ایک نظر سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر

ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کی زندگی اور جدوجہد کا مختصر جائزہ.


Abdul Latif Abu Shamil April 28, 2013
ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کی زندگی اور جدوجہد کا مختصر جائزہ۔ فوٹو: فائل

کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کی شخصیت، افکار، رجحانات اور پس منظر اس جماعت کے طرزسیاست اور حکمت عملیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

خاص طور پر پاکستان کے مخصوص سیاسی کلچر میں جمہوریت اور سیاست کا محور سیاسی جماعتوں اور نظریات کے بجائے شخصیات ہیں۔ چناں چہ اس مضمون میں ہم ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی زندگی اور جدوجہد کا مختصر جائزہ پیش کررہے ہیں۔

میاں محمد نواز شریف:

میاں نواز شریف پاکستان کے ممتاز سیاست داں، صنعت کار اور دو مرتبہ ملک کے منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور یکم نومبر 1990 تا اٹھارہ جولائی 1993 جب کہ دوسرا 17فروری 1997 تا 12اکتوبر 1999 پر محیط ہے۔ نواز شریف 25 دسمبر، 1949 کو، لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں شریف صنعت کار تھے، جو 1947 میں امرت سر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ قانون میں داخلہ لینے سے قبل انہوں نے سینٹ انتھونی ہائی اسکول اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار ''اتفاق ہاؤس'' سے منسلک ہوگئے۔ نواز شریف کے سیاسی سفر کا آغاز 1980 کی دہائی میں تب شروع ہوا، جب انہوں نے پنجاب حکومت میں بطور وزیر خزانہ شمولیت اختیار کی۔ بطور وزیر خزانہ انہوں نے ایسی معاشی پالیسیاں متعارف کرائیں اور ان کا نفاذ کیا جن سے صوبے کی مالی خوش حالی میں اضافہ ہوا۔ 1985کے انتخابات کے بعد وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ انہیں جنرل ضیاء الحق کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں انہوں نے اکثریت حاصل کی اور مسلسل دوسری بار اس عہدے پر فائز ہوئے۔

نومبر1990 میں وہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اسمبلی سے شریعت بل منظور کیا گیا، جس کا مقصد قرآن و سنت کو ملک کا قانون بنانا تھا۔ ان کے بنا ئے ہو ئے ورکنگ گروپ نے شریعت کورٹ کے قیام، اسلامی تعلیمات شامل کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی، نیز ذرائع ابلاغ پر سخت ترین سینسر شپ کے نفاذ کی سفارشات پیش کی تھیں۔ نوازشریف نے متعدد سرکاری اداروں کو نج کاری کی لیے پیش کیا۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم نے ان پر ترقیاتی منصوبوں اور صنعت کاری میں سندھ اور بلوچستان کو نظر انداز کرنے کے الزامات عاید کر کے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف کو پہلی بار1993 میں اس وقت ایوان اقتدار سے باہر نکلنا پڑا، جب ان کے صدر غلام اسحاق خان سے تعلقات نہایت کشیدہ صورت اختیار کرگئے ۔

1997 میں نوازشریف ایک بار پھر وزیراعظم بنے، جس کے بعد انہوں نے متعدد آئینی ترامیم کیں۔ ان میں سے بعض ترامیم ایسی تھیں جس کا مقصد اپنے دور حکومت میں 'اداروں کی مخالفت' کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس دور میں توہین عدالت کے نوٹس پر ان کا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ تنازعہ کھڑا ہوا اور بالآخر انہیں فارغ ہونا پڑا۔ یہ نوازشریف کا دوسرا دور حکومت تھا، جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے، جس کے چند روز بعد پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کردیے۔ اگرچہ ان دھماکوں کے نتیجے میں انہیں ملک گیر سطح پر خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، تاہم اسی دوران ان کا اپنے نئے منتخب کردہ آرمی چیف پرویز مشرف کے ساتھ کارگل کے معاملے پر تنازعہ ہوگیا، جو شدت اختیار کرتا چلا گیا ۔

12 اکتوبر1999 کو فوج نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ نوازشریف کو گرفتار کرکے ان پر ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا اور اپریل 2000 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنادی۔ بعد میں، ایک سعودی پرنس اور لبنانی وزیر اعظم رفیق حریری کی مداخلت سے پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا کہ وہ دس سال تک پاکستان نہیں آئیں گے، جس کی وہ تردید کرتے رہے، لیکن پھر پانچ سال کے بعد معاہدے کا اقرار کیا ہوا اور فوجی حکومت نے ان کی سزا معاف کرکے اہل خانہ سمیت سعودی عرب جلا وطن کردیا۔ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے تقریباً ایک ماہ بعد، نومبر2007 میں نواز شریف وطن واپس لوٹ آئے۔

2008 کے عام انتخابات کے نتیجے میں ان کی جماعت نے قومی اسمبلی کی ایک چوتھائی نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور وفاق اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کی۔ بعدازاں دونوں جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوگئے، جس کے بعد نوازشریف نے وفاق کی مخلوط اتحادی حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ 2013 کے عام انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز نے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد قائم کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں پہنچے تو ملک کو جدید اور ترقیاتی خطوط پر استوار کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری:

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 27 دسمبر 2007 کو اپنی والدہ اور پارٹی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔ وہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور صدر آصف علی زرداری کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری 21 ستمبر 1988 کو پیدا ہوئے ۔2007 میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے کرسٹن چرچ کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے جدید تاریخ اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے چند ماہ بعد ہی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا۔ پارٹی کی قیادت انہیں سونپ دی گئی۔ لیکن صدر زرداری پی پی پی کے معاملات میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔

2010 میں بلاول بھٹو زرداری نے آکسفورڈ سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔ تاہم وہ سیاسی منظر نامے پر 27 دسمبر 2012 کو ابھرے، جب انہوں نے اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر لاڑکانہ میں نہایت جذباتی تقریر کی۔ یہ ان کے سیاسی سفر کا آعاز اور ان کا پہلا سیاسی خطاب بھی تھا۔ مئی 2011 میں، زرداری قبیلے کے سربراہ حاکم علی زرداری جو بلاول کے دادا تھے کی وفات کے بعد انہیں زرداری قبیلے کا تمن دار بھی منتخب کرلیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری گھڑ سواری ، تیراکی نشانہ بازی کے دل دادہ ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بیرون ملک گزرا ہے۔ ان دنوں وہ پاکستانی سیاست کے انداز، الٹ پھیر، طور طریقوں اور جوڑ توڑ کو سمجھنے میں مصروف ہیں، جو ان کی سیاسی تربیت ہی کا حصہ ہے۔

سیاست اور پارٹی معاملات کو عملی طور پر نہایت قریب سے جاننے اور چلانے کے لیے بلاول اپنے والد اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کے سامنے اس وقت سب سے اہم چیلینج آنے والے انتخابات میں اپنی جماعت کی کارکردگی ہے۔ ان کی جماعت کرپشن کے شدید الزامات کی زد میں ہے۔ کم عمر بلاول اپنی جماعت کا دفاع کیسے کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ نوآموز بلاول، مسلم لیگ ق کے ساتھ آنے والے انتخابات کے دوران سیٹ ایڈجیسٹمنٹ سے متعلق مذاکرات میں بھی مصروف رہے ہیں۔ بلاول اپنی والدہ بینظیر بھٹو کے 'قتل' کرنے کا الزام پرویز مشرف پر عاید کر تے ہیں جوان د نوں پاکستان میں ہیں۔

2012 میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول نے عدلیہ کو بھٹو کے قتل کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے قوم سے معافی مانگنے کا کہا تھا، جس کا عدلیہ نے نو ٹس بھی لیا۔ ان کے پرستاروں نے ''بلاول بھٹو لورز آرگنائزیشن'' (بی ایل او) قائم کی ہے، جس کے پوسٹرز، بینزرز اور بل بورڈ کراچی کے مختلف مقامات پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا سیا سی مستقبل کیا ہوگا؟ اس کے لیے آنے والے وقت کا انتظار کرنا ہوگا ۔ مئی 2013 کے انتخابات بھی بلاول کی سیاسی بصیرت اور کارکردگی کا امتحان ہیں۔



فوٹو: فائل

الطاف حسین:

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین 17 ستمبر، 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نذیر حسین کا تعلق آگرہ سے تھا اور وہ تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوئے۔ الطاف حسین نے اپنی ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ فارمیسی سے 1979 میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ الطاف حسین کی سیاسی زندگی کا آغاز جامعہ کراچی سے ہوا ، جہاں وہ اور ان کے ساتھی طالب علم عظیم طارق نے مل کر آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی بنیاد رکھی۔

1978 میں تشکیل دی جانے والی اس تنظیم نے مختصر عرصے میں نہایت مقبولیت حاصل کرلی۔ اگرچہ 1980 تک یہ جامعہ کراچی میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی، تاہم 1981 میں منعقدہ طلبا تنظیموں کے انتخابات میں اے پی ایم ایس او نے دگنے ووٹ حاصل کیے، جس کا سبب ضیا مخالف یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کا ان کے ساتھ اشتراک عمل تھا۔ اس دوران، اے پی ایم ایس او کو جماعت اسلامی کے طلبا ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کی شدید مزاحمت و مخالفت کا بھی سامنا رہا۔ انھیں بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کو پاکستان لانے کے حق میں مظاہرہ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

1984 میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی بنیاد رکھی۔ مہاجر قومی موومنٹ کو بطور سیاسی جماعت اس کے قائد الطاف حسین نے 1986 میں، کراچی کے نشتر پارک میں منعقدہ ایک جلسہ عام میں متعارف کرایا۔ ایم کیو ایم نہایت تیزی سے کراچی اور اندرون سندھ کے شہری علاقوں میں مقبول ہوئی۔ ایم کیو ایم نے 1987کے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کام یابی حاصل کرکے سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا۔ بعدازاں 1988 کے انتخابات میں ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں مکمل کام یابی حاصل کی اور صوبے کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ ایم کیوایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ کیا اور حکومت میں شامل ہوگئی، لگے اور 1989 میں ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی۔

1990کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم ایک بار پھر صوبے کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اس مرتبہ، اس نے اس وقت کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کیا۔ مخلوط حکومت کی یہ شراکت داری 1992 میں ٹوٹ گئی۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ نون، الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی حمایت ختم ہونے کے بعد، دونوں کی حکومتیں ختم ہونے کے دہانے تک پہنچ چکی تھیں۔ الطاف حسین کی جماعت نے 1993 میں بطور احتجاج قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تاہم صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے پر رضامند ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ کراچی کی طاقت ور جماعت بن کر سامنے آئی۔

1997میں جماعت کا نام مہاجر قومی موومنٹ سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا۔

1990 میں ایم کیو ایم نے بے نظیر دور حکومت میں بد ترین ریاستی آپریشن کا سامنا کیا۔ اپنے کارکنان کے اصرار پر الطاف حسین لندن چلے گئے اور جلاوطنی اختیار کرلی۔ کہا یہ گیا کہ کراچی آپریشن ''دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد'' کے خلاف ہے تاہم ایم کیو ایم کے خلاف نہایت سخت کارروائیاں کی گئیں، جس کے باعث کراچی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایم کیو ایم کے درمیان محاذ جنگ کی صورت اختیار کرگیا۔ اس پُرتشد دور میں خود الطاف حسین کے بڑے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین بھی قتل ہوئے۔ لندن میں جلاوطن رہ کر کراچی سے اپنی جماعت کو کنٹرول والے قائد کا کہنا ہے کہ اگر انہیں آنے والے انتخابات میں موقع ملا تو وہ پاکستان کو مساوات پر مبنی نظام دیں گے۔

وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ خواتین کی تقدیر بدل دیں گے اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کی حالات بہتر بنانے کے اقدامات کریں گے۔ ایم کیو ایم کے قائد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں حکومت کی ناکامی پر، سندھ کی تقسیم کا رد عمل ظاہر کرنے پر بھی خبروں میں چھائے رہے۔ ان کے بیان کو بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ دسمبر، 2012میں عدلیہ کے خلاف بعض کلمات ادا کرنے پر الطاف حسین کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری ہوا۔ بعد ازاں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ سے اپنے کلمات پر غیر مشروط معافی مانگی جو قبول کرلی گئی۔

الطاف حسین کو کئی اعتبار سے پاکستانی سیاست میں منفرد مقام حاصل ہے۔ متوسط طبقے فرد کی حیثیت سے ان کا نمایاں سیاست داں کے طور پر ابھرنا، کسی بھی منصب کے انتخاب میں خود بہ طور امیدوار پیش نہ ہونا، طویل جلاوطنی کے باوجود اپنی جماعت کی قیادت اور اس پر مضبوط گرفت، ٹیلیفونک خطاب کے ذریعے عوام اور کارکنان سے رابطے، جیسی خصوصیات انھیں پاکستانی سیاست دانوں میں منفرد مقام عطا کرتی ہیں۔

عمران خان:

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان25 نومبر 1952کو پیدا ہوئے۔ عمران خان نے 16 برس کی عمر میں، 1969 کے دوران عالمی کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ ان کے کھیل کا سفر مختلف کام یابیوں سے ہوتا ہوا، 1992 میں بطور کپتان پاکستان کو ورلڈکپ جتوانے کے عروج تک پہنچا۔ انہوں نے ورلڈ کپ جیت کر پاکستانی عوام کے دل جیت لیے۔ عمران خان کی والدہ کینسر جیسے موذی بیماری کا شکار ہوکر چل بسیں۔ اس واقعے نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا اور انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی تعمیر شروع کی اور اسے تکمیل تک پہنچایا۔ یہ اسپتال کینسر کے مریضوں کے علاج کے بین الاقوامی معیار کی سہولتوں سے آراستہ اور نادار مریضوں کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔

شوکت خانم کینسر اسپتال کے قیام سے عمران خان ملک اور بیرون ملک میں درد مند انسان اور سماجی کارکن بن کر ابھرے۔ عمران خان نے نمل یونی ورسٹی بناکر اک اور روشن باب رقم کیا۔ باصلاحیت اور کھلنڈرے نوجوان ''پلے بوائے'' کے نام سے مشہور عمران خان کی ملاقات ایک روحانی شخصیت میاں بشیر سے ہوئی اور ان کی زندگی کا رخ بدل گیا ۔ عمران نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ عمران خان نے جمائما خان سے شادی کی جو 2004 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ ان کے دو بیٹے سلیمان اور قاسم ہیں۔ 1996 میں سابق کپتان نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی، لیکن سیاست میں نوزائیدہ ہونے کی وجہ سے 1997 کے عام انتخابات میں ان کی کارکردگی صفر رہی۔

2002 میں عمران خان پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے 2011 سے ان کے سیاسی قد کاٹھ اور مقام میں نہایت نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان نے جنرل پرویز مشرف اور ان کے ریفرنڈم کی حمایت کی پرویز مشرف نے انہیں وزارت عظمی کی پیشکش بھی کی لیکن ان کے خیالات بدل چکے تھے۔ پرویز مشرف کی حمایت کو انہوں نے ہمیشہ اپنی سیاسی ناسمجھی قرار دیا ہے۔ مشرف کی لگائی گئی ایمرجینسی کے خلاف عمران خان نے سخت موقف اختیار کیا، اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ عمران خان نے 2008کے انتخابات کا یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کیا کہ وہ منصفانہ نہیں ہوں گے۔ اکتوبر 2011 میں عمران خان کی جماعت ایک نئی سیاسی قوت بن کر لاہور میں ایک جلسے کی صورت میں سامنے آئی، جس میں لاکھوں کا مجمع تھا۔ اس حیران کن جلسے نے مخالفین کو دم بخود کردیا۔ اپنے پورے سیاسی سفر کے دوران عمران خان نے مختلف مسائل کے حوالے سے ٹھوس موقف اختیار کیا۔ انہوں نے ڈرون حملوں، فاٹا میں فوجی آپریشن، غیرملکی امداد اور کرپشن کی سخت مخالفت کی۔ وہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے اور ٹیکس نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں۔

2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک ایسے طاقت ور فریق کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو دو مضبوط سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے سخت خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی اصل قوت نو جوان ہیں۔

اسفند یار ولی:

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خیبر پختونخوا کے علاقے چارسدہ کے قصبے شاہی باغ میں19 فروری، 1949 کو پیدا ہوئے۔ وہ معروف سیاست داں اور پختون قوم پرست خان عبدالولی خان کے فرزند اور خان عبدالؑغفار خان جنہیں سرحدی گاندھی بھی کہا جا تا تھا کے پوتے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم جیسس اینڈ میری کانونٹ اور ایچی سن کالج لاہور اور پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اسفند یار ولی اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ایوب آمریت کے دوران ایک کارکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن بھی رہے۔

بعدازاں انہوں نے ایوب خان کے جان نشیں جنرل یحییٰ خان کی مخالفت کی، جنہوں نے1969 میں اقتدار سنبھال کر ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے ساتھ، پی ایس ایف سمیت تمام سیاسی تنظیموں پر پابندی عاید کردی تھی۔ ان کے والد نیشنل عوامی پارٹی کے بانیوں میں تھے، جنہوں نے مختلف حکم رانوں کے دور میں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ 1975میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ پر پابندی لگادی، جس کے بعد ان کے والد خان عبدالولی خان نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کرلی۔

اسفند یار ولی کو گرفتار کر لیا گیا۔ وہ 1988 میں دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ جیل سے رہا ہوئے اور این ڈی پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1988 میں این ڈی پی اور بعض دیگر چھوٹی جماعتوں کے انضمام سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) قائم کی گئی۔ ولی خان خاندان نے جنرل ضیا کی آمریت کے خاتمے کے لیے کئی برس تک چلنے والی ''تحریک بحالی جمہوریت'' میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ ان کے پارلیمانی سیاست کے دور کا آغاز1990 سے ہوا، جب وہ پہلی بار سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1993 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1997کے انتخابات میں بھی وہ ایک نشست پر کام یاب ہوئے۔

2003 میں۔ چھ سالہ مدت کے لیے وہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008کے انتخابات میں وہ تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008 کے انتخابات میں ان کی زیر قیادت اے این پی نے قابل ذکر کام یابی حاصل کی۔ وہ چارسدہ 1 کے حلقے این ا ے ۔ 7 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کی قیادت میں اے این پی کو صوبائی سطح پر اتنی نشستیں حاصل ہوئیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت تشکیل دینے میں کام یاب ہوگئے۔ پختون قوم پرست ہونے کے ناتے وہ ہمیشہ صوبائی خود مختاری کی جدو جہد کرتے رہے۔ انہوں نے صوبے کا نام شمالی مغربی صوبہ سرحد سے تبدیل کرکے پختون خوا رکھنے کے لیے طویل جدو جہد کی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے 2009 کے دوران سوات میں کیے گئے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔

وہ کالا باغ ڈیم کے سخت ناقدین میں شما ر کیے جا تے ہیں۔2008 تا 2013 اسفند یار ولی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین بھی رہے۔ اسفند یار ولی پہلی بار 1999 میں اے این پی کے قائد منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے پارٹی سربراہ کے لیے ہونے والے تمام انتخابات میں وہی بدستور منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اے این پی کے داخلی معاملات پر مضبوط گرفت رکھنے والے اسفند یار ولی نے ابھی حال تک قائم رہنے والی مخلوط حکومت میں بطور اتحادی جماعت، پاکستان پیپلزپارٹی اور صدر آصف علی زرداری کی کھل کر حمایت کی۔

ان کی جماعت کا فلسفہ اور نظریات کی بنیاد لبرل ازم، صوبائی خود مختاری اور پختون قوم پرستی پر استوار ہیں۔ تاہم گذشتہ8 برسوں کے دوران، اسفند یار ولی نے اسے دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کی مخالفت تک توسیع دی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں نے اے این پی کے سر کردہ راہ نماؤں پر جاں لیوا حملے کیے۔ جن میں اعلیٰ قیادت جا ں بحق ہوئی۔ خود اسفند یار ولی خود کش حملے میں بال بال بچے۔ ان کی ہمشیرہ اور معروف سرجن ڈاکٹر گلا لئے، اگست2010 میں پشاور میں کیے گئے قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئی تھیں۔



فوٹو: فائل

مولانا فضل الرحمان:

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے والد مفتی محمود کے سیاسی جانشیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان 19جون 1953 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ ان کی عمر ستائیس برس تھی جب انہوں نے اپنی جماعت کی قیادت سنبھالی۔ وہ 1980 سے بدستور اپنی جماعت کے امیر ہیں۔

مولانا فضل الرحمان چار بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں: 1988، 1993، 2002 اور 2008 کے انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ 1990 اور1999 میں، قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابات ہار گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان معاملہ فہم سیاست داں کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ سیاسی جوڑ توڑ میں مہا رت رکھتے ہیں۔ اکثر ان کے نظریاتی موقف اور سیاسی اتحادوں کے درمیان نمایاں فرق موجود رہا ہے۔ جے یو آئی (ف) تاریخی اور نظریاتی طور پر ملک میں نفاذ شریعت کی حامی اور دعوے دار ہے۔ اس کے باوجود وہ مختلف سیکولر جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحادوں میں بھی شامل رہی ہے۔

1988 کے عام انتخابات کے جے یو آئی نے وفاق کی حامی پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ تاہم ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان افغان طالبان سے بھی مراسم استوار کرتے رہے۔ یہ وہ رابطہ ہے جو پاکستانی سیاست میں ان کے طاقت ور ہونے کی بنیاد ہے۔ حقیقت میں افغان طالبان مہاجر کیمپوں میں ایام بسر کرنے کے دوران، دینی مدارس میں مذہب کی تعلیم حاصل کرتے رہے تھے، جن میں سے پاکستان کے شمال مغرب اور بلوچستان میں چلنے والے بعض مدارس کا انتظام مولانا فضل کی جے یو آئی چلاتی رہی ہے۔

جے یو آئی ف کے سربراہ زیادہ طاقت ور شخصیت کے طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے حکومت میں اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب انہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنایا گیا۔ انہوں نے 2002کے انتخابات میں، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پلیٹ فارم سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔2002کے عام انتخابات کے بعد انھوں نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر میرظفراﷲ جمالی کا مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔

2008 کے عام انتخابات میں مولانا اور ان کی جماعت تین مضبوط اور وسیع نظریات، امریکی مخالفت، افغان طالبان کی حمایت اور پاکستان میں نفاذ شریعت، کا ایجینڈا لے کر آئی۔ بعدازاں مولانا فضل الرحمان نے اپنا رخ تبدیل کیا۔ انہوں نے طالبان سے دوری اختیار کی، عوامی سطح پر خود کو روشن خیال کے طور پر پیش کیا اور ایم ایم اے کی مخالفت کے باوجود جے یو آئی ف کے تحت حکومت میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد ایم ایم اے بھی غیر فعال ہو کر رہ گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں وفاق کی مخلوط حکومت میں شامل ہونے والی جے یو آئی (ف) بعدازاں حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے اپوزیشن میں شامل ہو گئی۔ طالبان سے دوری اختیار کرنے کے بعد مولانا اور طالبان میں فا صلے پیدا ہو ئے اور نو بت یہاں تک پہنچی کہ طالبان نے ان پر قاتلانہ حملے کیے۔ ان حملوں میں وہ بال بال بچے۔ اب بظاہر لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر پرانے دو ستوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین:

مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین 27جنوری 1946کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ وہ چوہدری ظہور الہی کے فرزند ہیں۔ انہوں نے کرسچیئن کالج لاہور اور لندن سے انڈسڑیل مینجمنیٹ کی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت تک ان کے والد چوہدری ظہور الہٰی ایک دولت مند صنعت کار اور معروف سیاست داں بن چکے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین کا خاندان ٹیکسٹائل، شکر، فلور ملز کی صنعت کے ساتھ زراعت سے بھی وابستہ ہے۔ انہوں نے1981 میں اپنے والد کے قتل کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔ وہ جنرل ضیاالحق کی مجلس شوریٰ میں شامل ہوئے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں کام یابی کے بعد وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر شامل ہوئے۔ وہ 1985، 1988، 1997 اور 2002 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے پاس وفاقی وزیر داخلہ، اطلاعات و نشریات، پیداوار اور صنعتوں کی وزارتیں رہی ہیں۔ مسلم لیگ۔ ق کی تشکیل سے پہلے وہ مسلم لیگ نواز کا حصہ تھے، جو 1988 اور 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی ایک اہم جماعت تھی۔

میر ظفر اللہ جمالی کی وزارت عظمیٰ سے سبک دوشی کے بعد، چوہدری شجاعت حسین مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم پاکستان بھی رہے ۔ پرویز مشرف کے دورحکم رانی میں چوہدری شجاعت حسین ''بادشاہ گر پارٹی'' کے سربراہ کے طور پر طاقت ور سیاست داں رہے۔ اگست 2006 میں وہ اکبر بگٹی سے مذاکرات کرتے رہے۔ بعد میں انہیں 2007 میں، آپریشن شروع کرنے سے قبل لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ سے بھی مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ۔ ق، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی کے ساتھ سیاسی منظر نامے پر موجود ہے۔ چوہدری شجاعت حسین جنرل ضیا الحق کے ساتھیوں میں رہے اور پرویز مشرف کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دیا۔ وہ تجربہ کار سیاست داں اسٹیٹس کو کے حامی اور نظریات کو ایک طرف رکھ کر معاملہ فہمی پر توجہ مرکوز رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ 2008 تا 2013پر مشتمل پارلیمنٹ کے دور کا ایک بڑا حصہ انہوں نے پی پی پی کی حمایت اور پھر اس کی مخلوط حکومت میں شمولیت کے ساتھ گزارا۔ چوہدری شجاعت اس وقت سینیٹ کے رکن ہیں۔ انتخابات کے قریب آتے ہی بنتے ٹوٹتے سیاسی انتخابی اتحاد میں چوہدری شجاعت مرکز نگاہ ہیں۔

سید منور حسن:

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن5 اگست1944 کو نئی دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کراچی یونی ورسٹی سے سوشیالوجی اور اسلامک اسٹدیز میں ماسٹرز کی اسناد حاصل کیں ۔ وہ زمانۂ طالب علمی میں مارکسی نظریات کی حامل طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کے نظریات میں تبدیلی اس وقت آئی جب انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک نظریاتی کارکن کو این ایس ایف میں لانے کا ٹاسک دیا گیا ، لیکن منور حسن جمعیت کے نظریات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی ۔ وہ تین سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے ہیں۔1967 میں انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔

منور حسن نے اپنی جماعت میں کئی اہم اور ذمے دار مناصب پر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ جماعت کے امیر کراچی کے علاوہ مرکزی شوریٰ اور مجلس عاملہ کے بھی رکن رہے ہیں۔ مارچ 1977 میں قومی اسمبلی کے بھی وہ رکن رہے۔ ان کی اہلیہ عائشہ منور جماعت اسلامی شعبۂ خواتین کی جنرل سیکریٹری رہی ہیں۔ انہیں 2009 میں جماعت کا مرکزی امیر منتخب کیا گیا۔ ان کے مقابلے میں لیاقت بلوچ اور سراج الحق تھے۔ وہ لاہور میں جماعت کے صدر دفتر منصورہ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں۔ وہ کشمیر پر پاکستانی پالیسی کے سخت ناقد ہیں۔ منور حسن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بھی سخت حامی ہیں۔ عافیہ صدیقی کی سزا، ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحالی پر وہ نہایت سخت لب و لہجے میں تنقید کرتے ہیں۔ سید منور حسن شعلہ بیاں خطیب بھی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں