انتخابات سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے
الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دینا ای سی پی کی نادانی ہے۔
کراچی میں واقع اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا۔۔۔ صحافتی سفر کی کئی یادیں جُڑی ہیں اِس مقام سے۔
یہیں پروفیسر غفور احمد مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی، اِسی مقام پر عائشہ منور صاحبہ کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا، اور یہیں جنوری 2011 کی ایک خوش گوار صبح امیرجماعت اسلامی، سید منور حسن سے طویل مکالمہ ہوا۔ آج وہ پھر روبرو ہیں، مگر اِس بار سوالات خاصے مختلف ہیں کہ گذشتہ ملاقات میں موضوع اُن کا سفر زندگی تھا، اور اِس بار حالیہ انتخابات!
بات الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے شروع ہوئی۔ جن فیصلوں سے اختلاف تھا، منور صاحب نے اُن پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ پھر انتخابات موضوع بن گئے۔ طریقۂ انتخاب میں، اُن کے نزدیک جو سُقم ہیں، اُن کی نشان دہی کرتے ہوئے الیکشن کو ہر معاملے میں میزبان بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی، ووٹرز کے عمومی رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب سوال کیا گیا کہ اگر جماعت طریقۂ انتخاب سے مطمئن نہیں، پھر اُس کی سیاسی جدوجہد کا مقصد کیا ہے؟ تو گفت گو نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔
بات چیت آگے بڑھی تو دیگر جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمینٹ نہ ہونے کے اسباب زیر بحث آئے۔ بلوچستان کے سُلگتے ہوئے مسئلے پر اُنھوں نے اپنی بے لاگ رائے دی۔ ایم ایم اے کی بحالی پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے طریقۂ کار پر اعتراض اٹھایا۔ دس جماعتی پلیٹ فورم بھی موضوع بنایا۔ کراچی کی سیاست پر بات ہوئی، تو ایم کیو ایم کا ذکر نکل آیا، جسے سیاسی جماعت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنا پرانا موقف دہرایا۔ مقتدرہ حلقوں کے کردار پر بات کی۔ عندیہ دیا کہ اِس بار ایم کیو ایم کو توقع سے خاصے کم ووٹ پڑیں گے۔
2013 کے انتخابات میں وہ خود کھڑے نہیں ہورہے، جس کا سبب وہ امیرجماعت کی حیثیت سے اپنی مصروفیات کو قرار دیتے ہیں۔ جماعت اِس بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں حاصل کرے گی، اِس بابت رائے دینا وہ قبل ازوقت خیال کرتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے لیے ہونے والا امیر جماعت اسلامی کا تفصیلی انٹرویو قارئین کے پیش خدمت ہے:
ایکسپریس: آپ کی پارٹی کے نام میں لفظ ''اسلامی'' شامل ہے، منشور بھی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے، مگر اب الیکشن کمیشن نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں جماعت کی انتخابی مہم کیا رخ اختیار کرے گی؟
منور حسن: کیا الیکشن کمیشن نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سے بھی ''اسلامی'' نکال دیا ہے؟ فخر الدین جی ابراہیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں، اگر یہ اصلاح کا کام ہے، تو اُنھیں آغاز وہاں سے کرنا چاہیے۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دینا الیکشن کمیشن کی نادانی ہے۔ میرے خیال میں اُنھیں تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لوگوں نے آخر کس بات کے لیے قربانیاں دی تھیں؟ یہ بڑی لاعلمی اور ناواقفیت کی بات اُن سے سرزد ہوئی ہے، اِس سے رجوع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اسلام کے علاوہ کوئی شے نہیں، جس کی بات کی جائے۔ آئین کے مطابق تو سیکولرازم، لبرل ازم، کیپیٹل ازم اور سوشل ازم غیرقانونی اور غیرآئینی ہیں۔ اسلام کا نام لینا تو عین آئینی، عین قانونی ہے۔
ایکسپریس: آپ کے دلائل سے انکار نہیں، مگر الیکشن کمیشن فیصلہ صادر کر چکا ہے۔ کیا اِس فیصلے کے پیش نظر جماعت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
منور حسن: ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اُنھیں ہی اپنی کہی ہوئی بات واپس لینی ہوگی۔ اُنھوں نے جس آئین کے تحت 62,63 کا اطلاق شروع کیا تھا، اُسی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ جعلی ڈگری والوں کو، جو پہلے ایک حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے، اب اُنھیں دو حلقوں سے لڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ تو الیکشن کمیشن کو اپنے رویوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں آئین کی خلاف ورزی الیکشن کمیشن سے سرزد ہوئی ہے، اِس کی جتنی جلدی اصلاح کر لیں، اتنا ہی بہتر ہے۔
ایکسپریس: آپ اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پھر کیا سبب ہے کہ جماعت کبھی انتخابات میں واضح کام یابی حاصل نہیں کرسکی؟
منور حسن: ابھی ہم یہی بات کر رہے تھے کہ ہمارے لوگ اصلی ڈگری والوں کو الیکشن ہروا دیتے ہیں، جعلی ڈگری والوں کو جتوا دیتے ہیں۔ جمشید دستی کی مثال سامنے ہے۔ لوگوں کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے احتساب ہوتا ہے، مگر یہاں تو چوروں کی چوری میں اضافہ ہوتا ہے۔ آصف زرداری جیت جائیں گے، دوسرا آدمی ہار جائے گا۔ اِس کا مطلب ہے، لوگ کرپشن کو پسند کرتے ہیں۔
ایکسپریس: مگر جماعت اسلامی اِسی نظام میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کر رہی ہے، اگر انتخابی عمل کرپٹ افراد کو سسٹم سے باہر نہیں کر رہا، تو کیا یہ مشقِ لاحاصل ہے؟
منور حسن: انتخابی عمل کا لاحاصل ہونا یا سودمند ہونا الگ موضوع ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کو ہر شے کی کسوٹی نہیں بنایا جاسکتا۔ میزبان نہیں بنایا جاسکتا۔ ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام ہے۔ ظالم کے ظلم سے بچنے کا خواہش مند بھی ظالم ہی کو ووٹ دیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں لوگ دبے ہوئے ہوں، الیکشن کے نتیجے میں جو لوگ سامنے آتے ہیں، اُنھیں عوام کے حقیقی نمایندے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تقسیم کے بعد بھارت نے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا۔ پاکستان میں ایک سے زاید بار یہ کوشش ہوئی، مگر یہ کوششیں نمایشی تھیں۔ جب تک جاگیردارانہ نظام ہے، انتخابات کے نتیجے میں ظالم برسراقتدار آتے رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی گذشتہ 65 برس میں، انتخابی دائرے میں، کارکردگی نہیں دِکھا سکی، میں کہتا ہوں کہ اِسی وجہ سے تو یہاں منہگائی، بے روزگاری اور لادینیت ہے۔ جن افراد کو عوام منتخب کرتے ہیں، وہ امریکی غلام ہیں۔ لوگوں کو قرضوں میں جکڑتے ہیں۔ تو جماعت اسلامی کے نہ آنے سے پاکستان کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اب 62,63 کا اطلاق ہوا ہے، تو لوگ چیخ پڑے۔ جب اطلاق نہیں ہو رہا تھا، تب خاموش تھے، حالاں کہ تب بھی یہ دستور کا حصہ تھا۔ تو موجودہ صورت حال اور طریقۂ انتخاب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ جماعت کے پاس ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ اِن ہی انتخابات کو استعمال کرے، نتائج بہتر سے بہتر بنائے، مگر یہ نظری بات ہے۔ عملی سطح پر ممکن ہے کہ دھیرے دھیرے بہتری آئے، مگر رفتار اتنی سست ہوگی کہ ''خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' والا معاملہ ہے۔
ایکسپریس: تو کیا جماعت اپنی حکمت علمی میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس کرتی ہے؟
منور حسن: میرے نزدیک یہ انتخابات ایک زاویے سے آخری انتخابات ہیں۔ اگر اِس سے وہ تبدیلی نہیں آتی، جس کے لوگ خواہاں ہیں، تو وہ دوسرے راستوں پر چل پڑیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں انارکی پھیلے، عدم استحکام پیدا ہو، مگر سیاسی جماعتیں تو اِس طرح کے طوفان کو روکنے کی قوت نہیں رکھتیں۔ ہمارے ہاں بھی، خصوصاً نوجوانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ہمارا سسٹم چوروں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے، اور ملک دشمنوں کو اقتدار دیتا ہے۔
ایکسپریس: کیا انارکی کا اندیشہ ہے؟
منور حسن: میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہییں۔ توقعات، اہداف کچھ حد تک تو پورے ہوں۔ اگر الیکشن سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئی، تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے، جن پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔ یہ لوگوں اپنی تقدیر خود بنانے کی کوشش کریں گے، اور ایک نئی جدوجہد جنم لے گی۔
ایکسپریس: اگر کسی شخص پر کرپشن کے الزامات ہوں، وہ ٹیکس چور ہو، تو کیا اُسے اِس بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ اُسے دعائے قنوت یاد ہے، نوافل کی تفصیلات کا علم ہے؟
منور حسن: (مسکراتے ہوئے) دیکھیں، پہلی مرتبہ 62,63 کا اطلاق ہوا ہے، اور اِس عمل میں ریٹرننگ آفیسرز نے جا بہ جا غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جو شخص چور ہے، اُسے تو ویسے ہی ڈس کوالیفائی کر دینا چاہیے، مگر ہلکے پھلکے سوالات کر کے اُسے سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ تو بے شک ریٹرننگ آفیسرز نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں، مگر اصل شور تو لبرل اور سیکولر لابی نے مچایا ہے۔ خیر الیکشن کمیشن نے ایک سنجیدہ معاملے کو غیرسنجیدہ بنا دیا۔ اگر 'ہوم ورک' کیا جاتا، تو واقعی چھلنیاں لگ جاتیں۔ اب بات ہورہی ہے کہ نئی پارلیمنٹ آتے ہی سب سے پہلے 62,63 کو آئین سے نکالے۔ پارلیمنٹ ہی نے تو اِسے تحفظ دیا ہے۔ ماضی میں جو آئینی کمیٹی بنی تھی، اُس کے ارکان اس بات کا بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ 62,63 کو نکالنے کا خیال سامنے آیا تھا، مگر سب کی متفقہ رائے تھی کہ اگر ایسا کیا گیا، تو ملک میں طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آرٹیکل 62,63 کو مستقبل میں بھی عوام کی تائید حاصل رہے گی، اور چور اِس کے مخالفت جاری رکھیں گے۔
ایکسپریس: 2008 میں منتخب ہونے والی حکومت نے پانچ برس پورے کیے۔ آج اُن انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
منور حسن: حالات نے بائیکاٹ کے فیصلے کو ثابت کیا۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں جو الیکشن ہوں گے، اُس میں جیتنے والے بھی مشرف کی پالیسیاں جاری رکھیں گے۔ اِسی لیے پہلے پرویز مشرف سے نجات حاصل کی جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ این آر او کے ذریعے حکومت برسراقتدار آئی۔ ڈرون حملے، خود کش حملے جاری رہے۔ غربت بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ یعنی ہمارا وہ فیصلہ بالکل درست تھا، لیکن تمام پارٹیوں نے اس پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے سسٹم کو نقصان پہنچا۔
ایکسپریس: اِس فیصلے کے لیے 2002 کے انتخابات کیوں ساز گار نہیں تھے؟
منور حسن: اُس وقت تو مقصد پرویز مشرف کی وردی اتروانا تھا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ الیکشن سے پرویز مشرف کی گرفت ڈھیلی پڑے گی۔ دیکھیں، ہائی جیکر سے جہاز چھڑانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ وقتی طور پر اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
ایکسپریس: جس شخص کی وجہ سے آپ نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، وہ اِس وقت پاکستان میں ہے۔ کیا جماعت اسلامی پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے؟
منور حسن: پہلا کام تو جماعت ہی نے کیا کہ این اے 250 سے پرویزمشرف کے کاغذات مسترد کروا دیے۔ ہمارے ہی وکلا ہیں سارے۔ توفیق آصف ، جو پنڈی بار کے سابق صدر ہیں، ہماری جماعت کے رکن ہیں۔ اُنھوں نے سب سے پہلے کیس دائر کیا تھا۔ تو پہلے بھی ہم یہ کام کرتے رہے ہیں، انشا اﷲ آگے بھی یہ کام کرتے رہیں گے۔
ایکسپریس: کیا مشرف کو محفوظ راستہ دینے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
منور حسن: ایک بار اِس عمل کو شروع ہونے دیں۔ پہلے یہ بات ہوگی کہ پرویز مشرف نے ایمرجینسی لگاکر آئین توڑا، پھر بات 99ء تک بات جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ لوگ کہیں کہ اِس سے پہلے بھی تو پرویز مشرف آتے رہے ہیں، ضیا الحق کے نام سے، یحییٰ خان کے نام سے۔ میرے خیال میں اِس بحث کے آغاز میں کوئی حرج نہیں۔ بات دُور جاتی ہے، تو جانے دیں۔ اِس کے نتیجے میں پرویز مشرف بھی 'ایکسپوز' ہوگا، اور ملک میں من مانے فیصلہ کروانے والی اسٹیبلشمنٹ بھی عیاں ہوجائے گی۔ اگر کسی کے نزدیک یہ پنڈورا بکس ہے، تب بھی اِسے کھولنا چاہیے۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی کا دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ کا موضوع کئی دنوں زیربحث رہا، اعلانات بھی ہوئے، مگر پھر آپ نے بیان دے دیا کہ یہ باب بند ہوگیا ہے؟
منور حسن: پشاور اور لاہور میں سیٹ ایڈجسٹمینٹ کے حوالے سے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف سے بات ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ چھے نشستیں ہوئیں۔ کمیٹی بنی تھی۔ اور طے ہوا تھا کہ کمیٹی فارمولا بنائے گی، پھر دونوں فریق اپنی جماعت کے سربراہاں سے بات کریں گے، اُن کی منظوری کے بعد فارمولا پاس ہوجائے گا۔ اِس مرحلے سے پہلے مسلم لیگ والوں نے یہ کہا کہ ہم اپنی لیڈر شپ سے بات کرلیتے ہیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد اُنھوں نے یہی بات کی کہ ہم معذرت خواہ ہیں، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ مذاکرات کو جاری رکھیں۔ یوں دوستانہ انداز میں یہ معاملہ ختم ہوگیا۔
ایکسپریس: سبب کیا رہا؟
منور حسن: ہم نے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے 'پروپوزل' پارٹی ہیڈ کے سامنے رکھا ہوگا، اور اُسے منظور نہیں کیا گیا ہوگا۔
ایکسپریس: تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟
منور حسن: چھے آدمیوں کی کمیٹی تو بن گئی تھی، مگر تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات حقیقی معنوں میں شروع نہیں ہوئے۔ بار بار کی کوششوں کے باوجود پہلی نشست ہی نہیں ہوسکی۔ میرے خیال میں اُن کے ہاں نیچے سے بہت زیادہ سفارشات آگئی ہوں گی، جس کی وجہ سے اُن کے گھر ہی میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ تو اپنی پارٹی کی سفارشات دیکھتے ہوئے اُن کے لیے شاید ممکن نہیں رہا کہ بات آگے بڑھے۔ جے یو آئے ف کے ساتھ مذاکرات آگے تک گئے تھے۔ اُن ہی کی تجویز پر یہ طے ہوا کہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں بیٹھ جائیں، جنھیں فیصلے کا اختیار دے دیا جائے۔ ہم نے تو یہ کام کر لیا۔ مگر ہمارے ضلعے والوں نے رپورٹ دی کہ اُن کے طرف سے کسی کو ایسی ہدایات نہیں ملی ہیں، نہ ہی کوئی بات کرنے کو تیار ہے۔ یوں معاملہ ازخود ختم ہوگیا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی سندھ میں قائم ہونے والے دس جماعتی اتحاد میں شامل ہے۔ کیا یہ اتحاد سندھ کی انتخابی سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکے گا؟
منور حسن: اِسے اتحاد نہیں، پلیٹ فورم کہنا چاہیے۔ تجزیہ یہی ہے کہ کچھ فرق ضرور پڑے گا۔ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ نہ صرف پیپلزپارٹی سے ناراض ہیں، بلکہ اُس کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں، جو پارٹی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اِس صورت حال کو پیر صاحب پگارا اور جتوئی صاحب کی پارٹیاں 'اِن کیش' کر سکیں، تو واضح فرق پڑ جائے گا۔ جہاں تک شہری علاقوں کا تعلق ہے، ایم کیو ایم کے لوگ روز پریس کانفرنس کر رہے ہیں، بُجھے بُجھے سے نظر آتے ہیں، شاید وہ خود کو اُس مقام پر نہیں پاتے، جہاں وہ ماضی میں دیکھتے تھے۔ میرے خیال میں یہ عمل اُن کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے، جس سے دس جماعتی پلیٹ فورم کا موثر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو پچیس لاکھ ووٹ ملے تھے، کم از کم دس لاکھ ووٹ تو اِس بار گھٹ جائیں گے۔
ایکسپریس: 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے کئی سیٹوں پر کام یابی حاصل کی، اِس تجربے کو اِس بار نہ دہرانے کا کیا سبب ہے؟
منور حسن: 2002 کے بعد پہلے تو 2008 آتا ہے۔ یہ تجربہ اُس وقت بھی نہیں دہرایا گیا۔ اور اگر دہرایا گیا، تو بہت ہی نامعقول طریقے سے۔ مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کے نام ہی پر الیکشن میں حصہ لیا، ایم ایم اے کا 'سمبل' استعمال کیا، جس کے وہ مجاز نہیں تھے، کیوں کہ ایم ایم اے کی کچھ پارٹیاں تو اے پی ڈیم ایم کے زیر اثر تھیں، اور بائیکاٹ کی طرف ان کا رجحان تھا۔ اُن انتخابات میں مولانا نے ایم ایم اے کا نام استعمال کرکے غیراخلاقی کام کیا۔ 2008 میں ایم ایم اے عملاً ٹوٹ گئی تھی،کافی عرصے تک اِسے بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 2013 میں اِس کی بحالی کی امید پیدا ہوئی، مگر اس بار مولانا فضل الرحمان نے یک طرفہ طور پر ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کردیا۔ اور کہہ دیا کہ جماعت اسلامی کے بغیر اِسے بحال کیا ہے، اگر جماعت درخواست دے گی، تو اس پر ہم دردانہ غور کریں گے۔ میں نے تو اسی وقت یہ بات کہہ دی تھی کہ ہم مولانا کو یہ زحمت نہیں دیں گے کہ اُنھیں ہم دردانہ غور کرنا پڑے۔
ایکسپریس: کچھ برس قبل آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں دایاں اور بایاں بازو فوت ہوچکا ہے، امریکا مخالف، امریکا نواز سیاست ہورہی ہے۔ تو کیا اِس بار بھی گو امریکا گو ہی کا نعرہ چلے گا؟
منور حسن: الیکشن میں اب بہت کم وقت بچا ہے۔ انتخابی مہم اتنے کم وقت میں زیادہ پھیل نہیں سکتی۔ ہمیں پھر بھی یہ Advantage ہے کہ چیزوں کو Revive کرنے کے لیے گو امریکا گو کی تحریک کو بنیاد بناسکتے ہیں۔ میں اب یہ بھی یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ امریکی مداخلت ہے، چاہے وہ عسکری دائرے میں ہو، یا معاشی دائرے میں ہو۔ ہماری ساری پالیسیاں تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بناتا ہے۔
ایکسپریس: اگر آپ کی پارٹی آیندہ حکومت کا حصہ بنی، تو ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے حوالے سے آپ کی پالیسی کیا ہوگی؟
منور حسن: پالیسی تو کسی کی بھی اِس سے مختلف نہیں ہوسکتی کہ امریکی غلامی سے نجات حاصل کی جائے۔ معاملہ چیزوں کو Handle کرنا ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک ہمارا قبلہ و کعبہ امریکا رہے گا، ہم غربت کی چکی میں پستے رہے گے۔
ایکسپریس: طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں، یہ عام خیال ہے کہ اُن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی؟
منور حسن: طاہرالقادری کا لانگ مارچ ایک چلا ہوا کارتوس تھا جو ''مس فائر'' ہوگیا۔ کوشش تو پوری کی گئی تھی کہ حالات میں تغیر آئے۔ ویسے میں حکومت کو یہ کریڈٹ دینا چاہتا ہوں کہ اُنھوں نے اِس پورے معاملے بہت اچھی طرح سنبھالا۔ جو نقشہ وہ بنا رہے تھے، اور لوگ خوف زدہ تھے کہ وہ کسی اسائنمنٹ پر آئے ہیں، اُس وقت بھی میری رائے یہی تھی کہ طاہر القادری میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اُن چیزوں کو 'ڈیلیور' کر سکیں، جس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ طاہر القادری والا معاملہ تو دم توڑ گیا ہے، مگر کوششیں اور سازشیں اب بھی جاری ہیں کہ الیکشن وقت پر نہ ہوسکیں۔
ایکسپریس: الیکشن ملتوی کروانے والی قوتوں کے مقاصد کیا ہیں؟
منور حسن: ایشو یہ ہے کہ 2014 میں امریکا افغانستان سے فوجیں واپس بلوا رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ 2014 سے پہلے پاکستان میں ایسی حکومت قائم ہوجائے، جو اُن کے مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔ اب یہ منتخب حکومت ہوسکتی ہے، فوجی حکومت ہوسکتی ہے، یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہوسکتی ہے۔ امریکا اُس حکومت کی تلاش میں ہیں، اسی وجہ سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ دراصل یہ سارے Footnotes ہیں، بڑے Text کے۔ البتہ ملک میں الیکشن کا 'ٹیمپو' بن رہا ہے۔ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن نے وقت پر اور شفاف انتخابات کی بات کی ہے۔ آرمی چیف نے بہت اچھا انتخاب کیا کہ یہی بات کوئٹہ میں جاکر کہی۔ میں چند روز پہلے بلوچستان میں تھا۔ اور اگر آپ بلوچستان میں چند روز گزار لیں، تو الیکشن کے بارے میں شک و شبہات آپ کے ذہن پر چھا جائیں گے۔ وہاں بڑے پیمانے پر ٹارگیٹ کلنگ ہورہی ہے، لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اختر مینگل خودساختہ جلاوطنی سے نکل کر کئی سال بعد کوئٹہ آئے تھے۔ اُن کے جلوس پر ڈیتھ اسکوڈ نے حملہ کر دیا۔ اب وہ اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو کیسے یقین دلائیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، اور پُرامن ہوں گے۔ تو جہاں حالات مخدوش ہیں، وہاں مخدوش تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ یہ پیغام واضح ہو جائے کہ الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔
ایکسپریس: جماعت کا نظریہ مذہبی ہے، وہ انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے، مگر ایسی قوتیں بھی اسلام کے نام پر سرگرم ہیں، جو جمہوریت کو کفر کا نظام گردانتی ہیں۔ یہ نظریہ جماعت کے نظریے سے متصادم ہے، اِس فکر کر رد کرنے کے لیے جماعت کی کیا حکمت عملی ہے؟
منور حسن: اس فکر کو رد کرنے کی حکمت عملی یہی ہے کہ ہم الیکشن میں حصہ لیں۔ لیکن اگر الیکشن کے ماضی والے ہی نتائج نکلے، تو یہ موقف مضبوط ہوتا ہے کہ الیکشن تبدیلی کا ذریعہ نہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس الیکشن کو ہم جزوی انقلاب کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔ وہ اس طرح کے جتنے بڑے سو پچاس جاگیردار، وڈیرے ہیں، جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بدعنوان ہیں، ان کی ضمانتیں ضبط کروادی جائیں، اِس سے عوام میں احساس شرکت پیدا ہوگا۔ وہ الیکشن کو تبدیلی کا ذریعہ سمجھیں گے۔ اور جن دوسرے گروپس کا آپ نے ذکر کیا ہے، اُنھیں بھی دلائل کے ذریعے نہیں، بلکہ واقعات کے ذریعے سمجھانا آسان ہوجائے گا کہ انتخابات سے تبدیلی آسکتی ہے۔
ایکسپریس: طالبان نے جن تین افراد کی ضمانت مانگی تھی، اُن میں آپ کا نام بھی شامل تھا، اس ضمن میں کیا پیش رفت ہوئی؟
منور حسن: بارہ سال سے امریکا افغانستان میں ہے، جہاں اُسے ہزیمت اور لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اب وہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ فرانس، جرمنی اور قطر میں مذاکرات ہوتے ہیں، مگر طالبان ان مذاکرات کو Concede نہیں کرتے۔ آپ کے علم میں رہنا چاہیے کہ جتنے بھی لوگوں نے اِن پانچ چھے مقامات پر طالبان کی طرف سے مذاکرات کیے، طالبان نے اُن سب کو فارغ کردیا ہے، اور ایک عام کارکن کی حیثیت سے پچھلی صفوں میں جگہ دے دی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے 'ڈسپلن' کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔ اب امریکا خود تو مذاکرات کر رہا ہے، مگر پاکستان کو منع کرتا ہے۔ میرے نزدیک طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو حکومت یا فوج کو آگے بڑھ کر قبول کرنا چاہیے تھا، یہ ایک سنہری موقع تھا، لیکن غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ نتیجے میں طالبان نے بھی پیش کش واپس لے لی۔ فوج اور ایجینسیوں سے زیادہ اِس بات کا کسی کو علم نہیں کہ یہ طالبان کون ہیں، کتنے گروپس ہیں۔ وہ شناخت کرنا جانتے ہیں کہ کون سے گروپ پاکستان نواز ہیں، کون سے پاکستان مخالف۔ اِسے لحاظ سے مذاکرات آسان تھے، مگر امریکا کی رضامندی کو مقدم رکھا گیا۔
ایکسپریس: غالب کون سے گروپ ہیں، پاکستان نواز یا پاکستان مخالف؟
منور حسن: اِس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے بڑا گروپ وہ ہے، جسے ہماری فوج نے بنایا تھا، اِس Understanding کے ساتھ کہ ہم امریکا کی مخالفت کریں گے، آپ ہمارا ساتھ دیں۔ اُنھوں نے کہا، بالکل ٹھیک ہے! مگر یہ امریکا کی حمایت میں چلے گئے، اُسے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے رہے۔ یوں طالبان کا یہ گروپ رابطے سے نکل گیا۔ تو طالبان میں سب سے بڑا گروہ پاکستان نواز ہے، مگر فوج اور ایجینسیوں کے بعض رویوں کے باعث اُن سے ناراض ہے۔ فوج اور ایجینسیوں کا فرض بنتا ہے کہ اُن کا اعتماد بحال کرے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ طالبان کا دوسرا گروپ وہ ہے، جو شمالی اتحاد، افغانستان، بھارت اور امریکا کی ایما پر بنا ہے۔ وہ ملک میں تخریبی کارروائیاں کررہا ہے۔ اُنھیں دیوار سے لگانا فوج کا کام ہے۔
ایکسپریس: کیا جماعت اسلامی طالبان کے پاکستان نواز گروہ سے، کسی سطح پر، رابطے میں ہے؟
منور حسن: نہیں، کوئی رابطہ نہیں۔ اور یہ ہو بھی نہیں سکتا۔
ایکسپریس: بلوچستان کے مسئلے کا آپ کے نزدیک کیا حل ہے؟
منور حسن: بلوچوں کے ساتھ مذاق بند ہونا چاہیے۔ وہ سب سے بڑا اور وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ پیکیج کے نام پر بلوچستان کو 'لولی پاپ' دینے کا سلسلہ ترک کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے وسائل میں سے حصہ مانگتے ہیں، تو یہ کوئی غیرقانونی مطالبہ نہیں۔ اور جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، وہ غلط ہیں۔ کسی نے نعرہ لگا دیا تو لگا دیا، مگر کوئی تحریک نہیں چل رہی۔
ایکسپریس: کیا بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں؟
منور حسن: سرے سے نہیں ہے۔ وجود ہی نہیں۔ اگر کسی نے دیوار پر نعرہ لکھا ہے، وہ مجھے بھی لے جا کر دِکھا دے۔
ایکسپریس: جو لوگ پہاڑوں پر ہیں، پھر وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؟
منور حسن: پہاڑوں پر تو ہمیشہ سے بلوچ ہیں۔ بھٹو کے زمانے میں مری، مینگل اور بزنجو گروپ کے لوگ پہاڑوں پر تھے۔ جو پہاڑی لوگ ہوتے ہیں، وہ عافیت کی زندگی پہاڑوں ہی پر گزارتے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ البتہ جس پیمانے پر بوری بند لاشیں ملی ہیں، وہ پریشان کن ہے۔ پہلے لوگ اغوا ہوجاتے تھے، لیکن چند ماہ بعد واپس بھی آجاتے تھے، مگر جب اغوا کی اِن کارروائیوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، تو اگلے ہی دن بوری بند لاش ملنے لگی۔ تو بلوچوں کے ساتھ سوتیلا سلوک بند کیا جائے، اُن پر علیحدگی کی تحریک چلانے کا جو الزام ہے، اُسے رد کیا جائے۔ ایجینسیوں کو کنٹرول کیا جائے۔ بلوچوں میں، حقیقی معنوں میں، احساس شرکت پیدا کی جائے۔ میرے نزدیک بلوچستان کے مسئلے کا آئینی اور قانونی حل ممکن ہے۔
ایکسپریس: معاشی مسائل کا جماعت کے پاس کیا حل ہے؟
منور حسن: قرضوں کی معیشت کے ذریعے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ بنیادی مسئلہ کرپٹ لوگوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ سول بیوروکریسی اور فوج کی نچلی سطح پر ہونے والی کرپشن بے معنی ہے۔ اصل کرپشن ہوتی ہے اوپر سے، جسے روکے بغیر معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر صرف دو آدمی، آصف علی زرداری اور نوازشریف اپنے بیرونی اثاثے ملک میں لے آئیں، تو معیشت بڑی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے۔ دولت کی گردش شروع ہوجائے گی، بینکوں کا نظام صحیح ہوجائے گا۔
ایکسپریس: ترکی سے مصر تک کئی اسلامی ممالک میں مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں نمایاں کام یابی حاصل کی ہے، پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہوسکا؟
منور حسن: مذہبی جماعتیں مت کہا کریں، جماعت اسلامی کہا کریں۔ مصر میں بھی جماعت اسلامی ہے، اور لیبیا میں بھی جماعت اسلامی ہے۔ تیونس میں بھی ہے، اور سوڈان میں بھی۔ اور وہاں اس کی جدوجہد کی پوری تاریخ ہے، جس کا لوگوں کو علم نہیں۔ اُنھیں تو فقط یہی نظر آرہا ہے کہ وہ برسراقتدار آگئے۔ کتنے لوگوں کو پھانسیاں ہوئیں، کتنوں نے جیلیں کاٹیں، خواتین پر کتنے مظالم ہوئے، اِس کا انھیں علم نہیں۔ آپ نے پاکستان کی بات کی۔ جب تک مصر میں تبدیلی نہیں آئی تھی، کسی کو نہیں پتا نہیں تبدیلی آرہی ہے۔ ایک دن پہلے تک کسی کو معلوم نہیں تھا حسنی مبارک کی چھٹی ہونے والی ہے۔ تو یہاں بھی بالکل یہی عمل دہرایا جائے گا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی، پاکستان دیگر اسلامی ممالک میں سرگرم جماعت اسلامی سے رابطہ میں رہتی ہے؟
منور حسن: ہاں، بالکل۔ رابطہ رہتاہے......
ایکسپریس: جماعت اسلامی کی قیادت کے برسوں پرانے فیصلوں اور اقدامات کو بنیاد بنا کر آج بنگلادیش میں جماعت کے نمایندوں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں، کیا اِس تعلق سے جماعت کے احتجاج کا آہنگ زیادہ بلند نہیں ہونا چاہیے تھا؟
منور حسن: نہیں، ہمارے احتجاج کرنے سے تو اُنھیں نقصان ہوتا ہے۔ ان پر یہی تو الزام ہے کہ آپ پاکستان کا ساتھ دیتے رہے ہیں، مگر ترکی اور مصر کے صدور نے اور باقی ممالک نے بنگلادیشی حکومت کے اِس اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ حسینہ واجد سے ملاقات بھی کی ہے۔ پھر حسینہ واجد بھی آزاد پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ بھارتی ایما پر یہ کام کر رہی ہیں۔ وہ اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں، اِسی لیے یہ اقدامات کر رہی ہیں۔
ایکسپریس: آپ نے اپنے منشور میں فوج کا بجٹ کم کرنے کی بات کی ہے۔ پاک انڈیا تعلقات پر آپ کے تحفظات ہیں، امریکا کو آپ دشمن گردانتے ہیں، اندرونی خلفشار بھی ہے، ایسے میں دفاعی بجٹ کم کرنا دانش مندانہ اقدام ہے؟
منور حسن: ہمارا زور بجٹ کی شفافیت پر ہے۔ لوگوں کو بجٹ کا علم ہونا چاہیے، اِسے اسمبلی میں یہ زیر بحث آنا چاہیے۔ بعض چیزیں شاید زیربحث نہ آسکیں، مگر اُنھیں بنیاد بنا کر ہر چیز کو صیغۂ راز میں رکھنا درست نہیں۔ اس سے کرپشن جنم لیتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کا منشور 18 سے 35 برس کے افراد کے لیے عسکری تربیت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ ایسے میں جہاں ہر سیاسی جماعت پر عسکری ونگ چلانے کا الزام عاید کیا جاتا ہے، اس نوع کی تربیت کا کسے فائدہ ہوگا؟
منور حسن: عسکری ونگ چلانے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تو یہ بات کی ہے۔ یعنی چوروں کے لیے تو عسکری ونگ ہے، مگر شرفا کے لیے نہیں، تو اُن کی ٹریننگ ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: کچھ غیرسیاسی باتیں ہوجائیں۔ آج کل کون سی کتاب زیر مطالعہ ہے؟
منور حسن: کچھ نہ کچھ زیرمطالعہ رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مصروفیات کی وجہ سے کتاب چار ماہ میں ختم ہو، یا چھے ماہ میں۔ زیادہ تر سفر میں رہتا ہوں، اِس لیے زیادہ مطالعہ گاڑی ہی میں ہوتا ہے۔
کتابِ زندگی کے چند اوراق
خارزار سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے سید منور حسن نے 5 اگست 1941 کو قرول باغ، دہلی میں آنکھ کھولی۔ والد سید اخلاق حسن شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ والدہ، اصغری بیگم مسلم لیگ کی سرگرم رکن تھیں۔ فسادات شروع ہونے کے بعد اُن کے خاندان نے پرانے قلعے میں پناہ لی۔ ایک ماہ بعد بہ ذریعہ ٹرین کراچی پہنچے۔ جیکب لائنز میں ڈیرا ڈالا۔ پھر لارنس روڈ کا رخ کیا۔ پندرہ کے قریب مکانات تبدیل کیے، بالآخر ناظم آباد میں اپنا مکان بنالیا۔ ایک بہن چار بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ ہجرت کی الم ناک کہانیاں سنتے ہوئے پروان چڑھے۔ گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، ناظم آباد سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹرل گورنمنٹ کالج ناظم آباد کا رخ کیا۔
60ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ بیڈمنٹن کے بہترین کھلاڑی رہے، کرکٹ بھی خوب کھیلی۔ الغرض خاصے متحرک تھے، جس کے پیش نظر جمعیت نے اُنھیں کالج یونین کے انتخابات میں اپنا نمایندہ نام زد کردیا، لیکن بعد میں ''غیرسنجیدہ'' قرار دیتے ہوئے نام زدگی منسوخ کر دی۔ ردعمل میں اُنھوں نے کالج میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مارشل لا لگنے کے بعد جب طلبا تنظیموں پر پابندی عاید کر دی گئی، این ایس ایف ''اسٹوڈنٹس سرکل'' کے بینر تلے، زیر زمین کام کرنے لگی۔ وہ ''اسٹوڈنٹس سرکل'' کے صدر رہے۔ اسی زمانے میں ان کے خیالات ونظریات تبدیلی کے عمل سے گزرے، جس میں ایک کتاب ''دعوت اسلامی اور اُس کے مطالبات'' کا کلیدی کردار رہا۔ اس کتاب کا متعدد بار مطالعہ کیا۔ بالآخر بائیں بازو سے الگ ہوگئے، اور 60ء میں اسلامی جمعیت طلبا کا حصہ بن گئے۔ 62ء میں مولانا مودودی سے پہلی ملاقات ہوئی۔
اُنھوں نے جامعہ کراچی سے عمرانیات میں ماسٹرز کیا۔ یونیورسٹی کی سطح پر جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے، پھر کراچی کی سطح پر یہ عہدہ سنبھالا۔ جمعیت کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کا بھی حصہ رہے۔ ایوب حکومت کے خلاف ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 64ء میں ملکی سطح پر جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اُسی برس ایک احتجاجی تحریک کے دوران مزار قائد سے گرفتار ہوئے۔ اِس دوران مشرقی پاکستان کے بھی دورے کیے۔ 65ء میں حکومت مخالف سرگرمیوں کی ''پاداش'' میں شہر بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ ''اینٹی تاشقند موومنٹ'' میں بھی پیش پیش رہے۔ 67ء تک جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے۔ اسی زمانے میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز مکمل کیا۔
فوٹو: فائل
63ء میں مولانا مودودی کی خواہش پر کراچی میں قائم ہونے والی اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے بہ طور ''ریسرچ اسسٹنٹ'' وابستہ ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ''ریسرچ اسکالر'' ہوگئے۔ پھر سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ 67ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ 69ء میں باقاعدہ جماعت کی مجلس شوریٰ کا حصہ بنے۔
73ء میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ''یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ'' تشکیل دیا گیا، جس کے پرچم تلے خاصے سرگرم ہے۔ ''یو ڈی ایف'' 77ء کے انتخابات میں ''پاکستان نیشنل الائنس'' میں تبدیل ہوگیا۔ سید منور حسن ملیر سے کھڑے ہوئے، اور ریکارڈ ووٹوں سے کام یابی حاصل کی، لیکن یہ فتح اسمبلی کے بجائے جیل لے گئی۔ بالآخر ملک میں مارشل لا لگ گیا۔
92-93 میں جماعت اسلامی کے ہم نوا گروپس کی جانب سے ''پاکستان اسلامی فرنٹ'' کے قیام کا خیال پیش کیا گیا، جس کا مقصد جماعت کا منشور تبدیل کیے بغیر، ممبر شپ کے مرحلے کو سہل بنانا تھا۔ اِس ضمن میں منور صاحب کا کردار کلیدی رہا، جس پر چند حلقوں کی جانب سے اُنھیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
تنظیمی عہدوں کی بات کی جائے، تو منور صاحب کراچی کی سطح پر جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری رہے، پھر اُنھوں نے بہ طور سیکریٹری ذمے داریاں نبھائیں۔ اِس کے بعد نائب امیر مقرر ہوئے۔ 88ء میں وہ کراچی کے امیر مقرر ہوئے۔ 92ء میں جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کا منصب سنبھالا۔ 93ء میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اپریل 2009 میں امیر جماعت اسلامی کا عہدہ سنبھالا۔
74ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ زوجہ، عائشہ منور بھی جماعت کے پلیٹ فورم سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ نو برس جماعت اسلامی کی خواتین ونگ کی سیکریٹری جنرل رہ چکی ہیں۔ اِس وقت وہ خواتین کی پولیٹیکل ونگ کی انچارج ہیں۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی ہے۔ بچوں سے خوش گوار روابط رہے۔ شاعری میں غالب اور اقبال کا کلام ان کے مطالعے میں رہتا ہے۔ نثر میں مولانا مودودی کے مداح ہیں۔ ادبی کُتب بھی مطالعے میں رہیں۔
یہیں پروفیسر غفور احمد مرحوم سے پہلی ملاقات ہوئی، اِسی مقام پر عائشہ منور صاحبہ کا انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا، اور یہیں جنوری 2011 کی ایک خوش گوار صبح امیرجماعت اسلامی، سید منور حسن سے طویل مکالمہ ہوا۔ آج وہ پھر روبرو ہیں، مگر اِس بار سوالات خاصے مختلف ہیں کہ گذشتہ ملاقات میں موضوع اُن کا سفر زندگی تھا، اور اِس بار حالیہ انتخابات!
بات الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے شروع ہوئی۔ جن فیصلوں سے اختلاف تھا، منور صاحب نے اُن پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ پھر انتخابات موضوع بن گئے۔ طریقۂ انتخاب میں، اُن کے نزدیک جو سُقم ہیں، اُن کی نشان دہی کرتے ہوئے الیکشن کو ہر معاملے میں میزبان بنانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی، ووٹرز کے عمومی رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جب سوال کیا گیا کہ اگر جماعت طریقۂ انتخاب سے مطمئن نہیں، پھر اُس کی سیاسی جدوجہد کا مقصد کیا ہے؟ تو گفت گو نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔
بات چیت آگے بڑھی تو دیگر جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمینٹ نہ ہونے کے اسباب زیر بحث آئے۔ بلوچستان کے سُلگتے ہوئے مسئلے پر اُنھوں نے اپنی بے لاگ رائے دی۔ ایم ایم اے کی بحالی پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کے طریقۂ کار پر اعتراض اٹھایا۔ دس جماعتی پلیٹ فورم بھی موضوع بنایا۔ کراچی کی سیاست پر بات ہوئی، تو ایم کیو ایم کا ذکر نکل آیا، جسے سیاسی جماعت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنا پرانا موقف دہرایا۔ مقتدرہ حلقوں کے کردار پر بات کی۔ عندیہ دیا کہ اِس بار ایم کیو ایم کو توقع سے خاصے کم ووٹ پڑیں گے۔
2013 کے انتخابات میں وہ خود کھڑے نہیں ہورہے، جس کا سبب وہ امیرجماعت کی حیثیت سے اپنی مصروفیات کو قرار دیتے ہیں۔ جماعت اِس بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں حاصل کرے گی، اِس بابت رائے دینا وہ قبل ازوقت خیال کرتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے لیے ہونے والا امیر جماعت اسلامی کا تفصیلی انٹرویو قارئین کے پیش خدمت ہے:
ایکسپریس: آپ کی پارٹی کے نام میں لفظ ''اسلامی'' شامل ہے، منشور بھی اسلامی نظام کی بات کرتا ہے، مگر اب الیکشن کمیشن نے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں جماعت کی انتخابی مہم کیا رخ اختیار کرے گی؟
منور حسن: کیا الیکشن کمیشن نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سے بھی ''اسلامی'' نکال دیا ہے؟ فخر الدین جی ابراہیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں، اگر یہ اصلاح کا کام ہے، تو اُنھیں آغاز وہاں سے کرنا چاہیے۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کو جرم قرار دینا الیکشن کمیشن کی نادانی ہے۔ میرے خیال میں اُنھیں تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لوگوں نے آخر کس بات کے لیے قربانیاں دی تھیں؟ یہ بڑی لاعلمی اور ناواقفیت کی بات اُن سے سرزد ہوئی ہے، اِس سے رجوع کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اسلام کے علاوہ کوئی شے نہیں، جس کی بات کی جائے۔ آئین کے مطابق تو سیکولرازم، لبرل ازم، کیپیٹل ازم اور سوشل ازم غیرقانونی اور غیرآئینی ہیں۔ اسلام کا نام لینا تو عین آئینی، عین قانونی ہے۔
ایکسپریس: آپ کے دلائل سے انکار نہیں، مگر الیکشن کمیشن فیصلہ صادر کر چکا ہے۔ کیا اِس فیصلے کے پیش نظر جماعت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
منور حسن: ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اُنھیں ہی اپنی کہی ہوئی بات واپس لینی ہوگی۔ اُنھوں نے جس آئین کے تحت 62,63 کا اطلاق شروع کیا تھا، اُسی سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ جعلی ڈگری والوں کو، جو پہلے ایک حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے، اب اُنھیں دو حلقوں سے لڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ تو الیکشن کمیشن کو اپنے رویوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں آئین کی خلاف ورزی الیکشن کمیشن سے سرزد ہوئی ہے، اِس کی جتنی جلدی اصلاح کر لیں، اتنا ہی بہتر ہے۔
ایکسپریس: آپ اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، پھر کیا سبب ہے کہ جماعت کبھی انتخابات میں واضح کام یابی حاصل نہیں کرسکی؟
منور حسن: ابھی ہم یہی بات کر رہے تھے کہ ہمارے لوگ اصلی ڈگری والوں کو الیکشن ہروا دیتے ہیں، جعلی ڈگری والوں کو جتوا دیتے ہیں۔ جمشید دستی کی مثال سامنے ہے۔ لوگوں کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے احتساب ہوتا ہے، مگر یہاں تو چوروں کی چوری میں اضافہ ہوتا ہے۔ آصف زرداری جیت جائیں گے، دوسرا آدمی ہار جائے گا۔ اِس کا مطلب ہے، لوگ کرپشن کو پسند کرتے ہیں۔
ایکسپریس: مگر جماعت اسلامی اِسی نظام میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کر رہی ہے، اگر انتخابی عمل کرپٹ افراد کو سسٹم سے باہر نہیں کر رہا، تو کیا یہ مشقِ لاحاصل ہے؟
منور حسن: انتخابی عمل کا لاحاصل ہونا یا سودمند ہونا الگ موضوع ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کو ہر شے کی کسوٹی نہیں بنایا جاسکتا۔ میزبان نہیں بنایا جاسکتا۔ ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام ہے۔ ظالم کے ظلم سے بچنے کا خواہش مند بھی ظالم ہی کو ووٹ دیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں لوگ دبے ہوئے ہوں، الیکشن کے نتیجے میں جو لوگ سامنے آتے ہیں، اُنھیں عوام کے حقیقی نمایندے قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تقسیم کے بعد بھارت نے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا۔ پاکستان میں ایک سے زاید بار یہ کوشش ہوئی، مگر یہ کوششیں نمایشی تھیں۔ جب تک جاگیردارانہ نظام ہے، انتخابات کے نتیجے میں ظالم برسراقتدار آتے رہیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی گذشتہ 65 برس میں، انتخابی دائرے میں، کارکردگی نہیں دِکھا سکی، میں کہتا ہوں کہ اِسی وجہ سے تو یہاں منہگائی، بے روزگاری اور لادینیت ہے۔ جن افراد کو عوام منتخب کرتے ہیں، وہ امریکی غلام ہیں۔ لوگوں کو قرضوں میں جکڑتے ہیں۔ تو جماعت اسلامی کے نہ آنے سے پاکستان کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اب 62,63 کا اطلاق ہوا ہے، تو لوگ چیخ پڑے۔ جب اطلاق نہیں ہو رہا تھا، تب خاموش تھے، حالاں کہ تب بھی یہ دستور کا حصہ تھا۔ تو موجودہ صورت حال اور طریقۂ انتخاب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ جماعت کے پاس ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ اِن ہی انتخابات کو استعمال کرے، نتائج بہتر سے بہتر بنائے، مگر یہ نظری بات ہے۔ عملی سطح پر ممکن ہے کہ دھیرے دھیرے بہتری آئے، مگر رفتار اتنی سست ہوگی کہ ''خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک'' والا معاملہ ہے۔
ایکسپریس: تو کیا جماعت اپنی حکمت علمی میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس کرتی ہے؟
منور حسن: میرے نزدیک یہ انتخابات ایک زاویے سے آخری انتخابات ہیں۔ اگر اِس سے وہ تبدیلی نہیں آتی، جس کے لوگ خواہاں ہیں، تو وہ دوسرے راستوں پر چل پڑیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں انارکی پھیلے، عدم استحکام پیدا ہو، مگر سیاسی جماعتیں تو اِس طرح کے طوفان کو روکنے کی قوت نہیں رکھتیں۔ ہمارے ہاں بھی، خصوصاً نوجوانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ ہمارا سسٹم چوروں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے، اور ملک دشمنوں کو اقتدار دیتا ہے۔
ایکسپریس: کیا انارکی کا اندیشہ ہے؟
منور حسن: میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہییں۔ توقعات، اہداف کچھ حد تک تو پورے ہوں۔ اگر الیکشن سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئی، تو لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے، جن پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا۔ یہ لوگوں اپنی تقدیر خود بنانے کی کوشش کریں گے، اور ایک نئی جدوجہد جنم لے گی۔
ایکسپریس: اگر کسی شخص پر کرپشن کے الزامات ہوں، وہ ٹیکس چور ہو، تو کیا اُسے اِس بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ اُسے دعائے قنوت یاد ہے، نوافل کی تفصیلات کا علم ہے؟
منور حسن: (مسکراتے ہوئے) دیکھیں، پہلی مرتبہ 62,63 کا اطلاق ہوا ہے، اور اِس عمل میں ریٹرننگ آفیسرز نے جا بہ جا غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جو شخص چور ہے، اُسے تو ویسے ہی ڈس کوالیفائی کر دینا چاہیے، مگر ہلکے پھلکے سوالات کر کے اُسے سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ تو بے شک ریٹرننگ آفیسرز نے اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں، مگر اصل شور تو لبرل اور سیکولر لابی نے مچایا ہے۔ خیر الیکشن کمیشن نے ایک سنجیدہ معاملے کو غیرسنجیدہ بنا دیا۔ اگر 'ہوم ورک' کیا جاتا، تو واقعی چھلنیاں لگ جاتیں۔ اب بات ہورہی ہے کہ نئی پارلیمنٹ آتے ہی سب سے پہلے 62,63 کو آئین سے نکالے۔ پارلیمنٹ ہی نے تو اِسے تحفظ دیا ہے۔ ماضی میں جو آئینی کمیٹی بنی تھی، اُس کے ارکان اس بات کا بارہا اظہار کر چکے ہیں کہ 62,63 کو نکالنے کا خیال سامنے آیا تھا، مگر سب کی متفقہ رائے تھی کہ اگر ایسا کیا گیا، تو ملک میں طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آرٹیکل 62,63 کو مستقبل میں بھی عوام کی تائید حاصل رہے گی، اور چور اِس کے مخالفت جاری رکھیں گے۔
ایکسپریس: 2008 میں منتخب ہونے والی حکومت نے پانچ برس پورے کیے۔ آج اُن انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
منور حسن: حالات نے بائیکاٹ کے فیصلے کو ثابت کیا۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں جو الیکشن ہوں گے، اُس میں جیتنے والے بھی مشرف کی پالیسیاں جاری رکھیں گے۔ اِسی لیے پہلے پرویز مشرف سے نجات حاصل کی جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ این آر او کے ذریعے حکومت برسراقتدار آئی۔ ڈرون حملے، خود کش حملے جاری رہے۔ غربت بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ یعنی ہمارا وہ فیصلہ بالکل درست تھا، لیکن تمام پارٹیوں نے اس پر عمل نہیں کیا، جس کی وجہ سے سسٹم کو نقصان پہنچا۔
ایکسپریس: اِس فیصلے کے لیے 2002 کے انتخابات کیوں ساز گار نہیں تھے؟
منور حسن: اُس وقت تو مقصد پرویز مشرف کی وردی اتروانا تھا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ الیکشن سے پرویز مشرف کی گرفت ڈھیلی پڑے گی۔ دیکھیں، ہائی جیکر سے جہاز چھڑانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ وقتی طور پر اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔
ایکسپریس: جس شخص کی وجہ سے آپ نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، وہ اِس وقت پاکستان میں ہے۔ کیا جماعت اسلامی پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے؟
منور حسن: پہلا کام تو جماعت ہی نے کیا کہ این اے 250 سے پرویزمشرف کے کاغذات مسترد کروا دیے۔ ہمارے ہی وکلا ہیں سارے۔ توفیق آصف ، جو پنڈی بار کے سابق صدر ہیں، ہماری جماعت کے رکن ہیں۔ اُنھوں نے سب سے پہلے کیس دائر کیا تھا۔ تو پہلے بھی ہم یہ کام کرتے رہے ہیں، انشا اﷲ آگے بھی یہ کام کرتے رہیں گے۔
ایکسپریس: کیا مشرف کو محفوظ راستہ دینے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟
منور حسن: ایک بار اِس عمل کو شروع ہونے دیں۔ پہلے یہ بات ہوگی کہ پرویز مشرف نے ایمرجینسی لگاکر آئین توڑا، پھر بات 99ء تک بات جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ لوگ کہیں کہ اِس سے پہلے بھی تو پرویز مشرف آتے رہے ہیں، ضیا الحق کے نام سے، یحییٰ خان کے نام سے۔ میرے خیال میں اِس بحث کے آغاز میں کوئی حرج نہیں۔ بات دُور جاتی ہے، تو جانے دیں۔ اِس کے نتیجے میں پرویز مشرف بھی 'ایکسپوز' ہوگا، اور ملک میں من مانے فیصلہ کروانے والی اسٹیبلشمنٹ بھی عیاں ہوجائے گی۔ اگر کسی کے نزدیک یہ پنڈورا بکس ہے، تب بھی اِسے کھولنا چاہیے۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی کا دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ کا موضوع کئی دنوں زیربحث رہا، اعلانات بھی ہوئے، مگر پھر آپ نے بیان دے دیا کہ یہ باب بند ہوگیا ہے؟
منور حسن: پشاور اور لاہور میں سیٹ ایڈجسٹمینٹ کے حوالے سے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف سے بات ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ چھے نشستیں ہوئیں۔ کمیٹی بنی تھی۔ اور طے ہوا تھا کہ کمیٹی فارمولا بنائے گی، پھر دونوں فریق اپنی جماعت کے سربراہاں سے بات کریں گے، اُن کی منظوری کے بعد فارمولا پاس ہوجائے گا۔ اِس مرحلے سے پہلے مسلم لیگ والوں نے یہ کہا کہ ہم اپنی لیڈر شپ سے بات کرلیتے ہیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد اُنھوں نے یہی بات کی کہ ہم معذرت خواہ ہیں، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ مذاکرات کو جاری رکھیں۔ یوں دوستانہ انداز میں یہ معاملہ ختم ہوگیا۔
ایکسپریس: سبب کیا رہا؟
منور حسن: ہم نے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے 'پروپوزل' پارٹی ہیڈ کے سامنے رکھا ہوگا، اور اُسے منظور نہیں کیا گیا ہوگا۔
ایکسپریس: تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے ساتھ کیا معاملہ رہا؟
منور حسن: چھے آدمیوں کی کمیٹی تو بن گئی تھی، مگر تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات حقیقی معنوں میں شروع نہیں ہوئے۔ بار بار کی کوششوں کے باوجود پہلی نشست ہی نہیں ہوسکی۔ میرے خیال میں اُن کے ہاں نیچے سے بہت زیادہ سفارشات آگئی ہوں گی، جس کی وجہ سے اُن کے گھر ہی میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ تو اپنی پارٹی کی سفارشات دیکھتے ہوئے اُن کے لیے شاید ممکن نہیں رہا کہ بات آگے بڑھے۔ جے یو آئے ف کے ساتھ مذاکرات آگے تک گئے تھے۔ اُن ہی کی تجویز پر یہ طے ہوا کہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں بیٹھ جائیں، جنھیں فیصلے کا اختیار دے دیا جائے۔ ہم نے تو یہ کام کر لیا۔ مگر ہمارے ضلعے والوں نے رپورٹ دی کہ اُن کے طرف سے کسی کو ایسی ہدایات نہیں ملی ہیں، نہ ہی کوئی بات کرنے کو تیار ہے۔ یوں معاملہ ازخود ختم ہوگیا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی سندھ میں قائم ہونے والے دس جماعتی اتحاد میں شامل ہے۔ کیا یہ اتحاد سندھ کی انتخابی سیاست میں کوئی کردار ادا کرسکے گا؟
منور حسن: اِسے اتحاد نہیں، پلیٹ فورم کہنا چاہیے۔ تجزیہ یہی ہے کہ کچھ فرق ضرور پڑے گا۔ اندرون سندھ پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ نہ صرف پیپلزپارٹی سے ناراض ہیں، بلکہ اُس کے خلاف ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں، جو پارٹی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اِس صورت حال کو پیر صاحب پگارا اور جتوئی صاحب کی پارٹیاں 'اِن کیش' کر سکیں، تو واضح فرق پڑ جائے گا۔ جہاں تک شہری علاقوں کا تعلق ہے، ایم کیو ایم کے لوگ روز پریس کانفرنس کر رہے ہیں، بُجھے بُجھے سے نظر آتے ہیں، شاید وہ خود کو اُس مقام پر نہیں پاتے، جہاں وہ ماضی میں دیکھتے تھے۔ میرے خیال میں یہ عمل اُن کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے، جس سے دس جماعتی پلیٹ فورم کا موثر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کو پچیس لاکھ ووٹ ملے تھے، کم از کم دس لاکھ ووٹ تو اِس بار گھٹ جائیں گے۔
ایکسپریس: 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے کئی سیٹوں پر کام یابی حاصل کی، اِس تجربے کو اِس بار نہ دہرانے کا کیا سبب ہے؟
منور حسن: 2002 کے بعد پہلے تو 2008 آتا ہے۔ یہ تجربہ اُس وقت بھی نہیں دہرایا گیا۔ اور اگر دہرایا گیا، تو بہت ہی نامعقول طریقے سے۔ مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کے نام ہی پر الیکشن میں حصہ لیا، ایم ایم اے کا 'سمبل' استعمال کیا، جس کے وہ مجاز نہیں تھے، کیوں کہ ایم ایم اے کی کچھ پارٹیاں تو اے پی ڈیم ایم کے زیر اثر تھیں، اور بائیکاٹ کی طرف ان کا رجحان تھا۔ اُن انتخابات میں مولانا نے ایم ایم اے کا نام استعمال کرکے غیراخلاقی کام کیا۔ 2008 میں ایم ایم اے عملاً ٹوٹ گئی تھی،کافی عرصے تک اِسے بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ 2013 میں اِس کی بحالی کی امید پیدا ہوئی، مگر اس بار مولانا فضل الرحمان نے یک طرفہ طور پر ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کردیا۔ اور کہہ دیا کہ جماعت اسلامی کے بغیر اِسے بحال کیا ہے، اگر جماعت درخواست دے گی، تو اس پر ہم دردانہ غور کریں گے۔ میں نے تو اسی وقت یہ بات کہہ دی تھی کہ ہم مولانا کو یہ زحمت نہیں دیں گے کہ اُنھیں ہم دردانہ غور کرنا پڑے۔
ایکسپریس: کچھ برس قبل آپ نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں دایاں اور بایاں بازو فوت ہوچکا ہے، امریکا مخالف، امریکا نواز سیاست ہورہی ہے۔ تو کیا اِس بار بھی گو امریکا گو ہی کا نعرہ چلے گا؟
منور حسن: الیکشن میں اب بہت کم وقت بچا ہے۔ انتخابی مہم اتنے کم وقت میں زیادہ پھیل نہیں سکتی۔ ہمیں پھر بھی یہ Advantage ہے کہ چیزوں کو Revive کرنے کے لیے گو امریکا گو کی تحریک کو بنیاد بناسکتے ہیں۔ میں اب یہ بھی یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ امریکی مداخلت ہے، چاہے وہ عسکری دائرے میں ہو، یا معاشی دائرے میں ہو۔ ہماری ساری پالیسیاں تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بناتا ہے۔
ایکسپریس: اگر آپ کی پارٹی آیندہ حکومت کا حصہ بنی، تو ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کے حوالے سے آپ کی پالیسی کیا ہوگی؟
منور حسن: پالیسی تو کسی کی بھی اِس سے مختلف نہیں ہوسکتی کہ امریکی غلامی سے نجات حاصل کی جائے۔ معاملہ چیزوں کو Handle کرنا ہے۔ یہ طے ہے کہ جب تک ہمارا قبلہ و کعبہ امریکا رہے گا، ہم غربت کی چکی میں پستے رہے گے۔
ایکسپریس: طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں، یہ عام خیال ہے کہ اُن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی؟
منور حسن: طاہرالقادری کا لانگ مارچ ایک چلا ہوا کارتوس تھا جو ''مس فائر'' ہوگیا۔ کوشش تو پوری کی گئی تھی کہ حالات میں تغیر آئے۔ ویسے میں حکومت کو یہ کریڈٹ دینا چاہتا ہوں کہ اُنھوں نے اِس پورے معاملے بہت اچھی طرح سنبھالا۔ جو نقشہ وہ بنا رہے تھے، اور لوگ خوف زدہ تھے کہ وہ کسی اسائنمنٹ پر آئے ہیں، اُس وقت بھی میری رائے یہی تھی کہ طاہر القادری میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ اُن چیزوں کو 'ڈیلیور' کر سکیں، جس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ طاہر القادری والا معاملہ تو دم توڑ گیا ہے، مگر کوششیں اور سازشیں اب بھی جاری ہیں کہ الیکشن وقت پر نہ ہوسکیں۔
ایکسپریس: الیکشن ملتوی کروانے والی قوتوں کے مقاصد کیا ہیں؟
منور حسن: ایشو یہ ہے کہ 2014 میں امریکا افغانستان سے فوجیں واپس بلوا رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ 2014 سے پہلے پاکستان میں ایسی حکومت قائم ہوجائے، جو اُن کے مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔ اب یہ منتخب حکومت ہوسکتی ہے، فوجی حکومت ہوسکتی ہے، یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہوسکتی ہے۔ امریکا اُس حکومت کی تلاش میں ہیں، اسی وجہ سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ دراصل یہ سارے Footnotes ہیں، بڑے Text کے۔ البتہ ملک میں الیکشن کا 'ٹیمپو' بن رہا ہے۔ چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن نے وقت پر اور شفاف انتخابات کی بات کی ہے۔ آرمی چیف نے بہت اچھا انتخاب کیا کہ یہی بات کوئٹہ میں جاکر کہی۔ میں چند روز پہلے بلوچستان میں تھا۔ اور اگر آپ بلوچستان میں چند روز گزار لیں، تو الیکشن کے بارے میں شک و شبہات آپ کے ذہن پر چھا جائیں گے۔ وہاں بڑے پیمانے پر ٹارگیٹ کلنگ ہورہی ہے، لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اختر مینگل خودساختہ جلاوطنی سے نکل کر کئی سال بعد کوئٹہ آئے تھے۔ اُن کے جلوس پر ڈیتھ اسکوڈ نے حملہ کر دیا۔ اب وہ اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو کیسے یقین دلائیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، اور پُرامن ہوں گے۔ تو جہاں حالات مخدوش ہیں، وہاں مخدوش تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ یہ پیغام واضح ہو جائے کہ الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔
ایکسپریس: جماعت کا نظریہ مذہبی ہے، وہ انتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے، مگر ایسی قوتیں بھی اسلام کے نام پر سرگرم ہیں، جو جمہوریت کو کفر کا نظام گردانتی ہیں۔ یہ نظریہ جماعت کے نظریے سے متصادم ہے، اِس فکر کر رد کرنے کے لیے جماعت کی کیا حکمت عملی ہے؟
منور حسن: اس فکر کو رد کرنے کی حکمت عملی یہی ہے کہ ہم الیکشن میں حصہ لیں۔ لیکن اگر الیکشن کے ماضی والے ہی نتائج نکلے، تو یہ موقف مضبوط ہوتا ہے کہ الیکشن تبدیلی کا ذریعہ نہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس الیکشن کو ہم جزوی انقلاب کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔ وہ اس طرح کے جتنے بڑے سو پچاس جاگیردار، وڈیرے ہیں، جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بدعنوان ہیں، ان کی ضمانتیں ضبط کروادی جائیں، اِس سے عوام میں احساس شرکت پیدا ہوگا۔ وہ الیکشن کو تبدیلی کا ذریعہ سمجھیں گے۔ اور جن دوسرے گروپس کا آپ نے ذکر کیا ہے، اُنھیں بھی دلائل کے ذریعے نہیں، بلکہ واقعات کے ذریعے سمجھانا آسان ہوجائے گا کہ انتخابات سے تبدیلی آسکتی ہے۔
ایکسپریس: طالبان نے جن تین افراد کی ضمانت مانگی تھی، اُن میں آپ کا نام بھی شامل تھا، اس ضمن میں کیا پیش رفت ہوئی؟
منور حسن: بارہ سال سے امریکا افغانستان میں ہے، جہاں اُسے ہزیمت اور لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اب وہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ فرانس، جرمنی اور قطر میں مذاکرات ہوتے ہیں، مگر طالبان ان مذاکرات کو Concede نہیں کرتے۔ آپ کے علم میں رہنا چاہیے کہ جتنے بھی لوگوں نے اِن پانچ چھے مقامات پر طالبان کی طرف سے مذاکرات کیے، طالبان نے اُن سب کو فارغ کردیا ہے، اور ایک عام کارکن کی حیثیت سے پچھلی صفوں میں جگہ دے دی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے 'ڈسپلن' کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔ اب امریکا خود تو مذاکرات کر رہا ہے، مگر پاکستان کو منع کرتا ہے۔ میرے نزدیک طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو حکومت یا فوج کو آگے بڑھ کر قبول کرنا چاہیے تھا، یہ ایک سنہری موقع تھا، لیکن غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ نتیجے میں طالبان نے بھی پیش کش واپس لے لی۔ فوج اور ایجینسیوں سے زیادہ اِس بات کا کسی کو علم نہیں کہ یہ طالبان کون ہیں، کتنے گروپس ہیں۔ وہ شناخت کرنا جانتے ہیں کہ کون سے گروپ پاکستان نواز ہیں، کون سے پاکستان مخالف۔ اِسے لحاظ سے مذاکرات آسان تھے، مگر امریکا کی رضامندی کو مقدم رکھا گیا۔
ایکسپریس: غالب کون سے گروپ ہیں، پاکستان نواز یا پاکستان مخالف؟
منور حسن: اِس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے بڑا گروپ وہ ہے، جسے ہماری فوج نے بنایا تھا، اِس Understanding کے ساتھ کہ ہم امریکا کی مخالفت کریں گے، آپ ہمارا ساتھ دیں۔ اُنھوں نے کہا، بالکل ٹھیک ہے! مگر یہ امریکا کی حمایت میں چلے گئے، اُسے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے رہے۔ یوں طالبان کا یہ گروپ رابطے سے نکل گیا۔ تو طالبان میں سب سے بڑا گروہ پاکستان نواز ہے، مگر فوج اور ایجینسیوں کے بعض رویوں کے باعث اُن سے ناراض ہے۔ فوج اور ایجینسیوں کا فرض بنتا ہے کہ اُن کا اعتماد بحال کرے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ طالبان کا دوسرا گروپ وہ ہے، جو شمالی اتحاد، افغانستان، بھارت اور امریکا کی ایما پر بنا ہے۔ وہ ملک میں تخریبی کارروائیاں کررہا ہے۔ اُنھیں دیوار سے لگانا فوج کا کام ہے۔
ایکسپریس: کیا جماعت اسلامی طالبان کے پاکستان نواز گروہ سے، کسی سطح پر، رابطے میں ہے؟
منور حسن: نہیں، کوئی رابطہ نہیں۔ اور یہ ہو بھی نہیں سکتا۔
ایکسپریس: بلوچستان کے مسئلے کا آپ کے نزدیک کیا حل ہے؟
منور حسن: بلوچوں کے ساتھ مذاق بند ہونا چاہیے۔ وہ سب سے بڑا اور وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ پیکیج کے نام پر بلوچستان کو 'لولی پاپ' دینے کا سلسلہ ترک کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنے وسائل میں سے حصہ مانگتے ہیں، تو یہ کوئی غیرقانونی مطالبہ نہیں۔ اور جو لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے، وہ غلط ہیں۔ کسی نے نعرہ لگا دیا تو لگا دیا، مگر کوئی تحریک نہیں چل رہی۔
ایکسپریس: کیا بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں؟
منور حسن: سرے سے نہیں ہے۔ وجود ہی نہیں۔ اگر کسی نے دیوار پر نعرہ لکھا ہے، وہ مجھے بھی لے جا کر دِکھا دے۔
ایکسپریس: جو لوگ پہاڑوں پر ہیں، پھر وہ کس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؟
منور حسن: پہاڑوں پر تو ہمیشہ سے بلوچ ہیں۔ بھٹو کے زمانے میں مری، مینگل اور بزنجو گروپ کے لوگ پہاڑوں پر تھے۔ جو پہاڑی لوگ ہوتے ہیں، وہ عافیت کی زندگی پہاڑوں ہی پر گزارتے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ البتہ جس پیمانے پر بوری بند لاشیں ملی ہیں، وہ پریشان کن ہے۔ پہلے لوگ اغوا ہوجاتے تھے، لیکن چند ماہ بعد واپس بھی آجاتے تھے، مگر جب اغوا کی اِن کارروائیوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، تو اگلے ہی دن بوری بند لاش ملنے لگی۔ تو بلوچوں کے ساتھ سوتیلا سلوک بند کیا جائے، اُن پر علیحدگی کی تحریک چلانے کا جو الزام ہے، اُسے رد کیا جائے۔ ایجینسیوں کو کنٹرول کیا جائے۔ بلوچوں میں، حقیقی معنوں میں، احساس شرکت پیدا کی جائے۔ میرے نزدیک بلوچستان کے مسئلے کا آئینی اور قانونی حل ممکن ہے۔
ایکسپریس: معاشی مسائل کا جماعت کے پاس کیا حل ہے؟
منور حسن: قرضوں کی معیشت کے ذریعے کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ بنیادی مسئلہ کرپٹ لوگوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ سول بیوروکریسی اور فوج کی نچلی سطح پر ہونے والی کرپشن بے معنی ہے۔ اصل کرپشن ہوتی ہے اوپر سے، جسے روکے بغیر معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر صرف دو آدمی، آصف علی زرداری اور نوازشریف اپنے بیرونی اثاثے ملک میں لے آئیں، تو معیشت بڑی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے۔ دولت کی گردش شروع ہوجائے گی، بینکوں کا نظام صحیح ہوجائے گا۔
ایکسپریس: ترکی سے مصر تک کئی اسلامی ممالک میں مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں نمایاں کام یابی حاصل کی ہے، پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہوسکا؟
منور حسن: مذہبی جماعتیں مت کہا کریں، جماعت اسلامی کہا کریں۔ مصر میں بھی جماعت اسلامی ہے، اور لیبیا میں بھی جماعت اسلامی ہے۔ تیونس میں بھی ہے، اور سوڈان میں بھی۔ اور وہاں اس کی جدوجہد کی پوری تاریخ ہے، جس کا لوگوں کو علم نہیں۔ اُنھیں تو فقط یہی نظر آرہا ہے کہ وہ برسراقتدار آگئے۔ کتنے لوگوں کو پھانسیاں ہوئیں، کتنوں نے جیلیں کاٹیں، خواتین پر کتنے مظالم ہوئے، اِس کا انھیں علم نہیں۔ آپ نے پاکستان کی بات کی۔ جب تک مصر میں تبدیلی نہیں آئی تھی، کسی کو نہیں پتا نہیں تبدیلی آرہی ہے۔ ایک دن پہلے تک کسی کو معلوم نہیں تھا حسنی مبارک کی چھٹی ہونے والی ہے۔ تو یہاں بھی بالکل یہی عمل دہرایا جائے گا۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی، پاکستان دیگر اسلامی ممالک میں سرگرم جماعت اسلامی سے رابطہ میں رہتی ہے؟
منور حسن: ہاں، بالکل۔ رابطہ رہتاہے......
ایکسپریس: جماعت اسلامی کی قیادت کے برسوں پرانے فیصلوں اور اقدامات کو بنیاد بنا کر آج بنگلادیش میں جماعت کے نمایندوں پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں، کیا اِس تعلق سے جماعت کے احتجاج کا آہنگ زیادہ بلند نہیں ہونا چاہیے تھا؟
منور حسن: نہیں، ہمارے احتجاج کرنے سے تو اُنھیں نقصان ہوتا ہے۔ ان پر یہی تو الزام ہے کہ آپ پاکستان کا ساتھ دیتے رہے ہیں، مگر ترکی اور مصر کے صدور نے اور باقی ممالک نے بنگلادیشی حکومت کے اِس اقدام پر احتجاج کیا ہے۔ حسینہ واجد سے ملاقات بھی کی ہے۔ پھر حسینہ واجد بھی آزاد پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ بھارتی ایما پر یہ کام کر رہی ہیں۔ وہ اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں، اِسی لیے یہ اقدامات کر رہی ہیں۔
ایکسپریس: آپ نے اپنے منشور میں فوج کا بجٹ کم کرنے کی بات کی ہے۔ پاک انڈیا تعلقات پر آپ کے تحفظات ہیں، امریکا کو آپ دشمن گردانتے ہیں، اندرونی خلفشار بھی ہے، ایسے میں دفاعی بجٹ کم کرنا دانش مندانہ اقدام ہے؟
منور حسن: ہمارا زور بجٹ کی شفافیت پر ہے۔ لوگوں کو بجٹ کا علم ہونا چاہیے، اِسے اسمبلی میں یہ زیر بحث آنا چاہیے۔ بعض چیزیں شاید زیربحث نہ آسکیں، مگر اُنھیں بنیاد بنا کر ہر چیز کو صیغۂ راز میں رکھنا درست نہیں۔ اس سے کرپشن جنم لیتا ہے۔
ایکسپریس: آپ کا منشور 18 سے 35 برس کے افراد کے لیے عسکری تربیت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ ایسے میں جہاں ہر سیاسی جماعت پر عسکری ونگ چلانے کا الزام عاید کیا جاتا ہے، اس نوع کی تربیت کا کسے فائدہ ہوگا؟
منور حسن: عسکری ونگ چلانے والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تو یہ بات کی ہے۔ یعنی چوروں کے لیے تو عسکری ونگ ہے، مگر شرفا کے لیے نہیں، تو اُن کی ٹریننگ ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: کچھ غیرسیاسی باتیں ہوجائیں۔ آج کل کون سی کتاب زیر مطالعہ ہے؟
منور حسن: کچھ نہ کچھ زیرمطالعہ رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مصروفیات کی وجہ سے کتاب چار ماہ میں ختم ہو، یا چھے ماہ میں۔ زیادہ تر سفر میں رہتا ہوں، اِس لیے زیادہ مطالعہ گاڑی ہی میں ہوتا ہے۔
کتابِ زندگی کے چند اوراق
خارزار سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے سید منور حسن نے 5 اگست 1941 کو قرول باغ، دہلی میں آنکھ کھولی۔ والد سید اخلاق حسن شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے۔ والدہ، اصغری بیگم مسلم لیگ کی سرگرم رکن تھیں۔ فسادات شروع ہونے کے بعد اُن کے خاندان نے پرانے قلعے میں پناہ لی۔ ایک ماہ بعد بہ ذریعہ ٹرین کراچی پہنچے۔ جیکب لائنز میں ڈیرا ڈالا۔ پھر لارنس روڈ کا رخ کیا۔ پندرہ کے قریب مکانات تبدیل کیے، بالآخر ناظم آباد میں اپنا مکان بنالیا۔ ایک بہن چار بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ ہجرت کی الم ناک کہانیاں سنتے ہوئے پروان چڑھے۔ گورنمنٹ سیکنڈری اسکول، ناظم آباد سے میٹرک کرنے کے بعد سینٹرل گورنمنٹ کالج ناظم آباد کا رخ کیا۔
60ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ بیڈمنٹن کے بہترین کھلاڑی رہے، کرکٹ بھی خوب کھیلی۔ الغرض خاصے متحرک تھے، جس کے پیش نظر جمعیت نے اُنھیں کالج یونین کے انتخابات میں اپنا نمایندہ نام زد کردیا، لیکن بعد میں ''غیرسنجیدہ'' قرار دیتے ہوئے نام زدگی منسوخ کر دی۔ ردعمل میں اُنھوں نے کالج میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مارشل لا لگنے کے بعد جب طلبا تنظیموں پر پابندی عاید کر دی گئی، این ایس ایف ''اسٹوڈنٹس سرکل'' کے بینر تلے، زیر زمین کام کرنے لگی۔ وہ ''اسٹوڈنٹس سرکل'' کے صدر رہے۔ اسی زمانے میں ان کے خیالات ونظریات تبدیلی کے عمل سے گزرے، جس میں ایک کتاب ''دعوت اسلامی اور اُس کے مطالبات'' کا کلیدی کردار رہا۔ اس کتاب کا متعدد بار مطالعہ کیا۔ بالآخر بائیں بازو سے الگ ہوگئے، اور 60ء میں اسلامی جمعیت طلبا کا حصہ بن گئے۔ 62ء میں مولانا مودودی سے پہلی ملاقات ہوئی۔
اُنھوں نے جامعہ کراچی سے عمرانیات میں ماسٹرز کیا۔ یونیورسٹی کی سطح پر جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے، پھر کراچی کی سطح پر یہ عہدہ سنبھالا۔ جمعیت کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کا بھی حصہ رہے۔ ایوب حکومت کے خلاف ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 64ء میں ملکی سطح پر جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اُسی برس ایک احتجاجی تحریک کے دوران مزار قائد سے گرفتار ہوئے۔ اِس دوران مشرقی پاکستان کے بھی دورے کیے۔ 65ء میں حکومت مخالف سرگرمیوں کی ''پاداش'' میں شہر بدری کا سامنا کرنا پڑا۔ ''اینٹی تاشقند موومنٹ'' میں بھی پیش پیش رہے۔ 67ء تک جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہے۔ اسی زمانے میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز مکمل کیا۔
فوٹو: فائل
63ء میں مولانا مودودی کی خواہش پر کراچی میں قائم ہونے والی اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے بہ طور ''ریسرچ اسسٹنٹ'' وابستہ ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد ''ریسرچ اسکالر'' ہوگئے۔ پھر سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ 67ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ 69ء میں باقاعدہ جماعت کی مجلس شوریٰ کا حصہ بنے۔
73ء میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ''یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ'' تشکیل دیا گیا، جس کے پرچم تلے خاصے سرگرم ہے۔ ''یو ڈی ایف'' 77ء کے انتخابات میں ''پاکستان نیشنل الائنس'' میں تبدیل ہوگیا۔ سید منور حسن ملیر سے کھڑے ہوئے، اور ریکارڈ ووٹوں سے کام یابی حاصل کی، لیکن یہ فتح اسمبلی کے بجائے جیل لے گئی۔ بالآخر ملک میں مارشل لا لگ گیا۔
92-93 میں جماعت اسلامی کے ہم نوا گروپس کی جانب سے ''پاکستان اسلامی فرنٹ'' کے قیام کا خیال پیش کیا گیا، جس کا مقصد جماعت کا منشور تبدیل کیے بغیر، ممبر شپ کے مرحلے کو سہل بنانا تھا۔ اِس ضمن میں منور صاحب کا کردار کلیدی رہا، جس پر چند حلقوں کی جانب سے اُنھیں تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔
تنظیمی عہدوں کی بات کی جائے، تو منور صاحب کراچی کی سطح پر جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری رہے، پھر اُنھوں نے بہ طور سیکریٹری ذمے داریاں نبھائیں۔ اِس کے بعد نائب امیر مقرر ہوئے۔ 88ء میں وہ کراچی کے امیر مقرر ہوئے۔ 92ء میں جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کا منصب سنبھالا۔ 93ء میں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اپریل 2009 میں امیر جماعت اسلامی کا عہدہ سنبھالا۔
74ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ زوجہ، عائشہ منور بھی جماعت کے پلیٹ فورم سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ نو برس جماعت اسلامی کی خواتین ونگ کی سیکریٹری جنرل رہ چکی ہیں۔ اِس وقت وہ خواتین کی پولیٹیکل ونگ کی انچارج ہیں۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی ہے۔ بچوں سے خوش گوار روابط رہے۔ شاعری میں غالب اور اقبال کا کلام ان کے مطالعے میں رہتا ہے۔ نثر میں مولانا مودودی کے مداح ہیں۔ ادبی کُتب بھی مطالعے میں رہیں۔