جب مجھے مفت کی سواری ملی
تمام جماعتوں نے چُن چُن کر ایسے ہیروں کی تلاش کی ہے جو انھیں اقتدارکی کرسی پر بٹھا دیں۔
پرانی شراب کو نئی بوتل میں یا نئی شراب کو پرانی بوتل میں ڈال دیا گیا ہے مگر اس ملک کے سکندروں نے یہ بات ثابت کردی کہ کرسی پرکوئی بھی بیٹھے، اقتدار ہمارا ہی رہے گا۔ نظریاتی سیاست یہاں دل بہلانے کا بہانہ ہے۔ نیا پاکستان ہو یا پھر انقلاب کی ہوائیں یہ ہمارے بغیر نہیں چل سکتیں۔
تمام جماعتوں نے چُن چُن کر ایسے ہیروں کی تلاش کی ہے جو انھیں اقتدارکی کرسی پر بٹھا دیں۔ پہلے یہ محاورہ کہا جاتا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔اب ہر دیوار پر یہ بھی لکھ لینا چاہیے کہ الیکشن میں سب جائز ہے۔ حرام اور حلال کی تعریف اپنے حساب سے بدلتے جائیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ لیڈر سب بدل دیتا ہے تو مجھے بتائیں کہ ان سیاست کے خدائوں نے اُس وقت اپنے لوگوں کے حالات کیوں نہیں بدلے جب ضیا کے آگے پیچھے یہ پنکھا جھلا کرتے تھے اور انھیں امیر المومنین کہا کرتے تھے۔
یہ ہی لوگ اپنے گناہوں کی معافیاں مانگ کر پلک جھپکتے ہوئے پیپلزپارٹی کے قافلے میں شامل ہوگئے اور بینظیرکو مشرق کی بیٹی کہتے ہوئے ان کی زبان نہیں رکُتی تھی توکیا عوام کے دن بدل گئے ؟ اور پھر یہ ہی لوگ بھاری اکثریت دلا کر نواز شریف کو تخت کا تا حیات وارث کہتے تھے۔ پھرکیوں پلک جھپکتے میں یہ پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں کامیاب کروا رہے تھے، توکیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مضبوط، طاقتور امیدوار آپ غریبوں کا مقدر بدل دیں گے؟ کیا یہ لوگ گلی، محلوں کو نیا پاکستان بنا دیں گے یا پھر یہ سب تبدیلیاں اسی طرح کی ہے جیسے کہ پلک جھپکتے میں ''یونینیسٹ پارٹی'' مسلم لیگ بن چکی تھی؟
'' گورے بابو'' کے جانے کا وقت آیا تو انھوں نے دامن جھاڑکر اپنی جدوجہد کی تاریخ لکھوانی شروع کردی۔ بڑے بڑے نواب، چوہدری اور نا جانے کون کون ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ قیام ِ پاکستان کے وقت یونینسٹ میں نہیں بلکہ قائد اعظم کے ساتھ تھے اور پھر انھیں یونیسٹوں نے پاکستان پر قبضہ کرلیا جو آج تک قابض ہے۔ یہ ہر بار سرکار بدلنے سے پہلے کی بُو سونگھ کر آنیوالی سرکار میں چلے جاتے ہیں۔ بس دیکھنا یہ ہے کہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنیوالے کیا نیا سورج بنانے کی طاقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ یہ سب دیکھ کر مجھے ایک سیاسی لطیفہ یاد آگیا۔ یہ بات ہے 29 ستمبر 1994ء کی۔ میں کالج میں پڑھتا تھا۔
جہاں سے مجھے بس لینی ہوتی تھی وہاں دو ''ہاکرز'' بیٹھے ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں نہ ہی ٹی وی چینلزکی محفلیں سجتی تھی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر چٹ پٹی خبریں ہوتی تھی۔ بس ہمیشہ ہی لیٹ آتی تھی، اگر ایک بس چھوٹ جائے تو اگلی کے آنے میں 15 منٹ لگتے تھے۔اس دوران میں کھڑے ہوکر تمام اخبارات کی سرخیاں پڑھ لیا کرتا تھا۔ اتنے پیسے تو ہوتے نہیں تھے کہ اخبار خرید لیا جائے لیکن اخبار فروش کی نگاہیں بچا کر پیچھے کا حصہ بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔ اُس دن اپنی عادت سے مجبور ہوکر اخبار کے نیچے کا حصہ پڑھنے کی کوشش کی تو اُس میں ایک بہت بڑا اشتہار چھپا ہوا تھا۔ یہ اشتہار نواز شریف نے کراچی والوں کے لیے چھاپا تھا۔
اس میں اوپر لکھا ہوا تھا آج یوم احتجاج ہے۔ پھر نواز شریف کی تصویر تھی اور لکھا ہوا تھا کہ میں آرہا ہوں، آندھی چلے یا طوفان، لاٹھی چلے یا گولی۔ مجھے دنیا کی کوئی طاقت عوام سے الگ نہیں رکھ سکتی ۔ پاکستان کی بقا کی جنگ شروع ہو چکی ہے ۔کراچی والو وقت کی پکار سُنو۔نواز شریف کا ساتھ دو... ائیر پورٹ چلو ... جاری کردہ ۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی۔تحریک نجات۔ اس اشتہار میں میرے کام کی ایک چھوٹی سی چیز تھی، جسے نمایاں طور پر ایک بڑے دائرے میں لکھا گیا تھا۔
وہ یہ تھا کہ تمام سواریوں کو بلامعاوضہ ائیر پورٹ پہنچایا جائے گا۔ یہ جملہ ہمیشہ ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ میرے دل میں لالچ آیا کہ کالج کے پیسے بھی بچ جائیں گے اور بلامعاوضہ ائیر پورٹ لے کر جا رہے ہیں تو راستے میں کالج کے لیے اتر جائونگا، مگر بدبخت قسمت ایسی تھی کہ جہاں میں کھڑا تھا وہاں سے کسی بھی بس کا روٹ ایسا نہیں تھا کہ جو میرے کالج بھی جاتی ہو اورائیر پورٹ بھی۔
یہ ہی جملہ ہماری سیاست میں ہر وقت رہتا ہے، جب کسی کو اقتدار تک جانا ہو اور بلامعاوضہ جب منزل تک پہنچانے کے لیے سواری مل جائے توکیا بات ہے۔ ایسا ہی تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب سے انھوں نے اعلان کردیا ہے کہ ہماری سواری میں بیٹھ کر اقتدار تک جائیں تو انھیں اورکیا چاہیے۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی 22 سال کے بعد یہ فارمولا سمجھ آچکا ہے کہ یہ ہی وہ گدھے ہیں جن پر بیٹھ کر ائیر پورٹ جایا جاسکتا ہے۔ اتنے سالوں میں اس ملک میں کیا نیا ہو ا یہ تو مجھے معلوم نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے فارمولا وہی پرانا ہے، بس مفت کی سواری ملنی چاہیے۔ عمران خان نے اس بار اچھا سودا کیا ہے۔ وہ ان لوگوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ اقتدارکی کرسی اب ان سے دور نہیں اور مفت کی سواریاں اس میں بیٹھنے کے لیے تیار ہوگئی ہیں۔
میں بات بھول جائونگا اس لیے لکھ دوں یہ کہ اشتہار 29 ستمبر 1994ء کوکراچی کے تمام بڑے اخبارات میں چھپا تھا۔ اس سے دو دن پہلے یعنی 27 ستمبرکو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ نے نواز شریف، نوازکھوکھر، عبدالستار لالیکا اور فخر امام پر سندھ میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ نواز شریف نے اس پابندی کو قبول کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ انھیں پوری امید تھی کہ عدالت ان کی بات ضرور سنے گی اور اسی سلسلے میں انھوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ بھی داخل کردی تھی۔
میں اگر اپنے ذہن پر زور دوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ اس کے اگلے دن اجمل خٹک وغیرہ کوگرفتارکرلیا گیا تھا۔ یہ یاد نہیں کہ سندھ کے کس علاقے سے گرفتارکیا گیا تھا، مگر اہم بات جو میں کہنا چاہتا تھا۔ نہیں بلکہ یاد دلانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ جس دن نواز شریف پر سندھ میں داخلے پر پابندی لگی تو اسی دن انھوں نے ایک اہم پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں بینظیر بھٹو پر بہت تنقیدکی گئی، لیکن ایک جملہ بار بارکہا گیا۔ ان حالات میں فوج کوکیا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کا تعین وہ خود کرے، اگر آپ پر بوجھ نہ بنے تو اس جملے کو بار بار پڑھیں کہ نواز شریف کیا کہنا چاہتے تھے اور فوج کوکیا پیغام دے رہے تھے۔
لیکن اگر یہ ہی بات آج کوئی اورکہہ دے تو وہ جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جائے گا۔ وقت وقت کا کھیل ہے۔ سیاست میں حرام اور حلال کا فیصلہ اصول، نظریہ، مذہب عقیدہ نہیں کرتا بلکہ اپنا مفاد کرتا ہے۔ سواری مفت کی ملنی چاہیے ، سب لوگ بیٹھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس بار عمران خان سارے مفت کی سواریوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ وہ ائیر پورٹ تک ضرور جائیں گے۔ جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو اُس وقت بھی عمران خان ائیر پورٹ پر ہی اور عمرے کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے۔
عمران طاقت کا کھیل سمجھ چکے ہیں اور اس کا سب سے بڑا مظہر اسی ائیر پورٹ پر دکھا دیا گیا کہ کیسے لمحوں میں نام فہرست سے نکلتا ہے اور کیسے لمحوں میں ہماری وزارت داخلہ فیصلہ کرتی ہے۔ جب اتنی جلدی الیکشن سے پہلے طاقت کا استعمال ہوگا توکیسے مفت کی سواریاں گاڑی میں نہیں بیٹھیں گی۔
آپ بھی شکایت کریں گے کہ کہانی وہیں رہ گئی۔ بہرحال نواز شریف اُس دن کراچی آئے تھے۔ سندھ حکومت نے دفعہ 144 واپس لے لی تھی اورکراچی کے ریگل چوک میں انھوں نے خطاب کیا تھا۔ میرا کالج کیونکہ صدر میں ہی تھا،اس لیے جلسہ دیکھنے بھی چلا گیا۔ جہاں انھوں نے کہا کہ عوام جیت گئے اورکرپٹ حکمران ہارگئے۔ یاد رکھیں یہ ہی جملہ آپ کو 25 جولائی کو پھر سُننا ہے لیکن اس بار نواز شریف نہیں عمران خان یہ جملہ کہہ رہے ہونگے۔