’عیدالفطر‘ رنجشوں کو بُھلاکر متحد ہوجانے کا دن

ان افراد کے معیار زندگی کو بلند کریں گے جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمیں اپنی خوشیوں میں نادار و بے کس مسلمانوں کو بھی ضرور شامل رکھنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بعد عیدالفطر کا مبارک دن بھی آ گیا ہے، حقیقی عید تو آج انہیں خوش نصیب لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے، رات کو تراویح میں قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔

سحری و افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے انوار و برکات کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارک باد اور عید کی خوشیوں کے مستحق ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ اعتکاف میں بھی بیٹھے اور شبِ قدر جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پاکردنیا و آخرت کی کام یابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔

کتنے لوگوں کی آنکھیں آج رمضان المبارک کی جدائی میں نم ہیں کہ وہ رمضان المبارک کا حق ادا نہ کر سکے اور اس مہینے میں بارش کی طرح برسنے والی رحمت و بخشش اور مغفرت کو اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے پوری طرح سمیٹ نہ سکے... اور کتنے ہی اس مقدس مہینے کی جدائی میں غمگین ہیں جو نہ پروانۂ مغفرت حاصل کر سکے اور نہ ہی انہیں سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ نہ جانے اب زندگی میں دوبارہ اس مقدس مہینے کو پانے کی بھی مہلت ملتی ہے کہ نہیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، مفہوم: رمضان المبارک کی آخری رات میں امت محمدیہ ﷺ کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا یہ شب ''شبِ قدر'' ہے؟

آپؐ نے فرمایا: نہیں... بل کہ بات یہ ہے کہ عمل کرنے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب بندہ کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہذا بخشش کر دی جاتی ہے... اس رات کو آسمانوں پر ''لیلۃ الجائزۃ'' یعنی ''انعام کی رات'' کہا جاتا ہے۔

عید، روزہ داروں کے لیے مالک حقیقی کی طرف سے خاص انعام ہے۔ روزہ، رمضان کی فرض عبادت، اور اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسرا رکن ہے۔ اگر کوئی بھی شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور بغیر کسی شرعی عذر کے وہ روزے نہ رکھے تو وہ حق تعالیٰ کی جانب سے سزا کا مستوجب ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں۔

کعبؓ بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپؐ نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، اور جب تیسرے زینے پر بھی قدم رکھا تب بھی فرمایا: آمین۔

جب آپؐ خطبے سے فارغ ہوگئے تو صحابہ ؓ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! آج منبر پر چڑھتے ہوئے آپؐ نے خلاف معمول تین مرتبہ آمین کہا۔ آپؐ نے فرمایا: جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ اس شخص کو ہلاک کرے کہ جس نے یہ ماہ مبارک پایا اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا تو میں نے کہا آمین۔ دوسری آمین کے استفسار میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص جب میرا نام آئے تو وہ درود نہ پڑھے اور تیسری آمین کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور وہ ان سے حسن سلوک ادا نہ کرے۔ مسلمان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ملائکہ کے سردار جبرائیل ؑ بددعا کریں اور امام الانبیاء رحمت اللعالمین اس پر آمین کہیں ایسے بدنصیب پر رب ذوالجلال کو کتنا جلال آتا ہوگا، اب اسے نار جہنم سے کون بچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے اسے عید جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔


عیدالفطر کے دن عید کی نماز سے قبل صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ یہ صدقہ آخرت میں اس کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی نہیں بل کہ خدائے بزرگ و برتر اپنے مومن بندوں پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد بندہ مومن لاغر و نحیف ہوجاتا ہے مگر پھر یکم شوال کی رات کو آرام کرنے کے لیے نہیں فرمایا، بل کہ عید کی رات میں بھی عبادت میں مصروف رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ عید کی رات ان پانچ راتوں میں سے ایک ہے، جس میں وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور ان کی دعاؤں کو سن کر منظور و مقبول کرتا ہے۔ پھر بندۂ مومن صبح اٹھتا ہے۔ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر وہ دوگانہ واجب کی ادائی کی خاطر عیدگاہ جاتا ہے۔

جہاں ایک بڑا روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں دو رکعت نماز با جماعت اور پھر خطبے کی سماعت مومن بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کے لیے نہیں بل کہ یہ اپنے رب کی جانب سے روزے داروں کے لیے عیدی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی، کپڑے یا کوئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو، دیتا ہے۔ مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اس دن بندۂ مومن سے اس کا یہ مطالبہ کہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرلے پھر صدقۂ فطر ادا کرلے خواہ وہ نقد کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں، نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور خوش بو لگا کر وقت سے پہلے شہر کی عیدگاہ میں داخل ہو کر نماز عید ادا کرے۔ یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے۔

صرف اس لیے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی ان عنایات کا شدت و بے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لیے کہ یہ لمحات تو سال بھر میں صرف ایک ہی بار تو آتے ہیں۔ اس کی عنایات و بخشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے اور جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب عید کی رات آتی ہے تو اسے آسمانوں پر یوم الجائزہ کہا جاتا ہے اور جب صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے۔ فرشتے زمین پر اتر کر ہر گلی اور موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں: ''اے محمدؐ کی امت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف جو بہت دینے والا ہے، اس کی پکار سوائے جن و انس کے ہر مخلوق سنتی ہے۔

پھر خدا فرشتوں سے پوچھتا ہے اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے مالک کا پورا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس کی مزدوری پوری دی جائے پھر ارشاد ہوتا ہے اے فرشتو! گواہ رہو جو رمضان کے روزے رکھتے رہے، میں نے ان کی مغفرت کردی۔ پھر خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، میرے پیارے بندوں کیا مانگتے ہو مانگو، مجھے میری عزت کی قسم جلال کی قسم آج کے عید کے اجتماع میں جو مجھ سے مانگو گے عطا کروں گا۔ میں تمہیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل و رسوا نہیں کروں گا، جاؤ اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس بشارت سے جھوم اٹھتے ہیں۔ (بہ حوالہ:الترغیب، بیہقی، مشکوٰۃ ، جلد اول)

حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر آئے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ دو مخصوص دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے اسے مناتے آرہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا خدا نے تمہیں ان دونوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد) رمضان المبارک کی روز و شب کی عبادت سے فارغ ہو کر عیدالفطر کا دن آیا ہے اس دن صدقہ فطر کی ادائی اور پھر دوگانہ نماز کی ادائی ہوتی ہے۔ ان سب اعمال میں رب العزت کی منشا ہمارے شامل حال رہتی ہے۔ یہ صرف اسی ذات باری کی توفیق تھی کہ ان مراحل سے ہم سرخ رو ہوئے ورنہ ہم کس قابل ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ آئندہ زندگی میں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اب رہے وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بل کہ نافرمانی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھا، ایسے لوگوں کا عید سے کیا واسطہ یہ ان کے لیے عید نہیں بل کہ وعید ہے۔

ہمیں اپنی خوشیوں میں نادار و بے کس مسلمانوں کو بھی ضرور شامل رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ ہم غیرمنصفانہ معاشی تفریق و تقسیم کے خلاف جدوجہد کریں گے اور ان افراد کی بھی معیار زندگی کو بھی بلند کریں گے جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
Load Next Story