سندھی فلموں کا سپر ہٹ اداکار حسین شاہ فاضلانی

فاضلانی کی پہلی فلم ’’عمر ماروی‘‘ تھی۔

SAN FRANCISCO:
ایک زمانہ تھاکہ سندھی فلمیں بے شمار بنتی تھیں اورکامیاب بھی ہوتیں لوگ بڑی تعداد میں سینما ہائوس جایا کرتے تھے۔ میں نے بچپن میں سب سے پہلی سندھی فلم ''پردیسی'' دیکھی تھی جس کے ہیرو حسین شاہ فاضلانی تھے، اس فلم کی کہانی اور گانے اتنے لاجواب تھے کہ فلم طویل عرصے تک سینمائوں کی زینت بنی رہی۔ اس وقت لوگوں کے لیے تفریح کا سب سے بڑا سامان فلمیں ہوا کرتی تھیں۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد فلم کے ہیرو فاضلانی پہلی مرتبہ جب لاڑکانہ آئے تو انھیں دیکھنے کے لیے لوگوں کا بڑا مجمع اکٹھا ہوگیا، جس میں، میں بھی شامل تھا، ویسے تو فاضلانی کی پہلی فلم ''عمر ماروی'' تھی جسے انھوں نے خود Produce کیا تھا اور یہ سندھی فلم پاکستان بننے کے بعد پہلی فلم تھی جس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ فاضلانی پروڈیوسر نے اپنے گائوں یار محمد شاہ جو اڈیرو لعل ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے وہاں پر اپنا ذاتی فلم اسٹوڈیو بنایا تھا۔ اس کے اندر ایک چھوٹا سا سینما ہائوس بھی بنایا اور مسجد بھی۔ جس کسی نے بھی دولت جائیداد اور مال خرچ کرنے میں احتیاط نہیں کی وہ کنگال ہوگیا یہ سب کچھ بھی فاضلانی کے ساتھ ہوا جس کا مجھے خاص طور پر بڑا دکھ ہے۔

پاکستان کی مشہور اورکامیاب فلم '' آگ کا دریا'' میں فاضلانی نے ڈی ایس پی کا کردار ادا کیا تھا جب کہ اداکار محمد علی اس فلم میں ڈاکو بنے ہیں اور شمیم آرا نے طوائف کا کردار ادا کیا تھا۔ سندھی فلمیں پروڈیوس کرنے کے ساتھ ساتھ فاضلانی نے کچھ اردو فلمیں جس میں استادوں کے استاد اور ماروی بنائیں جو کامیاب نہیں ہوسکیں جس کی وجہ سے انھیں کافی مالی نقصان ہوا انھوں نے آخری سندھی فلم '' ہاری'' بنائی جو پیسوں کی کمی کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکی۔

فاضلانی سخی انسان تھے ان کے پاس آنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا مگر ان کا ہاتھ کچھ زیادہ ہی کھلا تھا حتیٰ کہ اس نے اپنی کافی زرعی زمین غریب لوگوں میں اور کسانوں میں بانٹ دی اور آہستہ آہستہ دوسرے لوگ زمیندار ہوگئے اور وہ مفلس۔ ان کا دروازہ ہر آنے والے کے لیے کھلا رہتا تھا۔ مہمان خانہ ان کے آنے سے بھر جاتا تھا اور پھر دن رات محفلیں اور کچہریاں لگ جاتی تھیں وہ انسانیت کے کاموں میں بہت آگے تک نکل جاتے تھے مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک خوشگوار اور آرام دہ زندگی گزارنے والا انسان قلاش کیسے ہوگیا۔ آخر میں جب وہ سب دولت اور جائیداد لٹاچکے تو ان کے گائوں میں بنایا ہوا فلم اسٹوڈیو بھی ویران ہوگیا۔ فلم اسٹوڈیو کے ساتھ انھوں نے ایک پارک بنایا تھا جو اب ویران ہوگیا وہ جب بھی گائوں آتے تو لوگوں کو اس کی اطلاع دینے کے لیے ان کے بنگلے کے اوپر ایک سائرن بجتا تھا اور وہ سنتے ہی گائوں کے لوگ ان کے بنگلے کی جانب دوڑتے جاتے۔

ان کا فلمی دنیا سے لگائو اتنا والہانہ تھا کہ وہ ہر نئی فلم ریلیز ہونے کے بعد اپنے پاس لے آتے اور گائوں والوں کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھتے تھے اور آنے والوں کے لیے چائے اور کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا تھا۔ وہاں پر موجود پارک کو انھوں نے پھولوں سے رنگین اور ان کی خوشبو سے معطر بنا رکھا تھا اور بنگلہ دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ کسی بادشاہ کا محل ہے۔ پارک میں بڑی اسکرین لگ جاتی تھیں جہاں پر فلمیں دیکھنا ان کا شغل اور شوق تھا ان کے پاس جو بھی زرعی زمین تھی اسے فلمیں بنانے کے شوق میں بیچتے گئے اور باقی غریب لوگوں میں بانٹ دی۔


پاکستان فلم انڈسٹری کے لوگ جب بھی سندھ میں گھومنے یا پھر فلم بنانے آتے تھے وہ فاضلانی کے مہمان ہوتے جن کے رہنے، کھانے اور گھومنے کا خرچ وہ کرتے یہاں تک کہ جب وہ واپس جاتے تو انھیں بے تحاشا مہنگے تحفے دیے جاتے تھے۔ انھوں نے سندھی فلم پردیسی پروڈیوس کی تھی جس سے ان کو کافی مالی فائدہ پہنچاتھا جب بھی فاضلانی گائوں آتے یا پھر ان کے مہمان آتے تو گائوں والے ان کا استقبال ڈھول بجاکر اور اس کے ساتھ ثقافتی ساز بجاکرکرتے اور جھمر رقص پیش کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔ جب وہ کافی دن نہیں آتے تو لوگ اداس ہوجاتے اور ان کے آنے کا انتظار شدت سے کرتے جب ان کے آنے کا پیغام ملتا تو اسے پورے گائوں میں اعلان کرکے بتایا جاتا تھا اور لوگ صبح سے شام تک ریلوے اسٹیشن پر کبھی گائوں کے اندر آنے والی سڑک پر کئی گھنٹوں راہ تکتے رہتے۔

فاضلانی کو گائوں کے لوگوں سے بڑا پیار تھا اور اپنے بنگلے کے اندر جو پارک بنایا تھا وہاں پرگائوں والے آکر سیمنٹ کی بنی ہوئی بینچوں پر بیٹھتے تھے، بچے لگے ہوئے جھولوں میں جھولتے اور عورتوں کے لیے بھی تفریحی چیزیں موجود ہوتی تھیں۔ پارک میں ہر قسم کے پودے اور درخت تھے جس میں خاص طور پر آم، سیب، امرود، اورینج وغیرہ درختوں کو سجائے ہوئے تھے یہ پارک کے ساتھ ساتھ فارم ہائوس تھا کیونکہ وہاں پر سوئمنگ پول اورفائونٹین لگے ہوئے تھے یہ سارے مناظر فلم کے شوٹ میں بھی کام آتے تھے۔

فاضلانی 1924ء میں اپنے والد محمد امین شاہ کے گھر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گائوں سے حاصل کرنے کے بعد وہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بمبئی تعلیم کے حصول کے لیے گئے، وہاں پر فلم اسٹوڈیو میں فلموں کی شوٹنگ دیکھنے کے بعد اس میں فلمی دنیا میں جانے کا شوق پیدا ہوا، وہاں سے واپس آتے ہی انھوں نے سندھی فلم انڈسٹری کا افتتاح کیا اور ذاتی فلم عمر ماروی فلم بنائی جس میں وہ خود ہیرو بنے اور ہیروئن کے لیے نگہت سلطانہ کو کاسٹ کیا یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی جس کی نمائش بمبئی میں بھی کی گئی جہاں اس فلم نے بڑی کامیابی حاصل کی۔

انھیں فلم لائن سے دلچسپی اس وقت زیادہ ہوئی جب زرعی زمین سنبھالنے والے کمدار اکرم کو فلمی کہانیاں اور اسٹیج ڈراموں کی اسٹوریز لکھتے دیکھا۔ اب فاضلانی نے اپنی زمینداری کی طرف توجہ کم کرکے فلمی دنیا اور ادب کی طرف چل پڑے کیونکہ بمبئی میں وہ پہلے ہی سے فلمی دنیا کی رونق اور کشش دیکھ چکے تھے وہ عاشق مزاج تھے اور حسن کو بڑا پسند کرتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انھوں نے تین شادیاں رچائیں لیکن اسے فلمی دنیا سے بھی بڑا پیار تھا انھوں نے ایک شادی حیدرآباد سے، دوسری کراچی سے اور تیسری لاہور سے کی۔

وہ ہالا اور سندھ کی مشہور اور مقبول شخصیت اور سروری جماعت کے رہنما مخدوم طالب المولیٰ کے بڑے مداح اور مرید تھے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھی اچھے مراسم تھے۔ 1970ء میں جب بھٹو سانگھڑ کے دورے پر آئے تو وہ فاضلانی کے پاس بھی آئے اور جب اقتدار میں آئے تو فاضلانی کی طرف جانے والے گائوں کا روڈ پکا کر وایا اور گائوں والوں کو بجلی کے کنکشن دینے کا حکم دیا جو ایک مہینے کے عرصے میں عمل میں آگیا۔ ایک مرتبہ بھٹو لطیف آباد میں واقع فاضلانی کے بنگلے پر بھی آئے تھے جہاں پر فاضلانی نے بھٹو کے لیے ایک بڑی دعوت اور موسیقی کا پروگرام منعقد کروایا جس میں اداکارہ چکوری نے بھی پرفارم کیا تھا۔

اداکار اور پروڈیوسر حسین شاہ فاضلانی نے 4 ستمبر 1992ء کو اپنے گھر وحدت کالونی حیدرآباد میں انتقال کر گئے اور ان کے تین بیٹے تین بیویوں میں سے پیدا ہوئے تھے، ان کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ انھوں نے خود کو شراب، سگریٹ اور چائے بہت دور رکھا۔
Load Next Story