ٹکٹوں کی تقسیم پی ٹی آئی اشرافیہ گروپ کی من مانیاں
تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا
تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے میں تحریک انصاف نے بڑی تعداد میں مختلف پارٹیوں سے آنے والے افراد کو اپنے ساتھ شامل کیا جسے دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ان کی آمد کے بعد پی ٹی آئی کے اپنے ورکروں اور امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی گنجائش کم ہوجائے گی اور یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔
جس میں دیگر پارٹیوں سے لائے گئے افراد کو پہلے ہی اعلان میں ٹکٹ جاری کردیئے گئے جبکہ پارٹی کے اپنے وفادار رہنمائوں کو خون کے آنسو رلایا جا رہا ہے اوریہی آنسو رلانے کے بعد شوکت علی یوسفزئی اور شہریار آفریدی جیسے پارٹی ورکروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور سپیکر اسد قیصر سمیت وہ گروپ جو تحریک انصاف حکومت میں بھی اشرافیہ تھا اس نے اب بھی خود کو اشرافیہ ہی ثابت کیا ہے،چونکہ ٹکٹوں کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں تھی اس لیے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے لیے صوبائی اسمبلی کے حلقے حاصل کیے بلکہ ساتھ ہی قومی اسمبلی کے ٹکٹ بھی خود کو دلوائے۔
تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں عمران خان کا کس حد تک عمل دخل رہا ہے اوردیگر رہنمائوں کا اثرورسوخ کس حد تک اثرانداز ہوا؟اس بارے میں تو تحریک انصاف کے قائدین خود بہتر جانتے ہونگے لیکن پرویزخٹک ،اسدقیصر،شاہ فرمان ،علی امین گنڈاپور اور محمد عاطف ہی کے لیے قومی وصوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیوں؟اورصرف یہی نہیں بلکہ ایک اور بااثرخاندان یعنی ترکئی خاندان کے لیے ہی تین ٹکٹ کیوں؟
کیا صوابی میں تحریک انصاف کے ورکروں اور کارکنوں کا قحط پڑ گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے بھی دو ٹکٹ ترکئی خاندان کی جھولی میںڈال دیئے گئے ہیں، یہ بات کان کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس سے ان لوگوں کی تکلیف اور دکھ میں مزید اضافہ ہوا ہے جنھیں نظر انداز کرتے ہوئے ٹکٹ تک جاری نہیں کیے گئے اور وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، یہ بات بڑی واضح ہے کہ پانچ سالہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران جس، جس کا حساب باقی تھا وہ انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے ذریعے برابر کرلیا گیا ہے جس سے گروپ بندیاں بھی بڑی واضح ہوگئی ہیں۔
گوکہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اورسپیکر اسدقیصر ایک ہی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اور انٹرا پارٹی انتخابات سے لے کر وزارت اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ تک دونوں ایک دوسرے کے حریف رہے، تاہم مفادات مشترک ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور سپیکر اسد قیصر یکجا ہوگئے بلکہ ساتھ ہی سابق وزیرتعلیم محمد عاطف اور سابق سینئر وزیر برائے صحت شہرام ترکئی بھی ان کے ساتھ آن ملے کیونکہ سب نے دو،دواوراس سے زائد ٹکٹ لینے تھے اور یہی کچھ ہوا بھی اور بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک جن سابق اراکین اسمبلی اور رہنمائوں کو اپنے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل کرتے آئے تھے۔
انھیں بھی ٹکٹ دلوائے گئے ہیں جن مین قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالکریم خان اور سلطان محمد ،جے یوآئی کے فضل شکور،شیخ یعقوب اور زرین گل، مسلم لیگ (ن) کے ارباب وسیم اور ناصر موسیٰ زئی اور پھر یہ بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ فرید طوفان ، شیر اکبر، عمرایوب، نورعالم شوکت علی اور ارباب شیر علی،ان تمام کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ ملے ہیں اورپی ٹی آئی کے اپنے محروم رہ گئے ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے آگے تک جاتی ہے کیونکہ جن ورکروں کو ٹکٹ نہیں ملے یا پھر جن کے ساتھ وعدے کیے گئے تھے اور وہ ایفاء نہیں ہوئے تو ان ورکروں اور پی ٹی آئی کے اندرونی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان فوری طور پر اس سلسلے میں کمیٹی بناتے یا پھر مقامی طور پر رہنمائوں کو ہدایت کرتے کہ ایسے افراد جو ٹکٹ سے محروم رہ گئے ہیں اور پارٹی کے وفادار ہیں،کے ساتھ رابطے کرتے ہوئے انھیں سنبھالیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔
اگرچہ شنید ہے کہ صوبائی اور اضلاع کی سطح پر پی ٹی آئی مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے جن کے ذریعے ناراض پارٹی ورکروں کو منایاجائے گا۔ تاہم اگر یہ مصالحتی کمیٹیاں بھی ان ہی رہنمائوں اور عہدیداروں پر مشتمل ہوئیں جنہوں نے پانچ سال حکومت بھی کی اور پھر ٹکٹ بھی تقسیم کرتے ہوئے ریوڑیوں کی طرح اپنی جیبیں بھرلیں تو پھر تحریک انصاف کو عام انتخابات میں نقصان کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ جب زخم ملتے ہیں تو ان سے درد کی ٹیسیں بھی ضرور اٹھتی ہیں۔
تحریک انصاف کوصوبائی اور اضلاع کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں ضرور تشکیل دینی چاہئیں اور ایسے انتظامات ہر پارٹی میں کیے جاتے ہیں تاکہ مشکلات کو کم کیاجا سکے اور انتخابات کے لیے ورکروں کو متحدکرتے ہوئے میدان میں اتارا جا سکے۔
تاہم ایسی کمیٹیاں یقینی طور پرغیرجانبدار اور غیرمتنازعہ افراد پر مشتمل ہوتی ہیں اور اگر پی ٹی آئی بھی ایسا کرنے میں کامیاب رہی تو اس کا فائدہ لے گی بصورت دیگر بغاوت کی سی صورت حال تو سامنے نظر آرہی ہے کیونکہ ہر حلقے میں ایک امیدوار کو ٹکٹ مل گیا ہے اور درجنوں دیگرامیدوار منہ دیکھتے رہ گئے ہیں جو نہ صرف یہ کہ فوری طور احتجاج کرتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی وہ عام انتخابات کے موقع پر بھی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں جسے دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کو ذرا سنبھل کر چلنا ہوگا کیونکہ جو لوگ دیگر پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں ان کے پارٹی کے ساتھ اخلاص کو بھی ابھی تک چیک نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی نے جس انداز میں ٹکٹوں کی تقسیم کی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ تحریک نہیں رہی بلکہ پارٹی بن گئی ہے۔
ایک جانب تو تحریک انصاف کی یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب متحدہ مجلس عمل، پاکستان مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی، تینوں ہی امیدواروں کے انتخاب کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہیں، ایم ایم اے کی تو صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس مرتبہ پورا، پوراحصہ لینے کے چکروں میں ہے جس کی وجہ سے جے یو آئی کو مشکل پیش آرہی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ ساتھ ہی دیگر تین پارٹیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا کیونکہ اس مرتبہ وہ شاید ہی مشیر یا خواتین ایم پی ایز کے عہدے لیتے ہوئے صبر، شکر کریں بلکہ وہ جنرل نشستوں میں بھی حصہ چاہتی ہیں۔
جس میں دیگر پارٹیوں سے لائے گئے افراد کو پہلے ہی اعلان میں ٹکٹ جاری کردیئے گئے جبکہ پارٹی کے اپنے وفادار رہنمائوں کو خون کے آنسو رلایا جا رہا ہے اوریہی آنسو رلانے کے بعد شوکت علی یوسفزئی اور شہریار آفریدی جیسے پارٹی ورکروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے جبکہ دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور سپیکر اسد قیصر سمیت وہ گروپ جو تحریک انصاف حکومت میں بھی اشرافیہ تھا اس نے اب بھی خود کو اشرافیہ ہی ثابت کیا ہے،چونکہ ٹکٹوں کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں تھی اس لیے انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے لیے صوبائی اسمبلی کے حلقے حاصل کیے بلکہ ساتھ ہی قومی اسمبلی کے ٹکٹ بھی خود کو دلوائے۔
تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں عمران خان کا کس حد تک عمل دخل رہا ہے اوردیگر رہنمائوں کا اثرورسوخ کس حد تک اثرانداز ہوا؟اس بارے میں تو تحریک انصاف کے قائدین خود بہتر جانتے ہونگے لیکن پرویزخٹک ،اسدقیصر،شاہ فرمان ،علی امین گنڈاپور اور محمد عاطف ہی کے لیے قومی وصوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کیوں؟اورصرف یہی نہیں بلکہ ایک اور بااثرخاندان یعنی ترکئی خاندان کے لیے ہی تین ٹکٹ کیوں؟
کیا صوابی میں تحریک انصاف کے ورکروں اور کارکنوں کا قحط پڑ گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے بھی دو ٹکٹ ترکئی خاندان کی جھولی میںڈال دیئے گئے ہیں، یہ بات کان کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس سے ان لوگوں کی تکلیف اور دکھ میں مزید اضافہ ہوا ہے جنھیں نظر انداز کرتے ہوئے ٹکٹ تک جاری نہیں کیے گئے اور وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، یہ بات بڑی واضح ہے کہ پانچ سالہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران جس، جس کا حساب باقی تھا وہ انتخابات کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کے ذریعے برابر کرلیا گیا ہے جس سے گروپ بندیاں بھی بڑی واضح ہوگئی ہیں۔
گوکہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اورسپیکر اسدقیصر ایک ہی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے اور انٹرا پارٹی انتخابات سے لے کر وزارت اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ تک دونوں ایک دوسرے کے حریف رہے، تاہم مفادات مشترک ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور سپیکر اسد قیصر یکجا ہوگئے بلکہ ساتھ ہی سابق وزیرتعلیم محمد عاطف اور سابق سینئر وزیر برائے صحت شہرام ترکئی بھی ان کے ساتھ آن ملے کیونکہ سب نے دو،دواوراس سے زائد ٹکٹ لینے تھے اور یہی کچھ ہوا بھی اور بات صرف یہیں تک نہیں رکی بلکہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک جن سابق اراکین اسمبلی اور رہنمائوں کو اپنے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل کرتے آئے تھے۔
انھیں بھی ٹکٹ دلوائے گئے ہیں جن مین قومی وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے عبدالکریم خان اور سلطان محمد ،جے یوآئی کے فضل شکور،شیخ یعقوب اور زرین گل، مسلم لیگ (ن) کے ارباب وسیم اور ناصر موسیٰ زئی اور پھر یہ بات یہیں پر نہیں رکتی بلکہ فرید طوفان ، شیر اکبر، عمرایوب، نورعالم شوکت علی اور ارباب شیر علی،ان تمام کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ ملے ہیں اورپی ٹی آئی کے اپنے محروم رہ گئے ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے آگے تک جاتی ہے کیونکہ جن ورکروں کو ٹکٹ نہیں ملے یا پھر جن کے ساتھ وعدے کیے گئے تھے اور وہ ایفاء نہیں ہوئے تو ان ورکروں اور پی ٹی آئی کے اندرونی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان فوری طور پر اس سلسلے میں کمیٹی بناتے یا پھر مقامی طور پر رہنمائوں کو ہدایت کرتے کہ ایسے افراد جو ٹکٹ سے محروم رہ گئے ہیں اور پارٹی کے وفادار ہیں،کے ساتھ رابطے کرتے ہوئے انھیں سنبھالیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔
اگرچہ شنید ہے کہ صوبائی اور اضلاع کی سطح پر پی ٹی آئی مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دے رہی ہے جن کے ذریعے ناراض پارٹی ورکروں کو منایاجائے گا۔ تاہم اگر یہ مصالحتی کمیٹیاں بھی ان ہی رہنمائوں اور عہدیداروں پر مشتمل ہوئیں جنہوں نے پانچ سال حکومت بھی کی اور پھر ٹکٹ بھی تقسیم کرتے ہوئے ریوڑیوں کی طرح اپنی جیبیں بھرلیں تو پھر تحریک انصاف کو عام انتخابات میں نقصان کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ جب زخم ملتے ہیں تو ان سے درد کی ٹیسیں بھی ضرور اٹھتی ہیں۔
تحریک انصاف کوصوبائی اور اضلاع کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں ضرور تشکیل دینی چاہئیں اور ایسے انتظامات ہر پارٹی میں کیے جاتے ہیں تاکہ مشکلات کو کم کیاجا سکے اور انتخابات کے لیے ورکروں کو متحدکرتے ہوئے میدان میں اتارا جا سکے۔
تاہم ایسی کمیٹیاں یقینی طور پرغیرجانبدار اور غیرمتنازعہ افراد پر مشتمل ہوتی ہیں اور اگر پی ٹی آئی بھی ایسا کرنے میں کامیاب رہی تو اس کا فائدہ لے گی بصورت دیگر بغاوت کی سی صورت حال تو سامنے نظر آرہی ہے کیونکہ ہر حلقے میں ایک امیدوار کو ٹکٹ مل گیا ہے اور درجنوں دیگرامیدوار منہ دیکھتے رہ گئے ہیں جو نہ صرف یہ کہ فوری طور احتجاج کرتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی وہ عام انتخابات کے موقع پر بھی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں جسے دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کو ذرا سنبھل کر چلنا ہوگا کیونکہ جو لوگ دیگر پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں ان کے پارٹی کے ساتھ اخلاص کو بھی ابھی تک چیک نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی نے جس انداز میں ٹکٹوں کی تقسیم کی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ تحریک نہیں رہی بلکہ پارٹی بن گئی ہے۔
ایک جانب تو تحریک انصاف کی یہ صورت حال ہے تو دوسری جانب متحدہ مجلس عمل، پاکستان مسلم لیگ(ن)اورپیپلزپارٹی، تینوں ہی امیدواروں کے انتخاب کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہیں، ایم ایم اے کی تو صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس مرتبہ پورا، پوراحصہ لینے کے چکروں میں ہے جس کی وجہ سے جے یو آئی کو مشکل پیش آرہی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ ساتھ ہی دیگر تین پارٹیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا کیونکہ اس مرتبہ وہ شاید ہی مشیر یا خواتین ایم پی ایز کے عہدے لیتے ہوئے صبر، شکر کریں بلکہ وہ جنرل نشستوں میں بھی حصہ چاہتی ہیں۔