جمہوریت کا تسلسل
25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے
25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں قومی و صوبائی حکومتوں اور اسمبلیوں کے وجود میں آنے سے انشا اﷲ جمہوریت کے تسلسل کے تیسرے پانچ سالہ دور کا آغاز ہوگا۔
نگراں وزیراعظم ناصر الملک اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس حوالے سے دو ٹوک اعلانات کے بعد کسی قسم کے شک شبے یا بے یقینی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ دو جمہوری حکومتوں کا یکے بعد دیگرے اپنی مدت پوری کرنا اور اقتدار کی پرامن منتقلی اس بات کا ثبوت ہے پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑ رہی ہے اور اس کا مستقبل تابناک ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہمارے عوام تو جمہوریت پسند ہیں اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے اس کا تسلسل چاہتے ہیں مگر بعض طالع آزما غیر جمہوری قوتیں موقع پاکر اس میں رخنہ اندازی کرتی رہتی ہیں۔ اگر قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم تسلسل سے جمہوریت کا سفر جاری نہیں رکھ سکے تو اس کی ساری ذمے داری انھی قوتوں پر عائد ہوتی ہے۔ تیسرا جمہوری دور شروع کرنے سے پہلے سبکدوش ہونے والی وفاقی حکومت اور اپوزیشن نے جس طرح نگراں وزیراعظم کے نام پر اتفاق کیا، اس سے بھی فریقین کے اس عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کا سفر جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی ٹرین کو کسی قیمت پر بھی پٹری سے اترتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
سندھ نے بھی اتفاق رائے سے نگراں وزیراعلیٰ کا چناؤ کرنے میں دیر نہیں کی، جس سے جمہوریت پر اس کے پختہ یقین اور اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اس حوالے سے جو تھوڑی بہت تاخیر ہوئی اس کی وجہ بھی مخالفانہ سوچ نہیں، صرف نوآموز سیاستدانوں کی جھجھک اور ہچکچاہٹ تھی۔ غیر جمہوری قوتوں اور ان کی حکمرانی دیکھنے کے خواہشمندوں کی پریشانی اپنی جگہ، باقی سب اس پر متفق ہیں کہ صرف انتخابات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے اور جمہوری نظام سے ہی ملک میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
اب وقت پر صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے جو پہلے سے زیادہ بااختیار اور طاقتور ہے اور جسے حکومت و عدلیہ دونوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔ نگراں وزیراعظم ناصر الملک کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دیا ہوا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر انتخابات مقررہ تاریخ پر نہیں ہوئے تو وہ آگے کام نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ الیکشن میں کسی قیمت پر بھی تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔ معروضی صورتحال میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر رواں دواں دیکھنے کے آرزومندوں کو البتہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومتوں کے رویہ سے کچھ مایوسی ہوئی ہے۔
پنجاب میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف نے نگراں وزیراعلیٰ کے چناؤ پر جس غیر لچکدار رویہ کا مظاہرہ کیا اس کا عمران خان کو ضرور نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس سے ان کی پارٹی میں فیصلہ سازی کی صلاحیت کے فقدان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بلوچستان میں اپنی پارٹی سے بغاوت کرکے اقتدار میں آنے والی حکومت نے الیکشن 30 دن کے لیے ملتوی کرنے کا غیر جمہوری مطالبہ کرکے خود کو ایکسپوز کرلیا اور اب اپنے عزائم کے حوالے سے پورے ملک میں ہدف تنقید بنی ہوئی ہے، جب کہ بڑی سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑنے کے لیے پوری طرح تیار نظر آتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے تسلسل کا پہلا دور مکمل کرکے اقتدار مسلم لیگ (ن) کو منتقل کیا تھا۔
دونوں جماعتیں اپنے اپنے دور اقتدار کی کارگزاری کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیں گی۔ یہی بات پی ٹی آئی پر بھی صادق آتی ہے جسے خیبرپختونخوا میں اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کا حساب دینا ہوگا۔ مجموعی طور پر 10 سال کے اس عرصے میں جمہوریت کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ پارلیمنٹ کی عمدہ پرفارمنس کو نہ سراہنا سخت ناانصافی ہوگی، جس نے اپنے آخری اجلاس میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا بل پاس کرکے تاریخ رقم کی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن، محمود اچکزئی اور ان کی پارٹیوں کو چھوڑ کر دیگر تمام جماعتوں نے اس جمہوری فیصلے کی حمایت کی ہے جس سے قبائلی عوام کو قومی سیاسی دھارے میں لانے میں مدد ملے گی۔ گزشتہ دس سال میں اس سمیت ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے جمہوریت اتنی بری نہیں رہی جتنی اس کے بعض ناقدین کو نظر آتی ہے۔ کچھ پارٹیوں اور سیاستدانوں کی ناکامیوں سے قطع نظر وہ آگے بڑھی ہے۔ کسی بھی نظام میں اس کے تسلسل سے ہی سیاسی پختگی آتی ہے اور ابتدائی ناکامیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، جب کہ کامیابیوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اقتدار کی پرامن منتقلی ان میں سرفہرست ہے، جس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو جاتا ہے۔
یہ دیکھ کر البتہ افسوس ہوتا ہے کہ آخر الذکر نے اپنے اقتدار کی مدت ایسے حالات میں مکمل کی جب اس کے قائد کو تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا تھا اور وہ عدالتوں میں اپنے خلاف قائم کردہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ عسکری قوت کے ساتھ سیاسی عزم کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی تھی اور سب تسلیم کرتے ہیں کہ پورا وقت ایک پیج پر رہ کر مسلم لیگ (ن) نے اس میں پورا حصہ ڈالا اور بھرپور کردار ادا کیا۔ اقتدار کی منتقلی کی طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی اس نے اپنا سفر وہاں سے شروع کیا جہاں پیپلز پارٹی نے سوات اور وزیرستان میں صفائی کے بعد چھوڑا تھا۔
آگے کے سفر میں جیسا کہ سب جانتے ہیں ملک بھر میں گرینڈ آپریشن کیا گیا جس کا سارا کریڈٹ پاکستان کی مسلح افواج کو جاتا ہے مگر یہ بھی مانا جانا چاہیے کہ سیاسی پارٹیوں کو اس کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ کیا اس سے امن و امان، جمہوریت اور ملکی سالمیت سے ان کی کمٹمنٹ ظاہر نہیں ہوتی۔ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے جمہوری نظام کو استحکام بخشنے کی خاطر بعض اصلاحات بھی متعارف کروائیں۔
یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے کا عزم ہی تھا جس کی قیمت سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے چکانی پڑی۔ اس کے علاوہ پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں نے، جن میں مسلح افواج کے 20 ہزار بہادر جوان اور افسران بھی شامل ہیں، اپنے خون سے اس بے مثال کامیابی کی تاریخ لکھی۔ سو اس حقیقت کو جھٹلانا کسی طور ممکن نہیں کہ جمہوریت کے تسلسل کے پہلے دور میں پارلیمنٹ مضبوط ہوئی، سابق صدر آصف علی زرداری سے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کے تاریخی اقدام کا کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا۔ میں ایک تجزیہ کار کی اس رائے سے پوری طرح متفق ہوں کہ پیپلز پارٹی اگر وعدے کے مطابق ججوں کو بحال نہ کرنے کی غلطی نہ کرتی تو اس سے جمہوری نظام مزید مستحکم ہوتا۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہی صوبائی خودمختاری اور نگراں حکومت جیسے بنیادی معاملات طے پائے۔
اس کے برعکس سینیٹ کے حالیہ انتخابات اور بلوچستان میں حکومت کی انجینئرڈ تبدیلی کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی، اس سے نظام کو دھچکا لگا ہے، نیب کے ذریعے ہونے والے احتساب پر اٹھنے والی انگلیوں سے بھی لگتا ہے کہ ابھی نظام میں ایسی بہت سی خامیاں ہیں جنھیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ آئینی اداروں کی ساکھ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اب نگاہیں الیکشن کمیشن پر مرکوز ہیں جس نے اعلان شدہ الیکشن 2018ء صاف و شفاف طریقے سے کرواکے نہ صرف یہ کہ اپنی اہلیت ثابت کرنی ہے، بلکہ ساکھ بھی بحال کرنی ہے۔
بدقسمتی سے جہاں ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں میں جمہوری کلچر کا فقدان ہے، وہاں بعض ادارے بھی غیر جانبداری، انصاف اور سب سے یکساں سلوک کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن اس میں مایوس ہونے کی کوئی وجہ اس لیے نہیں ہے کہ جوں جوں جمہوریت کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا ایک ایک کرکے ساری خامیاں اور خرابیاں دور ہوتی جائیں گی۔ امید کرنی چاہیے کہ جمہوری تسلسل کے آنے والے تیسرے دور میں مزید کامیابیاں ہمارا مقدر بنیں گی۔
(نوٹ: ضروری تصحیح۔ 9 جون کے کالم میں میرے دوست کا نام غلطی سے جاوید صبا لکھا گیا ہے جو دراصل صباح الدین صبا ہے)