ہے کہ وہ علم کی جستجو کرے، لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے جب جستجو کرنے والے کو علم کی بنیادی حقیقت معلوم ہو۔ حقیقی علم ہی حقیقی اچھائی یانیکی ہے، جب آپ کو حقیقی علم کا علم ہوجاتا ہے تو پھر آپ حقیقی سماجی انصاف کو فروغ دیتے ہیں۔ دوسری صورت میں آپ سماجی زندگی کو خودغرضی، بے حسی، کرپشن، لوٹ مار، بدنظمی کی طرف راغب کردیتے ہیں اور سیاسی زندگی کو ظلم، بے رحمی اور طاقت کے ناروا استعمال کی سمت لگا دیتے ہیں، اس طرح آپ نیکی، اچھائی، اخلاقیات، قانون، انصاف کے جذبات اور تصورات، مساوات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیتے ہیں اور پھر اخلاق کے نام پر بداخلاقی اور انصاف کے نام پر ناانصافی کو فروغ دینے کا دھندا شروع کردیا جاتا ہے۔
جب ہم اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہم پر وحشت ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہم پر بے علم اور ناسمجھ لوگ مسلط رہے، جو خودغرضی، بے حسی، کرپشن، لوٹ مار، بدنظمی، ظلم، بے رحمی کو فروغ دیتے رہے اور جنھوں نے اچھائی، اخلاقیات، قانون، انصاف، مساوات کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا اور یہ دھندا آج بھی جاری ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج سقراط کی فوج بہت کمزور ہے اور اسے ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا ہے اور دوسری طرف کی فوج بہت مضبوط اور طاقتور ہے اور اسے ہر محاذ پر فتح کا سامنا ہے، کیونکہ وہ جنگ کے تمام قدیمی اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے اور وہ ان کا بھرپور استعمال کرنا بھی جانتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک نئے سچ سے بالکل ناواقف ہیں کہ کہیں دور اور کہیں قریب حقیقی علم کی روشنی آہستہ آہستہ، مدہم مدہم پھیلتی جارہی ہے، جب اندھیرا بہت سیاہ ہوجاتا ہے تو صبح بہت ہی نزدیک آجاتی ہے، جب صبح کی پہلی پہلی کرنیں پھوٹیں گی تو وہ کرنیں سقراط کی فوج کو ایسی طاقت فراہم کریں گی کہ وہ تازہ دم ہوکر پلٹے گی اور حملہ آور ہوگی، پھر اس کی فتح یقینی ہوگی۔ یہ بات آسمان پر صاف لکھی ہوئی ہے۔ اگر تمہاری آنکھیں صحیح کام کررہی ہیں تو پھر اسے پڑھ لو۔